مبصر کے قلم سے
ادارہ
تبصرہ کے لیے کتاب کے دو نسخے ارسال کرنا ضروری ہے۔ صرف ایک کتاب کی ترسیل پر ادارہ تبصرے سے قاصر ہے۔ تبصرے کے لیے کتابیں صرف مدیر الفاروق یا ناظم شعبہ الفاروق کو بھیجی جائیں (ادارہ)
القول الفرید فی ہلال الصوم والعید
تالیف: حضرت مولانا غلام محمد صادق صاحب
ترتیب واہتمام: مولانا ابو طلحہ عبدالوحید صاحب
صفحات:186 سائز:23x36=16
ناشر: ادارة التعلیم والتحقیق لعلوم القرآن والسنة، پیپر کالونی، چارسدہ، سرحد ایک عرصے سے رؤیت ہلال کمیٹی پاکستان اور صوبہ خیبر پختونخواہ کے بعض اضلاع کے علمائے کرام کے درمیان رمضان اور عید کے چاند کی رؤیت کا مسئلہ شدت اختیار کیے ہوئے ہے اور پاکستان جیسے نسبتاً متوسط رقبے کے ملک میں جہاں عید الفطر ایک دن میں منائی جاسکتی ہے ایک ہی سال میں ایک عرصے سے دو عیدیں منائی جارہی ہیں۔ دارالعلوم چارسدہ کے استاد حدیث اور ممتاز عالم دین حضرت مولانا غلام محمد صادق صاحب دامت برکاتہم العالیہ نے زیر نظر کتاب اسی موضوع پر تالیف فرمائی ہے اور اس میں انہوں نے رؤیت ہلال کے مختلف احکام مثلاً شرائط شہادت اور اختلاف مطالع وغیرہ پر جامع اور سیر حاصل بحث کی ہے ۔ ساتھ ساتھ انہوں نے سرحد کے علماء کے فیصلے کا دفاع اور ان پر بے جا اور نامناسب انداز میں کی جانے والی طعن وتشنیع کا جائزہ بھی لیا ہے اور رؤیت ہلال کمیٹی کی بے احتیاطی ، جلد بازی اور اکابر علما مولانا ظفر احمد عثمانی، مولانا مفتی محمد شفیع، مولانا محمدیوسف بنوری اور مولانا مفتی رشید احمد لدھیانوی کی طرف سے پیش کردہ رؤیت ہلال کے بعض اصولوں کی خلاف ورزی کی طرف توجہ بھی دلوائی ہے ۔ مولانا نے فرمایا ہے کہ رؤیت ہلال کمیٹی اگر ان بزرگوں کی طرف سے پیش کردہ تجویز پر عمل پیرا ہو جائے تو اس نزاع کو ختم کیا جاسکتا ہے اور پاکستان میں ایک ہی دن میں عیدالفطر منائی جاسکتی ہے ۔ یہ تجویز جواہر الفقہ، احسن الفتاوی اور فتاوی بینات میں نقل کی گئی ہے اور ان بزرگوں کے اجتماعی غوروفکر کا نتیجہ ہے، اس کے الفاظ ہیں:
”حکومت ہر بڑے شہر میں ذیلی کمیٹیاں قائم کرے، ان میں سے ہرایک میں کچھ ایسے مستند علماء کو ضرور لیا جائے جو شرعی ضابطہٴ شہادت کا تجربہ رکھتے ہیں اور ہر ذیلی کمیٹی کا کام صرف شہادت مہیا کرنا نہ ہو بلکہ اس کو فیصلہ کرنے کا اختیار دیا جائے۔ یہ ذیلی کمیٹی اگر باقاعدہ شہادتیں لے کر کوئی فیصلہ کر دیتی ہے تو فیصلہ شہادت کی بنیاد پر ہو چکا ، اب صرف اعلان کا کام باقی ہے، اس کے لے شہادت ضروری نہیں بلکہ ذیلی کمیٹی کا کوئی ذمہ دار آدمی مرکزی کمیٹی کو ٹیلی فون پر محتاط طور پر جس میں کسی مداخلت کا خطرہ نہ رہے ذیلی کمیٹی کے اس فیصلہ کی اطلاع دے دے او رمرکزی کمیٹی اس صورت میں اس کو اپنا فیصلہ کہہ کر نہیں بلکہ ذیلی کمیٹی کا فیصلہ بتلا کر اس طرح نشر کرے کہ مرکزی کمیٹی کے سامنے اگر چہ کوئی شہادت نہیں آئی بلکہ فلاں ذیلی کمیٹی نے جس میں فلاں فلاں علما شریک ہیں شہادت کی بنیاد پر فیصلہ کیا ہے، ہم اس فیصلہ پر اعتماد کرکے اعلان کر رہے ہیں، اس صورت میں مرکزی کمیٹی کا یہ اعلان ٹیلی فون سے آئی ہوئی اطلاع پر درست ہو سکتا ہے۔“
