Deobandi Books

ماہنامہ البینات کراچی ذوالحجہ ۱۴۳۱ھ -دسمبر ۲۰۱۰ء

ہ رسالہ

8 - 12
مولانا قاری محمد طاہر رحیمیؒ اور فن قرأت
اللہ تعالیٰ اپنے دین کی حفاظت وخدمت اور ان کی نشر واشاعت کے لئے مختلف ادوار میں مختلف شخصیات کو پیدا فرماتے ہیں جو اس کے دین مبین اور رسول اللہ ا کی لائی ہوئی پاکیزہ شریعت کے مقدس علوم کو بڑی محنت وقربانی ، مجاہدات وریاضات کے ساتھ حاصل کرتے ہیں، پھر اس سے زیادہ محنت وقربانی کے ساتھ وہ مقدس علوم اگلی نسل میں منتقل فرماتے ہیں، اس کے نتیجے میں حق تعالیٰ قبولیت کا ایسا سلسلہ جاری فرمادیتے ہیں جو امت میں قرآن وحدیث اور اس کے متعلقہ فنون کو فروغ دیتا ہے اور اس کے ذریعے امت کی علمی وعملی ضروریات پوری ہوتی ہیں اور صراط مستقیم پہ چلنا آسان ہوجاتا ہے۔ انہیں عظیم شخصیات میں سے ایک عظیم شخصیت نابغة العصر حافظ القرآن والقرآت عظیم محدث ومفسر حضرت مولانا قاری محمد طاہر رحیمی صاحب تھے۔ جن کو اللہ تعالیٰ نے بیک وقت قرآن وحدیث اور اس کے متعلقہ تمام علوم بالخصوص قرآت وتجوید میں انتہائی اعلیٰ درجہ کی دسترس عطا فرمائی تھی۔ ایک عرصہ تک شدید علیل رہنے کے بعد مدینہ منورہ میں اپنے خالق حقیقی سے جاملے،
انا للہ وانا الیہ راجعون۔
پہنچی وہیں پہ خاک جہاں کا خمیر تھا
حضرت موصوف کی وفات سے جہاں امت مسلمہ کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا، وہاں صرف عوام ہی نہیں ، بلکہ اہل علم بھی ایک عظیم اور راسخ فی العلم شخصیت سے محروم ہوگئے بالخصوص علم قراء ات وتجوید میں ایسا خلا واقع ہوا ہے جو شاید صدیوں میں بھی پورا نہ ہوسکے۔ حقیقت یہ ہے کہ آج ملک وبیرون ملک اگرچہ بڑی بڑی عظیم الشان محافل میں خوش الحانی کے ساتھ قرآن کریم پڑھنے والوں کی کمی نہیں ہے، لیکن علم قرآت وتجوید اور اس کے متعلقہ تمام علوم میں رسوخ اور اس کا بدرجہ اتم استحضار صدیوں میں کسی کا مقدر ہوا کرتا ہے۔ صرف علم حدیث میں ان کی دسترس کاملہ کا اندازہ شیخ الحدیث، برکة العصر ریحانة الاسلام الشیخ محمد زکریا کاندھلوی کی اس تحریر سے ہوجاتا ہے، آپ تحریر فرماتے ہیں کہ آپ کی کتاب ”زبدة المقصود فی حل قال ابوداؤد“ دیکھ کردل خوش ہوا اور میں نے اس کو اپنے بستر کے سرہانے رکھوایا ہوا ہے اور اسے دیکھ کر ہی دل خوشی سے بھر جاتا ہے۔
حضرت موصوف کے بعد شاید ہی کوئی ایسی شخصیت ہو جس کو بیک وقت علوم قرآن وحدیث اور علوم قرأت وتجوید اور علوم اسماء الرجال وعلوم جرح وتعدیل پر ایسی دسترس ہو۔ یعنی ہر علم میں وہاب حقیقی نے ان پر بے پناہ فتوحات فرمائی تھیں، ان کی شخصیت تمام اکابر واصاغر میں مسلمہ تھی۔ یہی وجہ ہے کہ شیخ الوقت مقری اعظم حضرت اقدس قاری فتح محمد پانی پتی نے آپ کو ”فائق الاقران“ کے خطاب سے نوازا۔ حضرت موصوف کی تمام علوم میں وقت نظر کا اندازہ صرف ان کی ایک کتاب ”دفاع قراء ات“ سے ہوجاتا ہے کہ جب منکرین قرأت نے قرأت متواترہ اور رواة پر پے درپے سوالات واعتراضات اٹھائے، جن کے جواب کی بہت شدت سے ضرورت محسوس کی جارہی تھی ایسے وقت میں جلیل القدر محدثین اور نامور فقہاء یہاں تک کہ بیرون ملک کے عظیم المرتبت مشائخ نے حضرت موصوف سے یہ درخواست کی تھی کہ یہ عظیم خدمت آپ سرانجام دیں۔ اگر یہ خدمت اور قرأت کا تحفظ نہ کیا گیا تو پوری امت مسلمہ کے علماء گناہ گار ہوں گے ، چنانچہ حضرت موصوف نے اس کام کا ذمہ لے لیا اور اس میں ایسی تحقیق وتعمیق کے ساتھ محنت کی کہ عرب وعجم کے معاصر علماء نے قابل قدر حوصلہ افزائی کی اور منکرین قرأت کے پچاس شبہات کا ایک ہزار سے زائد صفحات میں تسلی بخش جواب دیا۔ اس کتاب کے مطالعہ سے اندازہ ہوتا ہے کہ حضرت موصوف نے ان اعتراضات کے مفصل ومدلل جواب کے لئے تفسیر وحدیث اور اصول تفسیر وحدیث اسماء الرجال وجرح وتعدیل اور تاریخ کی کتب کو جس انداز میں کھنگالا ہے، اس کی نظیر ملنا مشکل ہے۔ بالخصوص حضرت نے اس کتاب کے ایک مقام پر ”ابتدائے نقوش الفاظ“ پر ایسی تاریخی بحث فرمائی ہے کہ عقل حیران ہوجاتی ہے۔کہ حقیقت یہ ہے قرأت متواترہ اور اس کے رواة پر جس طرح مدلل اور مفصل جرح کی گئی تھی اور عجیب وغریب اعتراضات اٹھائے گئے تھے دراصل امت پر یہ ایک بہت بڑا قرض تھا جو حضرت موصوف  نے توفیق خداوندی وعنایت رحمانی اور اپنے علمی کمال سے یہ قرض چکادیا۔ اب اگر کوئی محقق قرأت کی علمی وتاریخی حیثیت کا مطالعہ کرے گا تو انشاء اللہ ایسا بھر پور مواد پائے گا جو نہ صرف ایمان کو تازگی بخشے گا، بلکہ علم میں بے پناہ وسعت محسوس کرے گا اور ایسی معلومات پائے گا جو بہت مشکل سے کبھی کبھی جمع ہواکرتی ہیں۔ کوئی صاحب نظر ودل جو علوم قرآء ات میں دسترس بھی رکھتا ہو وہ حضرت کی خدمات، تصنیفات وتالیفات میں جلیل القدر ائمہ قرأت شاطبی وجزری امام دانی کی روح محسوس کرے گا۔
حضرت کے مختصر حالات زندگی اور آپ کی تمام علوم متداولہ میں تصانیف کے اسماء ان کا انتہائی مختصر تعارف پیش خدمت ہے۔
حضرت  ۱۹۳۹ء بمطابق ۱۳۶۰ھ جالندھر میں پیدا ہوئے، آپ کے والد ماجد کا نام شیخ حفیظ اللہ تھا، ان کی بزرگی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ان کی وفات ادائیگی تہجد کے بعد وتروں میں ہوئی، حضرت کی والدہ کا بیان ہے ”مولوی طاہر کی پیدائش سے ایک روز قبل میں نے خواب دیکھا کہ تیز بارش ہورہی ہے اور ایک مسجد میں چراغ جل رہا ہے تو میں علاقے کے ایک عالم (جن کا نام معلوم نہیں ہوسکا) سے تعبیر چاہی تو جواب ملا کہ تمہارا یہ بچہ دین کا عظیم خادم ہوگا اور خدمت دین کا ایسا چراغ روشن کرے گا جو پوری ملت کے لئے بینائی کا سبب ہوگا۔

حفظ قرآن
