۱۸۵۷ء کا انقلاب حریت اور علماء اسلام
(آخری قسط)
دہلی میں انقلابیوں کی آمد:
غرض ۱۰/ مئی ہی سے بغاوت کا آغاز ہوگیا‘ہرطرف سے مجاہدوں نے طے کیا کہ جلد سے جلد دہلی پہنچیں‘ حالانکہ دہلی میں فوج کی اتنی بڑی جمعیت تھی کہ باغیوں پر دہلی کے دروازے بند کرسکتی تھی‘ لیکن میرٹھ سے اطلاع ان کو دیر سے دی گئی‘ اور دہلی تار پہنچا تو دہلی کار یزیڈنٹ سائمن فریٹرینڈ پانشہ میں ایسا بے خود تھا کہ تار کو بغیر پڑھے جیب میں رکھ کر سوگیا‘ مجاہدین کو کوئی رکاوٹ پیش نہیں آئی اور وہ بآسانی دہلی پہنچ گئے۔
حضرت مولانا محمد میاں صاحب نے دہلی میں انقلابی افواج کی آمد کی منظرکشی اس طرح کی ہے:
”۱۱/مئی ۱۸۵۷ء مطابق ۱۶/رمضان ۱۲۷۴ھ دو شنبہ کے دن صبح کے سہانے وقت جمنا کے ایک کنارے لال قلعہ سرخ وسپید پر جہاں‘ اور ان سنہرے کلس آفتابی کی کرنوں سے شوخیاں کررہے تھے‘ اور دوسرے کنارہ پر جوش وخروش سے دلرفتہ انقلابی فوج بے چینی سے گزرگاہ تلاش کررہی تھی“۔
اسی کنارہ پر پرمٹ کی چوکی تھی‘ باغی فوج نے اس میں آگ لگائی‘ کلکٹر کو مارا‘ پھر کشتیوں کے پل پر پہنچے‘ محکمہ تار کا انگریز افسر جس کا نام ٹاڈتاتھا‘ سامنے آیا‘اس کو قتل کیا‘ کلکتہ دروازہ جو کشتیوں کے پل کے قریب تھا‘ (موجودہ ریلوے لائن سے شمال کی طرف) اس نے ان سرفروش انقلابیوں کے استقبال میں تامل کیا‘ تو سامنے راج گھاٹ کے کھلے دروازے نے اپنی طرف اشارہ کرکے داخلہ کی اجازت دے دی‘ پیادہ اور سواروں کی بھیڑ قلعہ معلیٰ کے جھروکوں کے نیچے سے گزرتی ہوئی آگے بڑھی اور راج گھاٹ کے دروازے سے شہر میں داخل ہوئی‘ اب داخل ہونے والی فوج کے داہنے جانب قلعہ تھا‘ اور بائیں جانب کسی قدر فاصلہ سے دریا گنج‘ جہاں کچھ انگریزوں کے بنگلے تھے‘ فوج قلعہ کی طرف بڑھی‘ پھاٹک پرسنتری موجود تھے‘ مگر اشاروں ہی اشاروں میں ایسی باتیں ہوئیں کہ انقلابی فوج بلا مزاحمت قلعہ میں داخل ہوکر بادشاہ کے حضور میں پہنچ گئی۔ (علماء ہند کا شاندار ماضی ۴/۹۱)
انقلاب کے لئے بادشاہ کی شخصیت کا استعمال
بادشاہ کی حیثیت اس دور میں بظاہر برٹش گورنمنٹ کے ایک وظیفہ خوار سے زیادہ نہ تھی‘ اس کے پاس کوئی اختیار نہ تھا‘ لیکن بے معنی ہی سہی عوام میں اس کو جو اعتماد ووقار حاصل تھا وہ شاید پورے ملک میں کسی ایک شخص کو حاصل نہیں تھا‘ ہزار کمزوریوں کے باوجود بلاتفریق مذہب وملت لوگوں کو ایک نقطہ پر متحد کرنے کے لئے مغل بادشاہ کے نام کا سکہ جس طرح چل سکتا تھا پورے ہندوستان میں کوئی دوسرا ادارہ یا فرد اس شان کا موجود نہیں تھا‘اس لئے