Deobandi Books

ماہنامہ البینات کراچی ربیع الثانی ۱۴۳۳ھ - مارچ۲۰١۲ء

ہ رسالہ

6 - 8
سرسیّد کی تفسیر کا علمی جائزہ
سرسیّد کی تفسیر کا علمی جائزہ

سرسیّد احمد خان ۱۱؍اکتوبر ۱۸۱۷ء کو دہلی کے ایک سادات خاندان میں پیدا ہوئے،جو شاہجہاں کے عہد میں ہرات سے ہندوستان آکر بساتھا اور سلاطین مغلیہ کے تحت کئی مناصب پر فائز رہا۔ سرسیدکی ابتدائی تعلیم والدہ کی زیرنگرانی قدیم طرزپر ہوئی،
دینی تعلیم کے لئے شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ؒ کے پوتے شاہ مخصوص اللہ اور مولانا مملوک علی نانوتویؒ سے زانوئے تلمّذ طے (تہہ)کئے ، لیکن یہ سلسلہ متوسط کتابوں سے آگے نہ بڑھ سکا۔ ۲۲سال کی عمر میں تھے کہ والدمحترم سیدمتقی داغِ مفارقت دے گئے۔ سیدصاحب کسبِ معاش کے سلسلے میں اپنے خالوخلیل اللہ خان سے صدرامین دہلی میں عدالت کاکام سیکھ کر ملازم ہوگئے ، پھر کچھ عرصہ کمشنرآگرہ کے دفترمیں نائب منشی کی کرسی پربراجمان رہے،اسی دوران مختاری کاامتحان دے کر دسمبر ۱۸۴۱ء منصفی کاچارج سنبھال لیا،یوں درجہ بدرجہ ترقی کے منازل طے کرتے ہوئے عدالت میں جج کے عہدے پرفائزہوگئے۔
حکومت برطانیہ کے نمک حلال رہے،ان کی ہر ادا پردل وجان سے فدا تھے، جب ۱۸۵۷ء میں’’جہادِحریت‘‘کامعرکہ گرم ہواتوسرسیدنے اپنے انگریز محسنوں کی جان ومال اور اقتدارکے تحفظ کے لئے ہراول دستے کاکردار ادا کیااور مقدس جہادکوبغاوت کانام دے کرمجاہدینِ اسلام کی کردارکشی کافریضہ بڑی تندہی سے انجام دیا۔ حکومت برطانیہ نے حسنِ خدمت کے صلے میں sir،hb(شاہی مشیر)اورkc(ہندوستان میں امن کاجج)کے خطابات دینے کے علاوہ دوپشتوں تک دوسوماہانہ شاہی وظیفہ جاری کردیا۔سرکاری ملازمت سے فارغ ہونے کے بعدزندگی کی تمام توانائیاں علی گڑھ یونیورسٹی کی ترقی کے لئے وقف کردیں۔عمرکے آخری حصہ میں ان کے روشن خیال صاحبزادے سیدمحمودجوشراب کے رسیاتھے،انہیں گھرسے باہرنکال دیا،بالآخر ایک دوست کے ہاں پناہ لی اوراسی کے گھرسے ۲۸مارچ ۱۸۹۸ء کوان کاجنازہ نکلا۔
’’تفسیرالقرآن‘‘ لکھنے کاپسِ منظر:
سرسیدصاحب نے جس مسلمان معاشرے میںآنکھیں کھولیں،وہاں سیاسی اوراخلاقی انحطاط کے پہلوبہ پہلوعقل پرستی کی موجیںآب وتاب کے ساتھ رواں تھیں،مغرب کافلسفۂ عقل دینی عقائداور الٰہیات میں دخیل ہوکرمسلمانوں کے نظریات پربراہِ راست حملہ آورتھا،اس نازک صورتحال سے نکلنے کے دوراستے تھے:
۱۔۔۔:ایک یہ کہ عقلی مکرکوچیلنج کیا جائے،کیونکہ وہ انتہائی کمزوربنیادوں پرقائم ہے،اس کا دائرہ کارحواسِ خمسہ اور تجربات تک محدودہے،اسے کسی طرح وحی میں دخل اندازی کرنے کا حق نہیں پہنچتا۔
