Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق کراچی رجب المرجب 1431ھ

ہ رسالہ

6 - 18
***
آپس کے تعلقات اور قطع تعلقی
محدث العصر ابواللّیث سمرقندی 
تین دن سے زیادہ قطع تعلقی نہ کرو
حضرت ابو ایوب انصاری حضور اقدس صلی الله علیہ وسلم کا یہ ارشاد نقل کرتے ہیں کہ ایک مسلمان کو اپنے مسلمان بھائی سے تین دن سے زیادہ قطع تعلق جائز نہیں کہ اچانک ملاقات ہو جائے تو ایک کا منھ ادھر کو اور دوسرے کا اُدھر کو ہو اور ان میں سے بہتر وہ ہے جو سلام کرنے میں پہل کرے۔
حضرت حسن بصری یہ حدیث نقل کرتے ہیں کہ ایک دوسرے سے قطع تعلق مت کرو، اگر ایسا کرنا ناگزیر ہی ہو تو تین دن سے زیادہ نہ ہو اور جو مسلمان اس قطع تعلق کی حالت میں مر جائیں گے وہ جنت میں اکٹھے نہیں ہو ں گے۔
آپس میں محبت رکھنا
حضرت انس بن مالک حضور اقدس صلی الله علیہ وسلم کا یہ ارشاد گرامی نقل کرتے ہیں کہ الله تعالیٰ کے کچھ بندے ایسے ہیں جن کے لیے قیامت کے دن نور کے منبر بچھائے جائیں گے، انبیاء علیہم السلام اور شہدا ان پررشک کریں گے اور وہ خود نبی ہوں گے نہ شہید، عرض کیا گیا یا رسول الله! وہ کون لوگ ہوں گے؟ ارشاد فرمایا جو لوگ محض الله کے لیے آپس میں محبت رکھتے ہیں۔
قطع تعلق کرنا اور بغض وعناد رکھنا
حضرت ابوہریرہ حضور اقدس صلی الله علیہ وسلم کا یہ مبارک ارشاد نقل کرتے ہیں کہ جنت کے دروازے پیر اور جمعرات کے روز کھولے جاتے ہیں اور ان دنوں میں ایسے لوگوں کی بخشش کی جاتی ہے جو الله تعالیٰ کے ساتھ شرک نہیں کرتے، البتہ جن دو آدمیوں میں باہم بغض وعناد ہوتا ہے ان کے لیے حکم ہوتا ہے کہ ان کی مغفرت میں انتظار کرو۔ حتی کہ وہ آپس میں صلح کرلیں اور تین دن سے زائد قطع تعلق رکھنے والوں کے اعمال اوپر جاتے ہیں تو وہ واپس لوٹا دیے جاتے ہیں۔
الله تعالیٰ کا آسمان دنیا پر نزول فرمانا
حضرت ابو امامہ حضور صلی الله علیہ وسلم کا یہ فرمان نقل کرتے ہیں کہ جب نصف شعبان کی رات ہوتی ہے تو الله تعالیٰ آسمانِ دنیا کی طرف نزول فرماتے او راہل زمین پر خصوصی توجہ فرماتے ہیں ۔ بس کافر اورکینہ ور کے سواسب کی بخشش ہو جاتی ہے۔ فقیہ رحمہ الله فرماتے ہیں کہ آسمان دنیا کی طرف اترنے اور نزول فرمانے کا مطلب اس کے خصوصی احکام کا اترنا ہے جیساکہ ﴿فآتھم الله من حیث لم یحتسبوا﴾ میں یہی مراد ہے کہ ان کے پاس الله تعالیٰ کا حکم پہنچا۔ (59/2)
پانچ قسم کے لوگوں کی نماز قبول نہیں ہوتی
حضرت انس  بن مالک نے حضور صلی الله علیہ وسلم کا یہ ارشاد نقل کیا ہے کہ پانچ قسم کے لوگوں کی نماز قبول نہیں ہوتی۔(یعنی وہ ثواب سے محروم ہوں گے اگرچہ فرض ان کے ذمہ سے ساقط ہو گا)
