Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق کراچی رجب المرجب 1431ھ

ہ رسالہ

18 - 18
***
درس قرآن کے اصول وآداب
محترم عبدالوحید پشاوری
عوام الناس میں خدمت دین کا بہترین اور مؤثر ذریعہ ”درس قرآن“ ہے اور اس کے مؤثر ہونے کی وجہ یہ ہے کہ خود الله تعالیٰ نے جب لوگوں کو دین کی طرف بلانا چاہا تو قرآن کو ذریعہ بنایا۔ قرآن پاک ایسی کتاب ہے جو بلا ترجمہ وتفسیر بھی زندگی کا رخ موڑنے کے لیے کافی ہے۔
دین پھیلانے والے اداروں کی موجودہ صورت کا قیام ماضی قریب میں ہوا ، اس سے پہلے ”درس قرآن“ ہی کو عام طور پر اشاعت دین کا ذریعہ بنایا جاتا تھا۔ اب کچھ عرصہ سے درس قرآن کی محفلوں کی رونق غائب ہوتی جارہی ہے اور قرآن کا صحیح فہم رکھنے والے ائمہ مساجد اور علماء دوسرے علمی مشاغل میں لگے تو یہ میدان خالی رہ گیا ۔ میدان کو خالی پاکر دو طبقے بر سر عام آئے، ایک وہ طبقہ جس نے ”درس قرآن برائے درس قرآن“ کو اپنااوڑھنا بچھونا بنایا اور اشاعت دین اور اصلاح معاشرہ کی بجائے امت کو افتراق وانتشار سے دو چار کیا اور کوئی خاطرخواہ ثمر، نتیجہ اور آؤٹ پٹ (Out Put) سامنے نہیں آیا۔
دوسرا وہ طبقہ ہے جو خالص انگریزی ماحول میں پلے بڑھے ، جن کو کبھی عربی زبان وادب سے واسطہ نہیں پڑا، انہوں نے اردو تفاسیر سے ترجمہ دیکھ کر فہم قرآن کے نام سے عوام الناس میں اپنا مشن ونظریہ پھیلانا شروع کر دیا۔ اس مقصد کیعملی صورت کے لیے وہ کرایہ کے مکانات لے لے کر ، ان میں لاؤڈ اسپیکر کرسیاں وغیرہ مہیا کرکے اور لوگوں کو جمع کرنے کے لیے اشتہارات چھپوا کر لاکھوں روپے خرچ کر لیتے ہیں۔ لیکن اس وقت بہت افسوس ہوتا ہے کہ ہمارے علماء اور ائمہ مساجد کے پاس ہر سہولت موجود ہے، جگہ موجود ہے، منبر ومحراب موجود ہیں، لاؤڈ اسپیکر کا بندوبست ہے ، زمین پر کارپٹ لگا ہوا ہے ، لوگ دن میں پانچ مرتبہ خود بخود حاضر ہو جاتے ہیں ، ان کو بلانے کے لیے اعلان نہیں کرنا پڑتا، اشتہارات نہیں چھپوانے پڑتے ، سب کچھ بدرجہ اتم موجود ہیں، لیکن اگر نہیں ہے تو امام وخطیب صاحب کے دل میں درد نہیں ہے ، کڑھن نہیں ہے، جو اس کو اس بات پر مجبور کرے کہ لوگوں کی اصلاح کی فکر کرے، معاشرہ بدترین برائیوں کا شکار ہے، یہ بحیثیت لوگوں کے امام کے اپنا کچھ کردار ادا کرے اور لوگوں کو اس فتنہ وفساد کے دور میں صراط مستقیم پر چلائے ، جو معاشرہ کے لوگوں کا بنیادی حق ہے او راگر کوئی نام نہاد درس ( قرآن) شروع بھی کرے تو ذمے داری سمجھنے کے بجائے، بوجھ سمجھ کر جان چھڑاتا ہے، ظاہر ہے ایسی حالت میں درس قرآن کی محفلیں کب بارونق ہو سکتی ہیں اور جدید مسائل سے دو چار انسانوں کے مسائل کب حل ہو سکتے ہیں اور ان کی پیاس کب بجھ سکتی ہے۔
اس لیے ائمہ مساجد اور علمائے کرام کے سامنے دست بستہ عاجزانہ درخواست کرتے ہیں کہ وہ درس قرآن کو اصول اور آداب سے سر انجام دے کر اصلاح معاشرہ، اشاعت دین او رمسائل حاضرہ کے حل کا ذریعہ بنائیں ذیل میں درس قرآن سے متعلق چند اصول وآداب ذکر کیے جاتے ہیں۔