ایک اور تجویز مولانا نے اپنی طرف سے بھی پیش کی ہے کہ اگر رؤیت ہلال کے فیصلے کو رؤیت ہلال کمیٹی کے بجائے پاکستانی نظام عدل یعنی سپریم کورٹ اور شریعہ کورٹ وغیرہ کے حوالے کیا جائے تو ملکی سطح پر عید ورمضان کے حوالے سے یکجہتی پیدا کی جاسکتی ہے ۔ چنا ں چہ مولانا لکھتے ہیں :
”ملکی سطح پر وحدت عید ورمضان کے لیے ایک تجویز یہ بھی پیش کی جاسکتی ہے کہ:
اس معاملہ کو ایک بے بس وبے اختیار انتظامی کمیٹی”مرکزی رؤیت ہلال کمیٹی“ کے بجائے ملک کے بااختیار وباوسائل او رمؤثر نظام عدل( سپریم کورٹ، شریعہ کورٹ وغیرہ) کے سپرد کیا جائے، تاکہ یہ مضبوط او رمؤثر ادارے اس سلسلہ میں ایک مربوط نظام کے تحت منظم اور عدالتی اہتمام کے ساتھ اس اہم دینی ذمہ داری سے عہدہ برآہو کرنافذ العمل اور لازم العمل فیصلے کریں۔“
لیکن”بے بسی اور بے اختیاری“ کی جو وجہ مولانا نے رؤیت ہلال کمیٹی کے متعلق بیان فرمائی ہے وہی خامی اور علت پاکستانی نظام عدل میں بھی پائی جاتی ہے اور ماضی کے کئی واقعات اس پر شاہد عدل ہیں کہ ہماری عدالتیں حکمرانوں کے زیر اثر ہیں اور ان کی مرضی کے خلاف نہیں کر سکتیں، اگر رؤیت ہلال کمیٹی واقعی بے بس وبے اختیار ہے جیسا کہ مولانا فرما رہے ہیں اور وہ شرعی حدود کی پاس داری نہیں کرتی بلکہ اس میں دین بے زار حکمران طبقہ دخیل ہوتا ہے اور ان کے اشاروں پر چل کر کمیٹی صحیح فیصلہ نہیں کر پاتی تو پھر اس کے لیے کسی ایسے انتظامی ادارے کی تجویز دینی چاہیے جو مذکورہ خامی سے پاک ہو اور اس اہم معاملے کو اس کے حوالے کیاجاسکے۔
بہرحال جہاں تک کتاب کا تعلق ہے تویہ اپنے موضوع پر ایک عمدہ اور بہترین تصنیف ہے ، مولانا نے نیک جذبے اور اچھے مقصد کے تحت اسے مرتب فرمایا ہے، اس میں مولانا نے مرکزی رؤیت ہلال کمیٹی کے ارکان سے کچھ شکوے بھی کیے ہیں اور بعض جگہ کمیٹی کے متعلق نسبتاً تیز الفاظ بھی استعمال ہو گئے ہیں، کتاب کے مطالعہ سے یہ نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ مذکورہ اضلاع کے علمائے کرام اگر مزید بیداری اور ہمت کا مظاہرہ کریں اور رؤیت ہلال کمیٹی کے ذمہ دار بھی انہیں نظر انداز نہ کریں ،ان کے مقام ومرتبے کا احترام کریں، جن علاقوں سے عموماً پہلے چاند دیکھنے کی اطلاع آتی ہے معاملے کی اہمیت کے پیش نظر وہاں بھی خصوصی کمیٹیاں بٹھائیں اچھے معیار کے حامل بعض نجی ادارے جودوسرے علاقوں کی طرح ان علاقوں میں بھی چاند دیکھنے کا اہتمام کریں تو اس مشکل پر کنٹرول پایا جاسکتا ہے اور اس طرح یہ امید کی جاسکتی ہے کہ اس خالص دینی معاملے میں اختلاف ونزاع کا دروازہ مسدود ہو اور خوشی کے اس موقع کو بخیرو بخوبی انجام دیا جاسکے۔
