Deobandi Books

ماہنامہ البینات کراچی رمضان،شوال ۱۴۳۲ھ -ستمبر ۲۰۱۱ء

ہ رسالہ

15 - 16
شیخ الحدیث حضرت مفتی محمد فرید  کی رحلت !
شیخ الحدیث حضرت مفتی محمد فرید کی رحلت!

۶/شعبان المعظم ۱۴۳۲ھ مطابق ۹/جولائی۲۰۱۱ء بروز ہفتہ برصغیر کی عظیم علمی وروحانی شخصیت، ممتاز وبزرگ عالم دین، ایشیا کی عظیم دینی درسگاہ ”دارالعلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک“ کے سابق شیخ الحدیث وصدر مفتی، حضرت مولانا نصیر الدین غورغشتوی اور حضرت مولانا عبد الرحمن کامل پوری نور اللہ مراقدہما کے شاگرد رشید، قطب العالم والارشاد، امام العلماء والصلحاء حضرت مولانا عبد المالک صدیقی قدس سرہ کے خلیفہٴ مجاز، پاکستان اور افغانستان کے ہزاروں علماء، وزراء، سیاسی قائدین ومسترشدین کے استاذ ومعلم اور راہنما، پاکستان وبیرون پاکستان کے کئی علمی ودینی حلقوں کے ماویٰ وملجاء، دارالعلوم صدیقیہ صوابی کے سرپرست اور کئی کتابوں کے مؤلف ومصنف، شیخ الحدیث حضرت مولانا مفتی محمد فرید اس دنیا فانی کی پچاسی(۸۵) بہاریں دیکھ کر راہی عالم آخرت ہوگئے۔ انا لله وانا الیہ راجعون، ان لله ما اخذ ولہ ما اعطی وکل شیئ عندہ باجل مسمی۔
شیخ الحدیث حضرت مولانا مفتی محمد فرید کے سفر وحضر کے خادم اور آپ کی ترغیب اور سرپرستی سے دینی وعلمی لائن اختیار کرنے والے عالم دین حضرت مولانا محمد ایاز حقانی دامت برکاتہم جو میرے شیخ ومربی حضرت اقدس حضرت مولانا سعید احمد جلال پوری شہید نور اللہ مرقدہ کے خلیفہٴ مجاز ہیں، میری درخواست پر پہلی بار کراچی تشریف لائے ہوئے تھے، سوءِ اتفاق کہ جس دن وہ تشریف لائے، کراچی کے حالات خراب تھے، دوسرے روز ہفتہ کے دن صبح جب میں دفتر ختم نبوت آنے کی تیاری میں تھا ، مولانا موصوف کا فون آیا کہ ہمارے روحانی والد اور پاکستان کی عظیم ہستی حضرت مفتی محمد فرید کا انتقال ہوگیا ہے اور جنازہ میں شرکت کے لئے مجھے جانا ہوگا، میں نے فون پر انہیں تسلی دی اور کہا کہ میں آتا ہوں اور آپ کی روانگی کا کوئی نظم بناتے ہیں،آپ سے ملاقات اور تعزیت کی، فلائٹ کا معلوم کرایا، پتہ چلا کہ کوئی سیٹ سردست دستیاب نہیں ہے اور چانس پر کوشش کی جاسکتی ہے، مشورہ ہوا کہ ایئرپورٹ پہنچ کرکوشش کرلیتے ہیں، ایئربلو کے کاؤنٹر سے اوپن ٹکٹ لیا اور مولانا کو ایئرپورٹ کے اندربھیج دیا، لیکن تھوڑی دیر کے بعد معلوم ہوا کہ حضرت مفتی صاحب کی صاحبزادیاں بھی آئی ہیں اور انہیں بھی سیٹ نہیں ملی، بہرحال حضرت کی صاحبزادیاں اور مولانا محمد ایاز حقانی صاحب باوجود مقدور بھر کوشش کے آپ کا آخری دیدار اور جنازہ میں شرکت نہ کرسکے۔ مولانا موصوف مدظلہ پر حضرت کی جدائی کا بہت اثر تھا، جتنا وقت کراچی میں رہے، آپ کا تذکرہٴ خیر کرتے رہے۔