حضرت نے گیارہ برس کی عمر میں قرآن کریم حفظ کرلیا تھا، پھر ۱۳۷۲ھ میں جامعہ خیر المدارس ملتان میں مجدد القرأت، شاطبی وقت حضرت قاری رحیم بخش صاحب پانی پتی قدس سرہ کے پاس قرآن یاد کرنے کے لئے داخل ہوئے۔ قرآن یاد کرنے کے بعد حضرت مجدد القر أت کی خدمت میں رہ کرصرف تیرہ سال کی عمر میں تجوید اخذ کی اور مقدمہ جزریہ اور متن شاطبیہ اور دیگر قر أت یاد کیں، پھر درس نظامی میں داخل ہوئے اور ۱۳۸۴ھ میں جامعہ خیر المدارس ہی سے فراغت حاصل کی اور انہیں دس سالوں میں فارغ اوقات یعنی عصر کے بعد اور دوپہر کی چھٹی میں حضرت مجدد القر أت کی خدمت میں حاضر ہوتے اور بقیہ سبعہ وعشرہ قرأ ت پڑھتے، انہیں سالوں میں آپ نے علم قرأ ت کی اہم کتب :شاطبیہ طیبہ اور جزریہ کی تعلیم حاصل کی، انہیں تحصیل علم کے سالوں میں آپ نے صرف اٹھارہ سال کی عمر میں اپنے استاذ حضرت مجدد القر أت کی سرپرستی اور راہنمائی میں علم قراء ت کی کتاب ”وضوح الفجر“ تالیف فرمائی۔

اساتذہ کرام!
۱… خیر العلماء والصلحاء حضرت مولانا خیر محمد جالندھری خلیفہ اجل حضرت حکیم الامت مجدد الملت مولانا محمد اشرف علی تھانوی سے نخبة الفکر اور صحیح بخاری مکمل پڑھی۔
۲…محدث العصر حضرت مولانا محمد شریف کشمیری سے سنن ابی داؤد اور جامع ترمذی پڑھی۔
۳…ولی کامل حضرت مولانا مفتی محمد عبد اللہ صاحب سے صحیح مسلم اور سنن نسائی پڑھی۔
۴…فقیہ العصر محدث جلیل حضرت مفتی عبد الستار صاحب خلیفہ مجاز جزری وقت حضرت قاری فتح محمد صاحب پانی پتی سے ہدایہ اخیرین، شرح عقائد اور سراجی پڑھی۔
۵…یادگار اسلاف حضرت مولانا صوفی محمد سرور صاحب دامت برکاتہم سے نور الانوار پڑھی۔
۶…حضرت مولانا عتیق الرحمن صاحب سے بیضاوی اور طحاوی پڑھی۔
آپ کے استاد حضرت مجدد القر أت قاری رحیم بخش صاحب کا تذکرہ ابتداء میں آ چکا ہے۔

تدریس
شعبان ۱۳۸۴ھ فراغت کے فوراً بعد جامعہ قاسم العلوم ملتان میں تدریس کے لئے بلائے گئے جہاں آپ نے بیک وقت حفظ قرآن ، گردان، تجوید وقرآء ات، تفسیر وحدیث اور بعض دیگر فنون کی تدریس کی۔ ۱۴۰۲ھ تک تدریسی خدمات پورے علمی کمال کے ساتھ انجام دیتے رہے، مندرجہ ذیل کتب مختلف سالوں میں آپ کے زیر درس رہیں: ترجمہ قرآن، فصول اکبری، فارسی کتب، علم الصیغہ، کنز الدقائق، رشیدیہ، ملا حسن، شرح عقائد، مطول، بیضاوی، مشکوٰة، ابن ماجہ، موطا امام مالک، سنن ابی داؤد کامل، صحیح مسلم کامل اور صحیح بخاری پانچ پارے از کتاب الصوم۔
اہل فن اور ارباب تدریس ان کتب کے اسماء اور ان کی علمی فنی حیثیت سے بخوبی واقف ہیں کہ یہ کتب کس درجہ کی عرق ریزی، وسعت مطالعہ،نہایت ضبط وترتیب مانگتی ہیں اور حضرت رحمہ اللہ نے شعبہ حفظ وکتب، شعبہ قراء ت وتجوید میں پورے علمی کمال کے ساتھ تدریس کی اور انتہائی کامیاب نتائج برآمد ہوئے۔
