Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق کراچی رجب المرجب 1431ھ

ہ رسالہ

8 - 18
***
سموسے کا لفافہ ہدایت کا سبب بنا
محترم محمد الیاس ندوی بھٹکلی
پوری اسلامی تاریخ میں گزشتہ دس سالوں میں جتنے لوگ حلقہ بگوش اسلام ہوئے اس کی نظیر ماضی میں نہیں ملتی ، خود 11 ستمبر کے حادثہ کے بعد سے اب تک یورپ وامریکا میں جتنے لوگوں کو الله تعالیٰ نے ہدایت سے سر فراز فرمایا اتنا پچھلے 25 سالوں میں نہیں فرمایا، یہی حال ایشیا وافریقی ممالک کا بھی ہے ، اسلام میں داخل ہونے والے ان خوش نصیب بند گان خدا سے جب ان کی ہدایت کے محرکات واسباب دریافت کیے جاتے ہیں تو بعض اوقات اس کو سن کر نہ صرف حیرت ہوتی ہے بلکہ اس کے پس پردہ اصل طاقت یعنی الله تعالیٰ کی قدرت اور اس کی صفت رحمانیت کو دیکھ کر اس یقین میں اضافہ ہو جاتا ہے کہ کس طرح غفور ورؤوف ذات عالی اپنے بندوں کو ہمیشہ کی آگ سے بچانے کے لیے بہانہ کی تلاش میں رہتی ہے او رچھوٹی چھوٹی چیزوں کو بہانہ بنا کر رحمت حق جوش میں آکر زندگی بھر کے باغی وسرکش بندوں کے لیے بھی ہمیشہ کے لیے نجات کا فیصلہ کرتی ہے، اس مضمون کا عنوان ہم نے مشہور اسلامی شاعر جناب کلیم عاجز صاحب کے مشہو رشعر #
وہ جو شاعری کا سبب ہوا
وہ معاملہ بھی عجب ہوا
سے ہلکی سی ترمیم کے ساتھ مستعار لیا ہے۔
ملک کی مشرقی ریاست آسام کی راجدھانی میں واقع گوہاٹی یونیورسٹی کے شعبہ انگریزی کے پروفیسر ڈاکٹر تاراچرن رستوگی نے ایک دن بس پر سفر کے دوران چائے کے لیے بس کے رکنے پر اس سے اتر کر ایک چھوٹے سے ہوٹل سے سموسے خریدے، چوں کہ پروفیسر صاحب نہایت تعلیم یافتہ تھے اس لیے سموسے کھانے کے بعد سموسے جس لفافے میں لپٹے ہوئے تھے اس کو باہر پھینکنے سے پہلے اس پر موجود تحریر کو غور سے دیکھا تو وہ کسی ادارہ کی طرف سے اس کے ممبران کو لازمی طور پر بھرنے کے لیے دیا جانے والا فارم تھا، جس میں لکھا ہوا تھا کہ میں اس بات کا وعدہ کرتا ہوں کہ اس دنیا میں بسنے والے تمام انسانوں کا احترام کروں گا، ان کے ساتھ بھائی چارگی اور اخوت وہمدردی کا معاملہ کروں گا، وغیرہ وغیرہ۔ دراصل یہ مفکر اسلام حضرت مولانا سید ابوالحسن علی ندوی رحمة الله علیہ کی1974ء میں شروع کی جانے والی تحریک پیام اسنانیت کی ممبر شب کا وہ فارم تھا جو بطور حلف نامہ حلقہ پیام انسانیت کے نئے رکن کو بھرتی کرکے اس کے دفتر میں جمع کرنا ہوتا تھا، حلف نامہ کا یہ فارم اتفاق سے ردی میں فروخت ہو کر آج اس ہوٹل کے ذریعہ سموسے کے لفافہ کی شکل میں پروفیسر صاحب کے ہاتھ میں الله تعالیٰ نے پہنچا دیا تھا، اس فارم کے مندرجات سے متاثر ہو کر گھر جاکر اس کے نیچے درج صدر دفتر کے پتہ پر پروفیسر صاحب نے خط لکھا کہ میں اس تحریک وتنظیم کے متعلق تفصیل سے جاننا چاہتا ہوں، برائے کرم اس کی تفصیلات روانہ کیجیے ، حضرت مولانا نے خط کے موصول ہوتے ہی تحریک پیام انسانیت کی تفصیلات کے ساتھ ان کو اس موضوع پر اپنی ہندی تقاریر کا ایک مجموعہ بھی روانہ کر دیا جس کو پڑھ کر پروفیسر صاحب پرغیر معمولی تاثر قائم ہوا او رمولانا کو اطلاع دیے بغیر وہ ایک دن ندوة العلماء لکھنو آگئے، تاکہ اپنی آنکھوں سے ان تقریروں اور اس کے مقرر کی زندگی کی مطابقت کا مشاہدہ کر سکیں ، کئی دن وہ ندوہ میں اجنبی مہمان بن کر رہے اور حضرت مولانا نے بھی ان کے ساتھ مہمانوں کا سا حسن سلوک کیا، جس کے بعد انہوں نے واپس آسام جاکر جو خط حضرت مولانا کو لکھا، وہ پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے :
”مولانا! اب میرے پاس اسلام قبول کرنے کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ نہیں رہ گیا ہے ، میں آپ کی تحریر سے زیادہ آپ کی زندگی سے متاثر ہوا ہوں اور آپ کی تقریروں سے اسلام کے ان پہلوؤں سے واقف ہوا ہوں جو اب تک میری نگاہوں سے اوجھل تھے“۔
اس کے بعد الحمدلله وہ نہ صرف مسلمان ہوئے، بلکہ ان کے ساتھ ان کی بیوی، لڑکے اور بہو کو بھی الله رب العزت نے ہدایت سے نواز کر حلقہ بگوش اسلام فرما دیا۔
حضرت مولانا رحمة الله علیہ کی اس تحریک پیام انسانیت کا مقصد صرف ملک کے باشندوں کے درمیان اسلام سے متعلق پائی جانے والی غلط فہمیوں کو دور کرنا یا باہمی تفاہم یا رواداری کی فضا قائم کرنا نہیں تھا، بلکہ آپ پیام انسانیت کے نام سے دراصل اسلامی تعلیمات سے برادران وطن کو واقف کراکر دعوتی اعتبار سے ملک کی اس فضا کو ہموار کرنا چاہتے تھے۔ بالفاظ دیگر مولانا پیام انسانیت کے نام سے حکمت کے ساتھ درحقیقت اسلام ہی کی دعوت ان کے سامنے رکھتے تھے ، مولانا کی اسی حسن نیت کی بنا پر اس تحریک پیام انسانیت کو الله تعالیٰ نے اب تک سینکڑوں لوگوں کی ہدایت کا ذریعہ بنا کر ان لوگوں کے سامنے سوالیہ نشان رکھ دیا ہے، جواب تک مولانا کی اس تحریک کی منشا کو سمجھ نہیں سکے ہیں، اس میں ایک بڑا طبقہ ہمارے اس دینی حلقہ سے وابستہ لوگوں کا بھی ہے جو اس تحریک کی دعوتی حکمت عملی کو سمجھنے سے اب بھی قاصر ہے، کاش اس واقعہ سے ان کو سبق مل جائے او رہمارے دیگر علما، ودانش وران بھی امت کے موجودہ حالات میں اس تحریک کی اہمیت کو سمجھتے ہوئے دعوت دین کے عظیم مقصد کے لیے فضا کو ہموار کرنے کی نیت سے اس تحریک سے فائدہ اٹھائیں۔

Flag Counter