Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق کراچی رجب المرجب 1431ھ

ہ رسالہ

2 - 18
***
صرف قابلیت کافی نہیں
شیخ الحدیث حضرت مولانا سلیم الله خان مدظلہ
نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم …… الخ
﴿قَدْ اَفْلَحَ مَنْ تَزَکیّٰo وَ ذَکَرَ اسْمَ رَبِّہ فَصَلّٰیo بَلْ تُوٴثِرُوْنَ الْحَیٰوةَ الدُّنْیَاo وَالاَخِرَةُ خَیْرٌ وَّ اَبْقیٰoاِنَّ ہٰذَا لَفِی الصُّحُفِ الاُوْلیٰo صُحُفِ اِبْرٰہِیْمَ وَمُوْسیٰ﴾ (الاعلیٰ)
میرے دوستو اور بزرگو ! اگر آپ غور فرمائیں تویہ بات آسانی کے ساتھ سمجھ میں آجائے گی کہ قرآن کریم نے ان آیات میں انسان کے مطلوب اور مقصود یعنی فلاح اور کامیابی کا ذکر فرمایا ہے اور یہ بتلادیا ہے کہ کامیابی حاصل کرنے کا طریقہ کیا ہے اور ناکامی کی وجہ کیا ہوتی ہے۔
دنیا پر فریفتہ ہوجانا اور خواہشات کی پیروی اختیار کرنا اور مال کے فتنے میں مبتلا ہوجانا، اقتدار اور اختیار حاصل کرنے کی دوڑ میں شامل ہوجانا یہ تمام راستے تباہی کے ہیں، ان سے کامیابی نہیں ملے گی، کامیابی کے لیے اللہ رب العزت سے اپنے تعلق کو درست کرنا ہوگا، اگر آدمی کا تعلق اللہ رب العالمین کے ساتھ درست ہے اور یہ آدمی اس کی یاد میں مشغول ہے، عبادت کا بھی اہتمام کرتا ہے، اخلاقی نقطہ نگاہ سے بھی سنورا ہوا ہے اور اچھا نمونہ انسانیت کا پیش کرتا ہے تو اللہ تبارک و تعالیٰ کے ساتھ تعلق کی یہ درستگی فلاح اور کامیابی کی ضامن ہے اور اس کے برعکس دنیا کے ساتھ پیوستہ ہوجانا اور دنیا کو اپنا مقصود بنالینا یہ ناکامی کا راستہ ہے۔
دنیا کیا ہے؟
دنیا خواہشات کی پیروی کا نام ہے، حدود شرع سے تجاوز کرنا، اپنی من مانی کا مظاہرہ کر کے اقتدار اور اختیار چاہنا، مال کی بے جا محبت وغیرہ دنیا ہے اور یہ اس لیے کہ انسان میں اللہ تعالیٰ نے جو خواہشات رکھی ہیں ان کی رعایت فرما کر احکامات دیتے ہیں ، ان خواہشات کے پورا کرنے کی حدود شریعت نے مقرر کی ہیں، ایسا نہیں ہے کہ خواہشات پیدا کی ہوں اور ان کی رعایت نہ کی ہو، ایسا ہوتا تو ظلم ہوتا اور اللہ تبارک و تعالیٰ ظلم سے مبرا اور پاک ہیں، اس لیے جب خواہشات پیدا کی ہیں تو ان کو پورا کرنے کا بھی طریقہ بتایا اور وہ طریقہ ایسا حسین اور خوبصورت ہے کہ اس میں خواہش بھی پوری ہوجاتی ہے اور فساد پھیلنے کا خطرہ بھی نہیں ہوتا، اگر حدود شرع کی رعایت نہ کی جائے اور انسان خواہشات کا اسیر اور غلام بن جائے تو پھر فساد ہی فساد پھیلتا ہے۔
خواہشات کی تکمیل میں شرعی حدود دکی پابندی ضروری ہے
خواہشات نفسانی کی ایک بہت لمبی فہرست ہے، ان میں بطن کی خواہش ہے، جنسی خواہش ہے، پہننے کی خواہش ہے، دیکھنے کی خواہش ہے، سننے کی اور بولنے کی بھی خواہش ہے ، غرض ہر لائن کی خواہش موجود ہے، آپ جانتے ہیں کہ شریعت نے اپنے قاعدے کے مطابق ان کے پورا کرنے کی اجازت دی ہے، مثلاً خواہشات میں مال کی محبت بھی داخل ہے تو اِس محبت سے منع نہیں کیا گیا، بلکہ ایک طرف مال کو حاصل کرنے کا حکم دیا گیا ہے اور فرمایا گیا کہ:
”کسب الحلال فریضة بعد الفریضة“․(شعب الایمان للبیہقی : 6/420)
ترجمہ :حلال کی کمائی فرض ہے بڑے فرائض کے پورا کرنے کے بعد۔ 
اور ایسا ممکن بھی نہیں تھا کہ مال سے قطع تعلق کا حکم دیا جاتا، شریعت کے بہت سے احکام مال ہی کے متعلق ہیں، اگر مال نہ ہو تو آدمی زکوٰة کہاں سے ادا کرے گا ؟ صدقہ فطر کہاں سے دیگا ؟اگر مال نہ ہو تو حج اور عمرہ کیسے کرے گا ؟ اگر مال نہ ہو تو بہت سی جنایات میں جو مال خرچ کرنے کا حکم دیا گیا ہے وہ کیسے خرچ کرے گا ؟اگر چہ مال کے نہ ہونے سے بعض احکامات ساقط ہوجاتے ہیں لیکن پھر بھی احکامات تو ہیں، قرآن کریم نے مال کی محبت سے منع نہیں کیا اور نہ اس پر نکیر کی ہے، البتہ مال کی محبت کو غالب کرنے سے منع کیا ہے کہ انسان مال کی محبت میں گم نہ ہوجائے، تو بات وہیں پر آکر رکے گی کہ شریعت کی حدود کی رعایت رکھتے ہوئے آپ اپنی تمام خواہشات کو پورا کرسکتے ہیں، اس میں چاہے کھانا پہننا ہو، چاہے جنسی تقاضے ہوں، چاہے مال کے حاصل کرنے کی کوشش ہو یہ تمام چیزیں شریعت نے جائز قرار دی ہیں اور حدود شریعت میں رہتے ہوئے جب آدمی خواہشات اور تقاضوں کو پورا کرنے والا ہوتا ہے تو وہ بہترین انسان ہے، وہ دوسروں کے لیے بھی مفید ہوتا ہے اور خود بھی فائدہ اٹھانے والا ہوتا ہے۔
انبیاء علیہم السلام بنی نوع انسان کے لیے بہترین نمونہ ہیں
اللہ تبار ک و تعالیٰ نے حضرات انبیاء علیہم الصلوٰة والسلام کو نوع بشر سے پیدا فر ما کر اور یہ تمام تقاضے اور خواہشات ان میں رکھ کر شریعت کی حدود میں ان کو پورا کرنے کے نمونے انسانیت کے سامنے پیش کیے، یہ اسی لیے ہے تاکہ انسان یہ عذر نہ کر سکے کہ… ہم ان تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے احکام شرع کی رعایت کیسے کرسکتے ہیں؟
حضرات انبیاء علیہم السلام نے شریعت پر عمل کر کے نمونہ پیش کیا ہے اس لیے ہر خواہش کے پورا کرنے میں انہیں دیکھا جائے گا۔
آج کا مسئلہ یہی ہے اور صرف آج کا نہیں، ہمیشہ کا مسئلہ یہی رہا ہے کہ انسان شریعت کے احکامات کو نظر انداز کرتا ہے اور احکامات الٰہی کو نظر انداز کر کے وہ دنیا میں فتنے اور فساد برپا کرتا ہے:
﴿ظَہَرَ الفَسَاد فِی الْبَرّ وَ الْبَحر بِمَا کسَبَتْ اَیْدی النّاس﴾ ․(سورة الروم : 41) 
”:خشکی اور تری (پوری دنیا) میں فساد قائم ہوا بسبب اس کے جو لوگوں کے ہاتھوں نے کمایا“۔ چنانچہ آج بھی دنیا فتنوں اور فساد کا مرکز بنی ہوئی ہے۔
لوگ چاہتے ہیں کہ امن قائم ہو اور سکون کی فضا ہو، اطمینان اور آرام کی زندگی گزاریں، لیکن وہ اس کا علاج احکام شرع کو نظر انداز کر کے تلاش کرتے ہیں، نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی، فتنہ و فساد میں اضافہ تو ہوتا ہے اطمینان اور سکون نصیب نہیں ہوتا اور جتنا زیادہ پھڑکتے ہیں اتنے ہی زیادہ جال میں پھنستے ہیں۔
امت کی راہنمائی کا فریضہ علمائے امت پر ہے