اس عورت کی جس پر اس کا خاوند (کسی شرعی وجہ سے) ناراض ہو۔
اس غلام کی جو آقا کی اطاعت سے بھاگ نکلا ہو۔
اس شخص کی جو قطع تعلقی کی وجہ سے تین دن سے زائد تک مسلمان بھائی سے کلام نہیں کرتا۔
اس شخص کی جو شراب کا عادی ہے۔
اور اس امام کی جسے مقتدی ( کسی شرعی وجہ سے) ناپسند سمجھتے ہوں۔
لوگوں میں مصالحت کرانا
ایک حدیث میں ہے کہ آں حضرت صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ کیا میں تمہیں ایک ہلکا سا صدقہ بتاؤں جوالله تعالیٰ کو بھی پسند ہے؟ عرض کیا گیا ضرور بتایے۔ ارشاد فرمایا وہ یہ ہے کہ جب لوگ باہم قطع تعلق کریں تو ان میں مصالحت کرانا۔
حضرت ابودردا حضو راکرم صلی الله علیہ وسلم کا یہ ارشاد نقل کرتے ہیں کہ کیا تمہیں ایسا عمل نہ بتاؤں جو نفل نماز روزہ اور صدقہ وغیرہ اعمال سے بھی بڑھ کر ہے ؟ عرض کیا گیا ضرور بتائیے فرمایا کہ لوگوں میں قطع تعلقی کے وقت مُصالحت کرانا۔
آٹھ قیمتی باتیں
بعض صحابہ سے منقول ہے کہ جو شخص آٹھ باتوں سے عاجز آجائے تو وہ دوسری آٹھ باتیں اختیار کرے، تاکہ ان کی فضیلت پالے، پہلی یہ کہ جو کوئی چاہتا ہے کہ سوئے سوئے ہی نماز تہجد کا ثواب پالے وہ دن کو الله تعالیٰ کی نافرمانی نہ کرے ۔ دوسری یہ کہ جو آدمی چاہتا ہے کہ روزہ رکھے بغیر نفل روزہ کا ثواب حاصل کرے وہ اپنی زبان کی حفاظت کرے۔ تیسری یہ کہ جوشخص چاہتا ہے کہ علماء کا درجہ حاصل کرے وہ تفکر اختیار کرے ۔ چوتھی یہ کہ جوکوئی گھر بیٹھے ہی نمازیوں او رمجاہدوں کا ثواب چاہتا ہے وہ شیطان سے جہاد کرے۔ پانچویں جو ناداری کے باوجود صدقہ کا اجر لینا چاہتا ہے وہ اپنا سیکھا ہوا علم لوگوں کو سکھائے۔ چھٹی یہ کہ جوکوئی حج سے عاجز آنے کے باوجود اس کی فضلیت چاہتا ہے وہ جمعہ کی حاضری کا پابندی سے اہتمام والتزام رکھے ۔ ساتویں یہ کہ جوعبادت گزاروں کا درجہ لینا چاہتا ہے وہ لوگوں کی باہم مُصالحت کرائے اور ان میں عداوت اور بغض پیدا نہ کرے۔ آٹھویں یہ کہ جو اَبدال کا درجہ چاہتا ہے وہ اپنے سینے پر ہاتھ رکھے اور اپنے بھائی کے لیے وہی پسند کرے جو اپنے لیے پسند ہو۔
بلاحساب جنت میں داخل ہونے والے
حضرت علی بن حسین کہتے ہیں کہ قیامت میں جب اولین وآخرین سب جمع ہوں گے تو ایک پکارنے والا پکارے گا کہ فضیلت والے لوگ کہاں ہیں تو لوگوں کی ایک جماعت اٹھے گی او رجنت کی طرف چل دے گی۔ فرشتے ان کے سامنے آکر پوچھیں گے کہاں جارہے ہو؟ جواب دیں گے جنت میں۔ فرشتے کہیں گے کیا حساب سے پہلے ہی، کہیں گے ہاں حساب سے پہلے ہی۔ فرشتے پوچھیں گے تم کون لوگ ہو؟ جواب دیں گے ہم اہل فضل ہیں۔ فرشتے کہیں گے دنیا میں تمہاری کیا فضیلت تھی ؟