Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق کراچی رمضان المبارک 1431ھ

ہ رسالہ

15 - 17
***
فارغ التحصیل علما کے لیے لائحہ عمل!
محترم یرید احمد نعمانی

شیخ سعید حلبی جامع اموی میں بیٹھے درس دے رہے تھے۔پاؤں میں تکلیف تھی۔جس کی بناء پر پاؤں پھیلائے ہوئے تھے۔اسی اثناء میں شام کا گورنر آیا ،جس کی سفاکی اور خون ریزی کا یہ عالم تھاکہ معمولی معمولی بات پر گردن اڑادیا کرتاتھا۔وہ کچھ دیر حلقہ درس کے پاس کھڑا دیکھتااور سنتارہا۔شیخ بے نیازی اور استغناکی شان لیے اپنے کام میں مصروفِ عمل تھے۔یہ صورت حال دیکھ کر طلبانے کپڑے سمیٹ لیے کہ کہیں اسی مجلس میں ہمارے شیخ کی گردن نہ ماردی جائے اور خون کے چھینٹے ہمارے کپڑوں کو داغ دار کرجائیں۔ خلافِ عادت ومزاج گورنرنے واپسی کی راہ لی۔اشرفیوں کا توڑا شیخ کی خدمت میں قبولیت کی درخواست کے ساتھ روانہ کیا۔جواباًشیخ حلبی نے پیامبر کے ہاتھ وہ پیغام روانہ کیا جولوح قلب پر نقش کیے جانے کے قابل ہے۔فرمایا:”سلم علی مولاک وقل لہ من یمد رجلہ لا یمدیدہ“اپنے آقا کو میراسلام کہنا اور اس سے کہنا کہ جو شخص اپنی ٹانگ دراز کرتاہے وہ کبھی اپنا دستِ سوال لوگوں کے سامنے نہیں پھیلاتا۔
لائق صد تبریک وتہنیت ہیں وہ پر عزم،پر حوصلہ اور پر ہمت علما کرام جو دقیانوسیت ،فرسودگی اور رجعت پسندی کے طعنوں کی فضا میں روکھی سوکھی کھاکر ،موٹاجھوٹا پہن کر اور دنیاوی خوشحالی کے تمام وسائل تج کرکے وراثتِ نبوت کی دستار اپنے سروں پر سجاچکے ہیں اوراب اس نسبت کے وارث اور امین بن چکے ہیں جو ہمارے اکابرواسلاف کا طرہٴ امتیاز اور سرمایہ افتخار ہے جو بعد میں آنے والوں کے لیے نشانِ منزل کا کام دیتی ہے،جو اپنے جانشینوں اور وارثوں کو کلمہٴ حق کی سربلندی کا درس دیتی ہے،جو احقاق ِحق اور ابطالِ باطل کے داعیوں کو مخلوق سے” کمالِ استغنا “کے وصف سے متصف کرتی ہے۔
گلوبلائزیشن کے اس” ترقی یافتہ اورمہذب “دورکی فتنہ سازیاں اور حشر سامانیاں اپنے نکتہٴ عروج پر ہیں۔دین محمدی علی صاحبھاالصلوة والسلام کے گلستان کی آبیاری کرنے والوں کی ذمہ داری اور احساس ذمہ داری پہلے سے کہیں سوِاہے۔خدامِ دین وملت کے لیے خدمتِ دین کے ہمہ جہت پہلوں سے واقفیت ،محبت اور تعلق ناگزیر ہے ۔پھر طبعیت کے میلان ورجحان اور اساتذہ کے مشوروں ودعاؤں کے ساتھ کسی ایک میدان کا انتخاب جولانی طبع کے لیے نہ صرف مفید اور سود مند ہے۔ جبکہ میدان ِعمل کے چناؤ میں عدم اطمینان ،انتشارفکروسوچ اور ذہنی تذبذب آپ کی علمی و عملی ،روحانی ومادی اور ظاہری وباطنی قوتوں کے لیے سمِ قاتل ہے ،جس کا نتیجہ سوائے ضیا ع وِقت کے کچھ نہیں۔