ہم طالبعلم ہیں اور اس حوالے سے کہ حضرات انبیاء علیہم الصلوٰة والسلام کے علوم کو حاصل کر رہے ہیں، ہماری ذمہ داری عام مسلمانوں کے مقابلے میں بہت زیادہ ہے، عام امتی جو قرآن و سنت کے علوم سے ناواقف ہیں اور قرآن و سنت کے تفصیلی علوم سے بے خبر ہیں وہ راہنمائی کرنے کے قابل نہیں،رہنمائی تو قرآن و سنت سے ملتی ہے اور وہ اس سے پوری طرح آگاہ نہیں ہیں، ان کے لیے آپ حضرات کی راہنمائی میں چلنا اور ہر قدم پر آپ سے پوچھ کے چلنا فرض ہے، یہ راہنمائی کا فریضہ عالم ربانی ادا کرسکتا ہے جس نے اپنے علم میں للّٰہیت کے ساتھ رسوخ پیدا کیا ہو،ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿والراسخون فی العلم﴾(سورة اٰل عمران : 7)
اس ارشاد میں انہی کی طرف اشارہ ہے۔
اب دیکھنے کی بات یہ ہے کہ علمائے امت تو آج بہت کثیر تعداد میں موجود ہیں اور مسلسل ان کی تعداد میں اضافہ بھی ہورہا ہے، پھر کیا بات ہے کہ رہنمائی نہیں ہورہی اور امن و سکون کا دور دور ہ واپس نہیں ہورہا؟ بلکہ فتنہ و فساد میں اضافہ ہورہا ہے تو اس میں غور کرنے کی ضرورت ہے اور بہت سنجیدگی سے غور کرنے کی ضرورت ہے، اس لیے کہ یہ سب کا مسئلہ ہے، میں اس سے بحث نہیں کرتا کہ ان کی قابلیت کتنی ہے، ان کی مہارت علمیہ کیسی ہے اوروہ علم و فضل میں کس مقام پر فائز ہیں ؟ نہیں ! یہ بحث یہاں ضروری نہیں۔
حضرات صحابہ رضی الله عنہم اجمعین میں بعض ایسے حضرات بھی تھے جو سو تک گننا نہیں جانتے تھے، ایسے بھی بہت سے تھے جن کو اپنا دستخط کرنا نہیں آتا تھا اور نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا :
”نحن امّة امیّون، لا نکتب ولا نحسب“․ ( مسند امام احمد بن حنبل : 2/122) 
”ہم اُمّی امت ہیں نہ لکھنا جانتے ہیں اور نہ حساب جانتے ہیں۔“
یہ فرما کر اس پر فخر بھی کیا ہے کہ ہم تو ان پڑھ ہیں، اُمّی کا اگر صحیح ترجمہ کیا جائے تو یہی ہوگا کہ ہم ان پڑھ لوگ ہیں، ” لا نکتب“ ہم لکھنا بھی نہیں جانتے، ”ولا نحسب“ حساب بھی نہیں جانتے ، مگر اس کے باوجود نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کا جو اپنا ایک مقام ہے، اس کے کیا کہنے۔ 
آپ صلی الله علیہ وسلم نے صحابہ کے بارے میں فرمایا : 
”أصحابی کالنجوم فبأیہم اقتدیتم اہتدیتم “․ (مشکوٰة: 2/554 ،عن عمر بن الخطاب، باب مناقب الصحابة) 
”میرے صحابہ آسمان کے ستاروں کی مانند ہیں، تم جس صحابی کی بھی پیروی کروگے تو ہدایت پاؤگے ۔“
یہ ہدایت کے ستارے ہیں، جس کی بھی تم پیروی کروگے تو تم ہدایت یافتہ بن جاؤگے ۔ اور عبد الله بن مسعود رضی الله تعالیٰ عنہ نے فرمایا تھا کہ :” صحابہ علم میں حقیقت کی گہرائی تک پہنچے ہوئے تھے۔“ 
اور یہ بھی آج کا ہمارا مشاہدہ ہے کہ ایک آدمی جس کے پاس کتابی علم نہیں ہے لیکن اللہ تبارک و تعالیٰ کے ساتھ اس نے اپنا تعلق صحیح کر لیا اور اپنی زندگی کو شریعت کی راہنمائی میں گزارنے کا اہتمام کیا تو وہ خلق خدا کے لیے مفید ہوتا ہے، اس سے اللہ تعالیٰ کی مخلوق کو راہنمائی ملتی ہے اور زمانہ ماضی کے بھی ایسے واقعات بکثرت موجود ہیں کہ وہ لوگ جو اُمّی تھے، ان پڑھ تھے، کتابی علم ان کو حاصل نہیں تھا لیکن اللہ تبارک و تعالیٰ کے ساتھ انہوں نے اپنا تعلق درست اور سیدھا کر لیا تھا، پر ان کی صورت دیکھ کر اور ان کے معاملات دیکھ کر لوگ بے اختیار ان کے ہاتھ پر مسلمان ہوجایا کرتے تھے۔