۲۔۔۔:دوسرایہ کہ ان عقل پرستانہ افکارونظریات کوجوں کاتوں اپناکردینی عقائدکے پورے ڈھانچے کوتوڑموڑکراس پیمانے میں ڈھال لیاجائے۔
سرسیدنے معتزلہ کی روش اختیارکرتے ہوئے اسی دوسرے راستے کا انتخاب کیا،چنانچہ ان کا دعوی تھا:
’’جس مجموعہ مسائل واحکام واعتقادات وغیرہ پرفی زمانہ اسلام کا لفظ اطلاق کیاجاتاہے،وہ یقیناًمغربی علوم(عقلیہ)کے مقابلے میں قائم نہیں رہ سکتا‘‘۔(۱)
مغربی علوم عقلیہ کے مقابلے میں اسلامی عقائدومسائل کوزندہ جاویدرکھنے کی کیاصورت ہے؟ اس کاحل تجویزکرتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’یاتوہم علوم جدیدہ کوباطل ثابت کریںیاپھرانہیں اسلام کے مطابق کرکے دکھائیں‘‘۔(۲)
موصوف دین اسلام کی بقااورامت مسلمہ کی طرف سے یہ بھاری فرض چکانے کے لئے اٹھے اوراس کی ابتداء قرآن کریم کی تفسیرسے کی،یہ تھاتفسیرکااصل محرک اور پسِ منظر۔لیکن صدافسوس!اس تفسیرمیں علوم جدیدہ کوتومشرف بہ اسلام نہ کرسکے،البتہ دینی عقائدومباحث کوتحریف وتاویل کے تمام زاویوں سے گزارکرعلوم عقلیہ کے مطابق کرنے کے تمام جوہردکھائے،اس لئے یہ کہنابجاہوگاکہ سرسیدصاحب کی مسلمان قوم سے ہمدردی اور غم خواری کی مثال بالکل اس بوڑھی خاتون کی طرح تھی، جس نے ایک بازکے بال وپراس جذبۂ ہمدردی میں تراش دیئے تھے کہ یہ اسے اذیت پہنچاتے ہوں گے ۔ تفسیرالقرآن کاعلمی جائزہ:
سرسیدصاحب کی تفسیر’’تفسیرالقرآن‘‘کانیاایڈیشن ۱۹۹۸ء کامطبوعہ ہمارے سامنے ہے،سولہ پاروں،سات حصوں،ایک ہزار تین سواٹھاسی صفحات پرمشتمل،ایک ضخیم جلدکی صورت میں لاہورکے معروف طباعتی ادارے’’دوست ایسوسی ایٹس‘‘نے شائع کیا ہے۔
ترجمہ کے متعلق مولاناعبدالحق حقانیؒ کی رائے یہ ہے کہ یہ شاہ عبدالقادرؒ کاترجمہ ہے جوذرا بدل کرلکھ دیاگیاہے(۳)۔سولہ پاروں کی اس تفسیرمیں دینی عقائدکے بیشترمباحث آگئے ہیں، احادیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم،آثارِصحابہ کرامؓکونظراندازکرکے تورات وانجیل کوان پرترجیح دی گئی ہے،کیونکہ ان کے بقول یہ کتابیں محرف شدہ نہیں ہیں،چنانچہ سورۂ فاتحہ کی تفسیرمیں لکھتے ہیں:
’’اگرچہ میں اس بات کاقائل نہیں ہوں کہ یہودیوں اورعیسائیوں نے اپنی کتب مقدسہ میں تحریف لفظی کی ہے اورنہ علمائے متقدمین ومحققین اس بات کے قائل تھے‘‘۔(۴)
