Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق کراچی رجب المرجب 1431ھ

ہ رسالہ

16 - 18
***
خواجہٴ خواجگان نورّ الله مرقدہ
مولانا محمد ازہر
وہ جو بیچتے تھے دوائے دل وہ دکان اپنی بڑھا گئی
قطبوقت، امام الاولیاء، مخدوم الصلحاء، زینت آراء مسندِ ارشاد، سرخیل سلسلہٴ عالیہ نقشبندیہ، خواجہٴ خواجگان حضرت مولانا خواجہ خان محمد قدس سرہ امیر عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت پاکستان20 جمادی الاولیٰ1431ھ بروز بدھ مغرب اور عشاء کے درمیان سیال کلینک ملتان میں اس جہانِ آب وگل سے منھموڑ کر معبود حقیقی سے جا ملے، انا لله وانا إلیہ راجعون انلله ما اخذ ولہ مااعطی وکل شئی عندہ باجل مسمّیٰ․
اس عارضی قیام گاہ سے ہر متنفس نے عالمِ آخرت کی طرف رختِ سفر باندھنا اور اپنا دفتر عمل لے کر مالک حقیقی کی بارگاہ میں یپش ہونا ہے ، جہاں دنیوی مفاخر ومناصب، عظمت وتمکنت اورعزت وثروت کی کوئی حیثیت نہیں وہاں عقیدہٴ توحید ورسالت ، بندگی وخاکساری اور اخلاص وتقویٰ ہی کام آئیں گے ۔ کسی ایسی ہستی کے بارے میں قلم اٹھانا جو میراثِ نبوت سے سر فراز اور بے شمار خصائص کی حامل ہو اور جس سے الله رب العزت نے اپنے دین کا غیر معمولی کام لیا ہو، نہایت مشکل مرحلہ ہے۔
حضرت خواجہ قدس سرہ ایسی جامع الصفات شخصیت کے مالک تھے جوبہت کم دیکھنے میں آتی ہیں ۔ انہوں نے نقشبندی بزرگوں کے مسلک ومزاج کے مطابق کم وبیش پون صدی خاموشی واخلاص کے ساتھ خلقِ خدا کو فیض یاب فرمایا۔ حضرت خواجہ خان محمد ، قطب زمان حضرت مولانا محمد عبدالله لدھیانوی ( متوفی1375ھ) کے فیض یافتہ ، خلیفہ اجل اور جانشین تھے۔ مولانا لدھیانوی، قیوم زمان حضرت مولانا خواجہ ابوسعید احمد خان نور الله مرقدہ (م1360ھ) کے تربیت یافتہ تھے جب کہ مولانا احمد خان شریعت وطریقت کے آفتاب عالم تاب حضرت خواجہٴ خواجوگان خواجہ سراج الدین دامائی ( م1333) کے خلیفہ وجانشین تھے ۔ وہ تمام بزرگ سلسلہ نقشبندیہ مجددیہ میں نہایت قوی النسبت اور رفیع المرتبت تھے۔ حضرت خواجہ کے شیخ ومرشد مولانا عبدالله لدھیانوی آپ کے بارے میں فرمایا کرتے تھے کہ ” جو امانتیں اور خزانے میرے شیخ سیدی قیوم زماں حضرت اعلیٰ مولانا خواجہ احمد خان نور الله مرقدہ نے مجھے عنایت فرمائے تھے ، وہ سارے کے سارے میں نے مولانا خان محمد صاحب کے سپرد کر دیے ہیں، جب کہ آپ  کے شیخ الشیخ حضرت خواجہ احمد خان نے اپنی زندگی میں بطور پیش گوئی فرمایا تھا کہ ” اس خانقاہ سراجیہ نقشبندیہ مجددیہ کی گدی پر میرا ہم نام گدی نشین ہوگا ، اس پر میرا فیض خاص ہو گا اور وہ امام وقت ہو گا ، اسے دنیا دیکھے گی ، چہار دانگ عالم میں اس کا شہرہ ہو گا پھر ہاتھ سے اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: ”یہ رتیلی زمین سر سبز وشاداب ہو گی ، اس کے دور میں خانقاہ سراجیہ شریفہ بام عروج پر ہو گی اور اس کا شہرہ برصغیر نہیں بلکہ ہفت اقلیم میں ہو گا۔ اس کے اور میرے نام میں ” الف اور میم“ کا فرق ہو گا“