مجاہدین نے بجا طور پر یہ فیصلہ کیا کہ اس تحریک کی سرپرستی کے لئے بادشاہ سے درخواست کی جائے‘ بادشاہ شروع میں گھبرایا‘ لیکن آخر اس کی رگوں میں خاندان تیمور کا خون گردش کررہا تھا‘ اس کے خاندان نے صدیوں اس ملک کی خدمت کی تھی‘ اور یہاں کے عوام کے ہر درد وغم کو اپنا درد وغم سمجھا تھا‘ بادشاہ نے مجاہدین کی درخواست پر تھوڑے دنوں کے بعد تحریک آزادی کی سرپرستی قبول کرلی۔
بادشاہ کی طرف سے مجاہدین کی حوصلہ افزائی کے بعد تحریک جہاد کو کافی فروغ ملا‘ اور ملک کے تمام حصوں میں یہ تحریک پوری قوت کے ساتھ پھیل گئی‘ ہرعلاقے کے ہند ومسلمان انگریزوں کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے‘ یوپی اور بہار سے تلنگوں کی جماعت اس تحریک میں سب سے پیش پیش تھی‘ میرٹھ ‘ مظفر نگر‘ سہارنپور‘ پنجاب‘ بنگال ہرطرف اس تحریک کے شعلے آسمان کو چھونے لگے‘ اور انگریزوں کے خلاف پورے ملک کی فضا ایسی خراب ہوگئی کہ ان کے لئے بظاہر اس ملک کی سرزمین تنگ ہوگئی‘ اگر اس تحریک کو مضبوط اور منظم قیادت مل جاتی اور اس عوامی تحریکی قوت کو انگریزوں کے خلاف سلیقہ کے ساتھ استعمال کیا جاتا تو ۱۸۵۷ء ہی میں اس ملک سے انگریزوں کا خاتمہ ہوجاتا‘ لیکن افسوس! ایک تو بادشاہ بہادر شاہ ظفر کی عمر کافی ہوچکی تھی‘ جس کی وجہ سے اس کی خود اعتمادی اور قوت فیصلہ کمزور ہوچکی تھی‘ دوسرے اس کے ارد گرد ایسے نااہل ‘ عافیت پسند اور بعض منافقین کی ایسی جماعت اکٹھی ہوگئی تھی‘ جو ایسی عظیم تحریک کی قیادت نہیں کرسکتے تھے‘ چنانچہ چار ماہ کی طاقتور جد وجہد کے بعد اس تحریک میں کمزوری کے آثار پیدا ہوئے‘ انگریزوں کا دفاع منظم اور منصوبہ بند تھا‘ وہ تو․․․ خرید وفروخت کے اصول پر گامزن تھے‘ کتنے ہی ہندوستانی چند مفادات کے لئے انگریزوں کے وفادار ہوگئے‘ اچھے اچھے لوگوں سے اچھے مستقبل کی امید میں اس تحریک کے بجائے انگریزوں کا ساتھ دیا۔
بالآخر تحریک اس وقت بکھر کررہ گئی اور ملک کی آزادی قریب ایک صدی کے لئے پیچھے ہوگئی۔
جہاد کا فتویٰ:
اس تحریک آزادی میں علماء اور مذہبی قائدین نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا‘ بلکہ سچ یہ ہے کہ علماء کے فتوئ جہاد ہی کی بناء پر اس تحریک کو قوت ملی‘ اگر مذہبی جوش اور جہاد کا پاک جذبہ شامل نہ ہوتا تو انگریزوں کی مضبوط حکومت سے ٹکر لینے کی جسارت آسان بات نہ تھی‘ اس لئے اس تحریک کو تمام تر غذا علماء کے طبقہ سے ملی‘ اور عوام اور مجاہدین نے اس کو بڑھایا اور پھیلایا۔