شایداس طرزعمل کودیکھ کرسرسیدکے ایک پرانے رفیق نواب محسن الملک سیدمہدی علی خان نے انہیں’’چُھپاپادری‘‘قراردیا(۵)دعویٰ پردعویٰ باندھتے چلے جاتے ہیں،لیکن دلائل کی وادی میں اترنا پسندنہیں کرتے،کبھی رُخ ادھرمڑبھی جائے تولے دے کے تان اسی پہ آکے ٹوٹتی ہے کہ یہ خلافِ عقل ہے یاخلافِ فطرت۔ اپنے مطلب کی برآوری کے لئے صوفیاء کے شطحیات،مبہم عبارات ،ضعیف اقوال سے پوری طرح فائدہ اٹھاتے ہیں۔اسلوبِ بیان رواں،لیکن سنجیدگی غائب ہے۔علماء کوآڑے ہاتھوں لیا، جابجاان پرفقرے کسے،جنت کاتذکرہ کس تمسخرانہ اندازمیں کیاہے ،وہ بھی پڑھ لیجئے:
’’یہ سمجھناکہ جنت مثل ایک باغ پیداہوئی ہے،اس میں سنگِ مرمر کے اورموتی کے جڑاؤمحل ہیں،باغ میں شاداب وسرسبزدرخت ہیں، دودھ و شراب و شہدکی ندیاں بہہ رہی ہیں،ہرقسم کامیواہ کھانے کوموجودہے، ساقی و ساقنیں نہایت خوبصورت،چاندی کے کنگن پہنے ہوئے جوہمارے ہاں کی گھوسنیں پہنتی ہیں، شراب پلارہی ہیں،ایک جنتی ایک حورکے گلے میں ہاتھ ڈالے پڑاہے،ایک نے ران پرسردھراہے،ایک چھاتی سے لپٹ رہاہے، ایک نے لب جاں بخش کابوسہ لیا ہے،کوئی کسی کونہ میں کچھ کررہاہے،کوئی کسی کونہ میں کچھ، ایسابے ہودہ پن جس پر تعجب ہوتاہے،اگربہشت یہی ہے توبے مبالغہ ہمارے خرابات اس سے ہزاردرجہ بہترہیں‘‘۔(۶)
کسی بھی تفسیرکامنہج سمجھنے میں اس کے اصولِ تفسیرہی بنیادی اہمیت رکھتے ہیں،کیونکہ ہر مفسر انہیں بنیادوں پراپنے افکارونظریات کاشیش محل کھڑاکرتاہے،سرسیدنے بھی اہل سنت کے طریقِ تفسیرسے ہٹ کرپندرہ اصولوں پرمشتمل ایک رسالہ’’تحریرفی اصول التفسیر‘‘کے نام سے لکھا ہے، اسی کے چنداہم اور بنیادی اصولوں کامختصرناقدانہ جائزہ پیش کیاجاتاہے: سرسیدکے چندتفسیری اصول کاجائزہ:
اس میں کوئی شک نہیں کہ سرسیدنے تحریف وتاویل کاپری خانہ سجانے کے لئے رنگ وروغن کااکثروبیشترسامان معتزلہ کے فکری ملبے سے مستعارلیاہے،یہی وجہ ہے کہ ان کی کج فہمی کی ہرادامیں رنگِ اعتزالی جھلکتاہے،سرسیدصاحب کااہم اوربنیادی اصول یہ ہے کہ:
پہلااصول:
’’عقل کونقل پربہرصورت برتری حاصل ہوگی،تعارض کی صورت پیش آجائے توترجیح بھی عقل کوہوگی‘‘۔(۷) سرسیدنے معتزلہ کے اس اصول کوانتہائی بے دردی سے استعمال کرکے دینی عقائدکے پورے ڈھانچے کوتبدیل کرکے رکھ دیا،مثلاً ملائکہ،جنّات وشیاطین،جنت وجہنم،حشرونشر،رؤیتِ باری تعالیٰ وغیرہ کاصرف اس لئے انکارکردیاکہ یہ چیزیں میزانِ عقل میں پوری نہیں اترتیں،کیونکہ عقل یہ تسلیم کرنے سے قاصرہے کہ ملائکہ،جنات وشیاطین انسانوں سے میل جول رکھنے والی مخلوق ہواورنظرنہ آئے،چنانچہ ایک جگہ لکھتے ہیں:
’’قرآن مجیدسے فرشتوں کاایساوجودجیساکہ مسلمانوں نے اعتقاد کررکھاہے، ثابت نہیں ہوتا ‘‘۔(۸)
’’قرآن کریم میں ملائکہ سے مرادانسان کے قوائے ملکوتی اور شیطان سے مراد قوائے بہیمی ہیں‘‘۔(۹)
