Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق کراچی رمضان المبارک 1431ھ

ہ رسالہ

14 - 17
***
ہماری نوجواں نسل!
محترم اشفاق احمد نوشہروی

اللہ رب العزت نے بنی آدم کو وجود بخشا، اس کائنات میں بنی نوع انساں کو بسایا، اس کو آباد کیا اور اس کے اندر دو قسم کے مادے ودیعت فرمائے، جس میں سے ایک کا تعلق تو جسمِ ظاہری کے ساتھ ہے، جب کہ دوسرے کا تعلق جسم باطنی ( جسے ”روح“ سے تعبیر کیا جاتا ہے ) کے ساتھ ہے ، پہلا مادّہ شیطانی مادہ ہے، جب کہ دوسرا مادہ روحانی اور ملکی مادہ کہلاتا ہے ، انسان کے ان دو مرکب اجزاء میں جس مرکب کو جتنی زیادہ قوت اور توانائی ملتی اتنا ہی اس کا اثر انسان کے جسم پر ظاہر ہوتا ہے، چناں چہ ہم دیکھتے ہیں جس کا کھانا پینا اچھا ہو ، اُس کو اچھا اور خوش گوار ماحول میسر ہو، ایسا انسان موٹا تازہ ہوتا ہے۔ او راگر ظاہری جسم کو قوت وتوانائی کم مقدار میں مہیا ہو تو جسم لاغر اور کمزور بن جاتا ہے ،جس کا مشاہدہ میں اور آپ آسانی سے کر سکتے ہیں۔ اگر قوت وتوانائی وافر مقدار میں مہیا ہوتی ہے تو بھی آسانی کے ساتھ اس کو محسوس کیا جاسکتا ہے۔ اسی طرح اگر باطنی جسم (روح) کو اس کی باطنی غذا کم مقدار میں ملتی ہے تو یہ مغلوب ہو کر شیطانی قوت کے شکنجے میں پھنس جاتا ہے اور جو کچھ پھر یہ شیطانی قوت انسان سے کرانا چاہے کرالیتی ہے اور اس کے برعکس اگر یہ باطنی غذا انسان ( کی روح) کو وافر مقدار مل جائے تو پھر یہ انسان بعض اوقات فرشتوں سے بھی آگے بڑھ جاتا ہے اور دارین کی سعادتوں سے مالا مال ہو جاتا ہے اور جس طرح ہم اول الذکر مادے کے اچھے یا بُرے اثرات کو جسم کے اوپر آسانی سے معلوم کر لیتے ہیں او راس کی فکر بھی بڑی اہتمام کے ساتھ کرتے ہیں، بالکل اسی طرح ثانی الذکر مادے کے اثرات، چاہے مثبت انداز میں ہو یا منفی انداز میں، کو ہر آدمی نہیں جان سکتا ، یہاں تک کہ خود یہ انسان بھی اپنی اس باطنی حالت سے بسا اوقات غافل رہتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ ہم اس کی ہر گز فکر نہیں کرتے او راس کی طرف کبھی ہماری توجہ بھی نہیں جاتی اور اس کے ہمارے معاشرے پر جو برُے اثرات ہمارے سامنے ہیں کسی سے مخفی نہیں ۔ ہاں! یہ الگ بات ہے کہ معاشرے کے خیر خواہ لوگ اس کو دفع کرنے کے لیے فکر مند رہتے ہیں اور ہر ممکنہ کوشش سے دریغ نہیں کرتے ، لیکن وہ حضرات اس میں کہاں تک کامیاب ہوتے ہیں اس کا فیصلہ آپ دیکھ کر ہی کر سکتے ہیں۔
پھر جب الله رب العزت نے اس انسان میں مختلف قسم کی خواہشات رکھی ہیں تو ایسا نہیں کہ ان خواہشات کو پورا کرنے کے لیے اور ان کو صرف کرنے کے لیے خالق کائنات نے کوئی بندوبست نہ کیا ہو ! بلکہ بندوبست کیا ہے اور خوب کیا ہے ۔ الله رب العزت نے اس کے واسطے بہت سارے اسباب پیدا فرمائے ہیں، چناں چہ اسلام نے نکاح جیسا مبارک عمل مسلمانوں کو دیا ہے، جس سے دو خاندانوں میں باہم جوڑ اور محبت پیدا ہوتی ہے، جس کو غض بصر اور حصن فرج کا ایک بہترین ذریعہ اور سبب کہا گیا ہے ، حدیث پاک میں ہے آں حضرت صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:”من استطاع منکم البائة فلیتزوج فإنہ أغض للبصر وأحصن للفرج“․ (مشکوة المصابیح، باب النکاح)
