Deobandi Books

ماہنامہ البینات کراچی ربیع الثانی ۱۴۳۳ھ - مارچ۲۰١۲ء

ہ رسالہ

2 - 8
بنیادپرستی کامصداق !مغرب کی نظرمیں
بنیادپرستی کامصداق !مغرب کی نظرمیں

۲۳؍صفر المظفر۱۴۳۳ھ مطابق۱۸؍جنوری۲۰۱۲ء بروزبدھ دار العلوم دیوبند کے استاذِ حدیث حضرت مولاناسید ارشد مدنی دامت برکاتہم العالیہ صاحبزادۂ شیخ العرب والعجم حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی قدس سرہٗ جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن کراچی تشریف لائے ،اور بعد نمازِمغرب آپ نے طلباء وفضلاء کے ایک بڑے مجمع سے خطاب فرمایا۔جسے مولوی عمران متخصص فقہ اسلامی نے ضبط کیا۔وعظ ونصیحت سے بھرپور یہ خطاب افادۂ عام کے لئے ھدیۂ قارئین ہے ۔ (ادارہ)

الحمدللّٰہ نحمدہٗ ونستعینہٗ ونستغفرہٗ ونؤمن بہ ونتوکل علیہ ونعوذ باللّٰہ من شرور أنفسنا ومن سیّئات أعمالنا ، من یھدہ اللّٰہ فلامُضِلَّ لہ ومن یُّضْلِلْہُ فلاھادیَ لہٗ ، ونشھدأن لاإلٰہ إلا اللّٰہ وحدہ لاشریک لہ ونشھدأن سیّدنا ومولانا محمداً عبدہٗ ورسولہٗ، أمابعد : عزیزطلبہ!میں ایک مرتبہ اپنے سفر کے سلسلے میں انگلینڈ گیا۔اس کو زمانہ ہوگیا۔میرے چھوٹے بھائی نے مجھے دِلّی سے یہ اطلاع دی کہ وہاں یونیورسٹی ہے لندن میں،آکسفورڈ یونیورسٹی،جس طرح تمام یونیورسٹیوں کے اندر اسلامیات کا ایک شعبہ ہوتاہے،اسی طرح اُس یونیورسٹی کے اندر بھی ایک شعبہ ہے،شعبۂ اسلامیات،اس کے ہیڈاس وقت ہندوستان کے ایک ڈاکٹرتھے،ڈاکٹرفرحان،علی گڑھ یونیورسٹی کے اندر ایک پروفیسر تھے ، پروفیسر خلیق احمد نظامی،یہ اُن کے بیٹے تھے ۔پروفیسر خلیق احمد خود تو عربی پڑھے ہوئے نہیں تھے ، لیکن ان کی تربیت کی تھی اُن کے ماموں فریدی صاحب نے جو دارالعلوم دیوبند کے فاضل تھے،پھر حضرت ۔رحمۃ اللہ علیہ۔سے بیعت ہوئے اور سلوک کے اندر پڑھتے رہے ، پھر حضرت کا انتقال ہوگیا تو حضرت شیخ الحدیث مولانا زکریا رحمۃ اللہ علیہ نے ان کو اجازت دی۔
فریدی صاحب کو لوگوں کے تراجم لکھنے میں بڑی مہارت تھی، اگرچہ اخیرمیں نابیناہوگئے تھے، مگرشغف تھامطالعے کا،دوسروں سے مطالعہ کرواتے تھے اوراپنے ذہن میں محفوظ رکھتے تھے۔ اُن کے تربیت یافتہ تھے۔اسی لئے خصوصیت سے ان کی تصنیفات کوبڑی قدرکی نگاہ سے دیکھاجاتا تھااور خصوصیت سے مشائخ چشت کی سلسلے میں ان کے جو مقالات اور بعض کتابیں ہیں اُن کی بڑی قدر ہوئی علماء کے درمیان۔مجھے معلوم نہیں تھاکہ یہ اُن کے بیٹے ہیں۔میں نے اُن کو ٹیلیفون کیا۔ ٹیلیفون نمبرمجھے ہندوستان ہی سے ملاتھا۔میری اُن سے بات چیت ہوئی اوریہ طے ہوا کہ صبح کو ہم اُن کے ہاں جائیں گے اور چائے ساتھ پئیں گے۔جیسے دنیا وی تعلیم یافتہ لوگ ہوتے ہیں ، قطعاً شکل وصورت سے یہ محسوس نہیں ہوا تھا کہ وہ مذہبی آدمی ہیں یا مذھب سے اُن کا کوئی تعلق ہے۔بات چیت ہوتی رہی،ماحول کے اوپر،حالات کے اوپر اور وہ درمیان میں مجھ سے کہنے لگے کہ:یہاں ایک سیمینارہوا،لندن کے اندر یورپ اور امریکہ کے دانشوروں کا اور اس کا موضوع تھا
fundamentalism’’بنیاد پرستی‘‘ ۔ کہنے لگے کہ:میرے پاس بھی دعوت نامہ آیا،میں گیا،صبح سے شام تک ہال کے اندر اسی موضوع کے اوپر لوگ اپنے مقالات اور تقریروں کو پیش کرتے رہے،یہ زمانہ ہے افغانستان کی دلدل میں پھنس کرروس کے سقوط کے بعد کا۔
