Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق کراچی رمضان المبارک 1431ھ

ہ رسالہ

4 - 17
***
مال کی مذمت، مدح او رقناعت وسخاوت
امام ابن جوزی 

معلوم ہونا چاہیے کہ مال بذات خود برا نہیں ، بلکہ مناسب یا نامناسب استعمال سے اچھا یا بُرا ہو جاتا ہے اور یہ یا تو انتہائی لالچ ہے، یا حرام طریقے سے حاصل کرنا ، یا اس کو حق میں خرچ نہ کرنا، یا اس کو ناحق خرچ کرنا یا اس پر فخر کرنا وغیرہ۔ اسی لیے الله تعالیٰ نے فرمایا ہے : ﴿انما اموالکم واولادکم فتنة﴾․ ( تمہارے مال اور تمہاری اولاد ایک آزمائش ہیں)۔
سنن ترمذی میں نبی صلی الله علیہ وسلم سے مروی ہے کہ آپ نے فرمایا: ” اتنا دوبھو کے بھیڑیے بکریوں کے گلے میں نقصان نہیں کرتے جتنا کہ مرتبے او رمال کی محبت انسان کے دین کو برباد کرتی ہے۔“
سلف صالح مال کے فتنے سے ڈرا کرتے تھے۔ حضرت عمر رضی الله عنہ جب فتوحات دیکھتے تو روتے اور کہتے کہ الله تعالیٰ نے نبی صلی الله علیہ وسلم اور ابوبکر سے ان کو روک کر اُن سے برائی کا ارادہ نہ کیا اور نہ عمر سے بھلائی کا ارادہ کرکے اس کو دے دیں۔
یحییٰ بن معاذ نے کہا:” روپیہ پیسہ بچھو ہے ، اگر تم اس کا منتر اچھی طرح نہیں جانتے ، تو اس کو ہاتھ مت لگاؤ کہ اگر تم کو ڈس لے تو اس کا زہر تم کو مار ڈالے گا۔“ پوچھا گیا۔ اس کا منتر کیا ہے ؟ توفرمایا:” اس کو حلال طریقے سے حاصل کرنا اور جائز جگہ میں خرچ کرنا۔“ او رکہا:
”موت کے وقت مال میں بندے پر دو مصیبتیں ہوتی ہیں کہ ان جیسی مصیبت کسی نے کبھی نہیں سنی“ پوچھا گیا۔ وہ کیا ہیں ؟ تو کہا:” اس سے مال سارا لے لیا جاتا ہے او رحساب سارے مال کا دینا پڑتا ہے۔“
مال بذات خود بُرا نہیں ہے ، بلکہ مدح کے لائق ہے، کیوں کہ وہ دین ودنیا کے مصالح کی طرف پہنچنے کا ذریعہ ہے۔ اور الله تعالیٰ نے اس کا نام خیر رکھا ہے ۔ سورة نساء کی ابتداء میں فرمایا:﴿ ولا تؤتوا السفھاء اموالکم التی جعل الله لکم قیاماً﴾ ( اور بیوقوفوں کو اپنا وہ مال نہ دوجن کو الله نے تمہارے قائم رہنے کا سبب بنایا ہے۔
حضرت سعید بن مسیب نے کہا: ” جو حلال طریقے سے مال جمع نہیں کرتا اس میں کوئی بھلائی نہیں کہ اس سے اپنی عزت کو بچائے اور صلہ رحمی کرے اور اس سے حق داروں کا حق ادا کرے۔“
حضرت ابو اسحاق سبیعی نے کہا:” سلف مال کی فراخی کو دین کا معاون سمجھتے تھے۔“
حضرت سفیان ثوری نے کہا:” ہمارے اس زمانے میں مال مومن کا ہتھیار ہے۔“
بحث کا حاصل یہ ہے کہ مال سانپ کی طرح ہے۔ اس میں زہر بھی ہے او رتریاق بھی۔ اس کا تریاق اس کے فائدے ہیں او راس کی تباہ کاریاں اس کا زہر ہے، تو جس نے اس کے فائدے اور ہلاکت کو جان لیا، ممکن ہے وہ اس کی برائی سے بچا رہے او راس کی بھلائی حاصل کرے۔
اس کے فائدے دینی اور دنیاوی دو طرح کے ہیں : دنیوی فوائد تو لوگوں کو معلوم ہیں او راسی لیے اس کی طلب میں ایک دوسرے پر سبقت لے جانا چاہتے ہیں۔