عمومی زبان کے رواں اور سلیس ہونے کے باوجود کتاب میں افراد وجمع اور تذکیر وتانیث کی غلطیاں کثرت سے پائی جاتی ہیں ،ان کی اصلاح کے لیے کسی صاحب لسان سے تصحیح کرائی جائے تو مفید رہے گا، کتاب کا کاغذ درمیانہ اور ٹائٹل کارڈ کا ہے۔ ملنے کا پتہ ہے: حافظ رشید احمد ممبر سینٹ آف پاکستان، اسلام آباد۔
اولیاء اللہ کی اہانت کا وبال
تالیف: ڈاکٹر محمد اسماعیل میمن مدنی
صفحات:184 سائز:23x36=16
ڈاکٹر محمد اسماعیل میمن مدنی دارالعلوم المدنیہ بفیلو، نیویارک کے مہتمم ہیں اور شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد زکریا کاندھلوی رحمة الله علیہ کے خلیفہ مجاز ہیں، انہوں نے یہ رسالہ علما ، فقہا، محدثین اور اولیا الله کواذیت و تکلیف پہنچانے، ان پر نازیبا جملے کسنے اور ان کی شان میں گستاخی کرنے کے نقصانات کے متعلق لکھا ہے کہ اس طرح کی خطرناک حرکتوں کا مرتکب دنیا و آخرت دونوں میں غضب الہٰی کا ہدف بن سکتا ہے ۔ چناں چہ دیباچے میں کتاب کا تعارف کراتے ہوئے وہ لکھتے ہیں:
” زیر نظر کتاب میں ہم نے اس پہلو پر روشنی ڈالی ہے کہ اہل الله کون لوگ ہیں ، ان سے محبت کتنی ضروری ہے، ان کے ساتھ بد تہذیبانہ رویہ برتنا، ان کی شان میں گستاخی کرنا، جو منھ میں آئے ان کے بارے میں بک دینا کس قدر خطرناک اور نقصان دہ امر ہے جس سے خدانخواستہ ایمان سلب ہو جانے کے علاوہ دنیا وآخرت میں بھی غضب الہٰی اور ذلت ومسکنت کا ہدف بن جانے کا خطرہ ہے۔“
کتاب کا کاغذ عمدہ اور طباعت واشاعت معیاری ہے۔
ٹوپی اور عمامہ کا ثبوت قرآن وحدیث اور آثار صحابہ کی روشی میں
جیسا کہ نام سے ظاہر ہے کہ اس رسالے میں قرآن وحدیث اور آثار صحابہ کی روشنی میں ٹوپی اور پگڑی کا ثبوت، ان کے فضائل واحکام او رفوائد کے متعلق گفتگو کی گئی ہے ۔ یہ رسالہ 34 صفحات پر مشتمل ہے اور اسے جامعہ اسلامیہ فاروقیہ، شاہ کس خیبر ایجنسی کے استاد جناب حافظ فضل مالک صاحب نے مرتب کیا ہے ۔ رساے میں ناشر کا ذکر نہیں ہے، سرورق کے نچلے حصے پر یہ پتہ لکھا گیا ہے : گیلانی منزل نزد چیک پوسٹ باڑہ۔
ہدیة السالک فی بدایة السالک
ناشر: مکتبہ جامعہ اسلامیہ فاروقیہ، نمبرا شاہ کس، خیبر ایجنسی
یہ رسالہ تصوف کے دو معروف سلسلوں طریقہ قادریہ اور طریقہ چشتیہ کے اسباق، اوراد وظائف اور سالکین کی راہ نمائی کے لیے لکھا گیا ہے چھوٹے سائز کے تیس صفحات کا یہ رسالہ جامعہ اسلامیہ فاروقیہ شاہ کس خیبر ایجنسی کے استاد حافظ فضل مالک نے تالیف کیا ہے اور سرورق کے نچلے حصے پر یہ پتہتحریر: گیلانی منزل نزد چیک پوسٹ باڑہ۔
مدینہ منورہ کی عظمت ومحبوبیت
مؤلف: محمد جاوید عثمان میمن
صفحات:104 سائز:23x36=16
ناشر: مکتبہ النور کراچی
