Deobandi Books

ماہنامہ البینات کراچی رمضان،شوال ۱۴۳۲ھ -ستمبر ۲۰۱۱ء

ہ رسالہ

14 - 16
حضرت مولانا عبد الحنان  کا سفرِ آخرت !
حضرت مولانا عبد الحنان کا سفرِ آخرت!

شیخ العرب والعجم حضرت مولاناسید حسین احمد مدنی کی نسبتوں کے حامل، دارالعلوم کے اولین اکابرین کے فیض یافتہ، حافظ الحدیث مولانا عبد اللہ درخواستی، شیر اسلام حضرت مولانا غلام غوث ہزاروی اور حضرت مولانا مفتی محمودکے ہم سفر ساتھی حضرت مولانا عبد الحنان اس دنیا کی تقریباً ۱۰۰ بہاریں گزار کر ۵/ مئی ۲۰۱۱ء بروز جمعرات رات دس بجے سوئے عقبیٰ تشریف لے گئے۔ انا لله وانا الیہ راجعون، ان لله ما اخذ ولہ ما اعطی وکل شئ عندہ باجل مسمی۔
مولانا راشد الحق سمیع حقانی” ماہنامہ الحق“ کے شمارہ، جمادی الاولیٰ والثانی ۱۴۳۲ھ کے اداریہ میں حضرت کا یوں تعارف کراتے ہیں:
”حضرت مولانا عبد الحنان دیوبندی دارالعلوم کے اولین اکابرین کے فیض یافتہ اور اجلہ مشائخ کی صحبت یافتہ زندہ جاوید تصویر اور تاریخی شخصیت تھے۔ فی زمانہ ہماری ناقص معلومات کے مطابق آپ سب سے قدیم ترین اجلہ فضلاء دیوبند میں سے تھے۔ آپ کی دارالعلوم دیوبند سے سن فراغت ۱۹۳۲ء کی ہے اور فراغت کے وقت آپ کی عمر صرف بیس برس تھی۔ قمری لحاظ سے آپ کی عمر تقریباً ۱۰۷ برس تھی۔ حضرت دادا جان مولانا عبد الحق کی جدائی کے بعد خاندانِ حقانی کے آپ ہی سب سے بزرگ، محترم اور مشفق سربراہ تھے۔ آپ کی بلا کی یادداشت اور قابل رشک صحت دنیا کے سامنے ایک مثال تھی۔ وفات سے صرف پانچ ماہ قبل پاؤں کی ہڈی ٹوٹ گئی…۔
آپ عاجزی اور انکساری، اخلاق حسنہ، عبادت گزار ، شب زندہ دار تھے۔ ذوقِ مطالعہ عمر بھر رہا، درس وتدریس کا مشغلہ بھی برسوں رہا۔ علاقہ بھر میں لوگوں کی غمی وخوشی کے موقع پر حاضر رہتے، چھوٹوں کے ساتھ بڑا مشفقانہ رویہ رکھتے تھے۔ صفائی ونفاست بھی طبیعت میں کوٹ کوٹ کر بھری تھی۔ اللہ تعالیٰ نے باطنی کمالات کے ساتھ ساتھ لمباقد اور خوبصورت وجیہ جسم وچہرہ بھی عطا کیا تھا۔ جس مجلس میں بھی تشریف لے جاتے، نگاہیں خود بخود آپ کی طرف اٹھ جاتیں۔ دارالعلوم حقانیہ کے ختم بخاری ودیگر اہم اجتماعات کے موقع پر آپ ضرور تشریف لاتے اور طلباء کو اجازتِ حدیث اور قیمتی نصائح سے نوازتے۔ کراچی کے جامعہ احسن العلوم کے مہتمم اور نامور عالم دین حضرت مولانا مفتی زرولی خان صاحب، استاد حدیث مولانا سعید اللہ شاہ صاحب اور ہمارے دوست وبھائی مولانا مفتی مختار اللہ حقانی مرتب ”فتاویٰ دارالعلوم حقانیہ“ آپ کے خصوصی ونامور تلامذہ میں سے ہیں۔ ان کے پوتے مولانا نقیب احمد ان کے علمی جانشین ہیں…“۔
شیخ الحدیث والتفسیر حضرت مولانا زر ولی خان صاحب دامت فیوضہم ”ماہنامہ الاحسن جمادی الاول تا رجب ۱۴۳۲ھ“ کے ص:۶ پر تحریر فرماتے ہیں:
”حضرت کی تاریخ پیدائش خود ان کے بیان کے مطابق ۱۹۱۲ء تھی اور انہوں نے علمی گھرانے میں آنکھیں کھولی تھیں، حضرت کے والد کا نام مولانا عبد الغفار تھا جو بقدر ضرورت علم حاصل کرچکے تھے۔ آپ نے اپنے گاؤں جہانگیرہ کے بعض افاضل علماء سے ابتدائی تعلیم پائی تھی، جن میں حضرت مولانا فضل علی، حضرت مولانا باجوڑ استاذ، اور پشاور استاذ سر فہرست تھے۔
۱۹۲۹ء میں آپ باقاعدہ تحصیل علوم کے لئے دنیا کی سب سے بڑی علمی درسگاہ ”دارالعلوم دیوبند“ تشریف لے گئے۔ غالباً یہ وہی سال تھا جس میں امام العصر حضرت مولانا محمد انور شاہ صاحب اور ان کے چند رفقاء دارالعلوم دیوبند سے کنارہ کش ہوگئے تھے اور ان کے ساتھ قابل طلباء کا ایک گروہ بھی دیوبند چھوڑ چکا تھا۔ چنانچہ استاد محترم نے بھی بجائے دیوبند کے ”مظاہر العلوم سہارنپور“ میں داخلہ لے لیا اور وہاں ایک سال گزار کر آپ دارالعلوم میں واپس تشریف لے آئے، باقاعدہ داخل ہوئے اور ۱۹۳۵ء تک دارالعلوم دیوبند میں تکمیل علوم وفنون کرکے اکابر علماء اور اجلہ اساتذہ سے تحصیل مکمل کرکے فراغت اور فضیلت حاصل کی۔ دارالعلوم کے دورانیہ میں آپ نے وقت کے نابغہ محدث جو بعد میں آپ کے بہنوئی ٹھہرے، حضرت مولانا عبد الحق صاحب کے ساتھ بھی ادب اور فنون کی بعض کتابیں پڑھی تھیں، حضرت مولانا عبد الحق صاحب کی چند کتابیں ابتداء میں رہ گئی تھیں، یوں بعض اسباق میں حضرت مولانا ہم سبق بھی ہوئے۔ دارالعلوم میں پڑھائی کے دوران آپ ممتاز صلاحیت کے طالب علم مانے جاتے تھے، گھر سے متمول ہونے کی وجہ سے آپ کے بڑے بھائی حاجی سیف الرحمن مرحوم آپ کو معقول وظیفہ برائے اخراجات بھیجتے تھے، اس لئے آپ کو نفقات وغیرہ میں کبھی کوئی گرانی نہیں ہوئی اور یوں اللہ تعالیٰ نے تحصیل علوم کے مراحل آپ کے لئے مزید آسان کئے۔
۱۹۳۵ء میں فراغت وفضیلت کے بعد آپ اپنے گاؤں جہانگیرہ آبائی وطن صوبہ سرحد تشریف لے آئے، چونکہ گھر سے متمول تھے اور علاقائی پیشہ زمینداری تھا، اس لئے اپنی زمینوں اور جائیدادوں کی دیکھ بھال بھی فرماتے رہے، مگرعلوم پڑھنے کے لئے مختلف اوقات میں آنے والے خواہ گاؤں کے ہوں یا دوردرازسے، آپ بڑے ذوق وشوق سے ان کی علمی پیاس بجھاتے تھے۔ اس کے علاوہ اپنے علاقے میں دور دراز تک مسلمانوں کی صلح اوران کے تنازعات ومشاجرات نبھانا اور خلق خدا کا ہاتھ بٹانا او ران کی دینی راہنمائی کرنا یہ بھی آپ کا مشغلہ تھا۔ آپ جمیع علوم وفنون میں یدطولیٰ رکھتے تھے، خاص کر فقہ، ترجمہ وتفسیر قرآن اور فارسیات میں آپ کامیاب استاد اور مدرس مانے جاتے تھے۔