مغربی دنیا کو درپیش سب سے بڑا چیلنج ’’بنیادپرستی‘‘:
ہر شخص یہی کہتا تھا کہ اب دنیا کو ترقی کے سلسلے میں جس چیلنچ کا سامنا ہے ،وہ funda mentalism’’بنیاد پرستی‘‘ہے ، اصل میں یہودیوں کے خلاف اس اصطلاح کو وضع کیا گیا تھا۔وہ زمانہ گزر گیا۔اب یہ دوسری مرتبہ پھر fundamentalism’’بنیاد پرستی‘‘کی اسی اصطلاح کو لاکر رکھا گیا اور ہر شخص یہ کہتا تھا کہ اب دنیا کو جس چیلنج کا سامنا ہے وہ fundamentalism’’بنیاد پرستی‘‘ہے ۔ یہ ہے کیا ؟ اس کا مفہوم کیا ہے ؟ وہ نہیں واضح ہورہا تھا ۔ کہنے لگے کہ کچھ لوگوں نے اپنی تقریر میں یہ کہا کہ: بنیاد پرستی سب سے بڑا چیلنج ہے۔ہم دنیا کو کہتے ہیں کہ آگے بڑھو ، بنیادپرست طقبہ یہ کہتا ہے کہ نہیں ! چودہ سو سال پیچھے چلو۔ہم کہتے ہیں کہ:دنیا کے لئے خیر آگے بڑھنے میں ہے ، بنیادپرست طبقہ کہتا ہے کہ: پیچھے چلنے میں ہے،اور وہ بھی سو،دو سوسال نہیں ، بلکہ چودہ سو سال پیچھے چلنے میں ہے۔اب پتہ چلا کے وہ fundamentalism’’بنیاد پرستی‘‘ہے کیا چیز ؟ ہم اپنے تمام دنیا کے وسائل کو کام میں لا کر دنیا کو آگے بڑھانا چاہتے ہیں اور fundamentalism’’بنیاد پرستی‘‘وہ چیز ہے جو ہمارے مقابلے کے اندر ہے ، ہمارے پاس وسائل ہیں،ہمارے پاس دولت ہے،خزانے ہیں،ہم جس کی دولت کوچاہیں،اوپر اُٹھالیں ،جس کی کرنسی کو چاہیں ،گرادیں ، اگر ہمیں کسی چیلنج کا سامنا ہے تو وہ ہے’’ بنیاد پرستی‘‘۔یہ ایک منافست ہے ، ہم آگے بڑھانا چاہتے ہیں ، وہ ہمیں پیچھے لے کرچلناچاہتے ہیں۔
کہنے لگے کہ :میں سب سنتا رہا ، مجھے کچھ بولنا نہیں تھا اور اخیر میں جو بات سامنے آئی، لُبِّ لباب تو اس وقت متفقہ فیصلہ یہ ہوا کہ ہمیں دنیا کو ترقی کی سمت میں آگے بڑھانے میں جس چیلنج کا سامنا ہے،وہ بنیاد پرستی ہے اور بنیاد پرستی کا مرکز ہندوستان ہے۔مجھ سے وہ کہنے لگے کہ :میں کوئی مذہبی آدمی نہیں ہوں،لیکن میں نے اس دن فیصلہ کیاکہ ہمارے اکابرؒ نے جو نشانہ بنایاتھااورجس کے لئے انہوں نے کم وبیش دوسوسال تک قربانی دی ہے،ان کی کامیابی کے لئے اس سے بہترین کوئی سند نہیں ہے۔یہ بات چیت ہوتی رہی،میں نے اس کو سنااورمیں وہاں سے اُٹھ کرچل دیا۔
بنیادپرستی کا مصداق مغرب کی نظر میں :
میں راستے بھر یہ سوچتا رہا کہ یہ کیا بات کہہ رہے ہیں کہ fundamentalism’’بنیاد پرستی‘‘ ایک ایسی چیز ہے کہ وہ طاقتیں جو آج دنیا کے اندر یوں سمجھئے کہ ہر ایک نبض ان کے ہاتھ میں ہے ، وہ جس ملک میں چاہیں،جسے کرسئ اقتدار پر بٹھادیں اور جسے چاہیں اقتدارکی کرسی سے باہر کردیں،اگران کوکسی چیزسے خطرہ محسوس ہورہاہے کہ اس میدان میں جتنی کامیابی وہ چاہتے تھے ، اتنی کامیابی ان کو نہیں مل رہی تووہ fundamentalism’’بنیاد پرستی‘‘ہے ، جس کی بنیاد ہندوستان ہے اور ہندوستان میں تو کچھ بھی نہیں ہے ، ہندوستان کوئی ترقی یافتہ ملک نہیں ہے،بلکہ ترقی پذیر ملک ہے۔آگے بڑھناچاہتاہے، صنعت وحرفت کے اعتبارسے، مگربنیاد پرستی جسے اسلامی بنیاد پرستی کہہ رہے ہیں، وہ ہے کیا چیز ؟۔