*…درس قرآن دینے والے کو اول اپنی نیت درست کرنی چاہیے کہ اس کے دل میں یہ درد ہو ، کڑھن ہو، بے چینی ہو کہ میں نے لوگوں کو کچھ دینا ہے او ران کو برے انجام سے بچانا ہے ۔ اس مقصد کے لیے اس کا دل ایسا بے چین ہو کہ ﴿لعلک باخع نفسک ان لا یکونوا مؤمنین﴾ والی حالت ہو۔
* …درس قرآن کو ایک اہم کام سمجھ کر اس کے لیے مستقل وقت نکالنا ہوتا ہے ۔ اگر دل میں کام کی اہمیت ہو تو وقت خود بخود نکل آئے گا۔
* …درس دینے میں پابندی کرنا بہت ضروری ہے، سامنے بیٹھنے والوں کی تعداد پر نظر نہ ہو ، کام کی اہمیت پر نظر ہو۔
* …درس قرآن کا مقصد صرف اور صرف لوگوں کی خیر خواہی ہونی چاہیے، دل میں کسی سے کسی قسم کا کوئی لالچ اور غرض پوشیدہ نہ ہو ۔ ورنہ یہ بات حق بات کے پہنچانے میں رکاوٹ بنے گی۔
* …درس میں بیٹھنے والے لوگوں کی عقیدت او راعتماد حاصل کیا جائے ، اس کے لیے ضروری ہے کہ دل میں خالص ان کی صلاح کی فکر ہو ۔
* … مستقل سامعین کے لیے درس شروع سے رکھا جائے اور غیر مستقل سامعین کے لیے منتخبات رکھے جائے اور کسی ایک موضوع سے متعلق ساری آیات بیان کی جائیں اور مرکزی موضوع کو مدنظر رکھا جائے۔
* … زبان وبیان میں انتہائی سادگی سے کام لیا جائے ،ثقیل اورمشکل الفاظ کے استعمال سے اجتناب اور گریز کیا جائے، خالص آسان زبان استعمال کی جائے، لیکن عامیانہ پن سے بچاجائے۔
* … اردو زبان میں عربی اور فارسی کے الفاظ بکثرت استعمال ہوئے ہیں، لیکن آج کل فارسی کی جگہ انگریزی نے لے لی ہے ۔ اگر انگریزی الفاظ استعمال کرنے ہوں تو اس کے لیے یہ بات ضروری ہے کہ استعمال ہونے والے الفاظ کے معنی ومفہوم اور پس منظر سے مکمل واقفیت ہو ، ورنہ ہر گز استعمال نہ کرے۔
* … کسی علمی بات کو سامع تک پہنچانے کے لیے آسان سے آسان الفاظ کا انتخاب کرے تاکہ سامع کا ذہن اس کو قبول کرنے پر جلد آمادہ ہو۔
* … قرآنی آیات کو ان کے شان نزول کے ساتھ محدود نہ کیا جائے ۔ قرآن پاک زندہ وجاوید کتاب ہے ، ہر زمانہ کے لیے یکساں طور پر بھیجا گیا ہے ۔ آج کل ہوتا یہ ہے کہ آیات کو ان کے شان نزول کے ساتھ باندھ دیا جاتا ہے، جن کی وجہ سے موجودہ زمانہ اور بعد میں رونما ہونے والے واقعات کے ساتھ ان کی تطبیق کا کوئی سوچ بھی نہیں سکتا اور لاشعوری طور پر سامعین کا ذہن یہ بنتا جاتا ہے کہ الله نے عرب کے ایک معاشرے پر صرف تبصرہ کیا ہے، اس سے آگے ان کے ذھنوں میں کیا بات آسکتی ہے،جب خود درس دینے والے کے ذہن میں کچھ نہیں ہو۔
* … عام طور پر زیر درس آیات کا ماقبل آیات سے ربط بیان کیا جاتا ہے، پھر ربط کبھی ظاہر ہوتا ہے کبھی خفی، کبھی ضعیف ہوتا ہے کبھی قوی، یہ علمی بحثیں ہیں، ان کا تعلق علماء سے ہے ، عوام کے سامنے ان بحثوں کے بیان کرنے کی چنداں ضرورت نہیں۔
* … قرآنی آیات عصری تطبیق کے ساتھ پیش کی جائیں، مثلاً اصحاب بدر کے بارے میں نازل ہونے والی آیات کا ہماری زندگیوں سے کیا تعلق ہے اور موجودہ زمانہ کے لیے ان سے ہمیں کیا رہنمائی ملتی ہے۔
* … آیات کی عصری تطبیق پر قادر نہ ہونا او رموجودہ حالات پر آیات قرآنی کی روشنی میں تبصرہ نہ کر پانا،عقل کے ناقص ہونے کی علامت ہے ۔