حضرت معین الدین اجمیری رحمہ الله تعالیٰ کا واقعہ 
حضرت معین الدین اجمیری رحمہ الله تعالیٰ نے اجمیر شریف سے لے کر دہلی تک کا سفر کیا اور اس سفر میں ان کے ہاتھ پر ایک لاکھ کے قریب لوگ مسلمان ہوئے اور ایمان لائے۔
میرے دو دوست تھے اور دونوں غیر عالم تھے، وہ بتارہے تھے کہ ہم فلاں جگہ گئے اور وہاں جا کر ہم نے لوگوں کے سامنے دین کی بات پیش کی تو نتیجہ یہ ہوا کہ وہاں لوگ اتنی بڑی تعداد میں مسلمان ہوئے کہ ان کو سنبھالنا مشکل ہوگیا، اب مسلمان ہوئے تو کلمہ ان کو سکھایا گیا، نماز بھی سکھائی گئی اور نماز سے پہلے وضو تو لازم ہوتا ہے تو وہ سنارہے تھے کہ ہم اوپر کسی اونچی جگہ بیٹھ کر لوگوں کو وضو کا طریقہ سکھاتے تھے، کیونکہ کافی بڑی تعداد تھی جنہوں نے اسلام قبول کیا تھا تو زمین پر بیٹھ کر سب کو وضو کا طریقہ سکھانا مشکل ہو گیا تھا،ان کے سامنے وضو کر کے ان کو بتایا جاتا تھا کہ نماز سے پہلے اس طرح وضو کرنا ضروری ہے اور اس کے بعد پھر نماز پڑھی جاتی تھی۔
ہمارے طالب علمی کے دور میں ہندوستان میں ایک بزرگ تھے، ہم نے دیکھا کہ ان کے متعلق یہ بات حد تواتر تک پہنچی ہوئی ہے جسے لوگ نقل کرتے تھے کہ ان کے ہاتھ پر سیکڑوں لوگ مسلمان ہوئے اور وہ آدمی اُمّی ، ان پڑھ تھے۔
اللہ والوں کی شان 
نبی پاک صلی الله علیہ وسلم نے اللہ کے نیک بندوں کی ایک صفت یہ بھی بیان کی ہے کہ :
”إذا رؤوْا ذُکِرَ الله“․ 
”جب ان کو دیکھا جائے تو اللہ تبارک و تعالیٰ یاد آتے ہیں۔“
یعنی ان کو دیکھ کر اللہ یاد آجائے ، ان کی شان اور ان کے انداز ایسا اثر کرنے والے ہوتے ہیں کہ انہیں دیکھ کر اللہ کی ذات کا تاثر دلوں میں پیدا ہوتا ہے۔تو گزارش یہ ہے کہ ہم جو آج امت کی رہنمائی میں کامیاب نہیں ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمارا اللہ تبارک و تعالیٰ کے ساتھ تعلق درست نہیں ہے۔
ہمارا اللہ تعالیٰ کے ساتھ ایک تو وہ تعلق ہے کہ اس نے ہمیں پیدا کیا، وہ ہمارا خالق ہے، ہم اس کی مخلوق ہیں، اللہ تبارک و تعالیٰ نے ہمیں یہ سارے اعضا و جوارح عطا کیے ہیں، یہ اس کا ہم پر احسان ہے اور اس طرح ہم اس کے ممنون کرم ہیں، یہ آنکھیں ، سننے اور سوچنے سمجھنے کی صلاحیت اُسی کی عطا کردہ ہے، لہذا تعلق تو ہمارا اس سے ہے، لیکن کامیابی کے لیے یہ تعلق کافی نہیں جب تک عملاً ان نعمتوں کا اعتراف نہ ہو اور ہمارا عملاً جھکاؤ اللہ کی طرف نہ ہو۔
”الانسان عبد الاحسان“
انسان کی طبیعت میں ہے کہ وہ محسن کا غلام بن جاتا ہے تو محسن کا اس کو تابعدار ہونا چاہیے، ہم تو تابعدار نہیں ہیں ہمارے پاس کیا ہورہا ہے کہ کتاب پر بے شک محنت ہورہی ہے، لیکن اس سے کام بنتا نہیں ہے، جب تک تعلق کو درست نہ کیاجائے۔
اخلاص و للّٰہیت کے بغیر علم بے فائدہ ہے