حضرت مولانا مفتی محمد فرید کا شمار ملک کے ممتاز ترین مفتیان کرام میں ہوتا تھا، بڑے بڑے مفتیان کرام اپنے مسائل اور فتاویٰ کی تصدیق وتصویب اور تائید کے لئے آپ کی طرف رجوع کرتے تھے۔ سلوک واحسان اور اصلاح وارشاد میں بھی آپ بلند مقام پر فائز تھے، ہزاروں متوسلین نے آپ سے فیض پایاہے۔ بقول مولانا محمد ایاز حقانی صاحب مدظلہ آپ کے بائیس سو خلفاء ہیں، جن کو حضرت نے خلافت سے نوازا ہے۔
حضرت مولانا محمد گوہر شاہ صاحب زیدمجدہم نے ”سلسلہ مبارکہ“ نامی رسالہ میں حضرت کے حالات زندگی قلمبند فرمائے ہیں، انہیں بعینہ یہاں نقل کیا جاتاہے:
سلسلہٴ نسب
آپ نسلاً افغان اور پٹھان ہیں اور آپ کا سلسلہ نسب یوں ہے: مولانا مفتی محمد فرید صاحب بن حضرت العلامہ جامع المعقول والمنقول استاذ العلماء مولانا حبیب اللہ صاحب (المتوفی ۱۳۶۸ھ مطابق ۱۹۴۹ء المعروف بہ صاحب الحق صاحب زروبی) بن حضرت العلامہ، سیبویہ زمان، حکیم حاذق، مولانا امان اللہ صاحب (فاضل مدرسہ عالیہ رام پور) بن حضرت مولانا محمد میر صاحب بن حضرت مولانا عبد اللہ صاحب رحمہم اللہ تعالیٰ۔
ولادت
حضرت مفتی صاحب بروز جمعہ، یوم عید الفطر بوقت طلوع فجر، یکم شوال ۱۳۴۴ھ مطابق ۱۹۲۶ء اپریل، بمقام زروبی مولانا حبیب اللہ صاحب کے گھر پیدا ہوئے، جو کہ اپنے زمانہ میں مشہور جید عالم تھے اور صوبہ سرحد، بلوچستان اور افغانستان کے اکثر علماء ان کے بلاواسطہ یا بالواسطہ شاگرد ہیں۔
سلسلہٴ تعلیم
حضرت مفتی صاحب مقامی اسکول میں چھٹی جماعت پاس کرنے کے بعد علم دین کے حصول کے لئے اپنے والد صاحب کے ساتھ مردان گئے اور علوم وفنون کی اکثر کتب ان سے پڑھیں اور ان کی وفات کے بعد منطق وفلسفہ اور ریاضی کی بعض کتب حضرت العلامہ رئیس الاذکیاء مولانا خان بہادر المعروف بہ مولانا مارتونگ صاحب (المتوفی ۱۳۹۶ھ مطابق ۱۹۷۶ء) اور حضرت العلامہ المحقق المدقق مولانا محمد نذیر صاحب المعروف بہ صاحب حق صاحب چکیسر (المتوفی ۱۳۹۱ھ مطابق ۱۹۷۱ء) اور حضرت العلامہ رئیس الاتقیاء مولانا عبد الرزاق صاحب شاہ منصوری (المتوفی ۱۳۹۷ھ مطابق ۱۹۷۷ء) اور بعض دیگر اساتذہٴ کرام سے پڑھیں اور موقوف علیہ اور امہات ستہ پڑھنے کے لئے حضرت العلامہ شیخ الحدیث مولانا نصیر الدین صاحب غورغشتوی قدس سرہ (المتوفی ۱۳۸۸ھ مطابق۱۹۶۸ء) کے پاس تشریف لے گئے اور ۱۳۷۱ھ مطابق ۱۹۵۲ء میں فارغ التحصیل ہوکر دستار فضیلت حاصل کی۔ دستاربندی کے وقت حضرت غورغشتوی رحمہ اللہ نے اپنی عادت کے خلاف حضرت مفتی صاحب کی مدح اور تعریف کی۔ حضرت مفتی صاحب نے حضرت مولانا غورغشتوی صاحب اور حضرت العلامہ شیخ الحدیث مولانا عبد الحق صاحب رحمہما اللہ سے تبرکاً استجازہ کی تو دونوں حضرات نے کتب حدیث پڑھانے کی اجازت عطا فرمائی۔