میں سوچتے سوچتے اس پر پہنچا کہ مرکز ہندوستان اور ایسا مرکز کہ جس سے نکلنے والی روشنی ساری دنیا میں پھیل رہی ہے ، یہاں تک کہ یورپ اور امریکہ اس کے وزن کو محسوس کررہا ہے۔میں نے کہا کہ ایک تو چیز تبلیغی جماعت ہوسکتی ہے جس کا مرکز بنگلے والی مسجد ہے اور آپ دنیا میں کہیں چلے جائیں ، کسی ملک میں چلے جائیں ، آپ کو لوگ کمرکے اوپراپنے بستراُٹھائے ہوئے،اسٹوو(چولہا) ہاتھ میں لئے، ایک دو دیگچیاں لئے ہوئے ہر جگہ مل جائیں گے ، ہوائی جہازوں میں گھومیں تب، ریلوں کے اندر چلیں تب،بسوں کے اندرچلیں تب،وہ اپنا چلتے رہتے ہیں،انہیں کسی سے کوئی سروکارنہیں،نہ کسی سے کچھ مانگنا ہے، نہ کسی کوکچھ دیناہے،اپنے چھ مقاصد ہیں،ان کے چھ نمبر، دنیا میں کچھ بھی ہوجائے،زلزلہ آجائے، مصیبت آجائے،وہ اپنے چھ نمبر سے باہر نہیں ہیں ، ایک یہ ہیں جن کا مرکز ہندوستان ہے ۔
دوسری چیز میرے ذہن نے فیصلہ کیا کہ مدارسِ اسلامیہ ہیں ، ان کا مرکز دارالعلوم دیوبند ہے ، آج دنیا میں کہیں بھی جائیے ، آپ کو مدارس ملیں گے اور ان مدارس کا مرکز دارالعلوم دیوبند ہے۔ ایک ہی نصاب تعلیم آپ کو ملے گا ، جزوی ترمیمات ، ایک دو کتابیں اِدھرسے اُدھرہوگئیں تو وہ دوسری چیزہے ، لیکن وہ بنیادی نقشہ جس کے اوپر تعلیمی ڈھانچہ کھڑا ہے مدارس کا،وہ وُہی ہے جو دارالعلوم دیوبند کا ہے اور اسی اعتبار سے یہ کہا جائے گا کہ مدارسِ اسلامیہ دارالعلوم دیوبند ہی کی شاخیں ہیں، نصاب تعلیم وہی ہے ، مسلک وہی ہے اور وہی اسلاف ہیں جو دارالعلوم دیوبندکے اسلاف ہیں ۔
اصل مدارسِ اسلامیہ ہیں:
میراماننایہ ہے کہ اصل تبلیغی جماعت نہیں ہے،اصل مدارس اسلامیہ ہیں،تبلیغی جماعت کا بالکل پہلاامیرانہی مدرسوں سے بن کر نکلا ، حضرت مولانا الیاس صاحب رحمۃ اللہ علیہ ، اس کے بعد ان کے صاحبزادے مولانا یوسف صاحب رحمۃ اللہ علیہ ، مدرسہ مظاہر العلوم کے پڑھے ہوئے تھے ، اس کے بعد ان کے دو امیر بنے ، مولانا انعام الحسن صاحبؒ اور مولانا اظہار صاحبؒ ، دونوں کے دونوں مدرسوں سے پڑھ کر نکلے تھے ، مولانا اظہار صاحب ؒ کے انتقال کے بعد آج بھی دو آدمی بیٹھے ہوئے ہیں (مولانا محمد سعد صاحب نبیرۂ مولانا محمد یوسف کاندھلویؒ اور مولانا زبیر الحسن بن مولانا انعام الحسن صاحبؒ )دونوں جوان ہیں اور مدرسے سے پڑھ کر نکلے ہیں ، ہر آدمی جو مسند پر بیٹھ رہا ہے اور امیر کہلایا جاتا ہے مدرسوں سے پڑھ کر نکلا ہوا ہے ، اگر تبلیغی جماعت کا مسلک دیکھیں تو اپنا کوئی مسلک نہیں ، مسلک ہے دیوبند کا ، آج بھی اگر کسی مسجد سے بوریہ بستر اُٹھا کر پھینکتے ہیں تو یہی کہہ کر نکالتے ہیں کہ یہ دیوبندی کافر ہیں ،ا نہیں نکال دو مسجد سے ۔
اصل تبلیغی جماعت نہیں ، اصل مدارسِ اسلامیہ ہیں ، اس کا مطلب یہ ہے کہ جس کو وہ بتانا چاہتے ہیں کہ ہماری منافست ہے ، مسابقت ہے اور ہماری آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اگر کوئی طاقت کھڑی ہے میدانِ عمل میں ، جبکہ ہمارے پاس دولت ، سرمایہ ، دنیا کا علم ہے ، وہ طاقت ہے کہ ہم جسے چاہیں اُکھاڑدیں ، جسے چاہیں مضبوط کردیں ، اتنی طاقت کے باوجود اگر کچھ لوگ جو بے سہارا ہیں ، بے حیثیت ، بے وقعت ہیں ، جن کے پاس کوئی دولت وسرمایہ نہیں ہے ، لیکن ہمارے گریبان میں ہاتھ ڈال رہے ہیں، وہ طاقت کیا ہے ؟ جس سے ہمیں پاکستان ، ہندوستان ، بنگلہ دیش ، افغانستان ہر جگہ خطرہ ہے اور ایسا ہے کہ اس کی شاخیں ساری دنیا میں پھیلی ہوئی ہیں۔یہ میرا ایک تجزیہ تھا،میں نے اسے آپ لوگوں کے سامنے پیش کیاہے اورمیں سمجھتاہوں کہ آپ بھی اس پر غور کریں کہ اصل چیزیہی ہے ۔