آپ نے سنا ہوگا، مشہور واقعہ ہے کہ ابلیس ملائکہ کا استاد تھا تو علم میں ان سے بڑا تھا! لیکن اللہ تبارک و تعالیٰ کے ساتھ اس نے اپنا تعلق درست نہیں رکھا اور حکم کی خلاف ورزی کی اور غلط دلیل پر اڑگیا ، نتیجہ کیا ہوا؟ راندہٴ درگاہ ہوا، اس کے نفس نے اس کو بہکایا اور اللہ سے دور ہوگیا۔
آج اگر ہم کتاب پر محنت کرتے ہیں اور سبق میں لمبی لمبی تقریر کرتے ہیں اور اپنے علوم کی دھاک بٹھا تے ہیں تو یہ چیزیں یہیں ختم ہو جائیں گی، آگے آخرت کی طرف کچھ بھی نہیں جائے گا، اس لیے کہ اللہ کی رضا تو مطلوب و مقصود نہ ہوئی، اپناسکہ لوگوں کے دلوں پر بٹھانے کے لیے موشگافیاں کر رہے ہیں اور محنت میں لگے ہوئے ہیں اور اللہ کی رضا کو تو ہم نے پس پشت ڈال دیا تو ہماری تباہی تو یہیں سے شروع ہوجاتی ہے، اس میں برکات شامل نہیں رہتیں۔
کما ل علمی مقبولیت عند الله کی دلیل نہیں
ہمیشہ یاد رکھو کہ کوئی آدمی اگر علم میں نمایاں مقام حاصل کر لے تو اس کو آپ یہ تو کہہ سکتے ہیں کہ وہ کمالِ علمی کا حامل ہے لیکن یہ نہیں کہہ سکتے کہ وہ اللہ کے ہاں مقبول بھی ہے، علم میں دسترس حاصل کر لینا الگ چیز ہے، ظاہر ہے کہ ایک آدمی محنت کرے گا،راتوں کو جاگے گا، بہت سی کتابیں پڑھے گا تو اس کے علم میں تو اضافہ ہوگا یقیناً ہوگا اور علم کا کمال اس کو حاصل ہوگا لیکن یہ ضروری نہیں ہے کہ وہ علم کے کمال کے ساتھ ساتھ مقبول بارگاہ بھی ہو، نہ یہ قرآن میں ہے اور نہ حدیث میں کہ جو اکمل ہے وہ افضل بھی ہے اور بالکل ممکن ہے کہ کسی کو علم کے اعتبار سے کوئی کمال حاصل نہ ہو لیکن یہ کہ وہ مقبول عند الله ہو کر اس علم والے آدمی سے افضل ہو، جیسا کہ پہلے عرض کیا کہ صحابہ کرام اُمّی تھے، لیکن یہ کہ اللہ تعالیٰ ان سے راضی ہوگئے اور جگہ جگہ قرآن کریم میں ان کی تعریفیں ذکر فرمائیں اور نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے بھی ان کو نمونہ کا انسان قرار دے کر امت کی راہنمائی کے لئے تجویز کیا تو کمال علمی فضیلت کو مستلزم نہیں ہے، وہ ایک علیحدہ چیز ہے، کما ل علم کے لیے ایمان کی بھی شرط نہیں، وہ کافر بھی حاصل کرسکتا ہے تو جو آدمی ایمان اور احکام شرع کو اپنے اوپر لازم قرار دے گا اور اللہ تبارک و تعالیٰ کے ساتھ اس کا تعلق صحیح ہوگا، وہ اللہ کے ہاں مقبول قرار پائے گا، اس کا علم نافع ہوگا۔
طلباء میں آج استعداد کا فقدان نہیں لیکن ……؟
میرے ایک دوست نے فرمایا کہ : یہ بات سمجھ میں نہیں آتی کہ ہمارے اسلاف کے جو کارنامے اور خدمات ہیں آج ان کا کہیں پتہ نہیں، ہم ان کے نام لیوا ہیں، ان سے نسبت رکھتے ہیں اور اس کے باوجود انحطاط خوفناک نظر آرہا ہے ۔ یہ ایسی بات ہے کہ اس کی طرف ہمیں توجہ کرنی چاہیے، تو میں نے ان کی بات میں غور کیا اور غور کرنے کے بعد میری سمجھ میں یہ آیا کہ اگر یہ سمجھا جائے کہ آج استعداد کا فقدان ہے تو یہ بات غلط ہے، بہت ذی استعداد لوگ موجود ہیں اور اس کی دلیل یہ ہے کہ آج جتنی نئی کتابیں ہمارے طبقہ کے لوگ لکھ رہے ہیں پہلے اتنی نہیں لکھی جاتی تھیں اور آج کے لوگ جتنے اعلیٰ اور عمدہ قسم کے مقالے لکھ رہے ہیں اور اس میں ایم فل یا دکتورہ کر رہے ہیں یہ پہلے نہیں تھے۔