سب سے پہلا فتویٰ جہاد ۱۸۵۷ء کی تحریک آزادی سے پچاس سال قبل حضرت شاہ عبد العزیز محدث دہلوی نے دیا تھا‘ جس میں کہا گیا تھا کہ:
”اس اطراف میں اور یہاں سے لے کر کلکتہ تک نصاریٰ کا حکم جاری ہے‘ وہ بلاروک ٹوک جو کچھ چاہتے ہیں‘ کرتے ہیں‘ عبادت گاہوں تک مسمار کر ڈالتے ہیں‘ مذہب کا کوئی احترام ان کی نظر میں نہیں ہے“۔ (فتاویٰ عزیزیہ‘ شاندار ماضی:۴/۱۶۴) اسی فتویٰ پر عمل کرتے ہوئے آپ کے مرید خاص اور اس تحریک کے سب سے بڑے علمبردار حضرت سید احمد شہیدنے مہاراجہ گوالیار سے امداد کی اپیل کی تھی اور شکوہ کیا تھا کہ:
”بیگانگان بعید الوطن ملوک زمین وزماں گردیدہ وتاجران متاع فروش بپایہٴ سلطنت رسیدہ“ یعنی سات سمندر پار کے اجنبی‘ زمین وزماں کے مالک بن گئے ہیں اور بیچنے والے سوداگر منصب حکومت تک پہنچ گئے ہیں۔ (علماء ہند کا شاندار ماضی:۴/۱۶۵)
حضرت شاہ عبد العزیز کا یہ فتویٰ پورے ملک میں مشہور اور متفق علیہ تھا۔
اسی لئے انگریزوں کی غلط حکمت عملی‘ توہین آمیز سلوک اور ملک کی مجموعی ابتری کے وقت جب تحریک جہاد شروع ہوئی تو کسی حلقے سے یہ سوال نہیں اٹھایا گیا کہ انگریزوں کے خلاف جہاد کرنا جائز ہے یا نہیں‘ ابھی تیس سال قبل ہی تو سید احمد شہید کی تحریک جہاد کا سلسلہ بالاکوٹ کی گھاٹیوں میں ختم ہوا تھا اور ابھی ان پہاڑوں کی چٹانوں سے ان شہداء کے خون کے نشانات مٹے بھی نہ تھے کہ ۱۸۵۷ء کی تحریک جہاد شروع ہوگئی‘ اس لئے بالاتفاق ہرطرف اس آواز کو قبولیت حاصل ہوئی‘ اور ملک کے ہرحصے میں جہاد کے علمبردار کھڑے ہوگئے‘ البتہ انگریزوں کے دوسرے بہت سے جنگی حربوں کی طرح جھوٹے فتوؤں کا حربہ بھی استعمال کیا اور عوام میں اس کے بالمقابل ایک دوسرے جھوٹے فتوے کا پروپیگنڈہ کیا گیا کہ: ”انگریز حاکم وقت ہے‘ مسلمان اس کی پناہ میں ہیں (مستامن ہیں) پس اطاعت واجب ہے اور غدر حرام“۔ (شاندار ماضی:۱۶۵)
حالانکہ یہ بالکل غلط بات تھی‘ انگریز نہ جائز حکمراں تھے اور نہ مسلمانوں نے کبھی ان کی حکومت کو بجان ودل قبول کیا تھا‘ وہ غاصب اور ظالم تھے‘ اور طاقت کی بدولت مسلمانوں کی حکومت چھین لی تھی‘ غاصبانہ حکومت کو جائز حکومت کبھی نہیں قرار دیا جاسکتا تھا‘ اور نہ ایسی حکومت کی حفاظت کے لئے کوشش کرنادرست تھا‘ مگر انگریزوں کا پروپیگنڈہ اتنا طاقتور تھا اور ان کے ذرائع ابلاغ اتنے وسیع اور مضبوط تھے کہ بہت سے مسلمان اور ہندوستانی لوگ اس دام میں آگئے۔
دوسری طرف انگریزوں کی جنگی طاقت کا رعب لوگوں پر اتنا زیادہ تھا اور ان کے مقابلے میں مسلمانوں کے وسائل حرب بہت محدود تھے‘ کہ جہاد ایک طرح سے احمقانہ خود کشی معلوم پڑتی تھی۔
