Deobandi Books

ماہنامہ البینات کراچی رمضان،شوال ۱۴۳۲ھ -ستمبر ۲۰۱۱ء

ہ رسالہ

8 - 16
اربابِ وفاق المدارس العربیہ پاکستان کی خدمت میں ترویجِ تجوید کے لئے چند تجاویز !
اربابِ وفاق المدارس العربیہ پاکستان کی خدمت میں ترویجِ تجوید کے لئے چند تجاویز

تجوید کی فرضیت ،قرآن کا اصل ہونا اور باقی علوم وفنون کا خدامِ قرآن ہونا اہل علم سے مخفی نہیں اور یہ بھی واضح ہے کہ حروف کی صحت تجوید کے بغیر ممکن نہیں۔
حضرت حاجی امداد اللہ مہاجر مکی  نے حضرت مولانا اشرف علی تھانوی کو لکھا کہ یہاں ہندوستانی علماء کی کوئی وقعت نہیں، عرب بڑی حقارت ونفرت سے دیکھتے ہیں اور ان کے پیچھے نماز نہیں پڑھتے اور کہتے ہیں: انہیں قرآن پڑھنا نہیں آتا، اس کی وجہ یہ ہے کہ مدارسِ عربیہ میں تجوید کا رواج نہیں ہے، عالم تو بن جاتے ہیں، مگر قرآن پڑھنا نہیں آتا۔
حضرت مولانا رحمت اللہ کیرانوی نے مقامی حالات کا اندازہ لگالیا کہ تجوید رائج کئے بغیر ہندوستانی علماء کی حقارت ونفرت ختم نہیں ہوگی، اس لئے آپ نے مدرسہ صولتیہ کے ابتدائی دور ہی میں تجوید وقراء ات کا اہتمام کیا اور سب سے زیادہ اسی پر توجہ دی، پھر اس مدرسہ سے جو بھی فارغ التحصیل ہوا، عالم بھی ہوتا اور کامل ومکمل قاری بھی، جس سے ہندوستانیوں کا سر اونچا ہوا اور ان کے سروں پر عزت ووقار کا تاج رکھا گیا۔ الحمد لله علی ذلک
حضرت حاجی امداد اللہ مہاجر مکی لکھتے ہیں کہ: اس مدرسہ کے فضلاء حرمین شریفین کے مدارس میں تعلیم یافتہ عرب مدرسین کو تجوید پڑھاتے اور مشق وحدر پر خوب محنت کراتے۔ اس مدرسہ کے فضلاء عدالتوں میں قاضی لگے، حتی کہ” شیخ عبد اللہ خیاط“ اصل ہندی تھے، آپ نے اسی مدرسہ میں تعلیم حاصل کی اور عالم وقاری بنے، آپ حرمِ مکی کے خطیب تھے اور آخر عمر تک خطیب رہے۔” شیخ محمد السبیل“ انہیں کے دور میں حرم مکی کے امام بنے، مگر جمعہ کی نماز اور خطبہ ”شیخ عبد اللہ خیاط“ ہی پڑھاتے تھے۔
ہندوستانیوں نے دوسرے علوم کے ساتھ تجوید وقراء ات کے حاصل کرنے میں بھی محنت کی۔ اللہ رب العزت نے حقارت ونفرت کو الفت ومودت سے بدل دیا، حضرت قاری عبد اللہ مکی باب العمرة میں تراویح پڑھاتے تھے، اعیانِ حکومت اور شائقین، حتی کہ شریفِ مکہ (گورنر) تک آپ کے پیچھے تراویح پڑھتے تھے، یہ سارا جادو تجوید کا تھا۔تجوید کی فضیلت واہمیت کی روشنی میں بندہ کے ذہن میں کچھ تجاویز ہیں، جو وفاق المدارس کے ذمہ داران اور اہل مدارس کی خدمت میں پیش کرتا ہوں، امید ہے کہ ان کی شنوائی ہوگی، انشاء اللہ دنیا وآخرت میں اجر کا باعث ہوگا۔
۱… وفاق المدارس تجوید کو باضابطہ قانونی حیثیت دے کر شعبہٴ کتب کے تمام درجات میں لازمی قرار دیدے، پھر اگر کتب میں کوئی اعلیٰ نمبر حاصل کرلے، مگر قرآن پڑھنا نہیں آتاتو اس کی سند روک لی جائے، تاآنکہ تجوید کے مطابق قرآن صحیح پڑھنا نہ سیکھ لے اور اس میں لچک بالکل نہ رکھی جائے۔
۲…پہلے چار سالوں میں تعلیمی گھنٹے مختصر کرکے تجوید کے لئے ایک گھنٹہ کا اضافہ ہوجائے اور ان چار سالوں میں تجوید کی تکمیل لازمی قرار دی جائے اور یہ تکمیل برائے نام نہ ہو، بلکہ ہرطالب علم مشق وحدر میں خوب پختہ ہوجائے اور کام کا قاری بن جائے۔ یہ بات اسی وقت بنے گی کہ پڑھانے والا استاذ قاری ہو اور اجتماعی طور پر پڑھانے کی صلاحیت رکھتا ہو۔
۳…درجہ ثالثہ سے لے کر تمام درجات تک میں داخلہ کی شرطِ اول تجوید کی سند ہو، اس کے بغیر داخلہ کا تصور ہی نہ ہو۔
۴…تجوید پڑھانے والا استاذ ماہر قاری ہو۔ غیر قاری استاذ کیا، عام قاری بھی طلباء کا تلفظ نہیں بناسکتا۔ تجوید کا ایک ہی گھنٹہ ہوگا،اس میں مشق وحدر اجتماعی طور پر ہو اور خوب محنت ہو، ورنہ مشق وحدر کے بغیر محض جمال القرآن اور فوائد مکیہ پڑھا دینا ضیاعِ وقت کے سوا کچھ نہیں۔
۵…آخری بات یہ ہے کہ مشق وحدر کا سلسلہ آخری درجہ یعنی اختتامِ تعلیم تک جاری رہے، ورنہ کتابوں کی وجہ سے تعطل سب کچھ ختم کردے گا۔اگر ان تجاویز پرصحیح معنوں میں عمل ہوجائے تو مدارسِ عربیہ میں تجوید یعنی حسنِ ادا کا ماحول پیدا ہو سکتا ہے۔
یہ باتیں اپنے ۵۶ سالہ تدریسی تجربات کی روشنی میں اس لئے لکھی ہیں کہ علماء کا وقار سب کا وقار ہے۔
والله الموفّق والمعین وبہ نستعین
اشاعت ۲۰۱۱ ماہنامہ بینات , رمضان،شوال:۱۴۳۲ھ -ستمبر: ۲۰۱۱ء, جلد 74, شمارہ 9

    پچھلا مضمون: نمازِ تہجد کی فضیلت !
Flag Counter