جواب دیں گے کہ اگر ہم پر کوئی زیادتی کرتا تو ہم برداشت کر لیتے، کوئی کرتاتو ہم معاف کر دیتے۔ فرشتے کہیں گے داخل ہو جاؤ جنت میں، جو عمل کرنے والوں کا بہترین ٹھکانا ہے۔ پھر ایک منادی آواز دے گا صبر والے کہاں ہیں تو ایک جماعت اٹھے گی او رجنت کا رخ کرے گی۔ فرشتے سوال کریں گے کہاں جارہے ہو جواب دیں گے جنت میں۔ فرشتے کہیں گے کیا حساب کے بغیر ہی؟کہیں گے ہاں۔ فرشتے پوچھیں کے تم کون لوگ ہو؟ جواب دیں گے ہم صبر والے ہیں۔ وہ سوال کریں گے تم کیا صبر کیاکرتے تھے؟ یہ جواب دیں گے کہ ہم نے اپنے نفسوں کو الله تعالیٰ کی اطاعت پر مجبور کیا او راس کی نافرمانی سے روکے رکھا۔ تو فرشتے کہیں گے جاؤ، جنت میں چلے جاؤ کہ وہ عمل کرنے والوں کے لیے بہترین ٹھکانا ہے ۔ پھر منادی آواز دے گا کہ الله تعالیٰ کے پڑوسی کہاں ہیں؟ اس پر بھی لوگوں کی ایک جماعت اٹھے گی او رجنت کی طرف چلے گی تو فرشتے پوچھیں گے کہا ں کا ارادہ ہے؟ جواب دیں گے جنت کا ، فرشتے کہیں گے کیا حساب سے پہلے ہی یہ کہیں گے؟ ہاں۔ فرشتے پوچھیں گے تم کون لوگ ہو؟ یہ جواب دیں گے ہم زمین پر الله تعالیٰ کے ہمسایہ اور پڑوسی تھے۔ فرشتے کہیں گے تمہارا الله کے ساتھ پڑوس کیسا تھا؟ یہ کہیں گے کہ ہم محض الله کی رضا کے لیے ایک دوسرے سے محبت رکھتے تھے،اسی کے لیے خرچ کرتے تھے، اسی کے لیے ایک دوسرے سے ملاقات کرتے تھے۔ فرشتے کہیں گے جاؤ جنت میں داخل ہو جاؤ، جو عمل والوں کے لیے بہترین ٹھکانا ہے۔
آپس میں محبت کرنا اور لوگوں میں صلح کرانا
حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ آں حضرت صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ الله تعالیٰ قیامت کے دن فرمائیں گے کہ میری رضا کے لیے باہم محبت کرنے والے کہاں ہیں ؟اپنے عزت وجلال کی قسم! میں آج انہیں اپنے سایہ میں جگہ دوں گا، جب کہ اور کوئی سایہ نہیں ہے ۔ حضرت ابوامامہ فرماتے ہیں کہ ایک میل چل کر بھی کسی مریض کی بیمار پرسی کر اور کسی مسلمان بھائی کی ملاقات کے لیے دو میل تک بھی سفر کر اور دو آدمیوں میں صلح کرانے کے لیے تین میل تک کا بھی سفر اختیار کر۔ حضرت انس فرماتے ہیں کہ جو شخص دو آدمیوں میں صلح کراتا ہے الله تعالیٰ اسے ایک ایک کلمہ پر جووہ بولتا ہے ایک غلام آزاد کرنے کا اجر دیں گے۔
انبیاء علیہم السلام کی طرف سے چار چیزوں کا مطالبہ