* … آیات کی عصری تطبیق کے لیے خارجی مطالعہ کرنا بہت ضروری ہے ۔ معیاری مواد، معتبر جرائدو اور رسائل اور مستند محققین او رمصنفین کی کتابیں زیر مطالعہ ہونی چاہئیں۔
* … درس دینے والے کو اپ ڈیٹ رہنا چاہیے۔ بلااستثنا کے ہر کتاب کا مطالعہ کرنا چاہیے اور مختلف موضاعات کو زیرفکر رکھنا چاہیے۔
* …دینی علوم کے ساتھ عصری علوم میں بھی مہارت ہو ۔ سامعین کو بوریت سے بچانے کے لیے سیرت وتاریخ اور ” سائنس وقرآن“ پر لکھی گئی کتابیں مطالعہ میں رکھنا ضروری ہے۔
* … درس کے لیے جتنا مطالعہ کیا ہے سب کو بیک وقت سنانا ٹھیک نہیں ہے، بلکہ موقع کا انتظار کرنا چاہیے۔
* …درس کے بعد سوالات کا موقع دینا چاہیے، اگر اپنے اوپر اعتماد نہ ہو تو شروع میں یہ وقفہ کم رکھاجائے اور سامعین کے سا منے یہ وضاحت کی جائے کہ سوالات کا یہ وقفہ آہستہ آہستہ بڑھائیں گے۔
* … یومیہ درس کے لیے تین گنازیادہ مطالعہ کرنا چاہیے ، مطالعہ کا ایک ثلث بیان کرنے کے لیے ، دوسرا ثلث سوالات کے جوابات دینے کے لیے اور تیسرا اور آخری ثلث متوقع سوالات کی نیت سے کرنا چاہیے۔
* … عام طور پر سامعین کے ذہنوں پر مختلف نظریات سوار ہوتے ہیں ، کچھ باتیں انہوں نے میڈیا سے سنی ہوتی ہیں ، کچھ باتیں گمراہ اور بدعتی لوگوں سے سنی ہوتی ہیں او رکچھ باتیں درس میں سنی ہیں تو جو باتیں یہاں درس میں سنتے ہیں ان میں اتنی طاقت ہونی چاہیے جو ان کے ذہنوں سے باقی سارے نظریات مٹا سکے اور یہ مقصد اس وقت حاصل ہوگا جب درس دینے والے کی تیاری پہلے سے اتم اور اکمل ہو۔
* … متعلقہ کتابوں کے علاوہ جدیدکتابوں کا اپنا ایک منتخب مطالعہ بھی ہونا چاہیے او ر اس سے قبل اس پر ایک نظر ڈال لی جائے ہو سکتا ہے اس میں کسی سوال کا جواب نظر سے گزر جائے۔
* … ہر مرتبہ درس دینے سے پہلے او ربعد میں سامعین کے اندر اعمال اور عقائد کے لحاظ سے تبدیلی آنی چاہیے۔
* … سامعین کی دلچسپی بڑھانے کے لیے سارے اوقات مشغول رکھے جائیں ، روزانہ درس دینے کے علاوہ ہفتہ وار ، ماہانہ اور سالانہ اجتماعات منعقد کیے جائیں۔
* … ہر عمر کے افراد کے لیے الگ الگ اجتماعات منعقد کیے جائیں۔ مثلاً نوجوانوں کے لیے علیحدہ، بوڑھوں کے لیے علیحدہ، بچوں کے لیے علیٰحدہ اور خواتین کے لیے علیٰحدہ پروگرام رکھے جائیں۔
* … بنیادی طور پر ہمارا فرض منصبی یہ ہونا چاہیے کہ لوگوں کو ہر حال میں باطل نظریات سے بچانا ہے اور ان کو حق اور اہل حق کے ساتھ وابستہ کرنا ہے۔
* … عموماً وسائل کی کمی کا رونا رویا جاتا ہے ، لیکن اگر دل میں تڑپ ہو ، درد ہو ، کڑھن ہو ، راتوں کو الله سے مانگنا آتا ہو تو پھر مقاصد وسائل خود پیدا کرتے ہیں اور عزائم راستے خود ڈھونڈتے ہیں۔
مندرجہ بالا اصول وآداب بروئے کار لاتے ہوئے، اگر درس قرآن دیا جائے تو بہت ہی کار آمد ثابت ہوتا ہے، اگرچہ یہ تھوڑا پر مشقت کام ہے، لیکن اس کے صلہ میں جوتسخیر حاصل ہوگی اس پر پوری دنیا کو قربان کرنے کو جی چاہے گا، دلوں کے لگام ہاتھ میں آجائیں گے ، پھر اس بات کا امکان سرے سے ختم ہو جائے گا کہ کوئی شخص حلقہٴ درس سے نکل کر غیروں کے پاس چلا جائے ، الله تعالیٰ ہم سب کا حامی وناصر ہو۔

Flag Counter