جامعہ قاسم العلوم ملتان میں تدریس کے دوران ایک عجیب قصہ پیش آیا کہ کسی مسئلہ کی وجہ سے مفکر اسلام حضرت مفتی محمود صاحب نے دوشخصیات میں سے ایک کا انتخاب کرنا تھا: ایک تو حضرت قاری صاحب اور دوسرے حضرت مولانا محمد موسیٰ خان صاحب تھے جوکہ حضرت مفتی صاحب کے شاگرد رشید بھی تھے لیکن اس نازک موقع پر حضرت مفتی صاحب نے حضرت قاری صاحب کا انتخاب فرمایا۔ یہ فیصلہ بھی حضرت قاری صاحب کے علمی کمال کو ظاہر کرتا ہے۔
حضرت مفتی محمودصاحب کو حضرت قاری صاحب سے ان کی علمی خدمات کی وجہ سے اس درجہ تعلق تھا کہ جب حضرت مفتی صاحب وزیر اعلیٰ سرحد منتخب ہوئے اور وزارت اعلیٰ کے درمیان رمضان مبارک آگیا تو حضرت قاری صاحب کو ملتان سے خصوصی طور پر تراویح کے لئے بلوایا اور حضرت قاری صاحب کی اقتداء میں مختلف قرآء ات میں سنا۔اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اختلاف قراء ت پر کیسا بے پناہ عبور تھا کہ بلاخوف وخطر اور بغیر کسی جھجک کے کسی بھی قرأ ت میں سنا دیا کرتے تھے اور اللہ کے فضل وکرم سے یہ چیز حضرت مجدد القر أت قاری رحیم بخش صاحب کے شاگردوں میں پائی جاتی تھی۔ الحمد للہ اب بھی ایسے افراد بقید حیات ہیں ۔اللہ تعالیٰ ان حضرات کی زندگیوں کو دراز فرماکر ہمیں ان سے نفع حاصل کرنے کی توفیق عطا فرمائیں۔
حقیقت یہ ہے کہ تمام قرأت پر بے تکلف عبور یہ ایسی چیز ہے جو ناممکن تو نہیں لیکن مشکل ضرور ہے جیساکہ آج اگر کوئی فتویٰ دینے والا مفتی خواہ وہ کتنا ہی جلیل القدر اور عظیم المرتبت ہو وہ حضرت حکیم الامت مجدد الملت کے بہشتی زیور سے مستغنی نہیں ہے، ایسے ہی آج کے دور میں کوئی قاری حضرت مجدد القر أت قاری رحیم بخش صاحب پانی پتی کے قر أت کے مختصر رسالوں سے مستغنی نہیں ہے۔ بڑے بڑے جلیل القدر عظیم المرتبت قراء کرام عوامی اجتماعات میں پڑھنے سے قبل حضرت کے رسالوں سے استفادہ کرتے ہیں اور حضرت کے ان مختصر رسالوں سے اپنے اور بیگانے بھی مستغنی نہیں ہیں۔
حضرت مجدد القرأت پانی پتی نے اپنی تجدیدی خدمات کی بدولت اس مشکل ترین فن کو جو بڑے بڑے محققین کے لئے انتہائی مشکل ہوا کرتا تھا، ایسا آسان فرمایا ہے کہ اب ایک ننہا منا بچہ بھی قرأت عشرہ کو بآسانی سیکھ سکتا ہے۔
سلسلہ پانی پت کو جو اللہ نے پورے عالم میں انفرادی واجتماعی مقبولیت دی اور اس سلسلے میں حفظ قرآن، فن تجوید وقر أت کی ایسی بے نظیر خدمات ان سے لی ہیں کہ اس کی مثال کئی صدیوں میں نظر نہیں آتی ۔ان حضرات نفوس ثلاثہ (حضرت قاری فتح محمد پانی پتی، حضرت مجدد القر أت قاری رحیم بخش، حضرت قاری طاہر ) کی خدمات وتصنیفات سے قر أت کا کوئی محقق اور قاری ومقری مستغنی نہیں ہے اور ان حضرات نے قر أت کی مشکل ترین کتب کا ایسا ترجمہ اور ایسی شرح کی ہے جس نے جزری وشاطبی اور امام دانی وقسطلانی (شارح بخاری جو اپنے وقت کے جلیل القدر قاری ومقری تھے) کے علوم کی یاد تازہ کردی ہے۔ اگر ان نفوس ثلاثہ کی کتب کا اردو سے عربی میں ترجمہ کردیا جائے تو مذکورہ ائمہ کی کتب میں کوئی فرق نہیں ہوگا اور بحمد اللہ! اس سلسلے کے بانی حضرت قاری فتح محمد صاحب پانی پتی کے پڑھنے کے انداز کو حضرت حکیم الامت مجدد الملت سیدنا تھانوی نے بے حد سراہا ہے، چنانچہ خیر العلماء والصلحاء مولانا خیر محمد جالندھری فرماتے ہیں کہ حضرت پانی پتی نے حضرت کی مجلس میں قرآن کی تلاوت کی، جب حضرت پانی پتی تلاوت سے فارغ ہوئے تو حضرت مجدد الملت نے فرمایا: پہلے تو میں کانوں سے کام لیتا رہا پھر آنکھوں سے بھی کام لیا، ماشاء اللہ دوران تلاوت چہرے پر کسی قسم کا کوئی تغیر تکلف نہیں تھا اور خوب عمدہ تلاوت کی۔ یہ حکیم الامت مجدد الملت کی شہادت ہے جن کی تجوید وقرأ ت کے فن میں بھی عالم میں نظیر نہیں ملتی۔
حضرت موصوف کو علم کے ساتھ اللہ جل شانہ نے عبادات کا ایک خاص ذوق وشوق عطا فرمایا تھا، چنانچہ کثرت نوافل اور تہجد میں مسلسل قرآن کی تلاوت اور بکثرت روزے حضرت کا خاصہ تھے، جن حضرات نے شاطبی وقت حضرت پانی پتی کو عبادت وریاضت کرتے دیکھا ہے، وہ حضرات ان میں شیخ کی خاص جھلک محسوس کیا کرتے تھے۔
اسی طرح دوران تدریس مدرسہ میں جہری نمازیں حضرت کے سپرد تھیں، دوران حضرت نے سولہ قرآن پاک مختلف قر أت میں ختم کئے ۔حضرت کو اللہ نے یہ ہمت بھی عطا فرمائی تھی کہ دونفلوں میں دس دس پارے یک بارگی پڑھ لیا کرتے تھے اسی طرح عام تلاوت کے معمول میں بھی مختلف قر أت میں قرآن ختم فرمایا کرتے تھے۔ یہ وہ توفیق ہے جو خدا تعالیٰ نے حضرت جزری وقت قاری فتح محمد پانی پتی اور ان کے سلسلہ کو مرحمت فرمائی ہے۔
حضرت نے جو قراء وعلماء کو نصائح فرمائیں، ان میں ایک نصیحت یہ بھی تھی کہ زندگی میں ایک بار تمام قرأت کے ساتھ قرآن کی تلاوت ضرور کرلیں، اس کا اہتمام اور عزم وعمل قرآنی برکات اور ثمرات سمیٹنے کا سبب ہوگا۔یقینا حضرت اس گروہ کے افراد میں سے ایک فرد ہیں جن کو حق تعالیٰ اپنی خصوصی رحمتوں، برکتوں کے ساتھ بھیجتے ہیں اور وہ لوگ دین کی ایسی لازوال خدمت کرتے ہیں کہ صدیاں بیت جانے کے باوجود ان کے علوم، فیوض وبرکات کا چشمہ بنے رہتے ہیں ۔

وقت کی پابندی
حضرت کی طبیعت میں اصول پسندی اور نظام الاوقات کی پابندی فرضیت کی طرح راسخ تھی اور آپ نے یہ مبارک طبیعت حضرت حکیم الامت مجدد الملت کے سلسلہ عالیہ سے وراثةً اور اپنے استاد ومربی حضرت قاری رحیم بخش سے نسبت وتربیت کے ساتھ پائی تھی، لیکن آج کل ہماری معاشرت اور معاشرے میں اصول پسندی اور نظام الاوقات کی پابندی کو سختی کے ساتھ تعبیر کردیا جاتا ہے۔

قیام مدینہ کی تمنا
