مایوسی کے گرداب سے نکالیے
مولانا عبید اللہ خالد
یوں تو زندگی مسائل ہی کا مرکب ہے اور اس دُنیا میں ان مسائل کو حل تو کیا جاسکتا ہے فرار حاصل نہیں کیا جاسکتا۔ ان مسائل کی نوعیت مختلف انداز کی ہوتی ہے ، تاہم سماجی اور معاشی مسائل نے موجودہ دور میں جس طرح لوگوں کو جکڑرکھا ہے اس وجہ سے ان میں غصہ، کرب، عدم تحفظ اور بالخصوص مایوسی جیسے جذبات پیدا ہو رہے ہیں ۔ دوسری جانب ہمارا میڈیا ہے جو لوگوں کو اس سے کہیں زیادہ آلودہ کر رہا ہے اورمنفی جذبات کو ہوا دینے میں پیش پیش ہے۔
جس طرح الله تعالیٰ نے ہر مرض کی دوا پیدا فرمائی ہے اسی طرح مسائل کا حل بھی اس دُنیا میں موجود ہے لیکن زندگی کا ڈھانچا کچھ اس طرح تشکیل پا گیا ہے یا تشکیل دیا گیا ہے کہ لوگوں کو صرف مسائل نظر آتے ہیں، حل کی طرف کسی کی توجہ نہیں جاتی۔
یہ بات یقینا درست ہے کہ ان مسائل کا سب سے بڑا سبب یہ ہے کہ ہم نے اسلامی نظام اور اسلامی تعلیمات کو چھوڑ دیا ہے۔ لیکن سوال یہ بھی ہے کہ کیا ہم نے کبھی اسلامی تعلیمات کو اس رخ سے خود دیکھنے اور عوام کو دکھانے کی کوشش کی ہے؟
انسان فطرتاً اس جانب متوجہ ہوتا ہے جس جانب اسے اپنا فائدہ ملنے کی توقع ہو جہاں اس کے اپنے مسائل کا حل دستیاب ہو ۔ پورا معاشی ڈھانچا خواہ کسی بھی ملک میں ہو اسی بنیادی نکتے پر قائم ودائم ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ پھر اسی بنیاد پر لوگوں کو دھوکا دیا جاتا ہے اور ان سے جھوٹ بولا جاتا ہے۔
اس وقت اصل ضرورت عوام میں کام کرنے کی ہے کہ انہیں ان کے مسائل کا حل بتایا جائے مگر اسلام کی روشنی میں۔ اس وقت اصل ضرورت لوگوں کی مشکلات دور کرنے کی ہے ، مگر اسلامی تعلیمات کی بنیاد پر۔ اس وقت اصل ضرورت موجودہ معاشی اور سماجی ڈھانچے سے پیدا ہونے والے مسائل اور پھر ان مسائل کے نیتجے میں پیدا ہونے والے غصے، کرب ، عدم تحفظ اور مایوسی کو ختم کرنے کی ہے، لیکن اسلام کی معاشی اور سماجی تعلیمات کی روشنی میں۔
امیر وغریب، جوان اور بوڑھے، مردوزن… سبھی دن رات پیدا ہونے والے گھمبیر سماجی اور معاشی مسائل میں جکڑے ہوئے ہیں بعض لوگ اپنی غیر معمولی صلاحیت سے ان مسائل کا مقابلہ کرنے کی کوشش تو ضرور کرتے ہیں، مگر حسب منشأ نتائج حاصل نہیں ہوتے۔
اس وقت پاکستانی معاشرے میں شدید ترین مایوسی کی فضا قائم ہے۔ یقینا ہر شخص خود کشی نہیں کرتا تاہم اکثریت ایسے لوگوں کی ہے جو ا ن مسائل کی وجہ سے شدید ذہنی ونفساتی پیچیدگیوں میں مبتلا ہو چکے ہیں، کسی قوم کے لیے یہ کیفیت انتہائی خطرناک ہوتی ہے کہ ان کا ایک بڑا طبقہ سوچنے سمجھنے اوربہتر عمل کرنے کے قابل نہ رہے بلکہ مایوسی کے گرداب میں پھنسا ہوا ہو۔
ایسی صورت میں شدید ضرورت ہے کہ دین دار طبقہ اور بالخصوص علمائے کرام اپنے اردگرد موجود لوگوں کو مایوسی کے اس گرداب سے نکالنے کی تدابیر کریں اور اس گرداب سے نکالنے کی ایک موثر تدبیر یہ ہے کہ لوگوں کو ان کے سماجی اور معاشی مسائل کے حل کی طرف شریعت مطہرہ کی روشنی میں رہ نمائی کی جائے تاکہ ان میں غصے کی جگہ اطمینان اور مایوسی کی جگہ امید پیدا ہو۔