حضرت مولانا شاہ محمد فاروق صاحب رحمة الله علیہ کے خلیفہ مجاز جناب محمد جاوید عثمان میمن نے یہ رسالہ مدینہ منورہ کے فضائل وبرکات او ر روضہ اقدس کی زیارت کے احکام کے متعلق لکھا ہے ۔ رسالے پر بعض اکابر کی تقاریظ بھی ہیں، جامعہ بنوری ٹاؤن کے مفتی عبدالقادر صاحب دامت کاتہم العالیہ رسالے کے متعلق لکھتے ہیں:
”مؤلف موصوف نے اپنے رسالے میں روضہٴ اقدس صلی الله علیہ وسلم کی زیارت کی فضیلت او راس کی اہمیت پر روشنی ڈالی ہے اور ساتھ ساتھ ان لوگوں کی غلط فہمیوں کا ازالہ کیا ہے جو زیارت روضہ اقدس صلی الله علیہ وسلم کے غرض سے سفر کرنے کو گناہ سمجھتے ہیں ۔ آخر میں اکابرین علمائے دیوبند رحمہم الله کے واقعات او رسرکار دو عالم صلی الله علیہ وسلم سے ان کی عقیدت اور محبت کی چند نمونے ذکرکرکے اہل بدعت کے ان بے بنیاد الزامات وافتراء ات کا جواب دیا جو اکابرین دیوبند رحمہم الله پر وہ لگاتے ہیں ۔“
سرورق پر گنبد حضراء کی تصویر ہے اور یہ رسالہ کارڈ ٹائٹل کے ساتھ شائع ہو اہے۔
قنوت نازلہ کے احکام ومسائل
ناشر: مکتبہ رشیدیہ، بالمقابل مقدس مسجد، اردو بازار کراچی
اس مجموعہ میں قنوت نازلہ کے احکام ومسائل او راس کی اہمیت وافادیت کے متعلق دورسائل کو اکٹھے شائع کیا گیا ہے، ان میں ایک رسالہ حضرت مولانا مفتی کفایت الله دہلوی رحمة الله علیہ کا مرتب کردہ ہے او راس پر اس وقت کے اکابرین کے تو ثیقی دستخط بھی ہیں جب کہ دوسرا رسالہ مولانا قاری محمد شریف احمد صاحب مدظلہ خطیب جامع مسجد سٹی اسٹیشن نے مرتب فرمایا ہے او راس میں انہوں نے مصائب وشدائد کے وقت کی مسنون دعاؤں کو بھی شامل کر لیا ہے۔ دور حاضر کے حوالے سے ان رسائل کی اہمیت واضح ہے لہٰذا عامة المسلمین او رائمہ مساجد کو ان کا ضرور مطالعہ کرنا چاہیے۔
انگوٹھے چومنے کا مسئلہ دیوبند کی عدالت میں
ناشر: الامین ، مسلم آباد، نیو ایم اے جناح روڈ، کراچی
جیسا کے نام سے ظاہرہے کہ67 صفحات کے اس رسالے میں اذان میں انگوٹھے چومنے سے متعلق جمہور اہل علم اور علمائے دیوبند کے نقطہ نظر کو بیان کیا گیاہے او را س میں اکابر دیوبند میں سے شیخ الحدیث حضرت مولانا سرفراز خان صفدر، مفسر قرآن حضرت مولانا صوفی عبدالحمید سواتی ، اور فقیہ العصر حضرت مولانا محمدیوسف لدھیانوی کی تحقیقات کو ان کی کتابوں سے جمع کیا گیا ہے، یہ رسالہ اپنے موضوع پر معلومات افزاء ہے ،اس کی ابتدا میں اذان کی تاریخ، اہمیت وافادیت سے متعلق جناب تنویر احمد شریفی صاحب کا ایک مضمون بھی شامل کیا گیا ہے۔
اسلام اور نکاح
ناشر: مکتبہ النور، پوسٹ بکس نمبر13012، کراچی
جناب محمد جاوید عثمان میمن صاحب نے اس رسالے میں نکاح کی اہمیت، فضیلت، احکام او راس سے متعلقہ رسومات ورواج کو قرآن وسنت کی روشنی میں بیان کیا ہے۔ یہ رسالہ بڑے سائز کے 41 صفحات پر درمیانے کاغذ میں کارڈ ٹائٹل کے ساتھ چھاپا گیا ہے۔