حضرت کی یہ خواہش باربار سامنے آئی کہ مدینہ کا قیام وہاں کی موت اور بقیع کا دفن نصیب ہو، اللہ نے ان کی اس پاکیزہ آرزو کو پورا کردیا اور آپ نے قیام مدینہ کا حق ادا کرنے کی کوشش کی۔ چنانچہ حضرت نے کبھی حرم کی نماز کو نہیں چھوڑا، حتی کہ عین بیماری کی شدت میں بھی مسجد نبوی کی نماز نہیں چھوٹتی تھی، یہاں تک کہ جب بیماری نے طوالت اور سختی اختیار کی اور ڈاکٹروں اور گھروالوں، عقیدت مندوں نے اصرار کرنا شروع کیا تو چند ایک نمازوں میں تخفیف فرمادی، لیکن فجر اور عشاء مسجد نبوی میں بدستور قائم رہی۔ جب چلنا پھرنا دشوار ہوگیا اور پاؤں میں شدید ورم آگیا اور ہسپتال میں داخل ہوئے تو بھی نماز باجماعت کی اتنی فکر لاحق تھی کہ دیکھنے والوں کو ترس آتا تھا ۔ وفات سے چند ایام قبل احقر راقم الحروف سفر عمرہ کے دوران اپنے والد ماجد کے ہمراہ ہسپتال میں عیادت کے لئے حاضر ہوا اور خیریت دریافت کی (اگر چہ صورت حال انتہائی نازک تھی) تو فرمانے لگے کہ: ڈاکٹر حضرات نے چلنے پھرنے سے پرہیز کروارکھا ہے، لیکن جب اذان ہوتی ہے تو طبیعت مسجد حاضری کے لئے بے چین ہوجاتی ہے، چنانچہ اسی عالم میں ایک دن اذان ہوئی اور خدام میں کوئی موجود نہ تھا تو خود ہی انتہائی تکلیف اور ممانعت کے باوجود اپنی ڈرپ اتار کرمسجد تشریف لے گئے، لیکن واپسی پر طبیعت پہلے سے زیادہ سنگین ہوچکی تھی۔
آخری ایام میں تھوڑی سی بات چیت بھی دشوار تھی، لیکن جب احقر راقم الحروف نے طبقات القراء (جو زیر تصنیف تھی) کے بارے میں پوچھا تو بہت بشاشت کے ساتھ جواب دیا اور بہت لمبی گفتگو فرمائی۔ دوران گفتگو اکابرین قرأ ت کا تذکرہ ہوا تو حضرت کی آنکھوں میں آنسو آگئے اور دیر تک گریہ طاری رہا۔ نبی کریم ا کے ساتھ اور اپنے اکابر کے ساتھ تعلق ومحبت کا اندازہ اس بات سے لگایاجاسکتا ہے کہ اپنی زندگی میں بارہا نبی کریم ا اور حضرات صحابہ، ازواج مطہرات، بنات طاہرات، اہل بیت کرام، امام ابوحنیفہ ،دیگر ائمہ حدیث اور ائمہ قرآء ت امام جزری اور شاطبی اور امام دانی کی طرف سے قربانی کی۔ اللہ جل شانہ نے اس کی برکت سے ان کے علوم مرحمت فرمائے اور ان کے ساتھ دفن نصیب فرمایا۔

قیام مدینہ میں استقامت
حضرت کو جب جگر کا عارضہ ہوا، ڈاکٹروں نے مایوسی کا اظہار کیا، پھر سعودیہ کے مشہور ہسپتال ”کنگ فہد“ میں داخل کروایاگیا، لیکن جب وہاں بھی مایوسی کا اظہار کیا گیا تو حضرت کے بعض انتہائی مخلصین نے چین میں علاج کی طرف توجہ دلائی، جہاں اس بیماری کا کامیابی کے ساتھ علاج کیا جاتا تھا، لیکن حضرت کا صرف ایک جواب تھا کہ بھائی مجھے صحت سے زیادہ قیام مدینہ اور یہاں کی موت کی فکر ہے، لہذا میں چین کا سفر نہیں کرتا۔ ایسے ہی آپ نے قیام مدینہ کے بعد اپنے ملک پاکستان بھی سفر نہیں کیا، باوجود یہ کہ بڑی خوشیاں آئیں اور بعض اہم خاندانی افراد کی وفات ہوئی، لیکن حضرت کے قیام مدینہ کے عزم میں کوئی خلل واقع نہیں ہوا۔

مبشرات