دنیوی فوائد تین طرح کے ہیں: ایک یہ کہ اس کو اپنے نفس پر خرچ کرے یا عبادت میں ۔ جیسے حج او رجہاد یا عبادت میں مدد لینے کے لیے۔ جیسے کھانا پینا او رمکان وغیرہ ۔ اگر یہ ضرورتیں میسر نہ ہوں گی تو دل دین اور عبادت کے لیے فارغ نہ ہو گا تو دین پر مدد حاصل کرنے کے لیے بقدر ضرورت دنیا کو حاصل کرنا دینی فوائد سے ہے اور اس میں ضرورت سے زیادہ لینا داخل نہیں۔
دوسری قسم وہ ہے جو لوگوں پر خرچ کرے اور اس کی چار قسمیں ہیں: پہلی صدقہ ہے اور اس کے فضائل بے شمار اور مشہور ہیں۔ دوسری مروت ہے یعنی وہ مال جو دولت مندوں اور اشراف پر ضیافت اور ہدیہ اور تعاون وغیرہ کے لیے خرچ کیا جاتا ہے اور یہ بھی دینی فوائد میں سے ہے ۔ کیوں کہ اس سے انسان بھائی اور دوست بنا سکتا ہے۔ تیسری یہ ہے کہ آدمی مال خرچ کرکے اپنی عزت محفوظ کرے۔ مثلاً شاعروں کے ہجو اور بے وقوفوں کی غیبت اور ان کی زبان بندی اور ان کی برائی کو روکنے کے لیے خرچ کرے اور یہ بھی دینی فوائد میں سے ہے، کیوں کہ کہ نبی صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا ہے ” جو مال آدمی اپنی عزت بچانے کے لیے خرچ کرے وہ صدقہ ہے ۔“ چوتھی یہ ہے کہ اپنا کوئی کام کرانے کے بدلے تنخواہ یا مزدور کو ادا کرے۔ آدمی اپنے سارے کام خود ہی انجام دے گا تو اس کا وقت ضائع ہو گا اور ذکر وفکر کے ذریعہ سے جو کہ سالک کے مقامات میں سے ہیں محروم ہو جائے گا تو ہر وہ کام جو دوسرا کرسکتا ہو اوراس سے مقصد حاصل ہو سکتاہو ، اس میں خود مشغول ہونا سرا سر نقصان ہے ۔
تیسری قسم وہ ہے کہ مال کسی معین کام میں تو خرچ نہیں ہوتا، لیکن اس سے بہت سی بھلائی حاصل ہوتی ہے ۔ جیسے مسجد اور پل کی تعمیر اور ایسے ہی دیگر کام۔ یہ سب مال کے دینی فائدے ہیں ۔ ان کے علاوہ کچھ اور فوائد بھی ہیں ۔ مثلاً سوال کی ذلت اور غربت کی حقارت سے بچنا۔ لوگوں میں معزز ہونا اور دلوں میں احترام اور وقار حاصل کرنا وغیرہ۔
اب رہیں مال کی آفتیں اور تباہیاں، تو یہ بھی دو قسم کی ہیں ، یعنی دینی بھی اور دنیاوی بھی ۔ ان میں سے دینی تین ہیں : پہلی یہ کہ مال عموماً گناہ کی طرف لے جاتا ہے کیوں کہ مال دل میں طاقت اور تحفظ کا احساس پیدا کرتا ہے اور یہ احساس گناہ کی طرف تحریک کرتا ہے۔ اگر انسان پریشان حال ہو تو گناہ کا خیال بھی نہیں آتا۔
اور بچاؤ کی ایک صورت یہ ہے کہ مال نہ ہو ۔ کیوں کہ صاحبِ قدرت کے دل میں کوئی خواہش پیدا ہو گی تو اسے پورا کرکے ہلاک ہو گا اوراگر صبر کرے گا تو اسے صبر کی سختی کی تکلیف برداشت کرنا پڑے گی ۔ گو یا دولت کا فتنہ تنگ دستی کے فتنے سے بڑا ہے۔
دوسری یہ کہ مال مباح چیزوں سے تعیش کی تحریک کرتا ہے ، یہاں تک کہ اس کی عادت ثانیہ بن جاتی ہے ۔ پھر وہ اس سے صبر نہیں کرسکتا۔ اس کے علاوہ یہ اہتمام بھی نہیں رکھ سکتاکہ جومال حاصل ہوتا ہے وہ ہر قسم کے شبہات سے پاک ہو ۔ پھر وہ مداہنت اور نفاق کی آفتوں میں ترقی کرتا ہے، کیوں کہ جس کے پاس مال زیادہ ہو گا اس کا لوگوں سے میل جول بھی زیادہ ہو گا او رجب اُن سے ملے گا تو نفاق اور عداوت اور حسد وغیبت سے محفوظ نہ رہے گا اور یہ سب مال کی مضرتیں ہیں۔
