Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق محرم الحرام 1432ھ

ہ رسالہ

10 - 18
اُخوت اسلامی کے روشن ابواب
مولوی محمد عابد
1.   سارے مسلمان (آپس میں) بھائی بھائی ہیں۔ ( سورة حجرات آیت:10)

2.   مسلمان مسلمان کا بھا ئی ہے۔ (الحدیث)

3.   نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کا گزر صحابہ کرام رضی الله عنہم کی ایک جماعت پر سے ہوا تو آپ صلی الله علیہ وسلم نے دریافت فرمایا”من القوم؟“ تمہاری قوم کیا ہے ؟ تو جواب میں حضرات صحابہ نے فرمایا ”نحن المسلمون“ ہم سب مسلمان ہیں۔ (الحدیث)

مسلمانوں پر ایک دوسرے کی جان ، مال ، عزت آبرو کی حفاظت بلاامتیاز فرض او رمذکور امورہ میں کوتاہی سخت حرام ہے ، اسی قانون کا نام شریعت میں ”اخوت اسلامی“ ہے، جب کہ اس کی ضد” عصبیت“ ہے اور وہ مسلمانوں کا قومی، لسانی، صوبائی یا خاندانی بنیادوں پر باہمی تناظر اور دشمنی کرنا ہے ۔ جس کے بارے میں آں حضرت صلی الله علیہ وسلم کا ارشاد ہے :

جو عصبیت کی طرف بلائے وہ ہم میں سے نہیں ، جو عصبیت پر لڑے وہ ہم میں سے نہیں ، جو عصبیت پر مارا جائے وہ ہم میں سے نہیں ۔ (الحدیث)

اسی طرح یہ بات بھی زمینی حقائق پر مبنی ہے کہ جذبہٴ اخوت ایمان کی سر زمین میں نشوونما پاتی ہے اور عصبیت کفر ونفاق کی سڑاند سے جنم لیتی ہے، اسی وجہ سے اول الذکر صحابہ کرام کے بدن میں خون کی مانندرواں تھا، جس کی ایک جھلک کچھ یوں نظر آتی ہے :

” غزوہ بدر میں مسلمانوں کو فتح ہوئی او رمشرکین مکہ میں سے قیدی بنائے جانے والے افراد کو مدینہ منورہ منتقل کیا گیا اور اب ان کے ہاتھ رسیوں سے باندھے جانے لگے، ان قیدیوں میں سے ایک ابو عزیز بن عمیر بھی تھے، جن کے سگے بھائی حضرت مصعب بن عمیر رضی الله عنہ اسلامی فوج کے علم دار تھے، جب ابو عزیز کے ہاتھ باندھے جانے لگے، تو رسیاں باندھنے والے کو مخاطب کرتے ہوئے حضرت مصعب بن عمیر رضی الله عنہ نے فرمایا ” اس کو اچھی طرح کس کے باندھو، اس سے اچھی رقم وصول ہو گی۔“ یہ بات سن کر ابو عزیز مظلومانہ انداز میں گویا ہوئے، ” آپ سے تو اس کی توقع تھی کہ آپ کوئی کلمہٴ خیر کہتے ، میری سفارش کرتے کہ میرا بھائی ہے ، ذرا خیال کرکے اس کی مشکیں باندھنا، آپ اُلٹا یہ کہتے ہیں کہ ، اسے اچھی طرح باندھا جائے تاکہ فدیے کی رقم زیادہ وصول ہو۔“ جواب میں حضرت مصعب بن عمیر نے فرمایا کہ” تم اس وقت میرے بھائی نہیں ، میرا بھائی وہ ہے جو تمہارے ہاتھ میں رسی باندھ رہا ہے ، اس لیے کہ ایک نئے رشتے نے ہم کو جوڑ دیا ہے ، جو خون کا رشتہ تو نہیں، مگر اس سے بھی زیادہ عظیم اور قابل قدر ہے۔

ان باتوں کو پڑھ کر یقینا ہمارے دل کے کئی بند دریچے کھلے ہو ں گے، مگر یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ جب یہ اوراق ہماری نگاہوں سے اوجھل ہوں گے تو الفت اور اخوت کے یہ جذبات بھی سرد پڑ جائیں گے اور اس بارے میں مزید غور کے بجائے ہم کسی دوسری تحریر کو تلاش کریں گے اور بس اس سے آگے نہ تو ہم کبھی بڑھے اور نہ ہی بڑھنے کا ارادہ کیا۔ یہی وہ المیہ ہے جس کی بنا پر آج ہم تباہی کے دہانے پر پہنچ چکے ہیں ، بلا کسی تمہید اور تسامح کے ہمیں یہ بات تسلیم کرنی پڑتی ہے کہ ہم نے اپنے معاشرے میں اخوت اسلامی کے مبارک رشتے کے لیے کوئی قابل قدر خدمت انجام نہیں دی اور تو اور ہم نے کبھی یہ جاننے کی زحمت بھی گوارہ نہیں کی کہ خونی اور لسانی رشتوں کے بالمقابل مسلمانوں کے باہمی تعلق کی نوعیت کیا ہے ؟ علاقائی سطح پر رہن سہن ، معاملات اور سیاسی امور میں اسلام ہماری کیا راہ نمائی کرتا ہے ؟ ہزاروں قبائل سے منسلک لاکھوں صحابہ کرام نے اجتماعی زندگیاں کیسے گزاریں؟ مہاجرین اورانصار نے آپس میں رشتہ داریاں کس طرح پیدا کیں؟ اگر عمومی طور پر کوئی چپقلش نظر آئی تو اس کا تدارک کیسے کیا گیا ؟ موافات، مواسات اور موالات کا فلسفہ کیا ہے ؟ مہاجرین کے حقوق وفرائض کیا ہیں؟ جب کہ انصار کے درجات وذمے داریاں کون سی ہیں؟ مسلمانوں کے اجتماعی معاملات اور سیاسی امور کے بارے میں قرآن مجید کیا حکم دیتا ہے؟ اگر دو مسلمان گروہ لڑ پڑیں تو دیگر مسلمانوں کو کیا کرنا چاہیے۔