بیعت وسلوک
حضرت مفتی صاحب شعبان ۱۳۶۹ھ میں قطب الارشاد، امام العلماء والصلحاء حضرت مولانا عبد المالک صاحب صدیقی قدس سرہ (خانیوال والے) سے مردان میں بیعت ہوئے اور تمام اسباقِ خاندانِ نقشبندیہ ختم کرنے کے بعد یکم صفر بروز اتوار ۱۳۷۸ھ مطابق ۱۷/اگست ۱۹۵۸ء کو بمقام کمر گئے گجرات ضلع مردان میں خلافت سے نوازے گئے اور کچھ مدت بعد سلسلہ نقشبندیہ کے علاوہ دیگر بعض سلاسل میں بھی خلیفہٴ مجاز کئے گئے۔ نیز حضرت شیخ الحدیث غور غشتوی قدس سرہ کی صحبت میں رہے اور ان کے ساتھ مراقبات میں شرکت کرنے کے بعد انہوں نے مراقباتِ خاندانِ نقشبندیہ اور دیگر مہماتِ تصوف کی اجازت عنایت فرمائی۔
اساتذہ اور بزرگان دین کی شفقت
اللہ کریم نے حضرت مفتی صاحب کو اکابرعلماء اور صلحاء سے استفادہ اور استفاضہ کرنے کے مواقع فراہم کئے اور ان میں سے ہرایک نے مفتی صاحب کو شفقت اور محبت کی نگاہ سے نوازا۔ حضرت غور غشتوی صاحب قدس سرہ غلبہٴ استغراق اور فنائیت کی وجہ سے اکثر تلامذہ اور متعلقین کو نہیں پہچانتے تھے، لیکن حضرت مفتی صاحب کے ساتھ تعلق اور محبت کا یہ عالم تھا کہ بڑ ے بڑے جلسوں میں کثرتِ ازدحام کے باوجود مفتی صاحب کو پہنچانتے تھے اور مشفقانہ انداز سے ملتے تھے۔
ایک دفعہ اپنے مرشد حضرت مولانا حسین علی صاحب قدس سرہ (میانوالی) کے صاحبزادہ کے ساتھ خلاف عادت مفتی صاحب کا تعارف مدح اور تعریف سے کیا۔ مفتی صاحب فرماتے ہیں کہ حضرت غورغشتوی صاحب قدس سرہ کی صحبت کی برکت سے خواب کے عالم میں کثرتِ طواف اور زیارتِ حضرت مصطفی ا اور دیگر صالحین سے مشرف ہوتا رہتا تھا۔
حضرت العلامہ شیخ الحدیث مولانا عبد الرحمن صاحب کاملپوری قدس سرہ (المتوفی ۱۳۸۵ھ مطابق ۱۹۶۵ء) کی شفقت کا یہ عالم تھا کہ باوجود کم گو ہونے کے مفتی صاحب سے آزادی کے ساتھ گفتگو کرتے تھے اور انہوں نے مفتی صاحب کو افتاء اور درس حدیث دینے کا اشارہ فرمایا اور حضرت مولانا صدیقی صاحب مفتی صاحب کے متعلق فرماتے تھے کہ یہ مراد ہے، اس کے کلام میں بہت اثر ہے اور پٹھانوں میں یہ قوی نسبت والا ہے۔ اور صدر المدرسین شیخ الحدیث مولانا عبد الحق قدس سرہ فرماتے تھے کہ مفتی صاحب دارالعلوم حقانیہ کے روحِ رواں ہیں۔ اور ایک مخفی صاحبِ کشف نے مفتی صاحب کو بہت سے عملیات سے نوازا اور مفتی صاحب کو فرمایا کہ: آپ کی نسبت فلاں کے ساتھ ہے۔ غالب ظن یہ ہے کہ حضرت مولانا صدیقی صاحب کا اسم محض ذکر فرمایا۔
درس وتدریس