تیسری یہ ہے کہ جس سے کوئی بھی نہیں بچ سکتا اور وہ یہ ہے کہ مال اسے الله کی یاد سے غافل کرے گا اور یہ بہت مہلک بیماری ہے ،کیوں کہ عبادت کی بنیاد الله تعالیٰ کا ذکر او راس کے جلال وعظمت میں غوروفکر ہے اور یہ فارغ دل کا تقاضا کرتا ہے ۔ زمین دار آدمی دن رات کا شت کاروں کے جھگڑوں اور ان کے محاسبے میں متفکر رہے گا۔ پانی اور حدود کے جھگڑے نمٹائے گا۔ حکومت کے کارندوں سے خراج او رمزدوروں سے زمین کی آبادی میں کوتاہی کے متعلق پوچھ گچھ کرے گا۔
اسی طرح تاجر آدمی دن رات اپنے شرکاء کی خیانت، کام میں کوتاہی اور مال ضائع کرنے کے متعلق غور کرے گا، غرض اس طرح مال کی تمام قسموں والے، یہاں تک کہجس کے پاس روپیہ جمع اور محفوظ ہے، وہ بھی اس کی حفاظت اور ضائع ہونے کے خوف پر غور کرے گا۔ لیکن جس کے پاس روز کے روز کھانا آئے گا۔ وہ ان سب چیزوں سے محفوظ رہے گا اور یہ سب مصیبتیں ان کے سوا ہیں جو دولت مندوں کو دنیا میں پیش آتی ہیں ، خوف، غم، پریشانی اور مشقت وغیرہ۔
حب مال کا تریاق یہ ہے کہ اس سے روٹی کھاؤ او رباقی نیک کاموں میں خرچ کردو۔ اس کے سوا جوکچھ بھی ہے وہ زہر اور آفت ہے۔
حرص وطمع کی مذمت اور قناعت کی مدح
معلوم ہونا چاہیے کہ فقر ( تنگ دستی) اچھی چیز ہے، لیکن فقیر کوچاہیے کہ قناعت کرے، مخلوق سے طمع نہ رکھے۔ جو اُن کے پاس ہے اُس پر توجہ کرے اور جس طرح بھی ہو مال کے کمانے پر حریص نہ ہو اور یہ اس وقت تک ممکن نہیں جب تک کہ وہ بقدر ضرورت کھانے اور لباس پر قناعت نہ کرے۔
صحیح مسلم میں حضرت عمر وبن عاص رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: ” وہ نجات پا گیا جو مسلمان ہوا اور اسے بقدر کفایت روزی ملی اور الله نے اسے اپنے دیے پر قناعت عطا فرمائی۔“
حضرت سلیمان بن داؤد علیہما السلام نے کہا:” ہم نے ہر طرح کی زندگی کا تجربہ کیا ہے ، نرم کا بھی اور سخت کا بھی ، تو ہم نے دیکھا کہ ادنیٰ چیز سے کفایت ہو سکتی ہے۔“
حدیث میں حضرت جابر رضی الله عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:” قناعت ایسا مال ہے جوکبھی ختم نہیں ہوتا۔“
حضرت ابو حازم نے کہا: ” جس آدمی میں تین چیزیں ہوں اس کی عقل کامل ہے (1)اپنے نفس کو پہچان لے۔ (2)اپنی زبان کو محفوظ رکھے اور (3)الله کے دیے پر قناعت کرے۔“
بعض حکماء نے کہا:”جب تک تم قناعت کروگے معزز رہو گے۔“
نبی صلی الله علیہ وسلم نے حرص و حوص سے منع کیا اور فرمایا:” اے لوگو! اچھی روزی تلاش کرو، کیوں کہ آدمی کو وہی ملے گا جو اس کے لیے لکھا گیا ہے۔،، طمع سے منع فرمایا اور کہا: ” لوگوں کے پاس جو کچھ ہے اس سے پوری طرح مایوس ہو جاؤ۔“
بعض سلف نے کہا:”اگر طمع کرنے والے سے پوچھا جائے تیرا باپ کون ہے؟ تو کہے گا خدا کی تقسیم میں شک اور اگر اس سے پوچھا جائے تیرا پیشہ کیا ہے ؟ تو کہے گا ذلت حاصل کرنا اور اُس سے کہا جائے تیری انتہا کیا ہے ؟ تو کہے گا محرومی“ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ طمع امیر کو ذلیل کرتی ہے اور لوگوں سے بے پروا ہونا فقیر کو معزز کر دیتا ہے۔

Flag Counter