’’جنات سے پہاڑی وجنگلی آدمی مرادہیں‘‘۔(۱۰)
’’جنت وجہنم کاتذکرہ درحقیقت معروف کوبجالانے اور نواہی سے بچانے کا ایک ترغیبی حربہ ہے‘‘۔(۱۱) رؤیتِ باری تعالیٰ کے متعلق لکھتے ہیں:
’’خداکادیکھنادنیامیں نہ ان آنکھوں سے ہوسکتاہے اور نہ ان آنکھوں سے جو دل کی آنکھیں کہلاتی ہیں اور نہ قیامت میں کوئی شخص خداکودیکھ سکتاہے‘‘ ۔(۱۲)
’’نبوت فطری امرہے‘‘۔(۱۳)
’’حشراجسادمثالی ہوگا‘‘۔(۱۴)
’’چورکے ہاتھ کاٹنے کی سزاوحشیانہ ہے ،اس کی اجازت صرف اس وقت تک ہے جب ملک میں قیدخانے نہ ہوں‘‘۔(۱۵)
’’قتال صرف اپنی ذات کے دفاع میں کیاجاسکتاہے‘‘۔(۱۶)
’’امراء سے سودلینے میں کوئی حرج نہیں‘‘۔(۱۷)
الحاداوربے دینی کی یہ عمارت اسی اصول پرقائم ہے کہ عقل کونقل پربہرصورت ترجیح ہوگی۔
دوسرااصول:
سرسیدکادوسرابڑااہم اصول یہ ہے کہ اس کاروباردنیاکاہرفعل تعلیل وتسبیب کے ہمہ گیر قانون پراستوارہے(۱۸)ذرّہ سے لے کرپہاڑتک ،قطرہ سے لے کرسمندرتک کوئی چیزاس سے مستثنیٰ نہیں، کائنات کے ہرحصہ میں اسی قاعدے اورقانون کی حکمرانی ہے،یہ ایسااٹل قانون ہے کہ اس کاانحراف خدا بھی نہیں کرسکتا(۱۹)سرسیدصرف اسے قانونِ فطرت سے تعبیرکرتے ہیں،اس نظریہ کی بنیاد پرانہیں نیچری کہاجاتاہے،سرسیدنے اس اصول سے سب سے پہلاوارمعجزات و کرامات پرکیا،کیونکہ اہل سنت والجماعت کے نزدیک یہ تمام امورعلّت معلول کی قیدسے آزادہوکر خرقِ عادات کے طورپراس دنیائے آب وگِل میں وجودپذیرہوتے ہیں،لیکن سرسیدصاحب خود ساختہ قانونِ فطرت کے پیشِ نظران خرقِ عادات امورکوتسلیم نہیں کرتے،ان کادعویٰ ہے کہ قرآن مجیدمیں کسی معجزے کاذکرنہیں(۲۰)اس دعویٰ سچاثابت کرنے کے لئے جوطرزوطریقہ اختیارکیاہے، اس کے ڈانڈے تحریف سے جاملتے ہیں،مثلاً حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم کومعراج جسمانی نہیں، روحانی اور منامی ہواتھا(۲۱)حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش قانونِ فطرت کے مطابق والدکی موجودگی میں ہوئی تھی(۲۲)انہیںآسمان پراٹھائے جانے کا تعلق جسم سے نہیں،روح اوردرجات سے تھا(۲۳)حضرت ابراہیم علیہ السلام کوآگ میں ڈالاہی نہیں گیا،بدرکے میدان میں ملائکہ کے براہِ راست شریک ہونے کی کوئی حقیقت نہیں(۲۴)حضرت موسیٰ علیہ السلام جب اپنی قوم کولے کر دریاپرپہنچے تواس وقت اتفاقاً دریاکاپانی اتراہواتھا،اس لئے سلامت گزر گئے،جب فرعون بمع لشکر کے دریامیں اتراتواس وقت پانی چڑھاہواتھا،اس لئے غرقاب ہوگیا(۲۵)۔ تحریف کے یہ نمونے سرسیدکے خودساختہ ’’اصولِ فطرت‘‘نے جنم دیئے،ان خرقِ عادات امورکوفطرت میں ڈھالنے کے لئے سرسیدکی عقلِ نارسانے تحقیق کے جن زاویوں سے کام لیاہے،اسے دیکھ کرحیرت ہوتی ہے،مثلاًقرآنِ کریم میں بصراحت مذکورہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے حکمِ الٰہی سے ایک مخصوص پتھرپرلاٹھی ماری تواس سے پانی کے بارہ چشمے پھوٹ پڑے:’’فَقُلْنَااضْرِبْ بِّعَصَاکَ الْحَجَرَفَانْفَجَرَتْ مِنْہُ اثْنَتَاعَشْرَۃَ عَیْناً‘‘۔(۲۶)توہم نے کہا: مار اپنے عصاکوپتھرپر سوبہہ نکلے اس سے بارہ چشمے(۲۷)۔اس معجزے کوقانونِ فطرت میں ڈھالنے کے لئے سرسیدصاحب نے جوخامہ فرسائی کی ہے،اسے بھی ملاحظہ فرمائیں:
’’حجرکے معنی پہاڑکے ہیں اورضرب کے معنی رفتن(چلنا)پس صاف معنی ’’اضْرِبْ بِّعَصَاکَ الْحَجَرَ‘‘ کے ہوئے اپنی لاٹھی کے سہارے پہاڑپرچل، اس پہاڑکے پرے ایک مقام ہے جہاں بارہ چشمے پانی کے تھے،خدانے فرمایا: ’’فَانْفَجَرَتْ مِنْہُ اثْنَتَاعَشْرَۃَ عَیْناً‘‘یعنی اس سے پھوٹ نکلے بارہ چشمے‘‘ ۔(۲۸)
عربی زبان سے شُدبُدرکھنے والاہرشخص جانتاہے کہ’’حجر‘‘بول کرپہاڑمرادنہیں لیا جاتا اور ’’ضرب‘‘ بمعنی رفتن(چلنا)اس وقت ہوتاہے جب کے صلہ میں لفظ’’فی‘‘ہولیکن سرسید صاحب کوقاعدے اورقانون سے کیاواسطہ؟انہیں توفقط اپنامطلب نکالناہے،اگرچہ وہ’’شوربے کی تحقیق‘‘کی صورت میں نکل رہاہو’’شوربے سے روٹی کھانے‘‘کے مفہوم سے ہرعام وخاص واقف ہے،لیکن اگرکوئی سرپھرااس کی لغوی تحقیق میں جُت کریہ دعویٰ کرڈالے کہ اس کامطلب کھارے پانی سے روٹی کھانے کے ہیں،کیونکہ شوربہ’’شور‘‘اور’’آب‘‘سے مرکب ہے،’’شور‘‘کھارے اور ’’آب‘‘پانی کوکہتے ہیں، بتائیے !اس مسخرے پن کوتحقیق کانام دیاجاسکتاہے؟۔
تیسرااصول:
سرسیدصاحب کاتیسرااصول یہ ہے کہ تفسیرکے لئے حدیثِ رسول،آثارِصحابہ کرامؓ اور مفسرین کے اقوال کی چنداں حاجت نہیں(۲۹)چنانچہ سرسیدکی معتبرسوانح’’حیاتِ جاوید‘‘جسے علامہ شبلی نعمانیؒ نے ’’مدلّل وحی‘‘قراردیا(۳۰)میں الطاف حسین حالی لکھتے ہیں:
’’پس انہوں نے جیساکہ حضرت عمرؓسے منقول ہے: ’’حسبنا کتاب اللّٰہ‘‘ کہہ کر اپنے جدیدعلم کلام کاموضوع اوراسلام کاحقیقی مصداق صرف قرآن مجید کو قراردیا اوراس کے سواتمام مجموعۂ حدیث کواس دلیل سے کہ ان میں کوئی حدیث مثل قرآن کریم کے قطعی الثبوت نہیں ہے اورتمام مفسرین کے اقوال و آراء اور تمام فقہاء،مجتہدین کے قیاسات واجتہادات کواس بناپرکہ ان کے جواب وہ خودعلماء مفسرین اورفقہاء مجتہدین ہیں نہ کہ اسلام،اپنی بحث سے خارج کردیا،اسی اصول کوملحوظ رکھ کرسرسیدنے قرآن مجیدکی تفسیرلکھنے کامصمّم ارادہ کرلیا‘‘۔(۳۱)