تیسری طرف مسلمانوں میں قیادت کا ایسا زبردست خلاتھا‘ اور جو تھا اس میں اتنا انتشار تھا کہ شرائط جہاد کی تکمیل کا مسئلہ کھڑا ہوگیا تھا‘ کہ بغیر کسی امیر کے جہاد درست ہے یا نہیں؟
دہلی میں علماء کا اجتماع:
یہی وہ حالات تھے جن کی بناء پر ضرورت پڑی کہ دوبارہ علماء کا اجتماع بلایاجائے‘ اور اس مسئلہ کو پھر سے منقح کرلیا جائے کہ فی زمانہ جہاد کی شرعی اہمیت کیا ہے؟ مسلمانوں کے لئے انگریزوں کے خلاف جہاد کے لئے اٹھ کھڑا ہونا درست ہے یا نہیں؟اور شرائط جہاد کی تکمیل ہورہی ہے یا نہیں؟
یہ نیک کام اللہ پاک نے جنرل بخت خاں آمد کے ذریعہ کرایا‘ جو سلطان پور لکھنؤ کا رہنے والا تھا‘ اور اودھ کے شاہی خاندان سے رشتہ داری رکھتا تھا‘ اس کے پیرومرشد مولانا سرفراز علی خاں حضرت سید احمد شہید سے وابستہ تھے‘ بادشاہ سے جب اس کی ملاقات ہوئی اور بادشاہ کو اس کی صلاحیت کا اندازہ ہوا‘ تو بادشاہ نے اس کو تمام افواج کا سپہ سالار اعظم بنادیا‘ اور اس طرح حسن انتظام اور حسن عقیدہ کا جو خلا لال قلعہ میں پایا جاتا تھا‘ پُرہوگیا‘ اب سوال صرف یہ رہ گیا کہ کیا ہمارے پاس دشمن سے مقابلہ کی طاقت ہے یا نہیں؟ بہت سے علماء کو اس باب میں شبہ تھا‘ دہلی میں مولانا محبوب علی صاحب اور تھانہ بھون میں شیخ محمد تھانوی وغیرہ کئی علماء اسی قسم کے تذبذب میں مبتلا تھے‘ جامع مسجد میں علماء کا ایک بڑا اجتماع بلایاگیا اور استفتاء پیش کیا گیا‘ جس کی عبارت یہ تھی:
فتوئ جہاد کی تجدید:
سوال: کیا فرماتے ہیں علماء دین؟ اس امر میں کہ اب جو انگریز دلی پر چڑھ آئے اور اہل اسلام کی جان ومال کا ارادہ رکھتے ہیں‘ اس صورت میں اب شہر والوں پر جہاد فرض ہے یا نہیں اور اگر فرض ہے تو وہ فرض عین ہے یا نہیں؟ اور لوگ جو اور شہروں اور بستیوں والے ہیں ان کو بھی جہاد چاہئے یا نہیں؟ بیان کرو‘ اللہ تم کو جزائے خیر دے۔
جواب: درصورت مرقومہ فرض عین ہے‘ اور اوپر تمام اس شہر کے لوگوں کے اور استطاعت ضرور ہے‘ اس کی فرضیت کے واسطے چنانچہ اب اس شہر والوں کو طاقت مقابلہ اور لڑائی کی ہے بسبب کثرت اجتماع افواج کے اور مہیا اور موجود ہونے آلات حرب کے تو فرض عین ہونے میں کیا شک رہا اور اطراف واحوال کے لوگوں پر جو دور ہیں باوجود خبر کے فرض کفایہ ہیں‘ ہاں اگر اس شہر کے لوگ باہر ہوجائیں مقابلے سے یا سستی کریں اور مقابلہ نہ کریں تو اس صورت میں ان پر بھی فرض ہوجاوے گا اور اسی ترتیب سے سارے اہل زمین پر شرقاً اور غرباً فرض عین ہوگا‘ اور جو عدو اور بستیوں پر ہجوم اور قتل وغارت کا ارادہ کریں تو اس بستی والوں پر بھی فرض عین ہوجائے گا‘ بشرط ان کی طاقت کے۔ (العبد المجیب احقر نور جمال عفی عنہ) اس فتویٰ پر درج ذیل علماء نے دستخط کئے اور مہریں لگائیں:
۱:․․․ سید محمد نذیر حسین‘ ۲:․․․ رحمت اللہ‘ ۳:․․․ مفتی محمد صدر الدین‘ ۴:․․․ مفتی اکرام الدین معروف سید رحمت علی‘ ۵:․․․ محمد ضیاء الدین‘ ۶:․․․ عبد القادر‘ ۷:․․․ فقیر احمد سعید احمدی‘ ۸:․․․ محمد میر خاں‘ (پامیر محمد پامیر خان محمد) ۹:․․․محمد عبد الکریم‘ ۱۰:․․․ فقیر سکندر علی‘ ۱۱:․․․ محمد کریم اللہ‘ ۱۲:․․․ مولوی عبد الغنی‘ ۱۳:․․․ خادم العلماء محمد عبدالغنی‘ ۱۴:․․․ فریدالدین‘ ۱۵:․․․ محمد سرفراز علی‘ ۱۶:․․․ سید محبوب علی جعفری‘ ۱۷:․․․ابو احمد محمد حامی الدین‘ ۱۸:․․․ سید احمد علی‘ ۱۹:․․․ الٰہی بخش‘ ۲۰:․․․ محمد مصطفی خان ولد حیدر شاہ نقشبندی‘ ۲۱:․․․ محمد انصار علی‘ ۲۲:․․․ مولوی سعید الدین‘ ۲۳:․․․ حفیظ اللہ خان‘ ۲۴:․․․ محمد نور الحق عفی عنہ‘ ۲۵:․․․ سراج العلماء ضیاء الفقہاء مفتی عدالت عالیہ محمد رحمت علی خان‘ ۲۶:․․․ واللہ الغنی وانتم الفقراء‘ ۲۷:․․․ حیدر علی‘ ۲۸:․․․سیف الرحمن‘ ۲۹:․․․سید عبد الحمید عفی اللہ عنہ‘ ۳۰:․․․یا سید حافظ‘ ۳۲:․․․ محمد امداد علی عفی عنہ‘ ۳۳:․․․ خادم شریف رسول الیقین قاضی القضاء محمد علی حسین، نور اللہ مراقدہم۔ اس فتویٰ کا عکس جو سو تنتر دہلی اور نوائے آزادی میں شائع ہوا ہے۔ (علماء ہند کا شاندار ماضی:۴/۱۷۸-۱۷۹)
سوال وجواب کے پڑھنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ علماء کے سامنے اصل مسئلہ یہ نہیں تھا کہ:انگریزوں سے جہاد جائز ہے یا نہیں‘ بلکہ اصل مسئلہ یہ تھا کہ اسلام نے مشروعیت جہاد کی جو شرطیں مقرر کی ہیں‘ وہ پوری ہورہی ہیں یا نہیں؟
غلط بیانی:
بہت ہی افسوس کے ساتھ یہ کہنا پڑتا ہے کہ سر سید احمد خان اور منشی ذکاء اللہ نے اس فتویٰ اور اس کے پس منظر کی غلط ترجمانی کی ہے‘ علماء کے موقف کو مسخ کرنے کی کوشش کی ہے اور تحریک جہاد او رمجاہدین کی خلاف واقعہ تصویر پیش کی ہے‘ سرسید صاحب کی مشہور کتاب ”اسباب بغاوت ہند“ سے دو اقتباسات پیش ہیں:
”اور یہ جو ہر ضلع میں پاجی اور جاہلوں کی طرف سے جہاد کا نام ہوا‘ اگر ہم اس کو جہاد ہی فرض کریں تو بھی اس کی سازش اصلاح قبل دسویں مئی ۱۸۵۷ء مطلق نہ تھی‘ غور کرنا چاہئے کہ اس زمانہ میں جن لوگوں نے جھنڈا جہاد کا بلند کیا‘ ایسے خراب اور بدرویہ اور بداطوار آدمی تھے کہ بجز شراب خوری اور تماش بینی اور ناچ ورنگ دیکھنے کے کچھ وظیفہ ان کا نہ تھا‘ بھلا یہ کیوں کر پیشوا اور مقتدا جہاد کے گنے جاسکتے تھے‘ اس ہنگامے میں کوئی بات بھی مذہب کے مطابق نہیں ہوگی۔ دہلی میں جو فتویٰ جہاد کا چھپا وہ ایک عمدہ دلیل جہاد کی سمجھی جاتی ہے‘ مگرمیں نے تحقیق سے سنا ہے اور اس کے اثبات پر بہت دلیلیں ہیں کہ وہ محض بے اصل ہے‘ میں نے سنا ہے کہ جب فوج نمک حرام میرٹھ سے دہلی میں گئی‘ تو کسی نے جہاد کے باب میں فتویٰ چاہا‘سب نے فتویٰ دیا کہ جہاد نہیں ہوسکتا‘ اگرچہ اس سے پہلے فتویٰ کی میں نے نقل نہیں دیکھی ہے‘ مگر جب کہ وہ اصل فتویٰ معدوم ہے‘ تو میں اس نقل کو نہیں کہہ سکتا کہ وہ کہاں تک لائق اعتماد کے ہے‘ مگر جب بریلی کی فوج دہلی میں پہنچی اور دو بارہ فتویٰ ہوا‘ جو مشہور ہے اور جس میں جہاد کرنا واجب لکھا ہے‘ بلاشبہ اصل نہیں‘ چھاپنے والے اس فتویٰ کے نے جو ایک مفسد اور نہایت قدیمی بدذات آدمی تھا‘جاہلوں کے بہکانے اور ورغلانے کو لوگوں کے نام لکھ کر اور چھاپ کر اس کو رونق دی تھی‘بلکہ ایک آدھ مہر ایسے شخص کی چھاپ دی تھی جو قبل غدر مرچکا تھا‘ مگر مشہور ہے کہ چند آدمیوں نے فوج باغی بریلی اور اس کے مفسد ہمراہیوں کے جبر اور ظلم سے مہریں بھی کی تھیں“۔ (اسباب بغاوت ہند:۷-۱۰)
منشی ذکاء اللہ لکھتے ہیں:
”جب تک دہلی میں بخت خان نہیں آیا‘جہاد کے فتویٰ کا چرچا شہر میں بہت کم تھا‘ مساجد میں ممبروں پر جہاد کا وعظ کمتر ہوتا تھا‘ دلی کے مولوی اور اکثر مسلمان خاندان تیموریہ کو ایسا خولہ خبطہ جانتے تھے کہ وہ ناممکن سمجھتے تھے کہ اس خاندان کی بادشاہی ہندوستان میں ہو‘ مگر اس کے ساتھ جاہل مسلمانوں کو یہ یقین تھا کہ انگریزی سلطنت کے بدن میں یہ ایسا پھوڑا نکلا کہ وہ جانبر نہیں ہوگی“۔
یہ کام لچے شہدے مسلمانوں کا تھا کہ وہ جہاد جہاد پکار تے تھے‘ مگر جب بخت خان‘ جس کا نام اہل شہر نے کم بخت خان رکھا تھا‘ دلی میں آیا تو اس نے یہ فتویٰ لکھایا کہ مسلمانوں پر جہاد اس لئے فرض ہے کہ اگر کافروں کی فتح ہوگی تو وہ ان کے بیوی بچوں کو قتل کر ڈالیں گے‘اس نے جامع مسجد میں مولویوں کو جمع کرکے جہاد کے فتوے پر دستخط ومہریں ان کی کرالیں اور مفتی صدر الدین نے بھی ان کے جبر سے اپنی جعلی مہر کردی لیکن مولوی محبوب علی اور خواجہ ضیاء الدین نے فتویٰ پر مہریں نہیں کیں‘ اور بے باکانہ کہہ دیا تھا کہ شرائط جہاد موافق مذہب اہل اسلام موجود نہیں۔