مفتی صاحب نے فراغت سے تین سال قبل تدریس شروع کی تھی اور فراغت کے بعد ایک سال اپنے گاؤں زروبی میں اپنی آبائی واجدادی درس گاہ میں تدریس کی اور اس کے بعد ”دارالعلوم جامعہ اسلامیہ اکوڑہ خٹک“ میں بحیثیت مدرس اعلیٰ مقرر ہوئے اور ساتھ ہی ساتھ افتاء کا کام بھی شروع کیا۔ سات سال تک جامعہ میں ہرقسم کی کتب پڑھائیں، جن میں بیضاوی شریف،جلالین شریف، مشکوٰة شریف، ترمذی شریف مکمل، شمائل ترمذی شریف، سننین، موطائین، ابوداؤد شریف، مسلم شریف، ہدایہ، مطوّل، قاضی، سلّم، حمد اللہ، صدرا اور شرح جامی قابل ذکر ہیں۔ اس کے بعد بعض شرعی اعذار کی وجہ سے جامعہ سے مستعفی ہوکر ”دارالعلوم اسلامیہ چارسدہ“ میں استاذ الحدیث اور صدر المدرسین مقرر ہوئے اور تین سال بعد بعض احباب سے تعلقات کے ناخوش گوار ہونے کے خطرہ کی وجہ سے جامعہ کو رجوع کیا، لیکن حضرت مولانا غورغشتوی صاحب اور حضرت مولانا صدیقی صاحب ”دارالعلوم حقانیہ“ کو جانا پسند کرتے تھے، تو مفتی صاحب حسبِ خواہشِ اکابر شوال ۱۳۸۵ھ کو” دارالعلوم حقانیہ“ تشریف لائے اور اسی سال میں نے (گوہر شاہ نے) بھی ”دارالعلوم حقانیہ“ میں داخلہ لیا۔
ملاحظہ: حضرت صاحب دامت برکاتہم نے ”دارالعلوم حقانیہ“ میں دو سال تک مشکوٰة شریف جلد اول اور ترمذی شریف جلد ثانی کا درس دیا، تیسرے سال ابوداؤد شریف مکمل اور بخاری شریف جلد اول از کتاب الجہاد کا درس دیا۔ اس کے بعد آئندہ سال بخاری شریف از کتاب البیوع اور پھر از کتاب الایمان اور ترمذی شریف اور صحیح مسلم مکمل کا درس دیا۔ بالآخر جامعہ حقانیہ میں تیس سالہ تدریس کے بعد مرض فالج نے حملہ کیا اور تدریس سے قاصر رہے۔
تصنیف وتالیف
مفتی صاحب باوجود مقبول مدرس ہونے کے بلند پایہ مصنف بھی ہیں۔ متعدد مقالات اور فتاویٰ کے علاوہ ان کی متعدد تصانیف بھی شائع ہوئی ہیں، جوکہ تمام کی تمام نہایت مقبول اور مفید ہیں۔
ا…ہدایة القاری علی الصحیح البخاری
جوکہ ضخیم شروح اور اکابر کے امالی کا ملخص ہے، متعلمین اور معلمین کے لئے بے حد مفید ہے۔ کمال مقبولیت کی وجہ سے دسویں دفعہ طبع ہوکر شائع ہوئی ہے۔ بخاری شریف جلداول کے کتاب الایمان اور کتاب العلم پر مشتمل ہے۔
ب…منہاج السنن شرح جامع السنن للترمذی (عربی)
جوکہ ترمذی شریف کی مختصر اور جامع شرح ہے، تمام فنی اور کتابی مباحث پر مشتمل ہے، تمام ضخیم شروح سے مستغنی کرنے والی ہے۔ حالاً پانچ جلدیں طبع ہوئی ہیں۔ آخری جلد میں ابواب اللباس تک ابواب آئے ہیں (جس کے ابھی تک دس ایڈیشن چھپ چکے ہیں)۔
ج…فتح المنعم شرح مقدمة المسلم (عربی):
جوکہ صحیح مسلم کے مقدمہ کی دقیق اور مفید شرح ہے اور دس مباحث پر مشتمل ہے۔
د…البشریٰ لارباب الفتویٰ (عربی):