مغربی تہذیب اور اہل مغرب کا مذہب سے تعلق :
مغربی تہذیب نے ہر دین کا کباڑا کردیا ، یہاں تک کہ جو ان کا اپنا مذہب تھااس کی بھی جڑوں کواُکھاڑدیا۔آپ کے اساتذہ ہیں،یہ حضرات یورپ اورامریکہ جاتے ہیں،بڑی سے بڑی،قیمتی سے قیمتی جگہ جس کو CityCentre ’’مرکزِشہر‘‘ کہہ دیجئے ، آپ کو کوئی راستہ خالی نہیں ملے گا جہاں چرچ نہ ہو اور اس کا منارہ آسمانوں سے باتیں کرتا ہوا آپ کو نظر آئے گا ، لیکن اس کے دروازے کے اوپر مٹی کا ڈھیر لگا ہوا ہوگا ، سینکڑوں نہیں ، ہزاروں چرچ بِک گئے ، مسلمانوں نے اسے خرید لیا ، کسی نے اسکول بنالیا ، کسی نے مسجد ، بے شمار مساجد اسی طرح بنی ہیں ، نیلامی بولی جاتی ہے ، اس کے اندر مسلمان خرید لیتے ہیں اور خرید کرکے اسے مسجد بنالیتے ہیں ، ہر سڑک کے اوپر ہر جگہ چرچ کا بناہونا اس بات کو بتاتا ہے کہ کسی زمانہ میں اس قوم کا تعلق مذہبی چرچ سے اتنا مضبوط تھا کہ کہیںیہ قوم بغیر چرچ کے نہیں رہ سکتی تھی،یہ مغربی تہذیب ہے کہ سو،ڈیڑھ سو سال سے یہ چرچ کھڑے ہوئے ہیں،لیکن ان میں کوئی آنے والانہیں ہے،یہ ایک ایسی چیز ہے جس کے لئے کسی منطقی دلیل کی ضرورت نہیں،میدانِ عمل میں جاؤاوردیکھو،اگرکسی مذھب کے ماننے والوں کوزیرنہیں کیا جاسکااوروہ یورپ میں رہ کراپنے دین کومضبوطی سے پکڑے ہوئے ہیں،تووہ آج مسلمان کے سوا کوئی اورقوم نہیں۔
مدرسہ ، دین پر قائم رہنے کا ذریعہ :
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ بچے اسکولوں میں پڑھتے ہیں ، بڑے بڑے کالجوں اور یونیورسٹیوں میں پڑھتے ہیں ، انہوں نے کیسے تھام رکھا ہے ؟ وہ طاقت کون سی ہے جو انہیں مذھب پر لگائے ہوئے ہے ؟ میں اور آپ اس کی قدر وقیمت نہیں پہچانتے ، ہم تو سمجھتے ہیں کہ ایک مدرسہ ہے ، ایک مکتب ہے اور بچوں کو قاعدہ بغدادی پڑھا رہا ہے ، لیکن یہ اتنی بھاری بھر کم چیز ہے کہ وہ حکومتیں جو یورپ اور امریکہ میں بیٹھی ہوئی ہیں ، وہ اس کے ثقل کو وہاں بیٹھے محسوس کررہی ہیں کہ آخر کیا بات ہے ؟ ساری دنیا پر حکومت ہماری ہے ، اور وہ جو ہم چاہتے ہیں وہ نہیں ہورہا ، اس میں ہمارا مقابلہ کون سی طاقت کررہی ہے ؟ وہ طاقت ہے مدارسِ اسلامیہ ۔
حصولِ علم کے لئے ضروری چیز :
میرے بھائی ! آپ اس طاقت کو محسوس کریں اور مدرسوں کے اندر آپ اپنی زندگی کو بنانے کے لئے وہ ثقل لائیں جس کے سامنے دنیا کی بڑی سے بڑی طاقت اپنے سر کو جھکادے ، اس کے لانے کا طریقہ کیا ہے ؟ اس کے لانے کا طریقہ صرف یہی ہے کہ آپ اپنی زندگی کو اس علم کے حاصل کرنے میں وقف کردیں ، علم اس طرح حاصل نہیں ہوتا ، جس طرح آج کل کے زمانہ میں ہے کہ ادھر گئے ، کتاب اُٹھائی اور آکر استاد کے سامنے بیٹھ گئے ، وہ لوگ جن کو اللہ نے دماغ دیا ہوا تھا اور وہ علم میں ڈوبے ہوئے تھے ، ان لوگوں کا تجربہ ہے کہ ایک عالم کو عالم بننے کے لئے اور طالب علم کے علم کی ضمانت کے لئے تین چیزوں کا ہونا شرط ہے :