موجودہ دور کے یہ اہم ترین عنوانات اب تک ہماری مکمل توجہ کے طلب گار ہیں اوراس موضوع پر مستقل اور سنجیدہ کام کرنے والوں کی تعداد بہت کم ہے اور شاید یہی وجہ ہے کہ پاکستان پوری دنیا میں لسانی فسادات کا سب سے بڑا گڑھ بن چکا ہے، یہ بات تسلیم کہ قلم کے جس ایوان سے یہ الفاظ نشر ہو رہے ہیں ، اس کے قارئین تو یقینا قوم پرستی کو ایک ناسور سمجھتے او راس کے مضر اثرات سے نالاں ہوں گے، مگر ہمارے جن مسلمان بھائیوں میں یہ وائرس سرایت کر چکا ہے، ان کی اصلاح کرنا، یہ بھی بلامبالغہ ہمارا ہی فرض بنتا ہے۔ خدائے ذوالجلال ہمیں اس کی ادائیگی کرنے والا بنا دے آمین۔

اب رہا یہ سوال کہ یہ اہم فریضہ کیوں کر ادا ہو ؟ عرض ہے کہ کئی پہلواور رخوں پر مشتمل یہ ایک پیچیدہ مسئلہ ہے ، مثلاً لسانیت اور قوم پرستی کاپس منظر اورپیش منظر کیا رہا اورا ندرون اور بیرون کون سے عناصر شریک کار ہیں، اغراض ومقاصد کیا ہیں اور اس کے نتائج ہمارے ملک پر کیا مرتب ہو رہے ہیں؟ یہ سب حقائق یقینا لائق اظہار ہیں ، مگر اس مقام پر تو ان باتوں کا وقت ہے اور نہ ہی موقع ابھی تو ضرورت اس امر کی ہے کہ عوامی اورعلمی سر کاری اور غیر سرکاری ہر سطح پر لوگوں کا شعور بیدار کیا جائے، غلط فہمیوں کا ازالہ ہو، اخوت اسلامی کے مناقب وفضائل کا ہر جگہ تذکرہ ہو اور اس کی نشر واشاعت کے لیے تمام جائز ذرائع ابلاغ کو استعمال کیا جائے۔

ان تمام باتوں کے ساتھ یہ امر بھی قابل توجہ ہے کہ اخوت اسلامی کا عنوان اپنی اہمیت سے بڑھ کر نزاکت کا حامل ہے ، اس لیے انتہائی احتیاط اورو ضعداری سے کام کرنے کی ضرورت ہے ، بہرکیف کام سے متعلق چند قابل عمل تجاویز او راہم امور پیش خدمت ہیں ۔ اگر ان میں سے کوئی شرعی دائرہ کار سے ہٹ کر یامقتضائے زمانہ کے خلاف نظر آئے تو اہل علم وفضل سے اصلاح کی درخواست ہے۔

1.   سب سے پہلے تو ہم اپنے تمام گناہوں سے اجتماعی طور پر توبہ کریں، اپنے ایمان واعمال کی اصلاح کریں اورامت کے لیے رو رو کر دعائیں کریں۔

2.   خانقاہوں، عوامی اور دینی اجتماعات میں علمائے کرام اور واعظین حضرات اخوت اسلامی کا پرچار کریں۔

3.   یک روزہ اور زیادہ مدت کے کورسز ، ورکشاپز اور سیمینارز کا انعقاد کرکے لوگوں کی رہ نمائی کی جائے۔

4.   قرآن وحدیث، حیات الصحابہ اور تصانیف اکابر میں متعلقہ موضوع پر مشتمل مواد کو منظر عام پر لایا جائے او رمختلف کتابیں، کتابچے، رسائل اور پمفلٹس چھپوا کر تقسیم کیے جائیں۔

5.   خطاط اور پینٹرز سے جذبہ اخوت کو بیدار کرنے والی آیات احادیث کندہ کروا کر مساجد ، دفاتر اور گھروں پر لگائی جائیں اورسائن بورڈز، پینا فلیکس مالکان اس لٹریچر کو سڑکوں او رعمارتوں پر آویزاں کریں۔

6.   اسکولوں اور کالجز کے نصاب تعلیم کو بھی اس مبارک نظریے سے روشناس کرایا جائے۔

7.   ضلعی او رعلاقائی سطح پر ایسی کمیٹیاں اور ادارے قائم کیے جائیں، جو مقامی علمائے کرام کے زیر سرپرستی اتحاد بین المسلمین کے داعی اور ہمہ وقت اس کے لیے سر گرم عمل ہوں،نیز ہر طرح کے حالات میں جانبین کے درمیان صلح کے لیے تیار رہیں ، تاکہ ہنگامی صورت حال میں تباہی اور نقصانات کو کم سے کم کیا جاسکے۔

Flag Counter