Deobandi Books

ماہنامہ البینات کراچی ربیع الثانی ۱۴۳۳ھ - مارچ۲۰١۲ء

ہ رسالہ

4 - 8
امت مسلمہ کو آج باطنی اصلاح کی ضرورت ہے.
امت مسلمہ کو آج باطنی اصلاح کی ضرورت ہے

الحمد للہ! دین اسلام کی تبلیغ اور اشاعت مختلف صورتوں سے ہورہی ہے اور امت کی اصلاح کی جد وجہداور تدبیریں ہورہی ہیں، جس کے نتیجے میں اللہ کے فضل وکرم سے ظاہری صورتیں، مثلاً وضع قطع، لباس، حج، نماز، زکوٰۃ، روزہ وغیرہ میں اللہ تعالیٰ کے احکامات زندہ ہورہے ہیں، لیکن اعمال کی روح اور باطنی اصلاح کے بغیر اللہ کا تعلق نصیب نہیں ہوتا اور اسلام کی حقیقت اور قدریں نمایاں نہیں ہوتیں۔ اور بزرگان دین فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کا حکم ہے کہ پورے دین میں داخل ہوجاؤ۔ مسلمانوں کی اعانت اور امداد دین کی پختگی میں وابستہ ہے۔ آج حال کا امر ہے کہ مسلمان اپنی روحانی قدریں پہچانیں، تاکہ ہمیں روحانی طاقت وقوت نصیب ہوجائے اور ہم دنیا کے فریب میں ایمان کو نہ چھوڑیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
’’اللہ رب العزت تمہاری صورتوں اور کھالوں کو نہیں دیکھتا، بلکہ تمہارے دلوں کو دیکھتا ہے‘‘۔ تو قلب رب العالمین اور احکم الحاکمین کے نظر فرمانے کا مقام ہے، اس شخص پر تعجب ہے جو اپنے چہرہ کا اہتمام کرتا ہے جو مخلوق کے دیکھنے کی چیز ہے، اس کو دھوتا اور گندگیوں اور میل سے صاف کرتا اور حتی الوسع اس کو خوبصورت بنانے کی کوشش کرتا ہے، تاکہ مخلوق کسی عیب پر نہ مطلع ہو اور اپنے اس قلب کا اہتمام نہیں کرتا جو رب العالمین کے نظر فرمانے کا مقام ہے، کسی عیب اور برائی ، گندگی اور آفت کو اس میں نہ دیکھے، بلکہ اس کو تو فضیحتوں، گندگیوں اور برائیوں میں ڈالے رکھتا ہے، اگر مخلوقات میں سے کوئی اس کو دیکھ لے تو اس سے علیحدگی اور جدائی اختیار کرلے اور اس کو چھوڑ دے۔
قلب ایسا بادشاہ اور رئیس ہے کہ اطاعت اور فرمانبرداری کے قابل ہے اور تمام اعضاء انسانی اس کے تابع اور ماتحت ہیں، لہذا جب متبوع میں صلاحیت پیدا ہوگی تو تابع میں یقینی طور پر ظاہر ہوگی اور جب بادشاہ راہ راست اختیار کرے گا تو اس کی رعایا خود راہ راست پر آجائے گی اور اس چیز کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد بخوبی بیان کردیتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’إن فی الجسد لمضغۃ اذاصلحت صلح الجسد کلہ وإذا فسدت فسد الجسد کلہ ألا وہی القلب‘‘ ۔ (ابن ماجہ،ج:۵،ص:۴۶۷) ترجمہ:۔’’بدن میں گوشت کا ایک ٹکڑا ہے، جب وہ درست ہو تو سارا بدن درست ہوتا ہے اور وہ خراب ہو تو سارا بدن خراب ہوجاتا ہے، ہوشیار رہو کہ وہ قلب ہے‘‘۔