حضرت ابوبکر وراق فرماتے ہیں کہ الله تعالیٰ نے انبیاء علیہم السلام کو مبعوث فرمایا، تاکہ مخلوق کو اس کی طرف بلائیں اور دعوت دیں اور ان پر چار چیزوں کا مطالبہ رکھیں دل، زبان، دیگر اعضا اور خلق، پھران چار میں سے بھی ہر ایک سے دو باتوں کا مطالبہ کیا۔ دل سے احکام خداوندی کی تعظیم اور مخلوق پر شفقت کا مطالبہ۔ زبان سے ہمیشہ پابندی کے ساتھ الله تعالیٰ کے ذکر اور لوگوں کے ساتھ خوش کلامی کا مطالبہ۔ دیگر اعضا سے الله تعالیٰ کی عبادت اور مسلمانوں سے تعاون کا مطالبہ اور خلق سے الله تعالیٰ کی قضا پر راضی رہنے اور مخلوق کے ساتھ اچھے معاملے او ران کی تکالیف کو برداشت کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔
دین خیر خواہی اور اخلاص کا نام ہے 
حضرت تمیم داری حضور صلی الله علیہ وسلم کا یہ ارشادنقل کرتے ہیں کہ دین خیر خواہی او راخلاص ہی کانام ہے ۔ یہ بات تین بار ارشاد فرمائی عرض کیا گیا کہ یہ اخلاص کس کے لیے مراد ہے؟ ارشاد فرمایا الله کے لیے، اس کے رسول صلی الله علیہ وسلم کے لیے اس کی کتاب کے ساتھ اور عام اہل ایمان او رحکام کے ساتھ۔ فقیہ رحمہ الله فرماتے ہیں کہ الله تعالیٰ کے لیے اخلاص کا مطلب یہ ہے کہ اس پر ایمان لائے کسی کو اس کے ساتھ شریک نہ ٹھہرائے۔ اس کے احکام پر عمل کرے، جہاں سے روکا ہے رک جائے اور لوگوں کو بھی اس کی دعوت دے او ران کی رہنمائی کرے اور رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے لیے اخلاص کا یہ مطلب ہے کہ ان کی سنت پر عمل پیرا ہو اور لوگوں کو بھی اس کی طرف بلائے کتاب کے ساتھ اخلاص یہ ہے کہ اس پر ایمان رکھتے ہوئے اس کی تلاوت کرے او راس کے احکام پر خود بھی عمل کرے اور لوگوں کو بھی اس پر لگائے او رمسلم حکام کے لیے اخلاص یہ ہے کہ ان کے خلاف علم بغاوت بلند نہ کرے اور ان کے لیے عدل وانصاف اختیار کرنے کی دعائیں مانگے اور لوگوں کو بھی اس کی ہدایت کرے۔ عام اہل ایمان کے ساتھ اخلاص یہ ہے کہ ان کے لیے وہی چیز پسند کرے جو اپنے لیے پسند ہو، ان سے قطع تعلق نہ کرے، ان کے ساتھ صلح کا معاملہ رکھے اور اس کے لیے انہیں دعوت دے۔ حضرت علی فرماتے ہیں کہ مغفرت کے اسباب میں سے ایک یہ بھی ہے کہ اپنے مسلم بھائی کو خوش رکھے۔
الله تعالیٰ کا قُرب او رثواب کی فضیلت
حضرت ام کلثوم بنت عقبہ آں حضرت صلی الله علیہ وسلم کا یہ ارشاد نقل کرتی ہیں کہ وہ شخص چھوٹا شمار نہیں ہوتا جو دو شخصوں کے درمیان صلح کرانے کے لیے از خود کوئی اچھی بات کہہ دیتا ہے یا کسی کی طرف منسوب کر دیتا ہے ۔ نیز لوگوں میں مصالحت کرانا نبوت کے شعبوں میں سے ایک شعبہ ہے اور ان میں لڑائی کرانا جادو کا ایک حصہ ہے۔ حضور صلی الله علیہ وسلم کا یہ بھی ارشاد ہے کہ الله تعالیٰ کے نزدیک ثواب میں افضل وہ شخص ہے جو دنیا میں لوگوں کو نفع پہنچاتا ہے او رقیامت میں الله تعالیٰ کا قرب ان لوگوں کو نصیب ہو گا جو لوگوں میں مصالحت کرواتے تھے۔ (والله اعلم)

Flag Counter