” تم میں سے جو (نکاح پر) قدرت رکھتا ہے تو وہ نکاح کر لے اس لیے کہ یہ نظر کو نیچی رکھتا ہے اور شرم گاہ کو محفوظ رکھتا ہے۔
بچوں کے بالغ ہو جانے کے بعد اُن کے رشتے کی فکر نہ کرنا اور اس میں ٹال مٹول سے کام لینا او راسلام کے واضح احکام سے ہٹ کر اپنی پسند کی شرائط لگانا جس کا پورا کرنا بسا اوقات جانبین کے بس میں نہیں ہوتا، اس کا معاشرے پر شدیدوبراثر پڑتا ہے۔
ہر چیز کے لیے الله رب العزت نے ایک میعاد اور وقت مقرر فرمایا ہے ، پھل پکنے کا ایک وقت مقرر ہے۔ اگر اس کو بروقت درخت سے اتار کر محفوظ نہ کیا جائے تو بہت جلد اُس میں کیڑے لگ کر درخت سے گر پڑے گا اور خراب ہو جائے گا۔ اسی طرح پانچ وقت کی نماز ، حج، روزہ، زکوٰة ہر ایک کا ایک وقت مقرر ہے، اگر بروقت اسے نہ ادا کیا جائے گا تو وہ مزاجو بروقت ادا کرنے میں تھا پھر باقی نہیں رہتا، اگرچہ بعد میں قضا کر لیا جائے ، بالکل اسی طرح الله تعالیٰ نے انسان کے بالغ ہونے کا وقت بتا دیا ہے ۔ اگر اُسی وقت اس میں الله تعالیٰ کی دی ہوئی قوت کی حفاظت نہ کی جائے تو بعید نہیں کہ وہ قوت جو الله رب العزت نے اس انسان میں اس کی خیر خواہی کے لیے ودیعت فرمائی تھی، فاسد ہو جائے اور اپنے ساتھ دوسروں کو بھی داغ دار بنائے۔
آج کے اس دور کا یہ المیہ میں تو سمجھتا ہوں کہ شاید ہی کسی صاحب عقل ودانش پر مخفی ہو ، البتہ اس المیے سے امت کو نجات دینے کے لیے اجتماعی طور پر یا حکومتی سطح پر کیا ہو رہا ہے ، یا کیا طرز عمل اختیار کیا جارہا ہے، یہ تو آپ جانتے ہوں گے کہ ہماری حکومت ایسی ہے کہ ان کے پاس اس طرح کے فلاحی کاموں کے لیے وقت ہو یا فکر ہو ، لیکن ہم میں سے ہر ایک آدمی اپنے اوپر جتنا اختیار رکھتا ہے کوئی اور اتنا نہیں رکھتا اور ہر بڑے کو اپنے گھر کے افراد پر جو اختیارات حاصل ہو سکتے ہیں کسی دانش ور یا عالم اورامام مسجد ودیگر دینی راہنماؤں کو کہا ں حاصل ہو تے ہیں؟ لہٰذا ہر شخص پر جتنا کہ اپنی اصلاح ضروری ہے ، اُتنی دوسرے کی نہیں او رجتنا کہ اپنے گھر کے افراد اور خاندان کی اصلاح لازمی ہے اتنا دوسرے گھرانوں اور خاندانوں کی نہیں۔
یہ چند بے ربط جملے ہیں، جو سپرد قرطاس ہیں، اصل تو اس موضوع پر اصحاب قلم ہی لکھ سکتے ہیں اور ذمہ داری بھی انہیں کی بنتی ہے ، باقی میری طرح کا ایک طالب علم تو بس یہی بے ربط وبے جوڑ جملے لکھ سکتا ہے، اصل مقصد اصحاب قرطاس کو بیداری کی ایک مخلصانہ او رمودبانہ دعوت دینا ہے۔

Flag Counter