۱۔۔۔:(طا لب علم)سبق میں آنے سے پہلے مطالعہ کرتا ہو،چاہے کچھ سمجھ میں آئے یا نہ آئے۔
۲۔۔۔:جو سمجھا ہے اس کی اصلاح کے لئے استاد کے سبق میں غور وفکر کے ساتھ بیٹھتا ہو،(وہ) غورکرے کہ جو میں نے سمجھا وہ صحیح تھا یا نہیں ؟ اگر صحیح تھا تو خدا کا شکر ادا کرے ، غلط تھا تو اصلاح کرے ۔
۳۔۔۔:استاد کے سبق میں اصلاح کرلینے کے بعد بیٹھ کر اس کو دُہرالے ۔
یہ اصحاب فن اساتذہ کا قول تھا اور وہ اسی طرح طالب علم کی تربیت کیا کرتے تھے اوروہ لوگ نکلے باہر جہاں دنیا میں جاکر بیٹھ گئے،کامیاب مدرس بن گئے۔یہ انتہائی ضروری چیز ہے۔اگر آپ نے اپنی تمام دلچسپیوں کو سمیٹ کر علم کے حصول کے لئے ان تین چیزوں میں لگادیں تو آپ وہ مردِ میدان ہوسکتے ہیں کہ دنیا کی بڑی سے بڑی طاقت کے پنجے میں پنجہ ڈال سکتے ہیں اور ایسے ہی وہ لوگ تھے جنہوں نے دنیا میں کام کیا ، جن اسلاف کا نام لیا جاتا ہے وہ ایسے نہ تھے کہ طالب علمی کے زمانہ میں ان کے مشاغل ہوا کرتے تھے ۔
طالب علمی کے زمانہ میں حصولِ علم کے علاوہ دیگر مشغولیات سے بچنا:
طالب علمی کے زمانہ میں علم کے حصول کے علاوہ کسی اور مشغلے سے دلچسپی درحقیقت اپنی زندگی کو خراب کرنا ہے۔ہمارے اکابر حضرت(مولانارشیداحمد)گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ سے لیکر اور پھر وہ سلسلہ حضرت شیخ الہند(مولانامحمودحسن)رحمۃ اللہ علیہ پر پہنچا ، ان کی شخصیت ایسی شخصیت ہے کہ دنیا کے اندر ایسی مثالیں علماءِ امت کے اندر کم ملیں گی ، کسی ایک شخص کے شاگردوں میں اتنے بڑے بڑے اصحابِ فن ، اہل علم جو مختلف علوم و فنون کے ماہر اور امامت کا درجہ رکھنے والے اور سب کے سب ایک بنیاد پر جاکر مل رہے ہیں ، بہت کم لوگ امت کے اندر ایسے ملیں گے جنہوں نے اتنے بڑے بڑے علماء ، ائمہ کو پیدا کرڈالا۔اسی سے اندازہ ہوتا ہے کہ خود اس شخص کے اندر کتنی علمی طاقت اور اس کے علم میں کتنی وسعت تھی جو بھی صاحبِ صلاحیت شاگرد آکر بیٹھ گیاوہ پتھر تھا اور ہیرا بن گیا۔حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ جنہیں ’’مجدّدِ ملت‘‘ کہا جاتا ہے ، حضرت شیخ الہند رحمۃ اللہ علیہ کے شاگرد تھے۔ایک لطیفہ یاد آیا ، حضرت شیخ الہند رحمۃ اللہ علیہ ایک مرتبہ تھانہ بھون تشریف لے گئے ، حضرت تھانوی کا بڑا نپاتُلا معاملہ ہوا کرتا تھا ، لیکن حضرت نے اپنے استاد کے لئے اپنے دسترخوان کو سجاڈالا ، جو کرسکتے تھے کرلیا ، حضرت نے پوچھا کہ مولوی اشرف علی ! اس تکلیف کی کیا علّت ہے ؟ حضرت تھانویؒ انتہائی ذہین آدمی تھے ، فوراً فرمایا : حضرت ! اس کی علت آپ کی تشریف آوری کی قلت ہے۔یہ کمالات جو حضرت تھانویؒ میں پیدا ہوئے،یہ کہاں سے آئے تھے ؟ حضرت مولانا انور شاہ صاحب کشمیری رحمۃ اللہ علیہ حافظ حدیث،اللہ نے انہیں علم کا سمندر عطا کیا تھا۔انہیں میں حضرت مفتی کفایت اللہ صاحب مفتئ اعظم،بڑے بڑے مفتی اُن کے پیروں کوچُھوا کرتے تھے ، دارالعلوم کے مفتی ، بڑے ماہر آدمی تھے ، فتوی کے اندر شامی کا مطالعہ تین مرتبہ کیا تھا اور کسی بھی مسئلے کو تلاش کرنا ہوتا تھا تو بس ایک دفعہ کتاب کھولتے تھے اور پانچ سات صفحے اِدھریاپانچ سات صفحے اُدھر،اتنی مستحضر تھی۔