حضرت کو خواب میں متعدد بار حضور نبی کریم ا ، حضرت ابراہیم علی نبینا وعلیہ السلام اور امیر المؤمنین سیدنا علی المرتضیٰ کی زیارت ہوئی۔ ایک مرتبہ حضرتنے خواب دیکھا کہ گنبد خضرا میں ہوں اور وہاں سے روئی کے گالوں کی طرح نہایت سفید نور اور روشنی نکل رہی ہے اور میں اپنا منہ کھولے ان کو اپنے اندر جذب کررہا ہوں، اس خواب کے چند ایام بعد حضرت کو مشکوٰة المصابیح کا سبق دے دیا گیا۔
اسی طرح حضرت کے ایک مخلص شاگرد نے خواب دیکھا کہ حضور نبی کریم ا اپنے حجرہ پاک سے باہر تشریف لائے اور مجلس میں تشریف فرما ہوگئے اور اس مجلس میں حضرت بھی موجود تھے، حضور نبی کریم انے حضرت کو حکم دیا کہ ان حاضرین مجلس کے لئے ضیافت لے آئیں تو حضرت اندر تشریف لے گئے اور اہل مجلس کے لئے اندر سے کسی بڑی چیز میں ضیافت لائے، آپ کے اساتذہ نے تعبیر یہ دی کہ طلبائے علوم دینیہ کی ایک بڑی تعداد کی ظاہری وباطنی ضیافت نصیب ہوگی، چنانچہ ایسے ہی ہوا۔
اسی طرح آپ کے شیخ واستاد حضرت مجدد القر أت قاری رحیم بخش صاحب جن سے آپ نے علوم قرأت کے الفاظ اور معنی کی تعلیم حاصل کی تھی اور فیضان علم کی مبارک روح پائی تھی، انہوں نے ایک بار مجلس میں فرمایا کہ: اگر حق جل شانہ قیامت کے دن مجھ سے پوچھیں گے کہ تو کیا لایا ہے؟ تو میں عرض کروں گا کہ میں نے طاہر کو تیار کیا ہے۔ عالم اسلام کی اس نابغہ روزگار اور جلیل القدر ہستی کی حضرت موصوف کے حق میں یہ شہادت بہت مبارک ہے۔

تصنیفات وتالیفات
حضرت رحمہ اللہ نے آٹھ سے زائد فنون پر مختلف تصنیفات وتالیفات فرمائی ہیں، جن کی تعداد پچاس سے زائد ہے۔ اگر ان کتب کو بھی شامل کیا جائے جو حضرت کے زیر قلم تھی اور وہ کتب جن کی تصنیف کے بارے میں ارشاد فرما چکے تھے، اگر ان سب کو شامل کیا جائے تو تعداد اس سے زیادہ ہوجائے گی۔ ذیل میں حضرت کی چند شہرہ ٴ آفاق کتب کا ذکر کریں گے۔
۱…دفاع قرأ ت اس کا مختصر تعارف گزشتہ صفحات میں گزر چکا ہے۔
۲…کشف النظر شرح اردو کتاب النش تین ہزار سے زائد صفحات اور تین ضخیم جلدوں میں حضرت امام جزری کی شہرہ ٴ آفاق کتاب (النشر) کا ترجمہ اور اس کی بے مثل شرح ہے۔
۳…فیوض المہرة فی المتون العشرة پانچ سوبارہ صفحات پر مشتمل ہے، اس میں تجوید وقر أت، عدد آیات اور رسم عثمانی سے متعلق دس مختصر وجامع متون شاطبیہ، نظم احکام اٰلٰن، درہ، الوجوہ المسفرہ، طیبہ، الفوائد المعتبرہ، رائیہ، ناظمة الزہر، مقدمہ جزریہ، تحفة الاطفال کا ترجمہ اور مختصر مگر جامع تشریح لکھی گئی ہے۔
۴…سلک اللأ والمرجان شرح نظم احکام اٰلٰن یہ علامہ محمد شمس متولی کے قصیدہ نظم احکام قولہ تعالیٰ اٰلٰن کی عجیب شرح ہے، جس میں کلمہ اٰلٰن کے احکام ومضامین اور اس کی صحیح وجوہ پر دلائل وعلل روایت ورش (ازرق) کے ساتھ انتہائی محققانہ کلام کیا ہے اور یہ قصیدہ تھا جس کے حل سے اکثر ملکوں کے علماء وقراء عاجز تھے۔
۵…تاریخ علم تجوید۔
۶…تاریخ علم قرأ ت۔