حقیقت یہ ہے کہ یہ الہامی کلمات صد فی صد درست ثابت ہوئے اور حضرت خواجہ خان محمد  افق ولایت پر ایسے آفتاب کی طرح چمکے جس کی روشنی میں پورا عالم مستفید ہوا اور جس کی حرارت نے ہزاروں لاکھوں قلوب کو عشق حقیقی کی تپش سے گرما دیا۔
حضرت خواجہ صاحب  کی شہرت اگرچہ ایک سجادہ نشین اور پیر طریقت کے طور پر تھی لیکن آپ عمیق الرائے اور دقیق النظر عالم وفقیہ بھی تھے ۔ آپ برصغیر کی سب سے معروف ومقبول دینی درس گاہ دارالعلوم دیوبند کے فاضل اور شیخ الاسلام حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی، حضرت مولانا سید فخر الدین احمد مراد آبادی، حضرت مولانا محمد ابراہیم بلیاوی اور حضرت مولانا اعزاز علی جیسے اساطین علم کے شاگرد تھے ، ان حضرات سے آپ نے دورہٴ حدیث شریف کے اسباق پڑھے جب کہ مشکوٰة شریف ، تفسیر جلالین، ہدایہ، مقامات حریری اور دیگر اسباق ڈابھیل میں شیخ الاسلام حضرت علامہ شبیر احمد عثمانی ، حضرت مولانا سید بدر عالم ، حضرت مولانا سید محمد یوسف بنوری اور حضرت مولانا محمد ادریس سکروڈھوی سے پڑھیں، فراغت کے بعد آپ نے کچھ عرصہ تدریس کی، جن طلبہ کو آپ سے پڑھنے کی سعادت نصیب ہوئی ان کا کہنا ہے کہ طلبہ پر آپ کی توجہ کرامت سے کم نہ تھی ، جو الفاظ آپ کی زبان سے نکلتے وہ دماغ میں ایسے پیوست ہو جاتے تھے گویا کتاب سامنیہے۔ بعد ازاں خانقاہ کی مصروفیات کی وجہ سے آپ اسباق جاری نہ رکھ سکے۔
حضرت والا کو قیام پاکستان سے پہلے ڈابھیل میں محدث العصر حضرت مولانا محمدیوسف بنوری (1977ء) سے شرف تلمذ حاصل رہا۔ قیام پاکستان کے بعد خانقاہ سراجیہ نقشبندیہ کے سجادہ نشین کی حیثیت سے آپ کی باطنی وروحانی خدمات کا شہرہ تمام علمی ودینی حلقوں میں پھیل گیا جیساکہ عام طور پر اساتذہ کو اپنے تمام شاگردوں کا پورا پورا تعارف نہیں ہوتا، حضرت مولانا محمدیوسف بنوری قدس سرہ بھی کندیاں شریف کے دور افتادہ علاقہ میں ایک صاحب اسرار شریعت وواقف ر موز طریقت کی شہرت سن کر زیارت واستفادہ کی غرض سے تشریف لائے ۔ اتفاق سے حضرت والا ان دنوں صوبہ سرحد کے سفر پر تھے ۔ حضرت بنوری طویل سفر طے کرکے آپ کی خدمت میں موضع درویش پہنچے اور کہا کہ ” آپ کی زیارت کے لیے آیا ہوں۔“
