Deobandi Books

ماہنامہ البینات کراچی ربیع الثانی ۱۴۳۳ھ - مارچ۲۰١۲ء

ہ رسالہ

3 - 8
طویل دورانیہ کی رات اوردن میں نمازوروزہ کی ادائیگی کاطریقہ!
طویل دورانیہ کی رات اوردن میں
نمازوروزہ کی ادائیگی کاطریقہ!
کیافرماتے ہیں علماء دین اس مسئلہ کے بارہ میں کہ:
میرانام ڈاکٹرفراست خان ہے اورآج کل مانچسٹر(انگلستان)میں میری رہائش ہے،یہاں کے مخصوص موسمی حالات کی وجہ سے چنددینی امورکی ادائیگی میں اشکال ہے،برائے مہربانی اس معاملہ میں رہنمائی فرمائیں:
پہلامسئلہ رمضان کے متعلق ہے کہ مئی تااگست یہاں پرسورج کے طلوع ہونے سے غروب ہونے تک (بلکہ صبح صادق سے مغرب تک)کادورانیہ تقریباً۲۰گھنٹے کاہوتاہے،یعنی افطارسے سحرتک چاریاپانچ گھنٹے کاوقت ہے۔اسی میں روزہ افطارکرنا،نمازمغرب،رات کاکھانا،عشاء کی نماز،صلوٰۃا لتراویح،سحری اورنمازِفجرکااہتمام کرناہوتاہے۔دن کے۲۴گھنٹے کے روزے عام مسلمانوں اورخاص طورسے محنت کش افرادکے لئے سخت آزمائش کے ہوتے ہیں،چندروزے داراس آزمائش پربمشکل ہی پورے اُترتے ہیں،نیزاتنے طویل وقفے تک بھوکاپیاسارہنے کی وجہ سے جسم میں بلڈشوگر(خون کی شَکَر) کی سطح کم ہوجاتی ہے،یعنی روزے دارتفریطِ شَکَر(hyboglaceme)کاشکارہوجاتے ہیں،یہ کیفیت بے شماربُرے اثرات کاسبب بنتی ہے اورروزے دارکی خواہش ہوتی ہے کہ جلدازجلدافطارکا وقت ہواوروہ خون میں شکرکی کمی پورا کرسکے ۔اس وقت تمام روزہ داروں کی نظر’’تقویٰ‘‘ پرنہیں’’افطار‘‘ پرہوتی ہے۔
اس مسئلہ سے نجات پانے کے لئے اکثرعام مسلمان خاص طورسے محنت کش افراد یا تو روزہ ہی نہیں رکھتے ہیںیاپھروہ سردیوں کے موسم میں جب دن چھوٹے اورراتیں بڑی ہوتی ہیں۔رمضان کے روزوں کی قضا رکھ لیتے ہیں،لیکن یہ قضاایک روزے کی ایک کے حساب سے ہوتی ہے،ایک کے بدلہ ساٹھ کاکفارہ نہیں ہوتاہے۔
جن ممالک میں کئی کئی مہینے سورج طلوع نہیں ہوتا،یاسورج غروب نہیں ہوتا،تووہاں بوجہ مجبوری رہائش پذیرمسلمان شریعت کی کس طرح پابندی کریں؟اورشرعی احکام پراُن کی روح کے مطابق عمل کرسکیں؟۔
تبلیغ کاکام کرنے والے حضرات کواس قسم کے سوالات کاسامناکرناپڑتاہے اوریہاں کے مقامی حضرات کی تشفی کے لئے ان سوالات کے فکری اوراطمینان بخش جواب کی ضرورت ہے۔