حضرت حاجی امداد اللہ مہاجر مکیؒ فرماتے ہیں کہ طالب حق کو چاہئے کہ پہلے فرقہ ناجیہ (اہل سنت والجماعت) کے عقائد کے موافق اپنے عقائد کی تصحیح کرلے اور اس کے بعد مسائل ضروریہ کو سیکھے اور کتاب وسنت اور آثار صحابہ رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کا اتباع کرے، اس کے بعد نفس کو رذیل اخلاق وعادات سے پاک اور صاف کرے، چنانچہ ایک بزرگ کا ارشاد ہے۔
خواہی کہ شود دل تو چوں آئینہ
دہ چیز برون کن ازدرون سینہ
حرص وامل وغضب دروغ وغیبت
بخل وحسد وریا وکبرو کینہ
خواہی کہ شدی منزل قرب مقیم
نہ چیز بنفس خویش فرما تعلیم
صبر وشکر وقناعت وعلم ویقین
تفویض وتوکل ورضا وتسلیم
یعنی اگر تو چاہتا ہے کہ دل مثل آئینہ ہوجائے تو دس چیزیں دل سے نکال دے: حرص، امل ،(امید)غضب، دروغ (جھوٹ) ،غیبت، بخل، حسد،ریا ،کبر،کینہ اور چاہتا ہے کہ قرب الٰہی حاصل ہو تونو چیزیں اپنے نفس میں پیدا کر: صبر،شکر، قناعت، علم، یقین، تفویض، توکل،رضااورتسلیم‘‘۔
حضرت امام غزالیؒ فرماتے ہیں:’’قلب ایک قلعہ ہے اور شیطان دشمن ہے۔اور وہ چاہتا ہے کہ قلعہ میں داخل ہوکر اس پر قبضہ کرلے۔ دشمن سے قلعہ کی حفاظت تب ہی ہوسکتی ہے کہ اس کے دروازوں کی حفاظت کی جائے اور تمام گزرگاہوں کو بچایاجائے، جو شخص حفاظت کرنا نہ جانتا ہو، وہ حفاظت بھی نہیں کرسکتا، چنانچہ وسواس شیطانی سے دل کی حفاظت کرنا واجب ہے، بلکہ یہ کام ہر مکلف پر بھی واجب ہوتا ہے، جب تک شیطانی گزرگاہوں سے واقف نہ ہو تب تک شیطان کو دور نہیں کرسکتا، اس لئے ان گزر گاہوں کا علم حاصل کرنا واجب ہے اور ان دروازوں سے آگاہ ہونا بھی واجب ہے، یہی بندے کی صفات ہیں اور یہ کئی ایک ہیں مثلاً:
۱۔ غضب وشہوت، غضب توعقل پر جناتی اثر کی طرح ہے۔ جب عقل کمزور ہو تو شیطانی لشکر حملہ آور ہوتا ہے اور جب انسان غصہ کرتاہے تو شیطان اس کے ذریعہ سے اپنا کھیل کھیلتا ہے، جیساکہ بچے گیند سے کھیلتے ہیں۔
۲۔حسد وحرص، ان دونوں کی وجہ سے انسان ہرچیز کا حریص بن جاتا ہے، یہ چیزیں اسے لالچی اور اندھا بنادیتی ہیں، اب شیطان کو موقع ملتا ہے، حرص کے وقت وہ شہوت تک پہنچ جاتا ہے، چاہے کس قدر برا اور بے حیائی کا کام ہو۔
۳۔سیر ہوکر کھانا، اگرچہ حلال اور پاک ہو، اس لئے کہ سیر ہو کرکھانے سے شہوات کو قوت حاصل ہوتی ہے اور یہ شیطان کے ہتھیار ہیں۔