اس فتویٰ کا اثر یہ تھا کہ جاہل مسلمانوں کا جوش مذہبی زیادہ ہوگیا‘ جن مولویوں نے فتویٰ پرمہریں کی تھیں‘ وہ کبھی پہاڑی پر انگریزوں سے لڑنے نہیں گئے‘ مولانا نذیر حسین جو وہابیوں کے مقتدا اور پیشوا تھے‘ ان کے گھر میں ایک میم چھپی بیٹھی تھی‘ اس فتویٰ پر کچھ مہریں اصلی اور کچھ جعلی تھیں‘ ایک مولوی کی مہر تھی جو غدر سے پہلے قبر سوچکا تھا۔ (تاریخ عروج عہد انگلشیہ:۶۷۵)
سرسید اور مفتی ذکاء اللہ دونوں کے درج بالا بیانات غلط اور خلاف واقعہ ہیں‘ اصل واقعہ وہی ہے جو اوپر مذکور ہوا‘ حضرت مولانا محمد میاں صاحب نے ان دونوں حضرات کے بیانات کا احتساب کرکے ان کو غلط ثابت کیا ہے۔ (ملاحظہ ہو‘ علماء ہند کاشاندار ماضی:۴/۱۶۴-۱۷۵)
ایک طرف علماء کے فتویٰ سے مسلمانوں میں جذبہٴ حریت پیدا ہوا‘ تو دوسری طرف پنڈتوں نے بھی ہندوؤں میں انگریزوں کے خلاف نفرت کا ماحول بنایا‘ منشی ذکاء اللہ خان کا بیان ہے:
ہندوؤں کے پنڈت‘ مسلمانوں کے مولویوں کی نسبت انگریزوں سے عداوت کرنے میں کچھ کم نہیں تھے‘کئی دفعہ انہوں نے پتروں کو دیکھ بھال کر لڑنے کی شبھ مہورت نکال کر تلنگوں کو بتلائے او ران کویقین دلایا کہ ان میں اگر لڑنے جاؤ گے تو فتح پاؤگے‘ ایک عجیب تماشا چاندی چوک اور بازاروں میں یہ دیکھنے میں آتا تھا کہ پنڈتوں کے ہاتھ میں پوتھیاں ہیں اور وہ ہندوؤں کو دھرم شاستروں کے احکام سنارہے ہیں کہ انگریز ملکشوں سے لڑنا چاہئے‘ جب لڑائیوں میں تلنگوں کی لاشیں چارپائیوں پر ان کے سامنے آئیں تو وہ ہندوؤں کو اپدیش دیتے کہ ان سرگ باشیوں کی طرح سرگ میں چلے جاؤ ‘ جن کے لئے نہ ارتھی کی ضرورت تھی نہ کرم کریا کی۔ (تاریخ عروج عہد انگلشیہ:۶۷۶)
مگر اس جنگ میں ہندوؤں کی تعداد مسلمانوں سے کم تھی‘ جب کہ ملک میں ان کی تعداد زیادہ تھی‘ مگر یہ جنگ مسلمان لڑرہے تھے‘ ملک ان کے ہاتھوں سے چھینا گیا تھا‘ اس لئے قدرتی طور پر ان میں زیادہ طبقہ تھا‘ ہندو تو پہلے بھی عام شہری تھے اور اب بھی تھے‘ ان کا کچھ زیادہ نقصان نہیں تھا۔
اس موقع پر مسلم شعراء نے بھی جہاد کی اسپرٹ پیدا کرنے میں نمایاں حصہ لیا‘ اس دور میں حضرت مولانا لیاقت علی صاحب کی یہ چھوٹی سی نظم کافی مشہور ہوئی تھی:
واسطے دین کے لڑنا نہ پئے طبع بلاد
اہل اسلام اسے شرع میں کہتے ہیں جہاد
مال واولاد اور گھر کی محبت چھوڑو
راہِ مولیٰ میں خوشی ہو کے شتابی دوڑو
گر پھرے جیتے تو گھر بار میں پھر آؤ گے
اور گئے مارے تو جنت کو چلے جاؤ گے
(تاریخ بغادت ہند: ۳۰۰/بحوالہ شاندار ماضی:۴/۱۹۷)
اشاعت ۲۰۱۰ ماہنامہ بینات , ذوالحجہ:۱۴۳۱ھ -دسمبر: ۲۰۱۰ء, جلد 73, شمارہ 12
پچھلا مضمون: گستاخانِ رسول اور ان کا انجام