حضرت مفتئ اعظمؒ کے انتقال کا وقت قریب تھا ، حضرت رحمۃ اللہ علیہ تشریف لے گئے اور مفتی مہدی حسن صاحب بھی ساتھ ساتھ ، حضرت مفتی صاحب سید تھے اور حضرت مفتئ اعظم رحمۃ اللہ علیہ قوم کے نائی تھے ، حجام تھے ، لیکن علم ایسی چیز ہے کہ حضرت مفتی صاحب لیٹے ہوئے تھے جہاں سے نظر پڑی ، وہیں سے دوڑے ، جھکتے ہوئے مفتی مہدی حسن آئے اور جاکر ان کے قدموں میں گرگئے ، اتنا بڑا علم تھا اور کہاں سے پیدا ہوا ؟ حضرت شیخ الہند رحمۃ اللہ علیہ سے ! مجھ سے حضرت رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ حضرت مفتی صاحب کا کمال یہ تھا کہ بڑے بڑے مضامین بہت ہی مختصراورجامع انداز میں بیان کرنے کاسلیقہ رکھتے تھے۔فرمایاکہ :مجھے اورمفتی کفایت اللہ صاحب کوحضرت شیخ الہند رحمۃ اللہ علیہ نے پڑھایا اور پرچۂ امتحان بھی بنایا ، میں نے چھ صفحے لکھے اور حضرت مفتی صاحب نے بارہ سطریں لکھی تھیں جواب میں اور حضرت شیخ الہند رحمۃ اللہ علیہ نے دونوں کو برابر نمبر عنایت فرمائے تھے۔کیسے بڑے بڑے لوگ تھے اور کتنا علم تھا ان کے اندر۔یہاں پاکستان (لاہور) میں حضرت مولانا احمد علی صاحبؒ مفسرِ قرآن حضرت شیخ الہند رحمۃ اللہ علیہ کے شاگرد تھے ، مولانا شبیر احمد عثمانیؒ ، حضرت شیخ الہندؒ کے شاگر تھے ، بڑے بڑے لوگ جس میدان کے اندر دیکھئے ، حضرت شیخ الہند رحمۃ اللہ علیہ کے شاگردنظرآئیں گے۔
میرے بھائی ! یہ وہ افراد ہیں جنہوں نے کام کیا ، میں یہ کہہ رہا تھا کہ جو سلسلہ حضرت گنگوہی سے چلا تھا وہ اتنا مضبوط تھا کہ یہ حضرات ، حضرت مدنی رحمۃ اللہ علیہ تک کسی طالب علم کو کبھی بیعت نہیں کرتے تھے ، فرماتے تھے کہ جب تک پڑھ رہے ہو ،اپنی ساری توجہ پڑھنے کے اندر لگاؤ ، یہاں تک کہ فرائض و واجبات و سنن کے علاوہ ذکر میں اشتغال بھی اگر پیدا ہوگا تو حصول علم کے اندر حارج ہوگا۔میں نے حضرت رحمۃ اللہ علیہ کو دیکھا کہ کبھی کسی طالب علم کو بیعت کی اجازت نہیں دیتے، موجودہ زمانہ کے اندر جو آج کشمکش ہے وہ خیالات ، نظریات ، وہ دلچسپیاں جو حصولِ علم کے بعد ہونی چاہئیں تھیں ، میں دیکھتا ہوں کہ مدرسوں کے اندر گُھس آئی ہیں اور میں یہ مدرسوں کے لئے بھی زہر سمجھتا ہوں ، طالب علم کے لئے بھی زہر سمجھتا ہوں ، آپ کا یہ کام نہیں کہ دنیا کے اندر کیا ہورہا ہے ؟۔
طلب علم کے زمانہ میں غیر علمی سرگرمی اپنے آپ کو خراب کرنا ہے :
آپ کسی تحریک کے اندر چل پڑے ، اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ نے اپنے میدان کو چھوڑدیا ، آپ کبھی کامیاب نہیں ہوسکتے ، آپ پڑھ لیں ، حصولِ علم کرلیں اور فارغ ہونے کے بعد آپ جس میدان میں چاہیں گُھس جائیں ، باطل کے مقابلہ کے اندر گُھس جائیں ، آپ تبلیغ کے اندر چلے جائیں ، آپ سیاست کے اندر گُھس جائیں ، آپ تعلیم کے میدان میں مدرسہ کے اندر بیٹھ جائیں ، فارغ ہونے کے بعد جہاں جس وقت اسلام کو آپ کی ضرورت ہو ، سمجھ لینے کے بعد آپ وہاں چلے جائیں اور اسلام کے ایک خادم کی حیثیت سے اپنے سر سے کفن باندھ کر کام کریں ، بہت اچھی بات ہے !