۴۔مکان، لباس اور سامان خانہ کے ساتھ زینت کرنا، جب انسان کے دل میں اس کا غلبہ دیکھتا ہے تو اس کو بڑھاتا ہے، وہ ہمیشہ مکان بنانے، اس کی چھتیں، دیوار سجانے اور عمارات کو وسیع کرنے میں لگائے رکھتا ہے، اس کے دل میں یہ بات ڈال دیتا ہے کہ تیری عمر بہت لمبی ہوگی، جب وہ ان کاموں میں گھر گیا تو اب دوبارہ اس کے پاس اسے آنے کی ضرورت نہیں رہتی، اب بعض کی حالت یہ ہوتی ہے کہ وہ اسی حالت میں مرجاتے ہیں کہ وہ شیطان کی راہ پر گامزن ہوتے ہیں، خواہشات کے مطیع ہوتے ہیں، اس سے انجام خراب ہونے کا بھی ڈر ہوتا ہے۔
دنیا دار الامتحان ہے، یہ زندگی اللہ تعالیٰ کی امانت ہے، اس کو ہم اپنی مرضی کی مطابق نہیں گزارسکتے، مگر ہرکام میں دیکھنا ہوگا کہ اللہ تعالیٰ کا کیا حکم ہے؟ اور حضورصلی اللہ علیہ وسلم کا کیا طریقہ ہے؟۔
زندگی موت ہے اور موت زندگی کی ابتداء ہے جو اصل اور ابدی ہے، لہذا اس دنیا میں انسان کی ابدی زندگی سنوارنے کے لئے دو طریقے ہیں، اول: دل۔ اور دوم: جسم۔
دل جسم کا بادشاہ ہے، اگر وہ سنور گیا تو پورا جسم یا یوں کہئے پوری زندگی سنور گئی اور اگر وہ خراب یا فاسد ہوگیا تو پوری زندگی خراب ہوجائے گی ۔ دل کا تعلق براہ راست اللہ تعالیٰ سے ہے،دل احساسات کی کائنات ہے، دل مسکن الٰہی ہے۔ انبیاء کرام علیہم السلام، اولیاء کرامؒ نے ہمیشہ لوگوں کے دلوں پر محنت کی۔ دل میں اللہ تعالیٰ اپنے سوا کسی غیر کو، محبت کی نسبت، خوف کی نسبت، امید اور یقین کی نسبت نہیں دیکھنا چاہتے۔ ایمان دل کی کیفیت کا نام ہے اور جسم سے اس کا اطاعت الٰہی کی صورت میں ظہور ہوتا ہے۔ایک بزرگ ارشاد فرماتے ہیں:
’’جس طرح رات دن کا فرق ہے، اسی طرح نور وظلمت کا فرق ہے۔ نور حقیقی کے ظاہر ہوجانے کے بعد (یعنی اپنے اعمال نظر آجانے کے بعد) رات اور دن کے فرق کی طرح دین اور دنیا کا فرق معلوم ہوگا۔ دن کی روشنی اعمال میں کامیابی دکھاتی ہے اور دنیا کی چیزوں سے متنفر اور صراط مستقیم کا راستہ دکھاتی ہے۔ سورج کی روشنی بغیر محنت آجائے گی ، لیکن اعمال دکھانے والی روشنی محنت سے آتی ہے اور جب یہ روشنی نصیب ہوگئی تو پھر مطلب حاصل ہوگا۔ اس روشنی کے حصول کے بعد نہ سود کے نزدیک جائے گا، نہ کسی کو دھوکہ دینے کا سوال پیدا ہوگا اور نہ رشوت یا دیگر منکرات کے قریب جائے گا، جو کام کرے گا مرضی مولیٰ کی خاطر کرے گا، اگر کسی کو دوست بنائے گا تو بھی اسی کی مرضی مطلوب ہوگی اور اگر کسی کو دشمن سمجھے گا تو بھی اسی کی رضا کے لئے ‘‘۔
اشاعت ۲۰١۲ ماہنامہ بینات , ربیع الثانی ۱۴۳۳ھ - مارچ۲۰١۲ء, جلد 75, شمارہ 4

    پچھلا مضمون: طویل دورانیہ کی رات اوردن میں نمازوروزہ کی ادائیگی کاطریقہ!
Flag Counter