غالباً ۱۹۶۸ء یا ۱۹۶۹ء کے آس پاس میں نے جاکر استاد محترم مولانا عبد الحنان صاحب سے اول ان کی مسجد قاضیاں میں ترجمہ قرآن شروع کیا، بعد میں حضرت کی ترغیب اور ارشاد فرمانے سے صرف ونحو اور پھر ادب اور منطق وغیرہ کی کتب بھی شروع کیں۔ یہ سلسلہ ۱۹۷۲ء تک جاری رہا، درمیان میں جب حضرت والا کے حج بیت اللہ کی روانگی ہونے لگی تو ان کی اجازت سے اور ان کے ارشاد فرمانے سے جہانگیرہ کے مشہور بزرگ جمیع علوم وفنون کے امام، امام العصر مولانا محمد انور شاہ کشمیری رحمہ اللہ کے درس حدیث کی ہر کتاب میں اول آنے والے اور جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن کے بانی حضرت الاستاذ مولانا محمد یوسف بنوری رحمہ اللہ کے خاص الخاص دوست بلکہ یار غربت اور یاردیرینہ حضرت مولانا لطف اللہ صاحب رحمہ اللہ سے بھی پڑھنا شروع کیا۔ حضرت مولانا لطف اللہ صاحب رحمہ اللہ نے ۱۹۲۷ء یا ۱۹۲۸ء کے آس پاس دارالعلوم دیوبند میں حضرت مولانا محمد انور شاہ صاحب کشمیری رحمہ اللہ سے امتیازی مقامات میں تحصیل علوم فرمائی تھی اور یہ حضرت شاہ صاحب رحمہ اللہ کا دارالعلوم دیوبند میں آخری سال تھا اور اس سال شارح ترمذی محدث عالم حضرت الاستاذ مولانا محمد یوسف بنوری رحمہ اللہ مشکوٰة وغیرہ موقوف علیہ کے اسباق پڑھتے تھے، وہ چونکہ حضرت شاہ صاحب کی تقریر ترمذی ”العرف الشذی“ پر باقاعدہ تحقیق کا آغاز کر چکے تھے۔ بعد میں حضرت الاستاذ مولانا عبد الحنان صاحب کی اجازت سے حضرت مولانا لطف اللہ کی تاکید وترغیب سے جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن سابقہ مدرسہ عربیہ اسلامیہ نیو ٹاؤن پڑھنے کے لئے آنا نصیب ہوا اور وہاں میں نے درجہ رابعہ میں داخلہ لے لیا اور دورہ حدیث تک پورے پانچ سال وہاں کے نصاب کے مطابق تمام علوم وفنون کی تکمیل کی۔ ہمارے سال ہی حضرت بنوری  نے بخاری شریف جلد اول کے ۷ اور جلد ثانی کے ۶ا/ اسباق پڑھائے تھے، بعد میں ان کا انتقال ہوا…۔
حضرت الاستاذ حضرت مولانا عبد الحنان صاحب سے پڑھنے اور کراچی آنے کے بعد بھی پہلے سے بڑھ کر تعلق اور رشتہ استاد اور شاگرد کے درمیان مثالی قائم رہا ہے اور جامعہ عربیہ احسن العلوم کی بناء اور تاسیس سے لے کر حضرت والا کی وفات تک یعنی ۱۹۷۸ء سے لے کر ۲۰۱۱ء تک ۳۳ سال کے عرصہ میں اکثر حضرت سال میں ایک یا دودفعہ تشریف لاتے، کبھی افتتاح اسباق کے موقع پر تو کبھی اختتام اسباق میں تشریف لاتے۔ اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم سے یہ سارے سفر حضرت نے بڑی محبت، خوش دلی اور کامل راہنمائی کرتے ہوئے فرمائے جس کی تفصیل انشاء اللہ تعالیٰ خصوصی نمبر میں آئے گی۔ پانچ مرتبہ اپنے ساتھ حرمین شریفین عمرے کے لئے لے کر گیا، اس کے علاوہ بنگلہ دیش، کشمیر، افغانستان کے اسفار میں بھی ساتھ رہے۔ حضرت کی بھی اس عاجز اور فقیر پر خصوصی توجہ اور شفقت تھی اور اس عاجز اور فقیر کی تعلیم وتربیت پر بھی حضرت کی چھاپ سب سے زیادہ رہی ہے، جامعہ عربیہ احسن العلوم کے مختلف ادوار میں انہی کی راہنمائی، دعا، توجہات اور تشریف آوری کو اپنے لئے کامیابی کا راز اور عروج کا باعث سمجھتا ہوں۔ اللہ بزرگ وبرتر نے استاد محترم کے دل میں اس عاجز کے لئے ایک شفیق باپ سے بڑھ کر محبت رکھی تھی، ایک کامل پیر اور مرشد کی نسبتوں سے بلند ہوکر انہوں نے اس عاجز کی جس مہم کے لئے بھی ہاتھ اٹھا کر دعا فرمائی، حق تعالیٰ نے بہت جلدی اس میں کامیابی نصیب فرمائی۔ عمر آخر میں جب کہ کبر سنی تھی اور پیرانہ سالی کی وجہ سے کچھ عوارض وغیرہ بھی لاحق ہونے لگے تھے اور کبھی حضرت آنے سے معذرت فرماتے، لیکن اس فقیر کی بے کسی اور اصرار کے سامنے ہمیشہ قدم رنجہ فرماتے تھے۔ اس سلسلے میں تفصیلی واقعات ان شاء اللہ حضرت کے بارے میں خصوصی نمبر (جو عنقریب ماہنامہ” الاحسن “کے زیر انتظام نکالاجائے گا) میں شائع ہوں گے۔
آپ بفضلہ تعالیٰ مروجہ تمام بیماریوں سے ہمیشہ صحت مند رہے، نہ دل کا کوئی عارضہ، نہ شوگر اور بلڈپریشر، نہ جسم کے کسی حصے کا کوئی جوہری شکوہ اور شکایت، البتہ معدے کی سختی کی شکایت فرماتے تھے، جس کی وجہ ہماری دانست میں حضرت کی قلت خوراک تھی۔ آپ کے سامنے دسیوں کھانے بچھے رہتے، مگر آپ احتیاط سے ان میں سے بہت معمولی مقدار میں انگلیوں کے سروں سے اٹھاتے، اکثر ہم آواز دیتے کہ حضرت کھانا ہے، دوا انہیں ہے۔ حضرت فرماتے کہ: بس کم کھانے میں خیر ہے۔ میں اکثر عرض کرتا کہ: حضرت! اتنا کم اگر ہم بھی کھالیں تو شاید قبض پیدا ہوجاتا ہے، آپ کے معدے کی سختی کی وجہ صرف اور صرف قلت خوراک ہے، جو فاقہ کے قریب ہے۔ مگر حضرت پر ہماری گفتگو یا تقریر کا کوئی اثر نہ ہوتا تھا، کبھی کبھی یہ عاجز مشہور حدیث ”ان النفس لن تموت حتی تستکمل رزقہا“ کا حوالہ دیکر تشریح طلب کرتا اور حضرت تلطفاً فرماتے کہ پھر تم بھی کھانا چھوڑ دو، تاکہ برکت عمر نصیب ہو اور یہ فقیر عرض کرتا کہ: آپ نے وقت پر تنبیہ نہیں فرمائی اور اب تو ہم کشتیاں دریا میں ڈال چکے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے خاص فضل اور آپ کی مبارک دعاؤں ہی سے برکت نصیب ہوگی…“۔
ہماری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ حضرت مرحوم کے درجات بلند فرمائیں او ران کو جنت الفردوس کا مکین بنائیں اور آپ کے شاگردوں اور متعلقین کو صبر جمیل کی توفیق عطا فرمائیں۔
اشاعت ۲۰۱۱ ماہنامہ بینات , رمضان،شوال:۱۴۳۲ھ -ستمبر: ۲۰۱۱ء, جلد 74, شمارہ 9

    پچھلا مضمون: مسلمان کی جان کی اہمیت 
Flag Counter