۷…کمال الفرقان شرح جمال القرآن تین سو سے زائد صفحات پر مشتمل جمال القرآن کی عظیم اور عجیب شرح ہے، جس میں فن تجوید اور اصول وقواعد کو بڑے مفصل اور مدلل انداز میں پیش فرمایا ہے۔ اس کتاب کا مطالعہ فن تجوید کی بہت سی ضخیم کتب سے مستغنی کردیتا ہے۔
۸…کاتبان وحی جس میں حضرتنے چھپن سے زائد کاتبان وحی کے مفصل حالات رقم فرمائے ہیں۔
۹…فضائل حفاظ القرآن کریم ڈیڑھ ہزار سے زائد صفحات پر مشتمل یہ ایسی نایاب اور قیمتی کتاب ہے کہ اردو میں اس سے قبل ایسی جامع کتاب موجود نہیں تھی۔ دراصل یہ کتاب علوم کا ایک خزانہ ہے اور جواہرات کا مجموعہ ہے کہ جس کے پڑھنے سے قرآن کی محبت اور اس پر عمل کرنے کا جذبہ موجزن ہو جاتا ہے، اس کتاب میں سلف صالحین کی وہ کتب جو نایاب ہوچکی تھی یا کمیاب تھی اور ان کی اشاعت کا دوردور تک کوئی سبب نظر نہیں آرہا تھا اور وہ تمام کتب عربی میں تھیں حضرت نے ان سے استفادہ فرمایا۔
۱۰…دلکش نقش، حضرت نے اس کتاب میں اپنے استاد حضرت مجدد القر أت قاری رحیم بخش  کے تفصیلی حالات وواقعات تحریر فرمائے ہیں۔
۱۱… سوانح فتحیہ، اس کتاب میں حضرت نے اسوة الصالحین، قدوة المجودین، مقری اعظم حضرت قاری فتح محمد کے نہایت تفصیلی حالات وواقعات قلمبند فرمائے ہیں۔
۱۲…طبقات القراء، حضرت نے ایک ایسی کتاب کی بنیاد ڈالی تھی کہ جس میں ہرصدی کے مشہور اور غیر معروف لیکن انتہائی ثقہ اور مستند قراء کا تذکرہ ہو، اور حضرت العلام تقریباً سات ہجری تک پہنچ پائے تھے کہ خالق حقیقی سے جاملے، بعض انفرادی خصوصیات کے اعتبار سے یہ کتاب طبقات القراء ”ذہبی“ اور طبقات القراء ”جزری“ سے فائق تھی، لیکن افسوس کہ حضرت کی زندگی نے وفا نہ کی، انشاء اللہ یہ کتاب ناقص نہیں رہے گی ۔ حضرت کے اصول وقواعد اور طرز تصنیف کے اعتبار سے اس کتاب کا تکملہ لکھا جائے گا، راقم الحروف کے لئے دعا فرمائیں کہ اللہ اس کام کے لئے اس ضعیف بندہ کو قبول فرمالیں۔ فن حدیث میں حضرت رحمہ اللہ کی کتب موجود ہیں، ذیل میں صرف ان کے نام دیئے جارہے ہیں۔
۱… عمدة المفہم فی حل مقدمة مسلم۔
۲…زبدة المقصود فی حل شرح قال ابوداؤد۔
۳…ما ینفع الناس فی شرح قال بعض الناس۔
۴…تحفة المراة فی دروس المشکوٰة۔
اسی طرح طریقہ تعلیم میں آپ نے ایک تعلیمی چارٹ مرتب فرمایا، جس میں حفظ وتعلیم قرآن کے لئے تعلیمی وانتظامی قوانین مرتب کئے گئے ہیں اور چند ضروری ہدایات اور اصول وقواعد درج ہیں اور قرآء ت کے طلباء کے لئے ہدایات ذکر کی گئی ہیں۔ مدرسین کی راہنمائی کے لئے حضرت نے چار سو ضوابط وقوانین اور ہدایات مرتب فرمائیں جو قرآن وقر أت کے مدرسین کے لئے بہت نافع ہیں۔
اشاعت ۲۰۱۰ ماہنامہ بینات , ذوالحجہ:۱۴۳۱ھ -دسمبر: ۲۰۱۰ء, جلد 73, شمارہ 12

    پچھلا مضمون: خاندانی منصوبہ بندی سے قابو میں نہ آئیں تو ملٹری ایکشن
Flag Counter