حضرت خواجہ صاحب نے کسی تکلف کے بغیر عرض کیا کہ ” حضرت میں تو آپ کا شاگرد ہوں ، مجھے حکم فرمایاہوتا، میں خود حاضر ہو جاتا آپ کو زحمت نہ اٹھانا پڑتی“ حضرت بنوری نے فرمایا آپ میرے شاگرد کیسے ہیں ؟ عرض کیا ڈابھیل میں آپ سے سبعہ معلقہ وغیرہ کے اسباق پڑھے ہیں حضرت بنوری  اس صاف گوئی پر بہت خوش ہوئے ۔ حضرت خواجہ صاحب  کا بیان ہے کہ ” جب مجلس برخاست ہوئی تو حجرے سے نکلتے وقت حضرت بنوری نور الله مرقدہ نے آگے بڑھ کر جلدی سے میرے جوتے اٹھالیے بڑی کوشش کی اور عرض بھی کیا کہ حضرت! میں تو آپ کا شاگرد ہوں ایسا نہ کریں ، فرمایا آپ اس کے مستحق ہیں ، میں یہ سن کر بوجہ ادب خاموش ہورہا“۔
یہ واقعہ حضرت بنوری کی غایت درجہ تواضع وبے نفسی کے ساتھ ان کی جوہر شناسی اور حق شناسی کی بھی بین دلیل ہے۔ حضرت خواجہ صاحب  حضرت بنوری  سے استاذ کی حیثیت سے تاحیات انتہائی ادب واحترام سے پیش آتے رہے جب کہ حضرت بنوری انہیں شاگرد کے بجائے شیخ طریقت کی حیثیت سے دیکھتے تھے۔1974ء کی تحریک ختم نبوت کے دوران حضرت بنوری فیصل آباد حضرت مفتی زین العابدین کے ہاں تشریف لائے حضرت خواجہ صاحب  حضرت علامہ بنوری کی زیارت کے لیے مفتی صاحب کی رہائش گاہ پر تشریف لے گئے ۔ حضرت علامہ بنوری نے اٹھ کر آپ کا استقبال فرمایا۔ اس مجلس میں خواجہ صاحب  حضرت بنوری کے سامنے دوزانوں ہو کر بیٹھے رہے ۔ حضرت بنوری نے فرمایا آپ ایسے نہ بیٹھیں لیکن حضرت خواجہ صاحب اختتام مجلس تک اسی مودبانہ ہئیت پر رہے ۔ مجلس برخاست ہوئی تو حضرت خواجہ صاحب نے حضرت علامہ بنوری کے جوتے اٹھا کر ان کے سامنے رکھے ۔ سچ ہے ولی راولی می شناسد۔ مجلس تحفظ ختم نبوت کے نائب امیر کے لیے حضرت علامہ بنوری ہی نے حضرت خواجہ صاحب کا نام پیش فرمایا تھا بلکہ یہ شرط عائد کی تھی کہ میں امارت کا عہدہ صرف اسی صورت میں قبول کروں گا جب نائب امیر میرا نامزد کردہ ہو گا۔
تمام اہل علم حضرات جانتے ہیں کہ حضرت والا خطیب ومقرر یا واعظ نہ تھے جب کہ مجلس تحفظ ختم نبوت کے عہدیداران کا دن رات کا مشغلہ ہی خطابت وتقاریر ہیں لیکن حیرت انگیز امریہ ہے کہ مجلس نے عالمی سطح پر فتنہ قادیانیت کے تعاقب واستیصال کا جتنا کام حضرت والا کے دورنیابت اور پھر دور امارت میں کیا ہے ، اس کی نظیر نہیں ملتی۔
آج حضرت والا کی رحلت پر چار سو صف ماتم بچھی ہے، آسمان وزمین نوحہ کناں ہیں ، انسانیت کا پرچم سرنگوں ہے ، ذکر کی مجلسیں ویران ہیں ، تصوف سلوک کے حلقے اداس ہیں، جس ہستی کو دیکھ کر افسردہ دلوں میں بہار آجاتی تھی ، وہ ہمیشہ کے لیے نظروں سے اوجھل ہو گئی #
اک آسرا تھا دید کا باقی سو مٹ گیا
سنتے ہیں بند روزنِ دیوار کر دیا

Flag Counter