اس سلسلہ میں علماء کرام کی رہنمائی اورراہبری کی ضرورت ہے کہ کیااس معاملہ میں اجتہادکیا جائے یامصرکے جامعہ ازہرکے فتویٰ پرعمل کیاجائے؟اس فتویٰ کے مطابق روزے اورنمازکے لئے سورج کے طلوع یاغروب ہونے کی چاندکی رؤیت کاخیال اورلحاظ رکھے بغیرقریب ترین مسلمان مملکت کے نظام الاوقات پرعمل کیاجائے یامقامی طورپرجودفاترکے نظام الاوقات ہیں،ان سے صیام وصلوٰۃ کے نظام الاوقات کومنسلک کردیاجائے؟ برائے مہربانی اس معاملہ میں رہنمائی کی جائے۔
مستفتی:ڈاکٹرفراست خان مانچسٹر،برطانیہ
الجواب ومنہ الصدق والصواب
واضح رہے کہ صبح صادق سے روزے کاآغازہوتاہے اورغروبِ آفتاب ہونے پراس کا اختتام ہوتاہے،اگرجغرافیائی اورموسمی حالات کے لحاظ سے گھنٹوں کے شمارمیں کمی وبیشی ہوتی ہے،مثلاً: دن بارہ گھنٹے کے بجائے بیس گھنٹے کاہوتاہے،تب بھی آفتاب غروب ہونے تک روزہ رکھنالازم ہے۔سورج غروب ہونے سے پہلے گھنٹوں کاحساب کرکے افطارکرنا جائزنہیں ہوگا، اگر کوئی شخص ایسا کرے توقضااورکفارہ دونوں لازم ہوں گے۔
قرآن مجیدمیں ہے:
’’ثُمَّ أَتِمُّوْاالصِّیَامَ إِلٰی اللَّیْلِ‘‘۔ (البقرۃ:۱۸۷)
ترجمہ:’’پھررات تک روزہ کوپوراکیاکرو‘‘۔(بیان القرآن :۱/۱۰۶،ط:میرمحمد)
مجموعۃالفتاویٰ میں ہے:
’’روزے کے احکام کے نصوص جمیع مکلفین کے لئے ہر شہر اور ہر زمانہ میں عام ہیں، لہٰذا اختلاف اقالیم اورطولِ نہارکی وجہ سے کوئی خلل نہ پڑے گا،اوریہ خیال کرنا کہ: جہاں دن بہت بڑاہوتاہے وہاں روزہ ہلاکت کاباعث ہے ،غلط ہے،کیونکہ جس طرح اللہ تعالیٰ نے اپنے احکام کوعام رکھاہے،اسی طرح جہاں روزہ رکھنا طاقتِ بشریہ سے خارج معلوم ہوتاہے ،وہاں ابن آدم کامسکن نہیں ،ارشادِباری تعالیٰ ہے:
’’لَایُکَلِّفُ اللّٰہ نَفْساً إِلَّاوُسْعَھَا‘‘۔ (البقرۃ:۲۸۶)
ترجمہ:’’اللہ تعالیٰ کسی شخص کومکلف نہیں بناتامگراسی کاجواس کی طاقت میں ہو‘‘۔ (بیان القرآن :۱/۱۷۴،ط:میرمحمد) باہمت قوی مزاج لوگ اتنے بڑے دن کاعموماً تحمل کرلیتے ہیں،اسی لئے وہاں خود ان کاہی دن معتبرہوگا،کسی دوسرے حساب کی ضرورت نہیں۔بلغارمیں زمانۂ صیف میں رات اتنی چھوٹی ہوتی ہے کہ بعض اوقات غروبِ شفق کے ساتھ ہی صبح صادق کاطلوع ہوتاہے،وہاں مسلمان لوگ روزہ رکھتے ہیں،رمضان جاڑے میں پڑے یاگرمی میں اورآفاقی بھی جو وہاں ہوتے ہیں روزہ رکھتے ہیں،کوئی روزہ رکھنے کی وجہ سے مرتانہیں‘‘۔
(مجموعۃ الفتاویٰ:۱/۲۹۶،ط:سعید)
جواہرالفتاویٰ میں ہے:
’’ایسے تمام علاقوں میں جہاں دن اوررات کامجموعہ۲۴گھنٹے ہوتاہے اوررات اتنی دیررہتی ہے کہ نمازِمغرب سے فارغ ہوکرصبح صادق سے پہلے کھانا کھایا جاسکے ، وہاں روزۂ رمضان کاحکم یہ ہے کہ جولوگ اتناطویل روزہ رکھنے کی طاقت رکھتے ہیں،جس کاثواب بھی دوسرے علاقوں کے مقابلہ میں زیادہ ہوگا ، اور جو لوگ بیماری،بڑھاپے یاکمزوری کے باعث اتناطویل روزہ رکھنے کی قدرت نہیں رکھتے، بیمار پڑجانے،یابیماری بڑھ جانے کاقوی امکان ہے ، وہ لوگ روزوں کی قضاء ایسے موسم میں کرلیاکریں جب کہ دن کا طول اُن کے لئے قابلِ برداشت ہوجائے‘‘ ۔ (جواہرالفتاویٰ:۱/۱۴۵،ط:اسلامی کتب خانہ) درمختارمیں ہے:
’’(قولہ:العاجزعن الصوم)أی عجزاًمستمراًکمایأتی،أمالولم یقدرعلیہ لشدۃ الحرکان لہ أن یفطرویقضیہ فی الشتاء‘‘۔ (۲/۴۲۷،ط:سعید) جن علاقوں میں طویل دورانیہ کادن،پھراسی طرح طویل دورانیہ کی رات کاسلسلہ رہتاہے، وہاں جس طرح نمازکے اوقات کااندازہ سے تعین کیاجاتاہے،اسی طرح ماہِ رمضان کے روزوں کے اوقات کابھی تعین کیاجائے،اس سلسلے میںآسان صورت یہ ہے کہ ایسے مقام کے باشندے جواُن کے قریب مقامات ہیں،جہاں معمول کے مطابق دن رات کی آمدورفت کاسلسلہ ہے،اُس کے مطابق عمل کریں۔
فتاویٰ شامی میں ہے:
’’ویجری ذلک فیمالومکثت الشمس عندقوم مدۃً۔۔۔قال فی امداد الفتاح قلت:وکذلک یقدرلجمیع الاٰجال کالصوم والزکوٰۃ والحج والعدۃ واٰجال البیع والسلم والإجارۃ ، وینظرابتداء الیوم فیقدرکل فصل من الفصول الأربعۃ بحسب مایکون کل یوم من الزیادۃ والنقص کذافی کتب الأئمّۃ الشافعیۃ ونحن نقول بمثلہ إذْأَصل التقدیرمقول فی اجماعافی الصلوٰت‘‘۔ (۱/۳۶۵،ط:سعید)
تاتارخانیہ میں ہے:
’’وفی القدوری(إذاکان بین البلدتین تفاوت لایختلف المطالع لزم حکم أھل إحدی البلدتین البلدۃ الأخریٰ،فأماإذاکان تفاوت یختلف المطالع)لم یلزم حکم إحدی البلدتین البلدۃ الأخریٰ،وذکرشیخ الإمام شمس الأئمۃ الحلوانی أن الصحیح من مذھب أصحابناأن الخبرإذااستفاض وتحقق فیمابین أھل إحدی البلدتین،یلزمھم حکم أھل ھذہ البلدۃ‘‘۔ (۲/۲۶۹،ط:قدیمی ) فقط واللہ اعلم
الجواب صحیح الجواب صحیح
محمدعبدالمجیددین پوری
شعیب عالم سیدحماداللہ ھالانوی
کتبہ
تخصصِ فقہِ اسلامی
جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمدیوسف بنوری ٹاؤن کراچی
اشاعت ۲۰١۲ ماہنامہ بینات , ربیع الثانی ۱۴۳۳ھ - مارچ۲۰١۲ء, جلد 75, شمارہ 4

    پچھلا مضمون: بنیادپرستی کامصداق !مغرب کی نظرمیں
Flag Counter