یہ اصول فتویٰ کے متعلق مختصر اور جامع رسالہ ہے، دس فصلوں پر مشتمل ہے۔ آخری فصل امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کی مختصر تاریخ اور ان پر اعتراضات کے جوابات پر مشتمل ہے۔
ہ…العقائد الاسلامیة باللغة السلیمانیة:
یہ چالیس عقائد اور چالیس احکام پر مشتمل ہے۔موجودہ دور میں اس کی اشاعت وتدریس نہایت ضروری ہے۔ یہ رسالہ پشتوزبان میں ہے۔ اب اس کے ساتھ چہل حدیث اور اس کا اردو ترجمہ بھی شائع ہوا ہے۔
و…مقالات (پشتو):
اس میں بعض اختلافی مسائل کے حل کے علاوہ توحید کا مسئلہ بھی مسطور ہے اور آخر میں حضرت مفتی صاحب کے ختم بخاری شریف کے درس کا خلاصہ مذکور ہے۔ اس درس کو مفتی صاحب نے متعدد مدارس میں ختم بخاری شریف کے اجتماعات میں دیا تھا۔
ز…مسائل حج:
یہ رسالہ پشتو زبان میں ہے، اس میں حج کے اہم مسائل باحوالہ ذکر کئے گئے ہیں اور اس کے آخر میں رسالہ ”ہدیة السلفیہ “مسطور ہے، جس میں فرقہ سلفیہ کی غلطیوں کے مناشی ذکر کئے گئے ہیں۔
ح…رسالة التوسل:
اس رسالہ میں مسئلہٴ توسل پر معتدل انداز میں روشنی ڈالی گئی ہے اور توسل کی حقیقت اور اقسام پر سیر حاصل تبصرہ کیا گیا ہے۔
ط…رسالة قبریة:
اس رسالہ میں احکام میت قریب الموت سے لے کر دفن وخیرات تک کے مسائل دس فصلوں میں بیان کئے گئے ہیں۔ فقہاء احناف کی کتابوں سے مفتیٰ بہ اقوال پر مشتمل یہ رسالہ انتہائی عرق ریزی سے تالیف کیا گیا ہے۔
ی…فتاویٰ دیوبند پاکستان المعروف بفتاویٰ فریدیة:
دارالعلوم حقانیہ میں دیئے گئے ہزاروں مسائل پر مشتمل ہے، جو دو جلد میں شائع ہوچکے ہیں اور مزید مجلدات کی ترتیب وتخریج پر کام جاری ہے۔
س…الفرائد البہیة الی احادیث خیر البریة:
یہ رسالہ عربی زبان میں اصول حدیث یعنی تعریف، موضوع، غرض اور اقسام حدیث وغیرہ پر مشتمل ہے۔
ملاحظہ: تقریر جامی اور تقریر ابوداؤد شریف امالی کی شکل میں موجود ہیں۔ ان شاء اللہ عنقریب اس کی ترتیب وتسوید کی جائے گی۔
افتاء وقضاء
حضرت مفتی صاحب مدرس اور مصنف ہونے کے علاوہ بلند پایہ مفتی بھی ہیں، پاکستان کے علاوہ بیرونی ممالک میں بھی آپ کے فتوے مقبول ہیں اور باوجود مختصر ہونے کے مدلل یا کم از کم دلائل خیز ہوتے ہیں۔مفتی صاحب نے ابھی تک تقریباً ایک لاکھ کم وبیش فتوے لکھے ہیں۔ بے تکلفی اور کمال شفقت کی وجہ سے مستفتی لوگ مفتی صاحب کے آرام کے اوقات میں اور ایام تعطیل میں بھی ورود کرتے رہتے ہیں اور اللہ تعالیٰ نے مفتی صاحب کو فیصلہ کرنے کا عجیب فہم دیا ہے، جو مقدمات ناقابل حل معلوم ہوتے ہیں تو مفتی صاحب ان کو چٹکیوں میں حل کردیتے ہیں اور طرفین کو مطمئن کردیتے ہیں۔
دعوت وارشاد