زمانۂ طالب علمی کے دوران آپ اپنی مشغولیت کسی دوسری چیز کی طرف لگائیں ، اس کا مطلب ہے کہ آپ نے اپنے آپ کو بے کار کردیا ، آپ کے پاس علم ہوگا ، جو چاہے آپ کرلیں ! علم آپ کو اس بات کی اجازت نہیں دیتا ، میں جو بات آپ سے کہہ رہا ہوں آپ اسے لکھ لیں ، میرا تجربہ ہے چالیس پچاس سال کا ، میں آپ سے کہتا ہوں کہ زمانۂ طالب علمی میں آپ کی زندگی کے اندر کسی بھی تحریک کا گُھسنا ،چاہے وہ تحریک آپ کو کتنی ہی پاکیزہ لگتی ہو،آپ اپنے آپ کو الگ رکھیں ، ابھی اس کا وقت نہیں ہے ، مدرسہ کے اندر ۔
مدرسہ کوخارجی اثرات سے محفوظ رکھنا چاہتے ہیں ، شرور وفتن سے محفوظ رکھنا چاہتے ہیں ، اگر آپ اپنی زندگی کو عالمانہ زندگی بنانا چاہتے ہیں ، اگر آپ فارغ ہونے کے بعد اسلام اور مسلمانوں کی مختلف ضرورتوں کے اندر اپنی شخصیت کو مرکزی شخصیت بنانا چاہتے ہیں تو طالبعلمانہ زندگی آپ کی پاکیزہ ہونی چاہئے ، پڑھنے کے بعد جو جی چاہے آپ کیجئے۔اور اگر آپ نے ان حالات کے اندر جن سے دنیا گزر رہی ہے ، ایسا نہ کیا اور مدرسے آپ کی وجہ سے خارجی اثر کا مرکز بن گئے تو مدرسے اُکھڑ جائیں گے ، آپ محفوظ نہیں رہ سکتے۔موجودہ زمانہ کے اندر میں دیکھ رہا ہوں کہ طرح طرح کی وہ چیزیں جو مدرسے سے باہر کی تھیں ، وہ اندر گُھس آئی ہیں اور وہ اندر گُھسی ہیں تو اس کے نتائج دنیا کے اندر دیکھ رہے ہیں۔ مدارس کے بارے میں اِک وباہے جو ساری دنیا میں پھیلی ہے کہ مدرسے کیاہیں؟مدرسے کیاہیں؟ مدرسے کیاہیں؟ایک آفت ساری دنیا میں آئی ہوئی ہے ،دنیاکے بعض ملک ایسے بھی ہیں جہاں مدرسوں کو بند کردیا گیا ہے ، ایسے بھی ہیں جہاں وہ طاقتیں جو یہ دیکھ رہی ہیں کہ ہمارا ہی راج ہونا چاہئے تھا،ساری دنیا میں۔وہ یہ دیکھ رہی ہیں کہ یہ تحریکیں مدرسوں کے اندر گھس رہی ہیں ، بہت اچھا موقع ہے مدرسوں کو اجاڑنے کا ۔اللہ تعالیٰ حفاظت فرمائے ! آمین ۔
میرے بھائی ! آپ کو اس کی کوشش کرنی چاہئے اور جس کے اندر صلاحیت ہے اس کو علمی میدان کے اندر آگے بڑھنا چاہئے
نصابِ تعلیم کا مقصد :
میں آپ سے ایک بات کرتا ہوں اور آپ میں سے بہت سے لوگوں کو اس کے اندر غلط فہمی ہوگی ، آپ جس نصابِ تعلیم کو پڑھتے ہیں ، اس نصاب تعلیم کو یہ سمجھنا کہ آپ اسے پڑھ کر عالمِ دین بن گئے ، یہ بڑی غلط سوچ ہے۔دنیا کا کوئی نصابِ تعلیم ایسا نہیں ہے جو اس فن کی انتہا ہو ، نہیں ہوتا یہ ، بہترین سے بہترین نصابِ تعلیم کی خصوصیت یہ ہے تین شرائط کے ساتھ ، کامیاب سے کامیاب ترین نصابِ تعلیم وہ ہے کہ اگر وہ شرائط میسر ہوجائیں تو اس نصابِ تعلیم کو پڑھنے کے بعد آپ میں یہ لیاقت پیدا ہوجائے کہ اس فن سے متعلق بے پڑھی کتابوں کا مطالعہ کرکے آپ اس کو حل کرسکیں۔ورنہ یہ سمجھنا کہ دو سال آپ نے حدیث کی کتابیں پڑھیں ، مشکوٰۃ اوراس کے بعد جو ہمارے نصابِ تعلیم میں کتابیں ہیں ، ان کو پڑھ کر آپ نے سارا علمِ حدیث حاصل کرلیا،نادانی کی بات ہے۔ایسا نہیں ہے۔ترجمہ قرآن شریف کا پڑھ کر کے ، ایک جلالین پڑھ کر کے کوئی شخص یہ سمجھنے لگے کہ میں نے سارے قرآن کے علم کو حاصل کرلیا ، کیا کہاجائے گاسوائے اس کے کہ بُزِاخفش ہے ، ایسا نہیں ہے ، صرف اتنا ہے کہ کامیاب سے کامیاب تر نصابِ تعلیم اُسے کہا جائے کہ دو تین شرائط کے ساتھ اس نصابِ تعلیم کو پڑھنے کے بعد ہمارے طالب علم میں یہ لیاقت پیدا ہوجاتی ہے کہ وہ ان فنون کی بے پڑھی کتابوں کوقوتِ مطالعہ سے حل کرسکتا ہے،وہ شرائط یہ ہیں :