آپ کو تعجب ہوگا کہ ایک عالم ہیں وہ کہنے لگے کہ میں نے پی ، ایچ ، ڈی کے مقالے کے لیے استحسان ، کو تجویز کیا، وہ کہہ رہے تھے کہ باسٹھ (62) کتابیں میرے زیر مطالعہ ہیں، جن سے میں استفادہ کر کے مقالہ لکھوں گا۔ استحسان کی فقہی اصطلاح آپ جانتے ہیں، کتنا مشکل موضوع ہے، چنانچہ وہ عالم کہتے ہیں کہ میں نے وہ مقالہ تحریر کیا اورڈگری لی۔
ایک عالم نے قرآن مجید میں موجود وقف پر مقالہ لکھا اور پی، ایچ، ڈی کی ڈگری حاصل کی، دوسرے ایک طالب علم ہیں انہوں نے شکاگو یونیورسٹی میں حضرت سعد بن ابی وقاص رضی الله تعالیٰ عنہ کی وہ روایت جس میں حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم سے اپنے پورے مال کی وصیت کی اجازت مانگی اورعرض کیا کہ میں قریب المرگ ہوں اور آپ صلی ا لله علیہ وسلم نے ثلث مال میں وصیت کی اجازت دی۔ پر انگریزی میں مقالہ لکھا اور دکتورہ کی سند حاصل کی تو علمی استعداد میں کوئی کمی نہیں اور نہ معلوم کتنے علماء ہیں کہ وہ دینی علمی عنوانات پر تحقیقی مضامین لکھ رہے ہیں۔
ریسرچ (تحقیق ) بھی بہت ہے اور اس کے دروازے بھی کھلے ہیں اور کتابیں بھی بہت شائع ہورہی ہیں، مقالے بھی بہت لکھے جارہے ہیں ، مدارس کے نصاب بھی پہلے کی بنسبت مضبوط بنائے گئے ہیں، آپ کو تعجب ہوگا کہ دیوبند میں پچاس ، ساٹھ سال قبل موقوف علیہ میں نور الانوار داخل تھی نہ حسامی پڑھنا ضروری تھا نہ توضیح و تلویح ،ادب میں مقامات متنبی ضروری تھی، نہ دیوان حماسہ، فقہ میں نہ ھدایہ ثالث تھی نہ ھدایہ رابع، تفسیر میں جلالین کے علاوہ نہ بیضاوی داخل تھی نہ ابن کثیر اور ہمارے بہت سارے ساتھی جو اس مختصر کورس میں ھدایہ اولین میں ہمارے ساتھ تھے ہم سے دو سال پہلے فارغ ہوگئے، انہوں نے وہی مختصر کورس پورا کیا اور دورہٴ حدیث میں پہنچ گئے، ہم نے چونکہ اِدہر اُدہرکی دوسری کتابیں پڑھنے کا بھی اہتمام کیا تھا، اس لیے ہم بعد میں دورہ میں پہنچے، آج سے پچاس ساٹھ سال پہلے موقوف علیہ دوسرا تھا۔
انحطاط کی وجہ
اب سوچنا یہ ہے کہ یہ انحطاط آخر کیوں ہے؟ تو میرے ذہن میں جو ایک وجہ آئی کہ ”ہمارے اندر دیانت کا نام و نشان باقی نہیں“ والله اعلم کہ ہمارے اندر ایمان بہت کمزور ہے کہ جس کو جہاں موقع ملتا ہے وہ ہاتھ کی صفائی دکھائے بغیر نہیں رہتا اور خیانت کا مرتکب ہوتا ہے ”الا من حفظہ الله وما شاء الله “۔ اسی طرح عقیدہ ٴ آخرت کا ضعیف ہونا بھی اس کے ساتھ شامل ہے، ہمارے اندر للّٰہیت بھی باقی نہ رہی، خلوص کا فقدان ہے، ہر دم پیسے کے پیچھے دوڑے چلے جارہے ہیں، پیسہ نہیں تو کچھ نہیں، ہم اللہ کے لیے کام کرنے کے قائل نہیں، یہ سارے اسباب تو موجود ہیں ہی، اصلاح نفس سے بھی لوگ متوحش ہیں، اگر آپ کسی سے کہیں گے کہ اپنے نفس کی اصلاح کریں تو وہ کہیں گے کہ بھئی! یہ نفس کی اصلاح کیا ہوتی ہے؟ اُسے کہا جائے کہ نفس کی اصلاح یہ ہوتی ہے کہ آپ تواضع اور عاجزی اختیار کریں، خلوص وللّہیت کو اپنائیں، فخر وغروراور انانیت کے خول سے نکلیں ، حسد اور بغض کی بیماری سے نجات حاصل کریں، آپ میں غیبت کا جو چسکہ موجود ہے جو آپ کو بہت ہی مرغوب اور محبوب ہے، اس سے آپ نکلنے کی کوشش کریں، یہی بات جب آپ کریں گے تو یہی طلباء اور اساتذہ آپ کا مذاق اڑانے لگیں گے ۔اوہو! معلوم ہوتا ہے حضرت صوفی بن گئے، صوفی بننے کی بھپتی کَسی جائے گی اور ایک ساتھ رہنا ان ”صالحین“ کے ساتھ مشکل ہوجائے گا، یہ عام روش ہے،ایسے ماحول میں اگر کوئی محفوظ رہتا ہے تو وہ بہت بڑا مجاہد ہے۔
برے ماحول سے نہ گھبرائیں
جو لوگ اس مجاہدے میں مبتلا ہیں اور لوگ ان کو پریشان کرتے ہیں، ان سے میں عرض کروں گا کہ وہ قطعاً اس کی پروا نہ کریں، خوش اخلاقی کا مظاہرہ کریں، چڑ نہ جائیں ، جھنجلاہٹ میں مبتلا نہ ہوں، محبت اور پیار سے ان کو اپنی بات بتائیں اور روز، روز بتانے کی ضرورت نہیں ہے، ان مجالس سے جن میں یہ گناہ ہوتے ہیں اپنے آپ کو بالکل علیحدہ کر لیں، اس سے فائدہ یہ ہوگا کہ آپ کے ساتھیوں کی اصلاح ہوجائے گی اور آپ کو کوئی نقصان نہیں ہوگا، آپ نے اگر ان کو بار بار سمجھانے کی کوشش کی تو بحث ہوگی اور جب بحث ہوگی تو آپ خود پٹڑی سے اتر جائیں گے اور یہ بہت خطرناک بات ہے، ان کی زبان سے بھی پتہ نہیں کیسے خطرناک اور نازیبا الفاظ نکلیں گے، وہ اور زیادہ گناہ گار ہوں گے ، سبب آپ بنیں گے، لہٰذا بحث نہ کریں، محبت ، پیار کے ساتھ اپنا موقف ان کو بتلادیں اور اس کے بعد اپنے کام میں لگ جائیں اور خود منکرات میں شریک نہ ہوں، ان کو حقیر مت سمجھیں، اس لیے کہ عالم ہونے کی وجہ سے وہ پھر بھی کارآمد ہیں، قرآن و حدیث کے علوم ان کے پاس ہیں اور یقیناً وہ علوم کسی نہ کسی وقت ان کی راہنمائی کریں گے اور یقیناً انہیں کسی وقت راہ راست پر لائیں گے، فی الحال اگر وہ عمل سے محروم ہیں تو بہت بڑی گمراہی میں پڑے ہوئے ہیں، لیکن بالکل بے کار بھی نہیں کہ آپ انہیں حقارت کی نگاہ سے دیکھیں، دوسروں کو وہ صحیح مسئلہ بتائیں گے اور وہ عمل کریں گے تو فائدہ ضرور حاصل ہوگا اور ہمارے علماء کی یہ خوبی ہے کہ چاہے خود عامل ہوں یا نہ ہوں، لیکن دوسروں کو جب بتائیں گے تو صحیح، صحیح مسئلہ بیان کریں گے اور خدا نخواستہ آپ نے انہیں حقیر سمجھا تو آپ متکبر بن گئے، فائدہ کیا ہوا؟ دوسروں کی وجہ سے آپ خود ایک بہت بڑے رذیلے کا شکار ہوگئے، یہ تو کوئی دانشمندی نہیں ہے، اصلاح نفس اور رذائل سے خلاصی یہ مشکل کام ہے، لیکن کسی رہبر یا رہنما کے مشورے پر چلنے سے آسان ہوجاتا ہے ، بعض لوگ مادر زاد ولی ہوتے ہیں، میں ان کا انکار نہیں کرتا، لیکن ان کی نسبت آٹے میں نمک کے برابر بھی نہیں، ایسے لوگ بہت کم ہوتے ہیں، ورنہ ہر ایک کے ساتھ نفس لگا ہوا ہے اور نفس کو قابو کرنا بڑا مشکل کام ہے۔
عمل میں تاخیر نہ کیجیے
تو اس لیے عزیزو اور دوستو ! آپ سے نہایت ہی درد مندی کے ساتھ یہ گزارش ہے کہ اپنا وقت قیمتی بناؤ، آپ ساری دنیا کے نقشوں کو لات مار کر قرآن و حدیث کے علوم کو حاصل کرنے کے لیے آئے ہیں تو ہم چاہتے ہیں کہ آپ کا علم آپ کے لیے بھی نافع ہو اور خلق خدا کے لیے بھی نافع ہو، آپ دعا بھی کرتے رہیں :