مفتی صاحب حضرت مولانا عبد المالک صدیقی قدس سرہ کے خلفاء عظام میں سے ہیں اور اپنے مقام میں اور ہردارالعلوم میں دعوت وارشاد کا سلسلہ بذریعہ بیعت وارشاد کے ذوق وشوق سے سرانجام دیتے رہتے تھے۔ نیز جہاں تشریف لے جاتے تھے، وہاں بیعت ہونے والوں کا ازدحام رہتا تھا۔ نماز فجر اور نماز عصر کے بعد معتقدین کے ساتھ مراقبہ کرتے تھے، یہ اوقات بیعت اور سلوک کی تعلیم کے لئے خاص کئے تھے۔ مفتی صاحب کے معتقدین کی تعداد ان گنت اور شاگردوں ومریدوں کی تعداد ہزاروں سے متجاوز ہے۔ ہمارے ضلع میں چارسدہ، پڑانگ، نیستہ، تنگی، زرباب گڑھی، شب قدر اور کانگڑہ میں مفتی صاحب کے بکثرت مرید موجود ہیں اور ان کے بہت سے خلفاء بھی ہیں۔ مفتی صاحب پختہ حنفی اور دیوبندی ہیں۔ اکابر دیوبند کی طرح اعتدال پر قائم ہیں، نہ دیوبندیت کی آڑ میں نجدیت کی اشاعت کرتے ہیں اور نہ صحیح بزرگوں پر کوئی بدظنی کرتے ہیں“۔
حضورا کا ارشاد ہے کہ:” جب تک زمین پر اللہ اللہ کہا جائے گا، اس وقت تک یہ دنیا قائم رہے گی اور جب کوئی ایک بھی اللہ اللہ کہنے والا باقی نہیں رہے گا، اس وقت اس نظام کائنات کو لپیٹ دیا جائے گا۔
محسوس یوں ہوتا ہے کہ کائنات کے اس نظام کو لپیٹنے کا وقت بتدریج قریب آرہا ہے، اس لئے کہ اللہ والے ایک ایک کرکے اس دنیا سے رخصت ہورہے ہیں۔ چند سالوں میں وقت کی عظیم بزرگ ہستیاں اور علماء وصلحاء دنیا فانی سے منہ موڑ کر جانب عقبی جاچکے ہیں، حالانکہ یہ حضرات ایسے تھے جو امت مسلمہ کے دین وایمان کی سلامتی کے لئے ہمہ وقت فکرمند اور راتوں کو اٹھ کر رب کے سامنے سجدہ ریز ہوکر دنیائے انسانیت کی اصلاح وفلاح کے لئے تڑپنے اور دعائیں کرنے والے تھے، جن کی شبانہ روز دعاؤں اور توجہات کی بدولت یہ دنیا فتنوں، آفتوں اور پریشانیوں سے محفوظ تھی، اب تو یوں لگتا ہے کہ شاید مصائب وآلام کا دہانہ کھل گیا ہے، صوبہ پختونخوا ہو یا بلوچستان ، سندھ ہو یا پنجاب سب جگہ فتنہ وفساد، قتل وقتال نے ڈیرے ڈال رکھے ہیں، حکام ہوں یا عوام ہرایک اپنی جگہ حیران اور پریشان ہے، کسی کی سمجھ میں نہیں آرہا کہ اس خون ریزی کو کس طرح روکا جائے اور ادھر ایسی ہستیاں جن سے ہزاروں اور لاکھوں لوگ فیض پاتے تھے، ان کے وجود مسعود کو اپنے لئے رحمت اور برکت کا ذریعہ سمجھتے تھے،جن کی صحبت میں بیٹھنے سے دل کی دنیا بدل جایا کرتی تھی، جن کی پوری زندگی قرآن کریم کی تعلیم وتدریس اور خدمت خلق میں گزری، امت مسلمہ ان سے محروم ہورہی ہے۔اللّٰہم اغفرلہ وارحمہ وعافہ واعف عنہ وادخلہ الجنة اللّٰہم لاتفتنا بعدہ ولاتحرمنا أجرہ۔
اشاعت ۲۰۱۱ ماہنامہ بینات , رمضان،شوال:۱۴۳۲ھ -ستمبر: ۲۰۱۱ء, جلد 74, شمارہ 9

    پچھلا مضمون: حضرت مولانا عبد الحنان  کا سفرِ آخرت !
Flag Counter