۱۔۔۔:طالب علم ذہین ہو ، محنتی ہو ۔
۲۔۔۔: اس کا استاد باکمال ہو ، علم کو منتقل کرنے کی اس میں صلاحیت ہو ، باکمال کا یہ مفہوم ہے ، خود جانتا ہے اور جو علم اللہ نے اس کو سینے اور دماغ میں دیا ہے وہ اپنے علم کو منتقل بھی کردے ، طالب علم کو، یہ بہت بڑی چیز ہے ۔
۳۔۔۔: اور تیسری چیز یہ ہے کہ وہ استاد اپنا علم طالب علم کو دینا چاہتا ہو، محنت کرے اور محنت لے ، طالب علم سے۔ اگر یہ تین شرائط ہیں اور نصابِ تعلیم کامل اور مکمل ہو تو وہ طالب علم میں یہ لیاقت پیدا کردے گا کہ اب وہ مطالعہ کرکے بے پڑھی کتابوں کو حل کرسکتا ہے۔میں اسی لئے اپنے طلباء عزیز سے کہتا بھی رہتا ہوں کہ جن طلباء کو اللہ نے صلاحیت دی ہے اور انہوں نے محنت سے پڑھا ہے ، اساتذہ اصحاب فنون تھے ، انہوں نے چاہا کہ اپنے علم کو منتقل کردیں ، محنت کی ہے اور محنت لی ہے ، ان طلباء کو اپنی تعلیمی سرگرمیاں آگے بڑھانا چاہئیں ، مطالعہ کرنا چاہئے ، کتابوں کو پڑھنا چاہئے ، تاکہ وہ مستقبل میں ایک بہترین مدرس بن کر مدارس کو آباد کرسکیں ، ان کی ضرورتوں کو پورا کرسکیں۔وہ طلباء جن کے اندر یہ لیاقت نہیں ہے ، وہ خداداد صلاحیت ان کے اندر نہیں ہے ، قوتِ حافظہ نہیں ہے ، وہ محنت نہیں کرسکے ، آپ نے اسلام کی مبادیات کو سیکھ لیا ، حلال وحرام کو جان لیا ہے ، آپ ہر میدان کے اندر جہاں اسلام کو آپ کی ضرورت ہے ، آپ وہاں بڑھ جائیے ، کوئی حرج نہیں ہے ۔
مدرسے کو ہرقسم کی تحریک سے پاک رکھیں :
لیکن ان دنوں کے اندر میں یہ کہتا ہوں کہ آپ اپنی مدرسے کی زندگی کو ہر تحریک سے پاک رکھیں ، جہاں آپ جب بھی کسی تحریک کے اندر گُھسیں گے اور آپ اپنے خیالات کے اندر ان خارجی اثرات کو لائیں گے ، اور اپنی زندگی کو اسی رنگ میں رنگنا چاہیں تو یاد رکھئے ! کہ طالب علمانہ رنگ نکل جائے توآپ اچھے معلّم یا متعلّم نہیں بن سکیں گے۔یہ تجربہ ہے۔اور میں آپ سے یہ بات کہتا ہوں کہ آپ کو اپنی زندگی اس طرح کی پاکیزہ زندگی (گزارناچاہئے کہ آپ کو معلوم نہ ہوکہ)کہ کیا ہورہا ہے باہر ؟ کچھ نہیں ! جب ہم پڑھ لیں گے پھر اپنے لئے راستے کو متعین کریں گے۔طالب علمانہ زندگی میں آپ میں یہ لیاقت نہیں ہے کہ آپ اچھے اور برے کو پرکھ بھی سکیں، آپ کے لئے کون سی چیز کامیاب کرنے والی ہے ، کون سی چیز ناکام بنانے والی ہے ، آپ میں ابھی یہ لیاقت وصلاحیت بھی نہیں ہے ، جب آپ پڑھ کر نکل جائیں گے تب اس کے بعد آپ کسوٹی کے اوپر پرکھئے ، اس کے انجام کو دیکھئے ، مختلف چیزوں کے اندر موازنہ کیجئے ، اپنے بڑوں سے مشورہ کیجئے ، اور مشورہ کرلینے کے بعد اپنے لئے ایک راستہ کو متعین کر لیجئے۔آپ اس میں کامیاب ہوں گے۔طالب علمانہ زندگی میں(یہ سب کچھ) نہیں ہوسکتا ، اگر ہوسکتا ہے تو صرف یہی کہ آپ طالب علم ہیں ، اپنے آپ کو طلب علم کے اندر بالکل مستغرق بنادیجئے ، تب آپ کامیاب ہوں گے ، ورنہ نہیں ۔
اشاعت ۲۰١۲ ماہنامہ بینات , ربیع الثانی ۱۴۳۳ھ - مارچ۲۰١۲ء, جلد 75, شمارہ 4

    پچھلا مضمون: رہنمایانِ قوم کے ہاتھوں اسلامی تہذیب واقدارکی پامالی 
Flag Counter