”اللہم انی اسئلک علماً نافعا وعملاً متقبّلاً“ ․
”اے اللہ تعالی ٰ! میں آپ سے سوال کرتا ہوں نفع بخش علم کا اور مقبول عمل کا۔“
آپ اگر اپنی بساط اور استطاعت کے مطابق حق ادا کرنے والے ہوں تو آپ جیسے خوش نصیبوں پر ملائکہ بھی فخر کرتے ہیں اور یہ جو ہمیں سمجھا رکھا ہے شیطان نے کہ ارے! ابھی تو ہم طالب علم ہیں، دیکھا جائے گا بعد میں ، یہ شیطان کا بڑا حربہ ہے، طالبعلم تو اپنے آپ کو آزاد سمجھتا ہے نااور اس آزادی کے نتیجے میں ہم نے اپنی زندگی تباہ کی ہے، جب کوئی چیز آپ کے علم میں آتی ہے اور آپ اس پر عمل پیرا ہوتے ہیں تو اس کی شان کچھ اور ہوتی ہے اور جب کسی چیز کو پڑھ لینے کے بعد یہ کہہ کر نظر انداز کر دیتے ہیں کہ اگلی زندگی میں جب ہم فارغ التحصیل ہو جائیں گے تو پھر عمل کریں گے تو اس چیز کی وقعت پھر دل میں نہیں رہتی ، دل میں آئی اور عمل کیا تو وہ چیز پختہ ہوجاتی ہے، وہ چیز آپ کے ذہن میں راسخ ہوجائے گی اور اس کی قدر و قیمت ہمیشہ آپ کو یاد رہے گی۔
میں چھوٹا سا تھا اور اتنا چھوٹا کہ بہت ساری باتیں میری سمجھ سے باہر تھیں، اس وقت بعض چیزیں میرے علم میں آئیں اور آج میں بوڑھا ہوگیا ہوں، لیکن ان باتوں پر مسلسل میرا عمل جاری ہے اس لیے کہ میرے علم میں جب آئیں تھیں جب سے میں نے اس پر عمل کرنا شروع کردیا تھا اور بہت سی چیزیں ایسی بھی ہیں جن کے بارے میں ہم نے کہا کہ آگے دیکھیں گے، لیکن آج تک عمل کی توفیق نہیں ہے، انانیت اور فخر و غرور میں ہم مبتلا ہیں، تواضع ہمارے اندر نہیں، جس سے بات کرتے ہیں ڈانٹ کر کرتے ہیں، بُری عادت ہے، بعض اوقات جب وہ ڈانٹ بے موقع ہوتی ہے تو شرم بھی آتی ہے، افسوس بھی ہوتا ہے ، لیکن یہ کہ ہم نے اپنے اندر تواضع پیدا کرنے کی شروع سے کوشش نہیں کی، کچھ ماحول کا بھی ہمارے اوپر اثر تھا، ہماری بستی پٹھانوں کی مشہور قسم آفریدیوں کی بستی تھی، وہاں جو لوگ رہتے تھے ان پر یہ پٹھان بڑے ظلم کرتے تھے … ایک آدمی کو صبح کان پکڑوادیتے ، سخت گرمی کا موسم ! اس کا پسینہ ٹپک رہا ہے، اور زمین بھیگ رہی ہے اور اس خان کو ذرا رحم نہیں آتا، اس طرح کی بے شمار باتیں ہمارے اس معاشرے کی رو زمرہ کی چیزیں تھیں، ان کو دیکھ دیکھ کر ہم جوان ہوئے، ہمارا بھی دماغ خراب ہوگیا، بات جب بھی کرتے ہیں تو اکڑ کر ہی کرتے ہیں، عاجزی اور انکساری ہے ہی نہیں تو یہ ہماری بری عادت ہے، ہم اس کا اعتراف کرتے ہیں، آپ اپنے اندر یہ بات پیدا نہ کریں، عاجزی پیدا کریں، تواضع پیدا کریں، میں آپ کو یہ کہہ رہا تھا کہ جس چیز کا علم آپ کو آج ہوا ہے آج ہی سے آپ اس پرعمل شروع کریں۔ انشاء الله آپ کی زندگی کے ساتھ وہ بندھ جائے گی اور اگر آپ نے کہا کہ بعد میں کریں گے تو پھر عمل کبھی نہیں ہوگا اللہ تعالیٰ ہمیں عمل کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین 
واٰخر دعوانا ان الحمد لله رب العالمین․
وصلی الله تعالی علی سیدنا ومولانا محمد
وعلی آلہ وصحبہ اجمعین․

Flag Counter