سرسیدنے اس تفسیری جدّت طرازی میں تمام معتزلہ کوبھی پیچھے چھوڑدیا،یہی وجہ ہے کہ وہ کسی آیت کی تفسیرآثارِصحابہؓ سے کجا،حدیثِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی نہیں کرتے۔
چوتھااصول:
سرسیدنے صفاتِ باری تعالیٰ کوعین ذات باری تعالیٰ قراردے کرمعتزلہ کی ہمنوائی کی ہے اوراصولِ تفسیرمیں اسے ایک’’اصل‘‘کے طورپرذکرکیاہے (۳۲)حالانکہ اہل سنت والجماعت کے نزدیک صفات باری تعالیٰ واجب الوجودکے مفہوم سے زائدہیں،عین ذات باری تعالیٰ نہیں ہیں،یہ ہیں سرسیدکی تفسیرکے چنداہم اوربنیادی اصول ،جن پرالحادوبے دینی کی پوری عمارت کھڑی ہے،ڈاکٹر ابوسلمان شاہجہاں پوری نے بجافرمایاکہ:
’’اس صدی کی بے دینی ،بے راہ روی اوربدعقیدگی کے تمام ڈانڈے سرسید سے ملتے ہیں‘‘۔(۳۳)
یہ ایک واقعہ ہے کہ پرویزی،خاکساری،فکری،غامدی سمیت ہرقافلہ راہ گم کردہ کی علمی بنیادیں سرسیدکے تفسیری اوراق اورتہذیب الاخلاق کے مقالات میں بآسانی تلاش کی جاسکتی ہیں، تجددپسندی کے یہ تمام طبقے ایک ہی تسبیح کے دانے ہیں جوہرزمانہ کی ’’عقلی‘‘سطح کے ساتھ گھومتے چلے جاتے ہیں۔
سرسیدکی تفسیرپرچنداہلِ علم کے تبصرے:
۱۔۔۔:سرسیدکے دوست نواب سیدمہدی علی خان ایک خط میں سیدصاحب کومخاطب ہیں:
’’آپ نے مسلمان مفسروں کوتوخوب گالیاں دیں اوربرابھلاکہا اور یہودیوں کا مقلد بتایامگرآپ نے خود اس زمانے کے لامذہبوں کی باتوں پر ایسایقین کرلیا کہ ان کومسائل محققہ ،صحیحہ یقینہ قراردے کرتمام آیتوں کوقرآن کے مؤوَّل کردیا اورلطف یہ کہ آپ اسے تاویل بھی نہیں کہتے(تاویل کو توآپ کفرسمجھتے ہیں)بلکہ صحیح تفسیراوراصلی تفسیرقرآن کی سمجھتے ہیں،حالانکہ نہ سیاقِ کلام، نہ الفاظِ قرآنی ، نہ محاوراتِ عرب کی اس سے تائیدہوتی ہے‘‘۔(۳۴)
۲۔۔۔:مولاناعبدالحق حقانی ؒ اپنی’’ تفسیرحقانی‘‘کے مقدمہ میں رقم طرازہیں:
’’دراصل یہ کتاب تحریف القرآن ہے،نہ کہ تفسیر(۳۵)‘‘۔
چنانچہ حقانی صاحبؒ جابجااسے ’’تحریف القرآن‘‘کے نام سے ہی یادکرتے ہیں۔
۳۔۔۔:تفسیرالقرآن پرسرسیدکے دوستوں کاردِّعمل کیاتھا؟یہ الطاف حسین حالی کی زبانی سنئے:
’’آخرعمرمیں سرسیدکوباوجودوثوق کے ان کواپنی رائیوں پرتھاوہ حداعتدال سے متجاوزہوگیا تھا،بعض آیاتِ قرآنی کے وہ ایسامعنی بیان کرتے تھے جن کوسن کرتعجب ہوتاتھاکہ کیونکرایساعالی دماغ ان کمزوراوربودی تأویلوں کوصحیح سمجھتاہے،ہرچندکہ ان کے دوست ان تأویلوں پرہنستے تھے،مگروہ کسی طرح اپنی رائے سے رجوع نہ کرتے تھے‘‘۔(۳۶) ۴۔۔۔