بحیثیت عالم ِدین،مبلغِ دین اور داعی دین لازم ہے کہ آپ عصر حاضر کے نباض ہوں۔اسلام کو درپیش مختلف قسم کے ارتدادی ،الحادی اور نظریاتی چیلنجز اور تحدیات سے مکمل طور پر آگاہ وباخبرہوں ۔فتنہ گروں کی یہ فتنہ سامانیاں ہمارے لیے اچھنبے کی چیز نہیں۔احادیث کی کتابوں میں” کتاب الفتن“کے عنوان کے تحت ارشادات نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک جامع ذخیرہ موجود ہے،جس میں جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے قیامت تک نمودار ہونے والے چھوٹے بڑے فتنے کے متعلق امت کو خبردار فرمادیاہے۔صرف آگاہی ہی نہیں دی بلکہ ان کے مقابلے کا طریقہ اور علاج بھی تجویز فرمادیا۔ضرورت اس امر کی ہے کہ امت کے سامنے ”کلام نبوی “ کے اس حصے کو کھول کھول کر بیان کیا جائے۔شہید اسلام حضرت مولانا یوسف لدھیانوی رحمہ اللہ کی کتاب”عصرِحاضر حدیث نبوی صلی الله علیہ وسلم کے آئینہ میں“اس موضوع پر مختصر اور جامع حیثیت رکھتی ہے۔
یہ امر کسی صاحبِ بصیرت پر مخفی نہیں ہے کہ قیام پاکستان کی جدوجہد میں علماء حق کا کردار ناقابل فراموش باب کی حیثیت رکھتا ہے۔جنہوں نے گذشتہ چھ عشروں کے دوران وطن کی نظریاتی سرحدوں کی حفاظت کا فریضہ بحسن وخوبی سرانجام دیاہے اورتاحال دے رہے ہیں۔وطن عزیز میں علما اور دینی مدارس کا وجود اکابر کی نظر میں کیا حیثیت رکھتاہے؟اس کا اندازہ حضرت مولانا خواجہ خان محمد رحمہ اللہ کے اس مکتوب گرامی سے خوب عیاں ہے ،جو حضرت مولانا سمیع الحق زیدمجدہم کے نام تحریر فرمایاتھا۔حضرت لکھتے ہیں:”یہ بات اپنے پرائے سب کے سامنے روشن ہے کہ پاکستان کا اہلِ علم طبقہ اس وقت کفر کی یلغار کے سامنے واحد رکاوٹ ہے۔بیرونی دنیا میں عالمی طور پر یہ باور کرلیا گیا ہے کہ پاکستانی علما حضرات اور دینی ادارے وہ آخری دیوار ہیں جنہوں نے رہے سہے دین کے گرد حفاظتی حصار کھینچ رکھاہے۔“اکا بر کی آراء کی روشنی میں نظریہٴ پاکستان کی اہمیت وحساسیت اور اس کا تحفظ فضلاء کرام پر عائد ہونے والی قومی،ملی اور اجتماعی ذمہ داریوں میں سے ایک ہے۔
ساتھ ساتھ اخلاص ،جذبہ قربانی اور جوہر ذاتی علم وعمل کی حفاظت اور ترقی کے لیے وہ عناصر ثلاثہ ہیں ،جن کے بارے میں مفکر اسلام حضر ت علی میاں رحمہ اللہ فرماتے ہیں :”اگر آپ نے ان تینوں چیزوں کو حاصل کرلیا ہے تو آپ کے لیے زمانہ بالکل نہیں بدلا ہے ۔ہر وقت آ پ کے لیے چشم براہ ہے ،لیکن اگر کوئی ان صفات سے خالی ہے تووہ جہاں بھی جائے گا حالات کو بدلا ہوا اور اپنے مخالف پائے گا۔زمانے کا شکوہ دراصل اپنی کمزوری کو چھپانے کی کوشش اوراحساس کمتری کی علامت ہے۔دنیا نہیں بدلی ہم بدل گئے ہیں۔تبدیلی صرف ہمارے اندرپید اہوئی ہے۔“

Flag Counter