:ڈپٹی نذیراحمددہلوی سرسیدکی تفسیرپررائے زنی کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’مجھ کوان کے معتقدات بأسرھاتسلیم نہیں،سیداحمدخان کی تفسیرایک دوست کے پاس دیکھنے کااتفاق ہوا،میرے نزدیک وہ تفسیر’’دیوانِ حافظ‘‘کی ان شروح سے زیادہ وقعت نہیں رکھتی جن کے مصنفین نے چوتڑوں سے کان گانٹھ کر سارے دیوان کوکتابِ تصوف بناناچاہا،جومعانی سرسیداحمدخان صاحب نے منطوق آیات قرآنی سے اپنے پندارمیں استنباط کئے اورمیرے نزدیک زبردستی مڑھے اور چپکائے،قرآن کے منزّل من اللہ ہونے سے انکارکرناسہل ہے اوران معانی کو ماننامشکل۔۔۔۔۔۔ یہ وہ معانی ہیں جن کی طرف نہ خدا کا ذہن منتقل ہوا،نہ جبرئیلؑ حاملِ وحی کا،نہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا،نہ قرآن کے کاتب و مدوّن کا،نہ اصحابؓکا،نہ تابعینؒ کا،نہ تبع تابعینؒ کا،نہ جمہورمسلمین کا‘‘۔ (۳۷)
۵۔۔۔:محدث العصرحضرت علامہ سیدمحمدیوسف بنوریؒ نے ’’یتیمۃ البیان‘‘میں سرسیدکو ’’غلاۃِ معتزلہ‘‘میں شمارکیاہے۔(۳۸) ’’تفسیرالقرآن‘‘کی تردیدپرمشتمل چنداہم کتابیں وتفاسیر:
۱۔۔۔:سرسیدکی تحریفات سے پردہ اُٹھانے والی پہلی شخصیت سیدناصرالدین محمد ابوالمنصورکی ہے، جنہوں نے سرسیدکی تردیدمیں’’تنقیح البیان‘‘لکھی جو۱۲۹۷ھ میں نصرۃ المطابع دہلی میں شائع ہوئی۔
۲۔۔۔:سرسیدکے فلسفہ ’’تفوقِ عقل‘‘کی تردیدمیں حجۃ الاسلام مولانامحمدقاسم نانوتویؒ نے ایک مکتوب سرسیدکولکھاجوسات صفحات پرمشتمل تھا،’’تصفیۃ العقائد‘‘کے نام سے شائع ہوا۔
۳۔۔۔:علامہ عبدالحق حقانیؒ نے تفسیرحقانی کے مقدمہ میں سرسیدکے افکارونظریات پر شاندار تنقیدفرمائی ہے،یہ مقدمہ دوسوسے زائدصفحات پرمشتمل ہے،اسی طرح ایک غیرمقلدعالم سید احمد حسن ؒ نے اپنی تفسیر’’احسن التفاسیر‘‘کے مقدمہ میں سرسیدکی تردیدپرمختصرمگرجامع مانع بحث کی ہے۔
۴۔۔۔:مولوی ثناء اللہ امرتسریؒ نے تفسیرثنائی میں سرسیدکی تحریفات کاجواب عقلی اورنقلی طریقے سے دیاہے۔
۵۔۔۔:ایک شیعہ مفسرابوعمارعلی نے بھی سرسیدکی تردیدمیں’’عمدۃ البیان‘‘کے نام سے ایک تفسیرلکھی۔
۶۔۔۔:علامہ سیدمحمدیوسف بنوریؒ نے’’یتیمۃ البیان‘‘میں سرسیدکی تفسیراوراس کے افکارو نظریات پرجامع ومانع تبصرہ فرمایاہے۔ ۷۔۔۔:مولاناسیدتصدق بخاری مدظلہ نے’’محرّفِ قرآن‘‘نامی کتاب میں سرسیدکی تفسیر پر ناقدانہ تجزیہ پیش کیاہے۔
۸۔۔۔:حکیم الامت حضرت تھانویؒ نے بھی اسی سلسلہ میں ایک کتاب’’الانتباھات المفیدۃ عن الاشتباھات الجدیدۃ‘‘کے نام سے تالیف فرمائی جوحضرت رحمہ اللہ تعالیٰ کے مجازِبیعت مولانامصطفی خان بجنوریؒ کی تشریح اورتسہیل کے ساتھ ’’اسلام اورعقلیات‘‘کے نام سے شائع ہوچکی ہے۔عقل ونقل کادائرۂ کاراوران دونوں میں تعارض وترجیح کی صورتوں پرجن جواہر ریزوں کوصفحاتِ قرطاس پربکھیرا ہے،اسے پڑھ کرابن تیمیہؒ کی یادتازہ ہوجاتی ہے،جنہوں نے’’بیان موافقۃ صریح المعقول لصحیح المنقول‘‘ میں عقل پرستوں پرنقدواحتساب کادبستان سجاکرواضح کردیاتھاکہ:
فلسفہ چوں اکثرش باشد ’’سفہ‘‘ پس کل آں
ہم ’’ سفہ‘‘ باشد کہ حکمِ کل ، حکم اکثر است
حکیم الامتؒ کی یہ کتاب سرسیدکے’’فلسفۂ تفوقِ عقل‘‘کے جواب میں بلاشبہ حرفِ آخرکی حیثیت رکھتی ہے۔
مراجع ومصادر
۱۔حیاتِ جاوید۱/۲۲۵بحوالہ سرسیدکی کہانی ان کی اپنی زبانی،ص:۱۰۷
۲۔پاکستان کامعماراول سرسید،ص:۵۵،طلوع اسلام ،لاہور
۳۔تفسیرحقانی۱/۲۲۶،بیت العلم،لاہور
۴۔تفسیرالقرآن،سرسیدسورۂ فاتحہ،ص:۵
۵۔نقش سرسید،ضیاء الدین لاہوری،ص:۲۷
۶۔تفسیرالقرآن،حصہ اول،ص:۴۴
۷۔تحریرفی اصول التفسیرالاصل الخامس عشر،ص:۳۱،تفسیرالقرآن،حصہ ششم،ص:۱۱۸
۸۔تفسیرالقرآن،سورۂ بقرہ،حصہ اول،ص:۵۵
۹۔تفسیرالقرآن،سورۂ بقرہ،حصہ اول،ص:۵۶
۱۰۔تفسیرالقرآن،سورۂ انعام،حصہ سوم،ص:۶۵،۶۶،۶۷
۱۱۔تفسیرالقرآن،سورۂ بقرہ،حصہ اول،ص:۴۵،۴۶
۱۲۔تفسیرالقرآن،سورۂ اعراف،حصہ سوم،ص:۲۰۴
۱۳۔تفسیرالقرآن،سورۂ انعام،حصہ سوم،ص:۴۹
۱۴۔تفسیرالقرآن،سورۂ انعام،حصہ سوم،ص:۱۰۹
۱۵۔تفسیرالقرآن،سورۂ مائدہ،حصہ دوم،ص:۱۳۱۔۱۳۵
۱۶۔تفسیرالقرآن،سورۂ بقرہ،حصہ اول،ص:۲۴۸
۱۷۔تفسیرالقرآن،سورۂ بقرہ،حصہ اول،ص:۱۱۶
۱۸۔تحریرفی اصول التفسیر،الاصل الثامن،ص:۲۱۔۲۵
۱۹۔تحریرفی اصول التفسیر،الاصل الثامن،ص:۲۱
۲۰۔تحریرفی اصول التفسیر،الاصل التاسع،ص:۲۵
۲۱۔تفسیرالقرآن،سورۂ بنی اسرائیل،حصہ ششم،ص:۸۶
۲۲۔تفسیرالقرآن،سورۂ اٰل عمران،حصہ دوم،ص:۱۴
۲۳۔تفسیرالقرآن،سورۂ اٰل عمران،حصہ دوم،ص:۳۵
۲۴۔تفسیرالقرآن،سورۂ اٰل عمران،حصہ دوم،ص:۵۰
۲۵۔تفسیرالقرآن،سورۂ بقرہ،حصہ اول،ص:۹۲
۲۶۔البقرۃ:۶۰
۲۷۔ترجمۂ شیخ الہندرحمہ اللہ
۲۸۔تفسیرالقرآن،سورۂ بقرہ،حصہ اول،ص:۱۱۷
۲۹۔تحریرفی اصول التفسیر،الاصل التاسع،ص:۲۷
۳۰۔نقشِ سرسید،ضیاء الدین لاہوری،ص:۲۷
۳۱۔حیاتِ جاوید،بحوالہ سرسیدکی کہانی ان کی اپنی زبانی،ص:۵۷،طلوع اسلام ،لاہور
۳۲۔تحریرفی اصول التفسیر،الاصل السابع،ص:۳۱
۳۳۔مقدمہ سرسیدکی کہانی ان کی اپنی زبانی،ص:۲۲
۳۴۔تفسیرالقرآن،مکتوب نواب سیدمہدی علی خان،ص:۳
. ۳۵۔مقدمہ تفسیرحقانی،ص:۲۲۶
۳۶۔حیاتِ جاوید،بحوالہ نقشِ سرسیدضیاء الدین لاہوری،ص:۲۸
۳۷۔موعظہ حسنہ،ص:۱۷۵،بحوالہ نقشِ سرسید،ص:۲۹
۳۸۔یتیمۃ البیان لمشکلات القرآن،ص:
اشاعت ۲۰١۲ ماہنامہ بینات , ربیع الثانی ۱۴۳۳ھ - مارچ۲۰١۲ء, جلد 75, شمارہ 4

    پچھلا مضمون: ’’اسلام زندہ باد‘‘کانفرنس
Flag Counter