Deobandi Books

ماہنامہ البینات کراچی ذوالحجہ ۱۴۳۱ھ -دسمبر ۲۰۱۰ء

ہ رسالہ

6 - 12
امتحان عشق اور مقام قرب
ذو الحجہ کا مہینہ سایہ فگن ہے، اس مہینے کے آتے ہی عالم اسلام میں ایک عجیب رونق اور جشن کا سماں دیکھا جا تاہے۔ ایک طرف تو مہمانانِ خدا دنیا کے گوشے گوشے سے حج بیت اللہ کی سعادت حاصل کرنے کے لئے جم غفیر کی صورت میں حرمین شریفین پہنچ چکے ہوتے ہیں اور جو اس قافلے میں شریک نہ ہوسکے، وہ قربانی کی صورت میں حجاج کرام کے ساتھ مشابہت اختیار کرنے کے لئے کوشاں نظر آتے ہیں۔
درحقیقت یہ مہینہ بہت ساری نیکیوں اور بھلائیوں کے ساتھ ساتھ حج اور قربانی جیسی عبادتوں کا جامع ہے اور ان دو عبادتوں کے پس منظر میں ہمارے جد امجد، جلیل القدر پیغمبر حضرت ابراہیم علیہ السلام اور ان کے خاندان کی یادگاریں وابستہ ہیں۔
حضرت امام غزالی رحمة اللہ علیہ سے پوچھا گیا کہ حج کس چیز کا نام ہے تو امام غزالی نے جواب دیا: حج ہاجرہ کی اداؤں کا نام ہے، حج اسماعیل کی وفاؤں کا نام ہے، حج ابراہیم کی دعاؤں کا نام ہے۔ اتنے بڑے انعامات اور سعادتوں کا حصول حضرت ابراہیم علیہ السلام اور ان کے خاندان کو ایسے ہی نہیں ملا، بلکہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی پوری زندگی امتحانات میں گذری، اللہ تعالیٰ نے ان کو طرح طرح کے امتحانات اور آزمائشوں میں ڈالا لیکن وہ مرد قلندر ہر امتحان میں اول آئے، انہوں نے اس بات کو ثابت کردیا کہ وہ واقعی اس بات کے مستحق ہیں کہ ان کو رہتی دنیا کے لئے امام ومقتدا بنایاجائے۔ چنانچہ اعلان ایزدی ہوا:
”واذا ابتلیٰ ابراہیم ربہ بکلمات فاتمہن، قال انی جاعلک للناس اماماً“ (بقرہ)
آخر وہ امتحانات کیا تھے جس کی بناء پر اللہ رب العزت نے ان کو اتنا بڑا تمغہ اور سرٹیفیکٹ عنایت فرمایا کہ ان کو پوری دنیا کا مقتدا وپیشوا بنایا، بلکہ نبی آخر الزمان جناب محمد ا نے فرمایا:
”انا مبعوث بدعاء ابراہیم“
۔…میں ابراہیم کی دعا کی بنا پر مبعوث ہواہوں…

پہلا امتحان
حضرت ابراہیم علیہ السلام کو اللہ رب العزت نے نمرود جیسے متکبر اور مغرور بادشاہ کے زمانے میں پیدا فرمایا، نمرود بت پرست اور جابر حکمران تھا، ایک مرتبہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ان کے بت خانے میں داخل ہوکر کسی کی ناک توڑی، کسی کا کان اور کسی کا ہاتھ کاٹ دیا اور جو ان میں سے سب سے بڑا تھا ،اس کے کندھے پر کلہاڑا رکھ دیا۔ اللہ تعالیٰ کو ان کی یہ ادا اتنی پسند آئی کہ اللہ تعالیٰ نے پورا واقعہ اپنے کلام میں بیان فرمایا، جب نمرودنے کہا کہ ہمارے خداؤں کا بیڑا غرق کون کرگیا تو اس قوم کے لوگوں نے کہا۔
”قالوا سمعنا فتیً یذکرہم یقال لہ ابراہیم“
۔ بادشاہ نے کہا کہ ابراہیم کو لایاجائے، حضرت ابراہیم علیہ السلام کو دربار شاہی میں لایا گیا کہ ہمارے خداؤں کا ستیاناس تونے کیا ہے؟ پیغمبر نے جواب میں فرمایا کہ جس کے کندھے پر کلہاڑا ہے اس سے پوچھو کہ تمہارا بیڑا غرق کس نے کیا، انہوں نے جواب میں کہا کہ اے ابراہیم! تجھے نہیں پتہ کہ یہ جو ہمارا بڑا خدا ہے یہ تو بولتا نہیں ہے، اس سے کیسے پوچھیں ،تو پیغمبر نے فرمایا کہ: جس خدا کو یہ پتہ نہیں کہ میرے کندھے پر کلہاڑا کون رکھ گیا ہے اور جس بڑے کو یہ پتہ نہیں کہ چھوٹے کی ٹانگیں کون توڑ گیا ہے وہ خدا اور تمہارا مشکل کشا کیسے ہے؟ حاجت روا کیسے ہے؟ پیغمبر کی گفتگو سن کر بادشاہ لاجواب ہوگیا اور اس کے بعد بادشاہ نے چالیس میل لمبی چوڑی آگ کا چمنہ جلانے کا حکم دیا، چالیس میل لمبی چوڑی آگ آسمان سے بات کرنے لگی اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کو بڑے ٹوکرے میں ڈال کر بڑے طاقتور لوگوں کے ذریعے دہکتی ہوئی آگ میں ڈالدیا۔ یہ پہلا امتحان تھا جو پیغمبر کا اللہ تعالیٰ نے لیا، ادھر خدا عرش سے دیکھ رہا ہے کہ میرا نام لے کر میری کبریائی کا اعلان کرکے ایک میرا نبی آگ میں گررہا ہے۔ اسی کو علامہ اقبال نے یوں تعبیر کیانھا:
بے خطر کود پڑا آتش نمرود میں عشق
عقل ہے محو تماشائے لب بام ابھی
عقل کہتی ہے تو جل جائے گا، عقل کہتی تھی تو راکھ ہوجائے گا، لیکن عشق یہ تھا کہ جس خدا کے نام پر میں آگ میں جانا چاہتاہوں، آگ کو جلانے کا حکم بھی وہی دے سکتا ہے، اللہ نے آگ کو حکم دیا : ”قلنا یا نار کونی بردًا وسلامًا علی ابراہیم“ (الانبیاء) آتش نمرور میں گرنا اس کا گل وگلزار بن جانا یہ پہلا امتحان تھا۔

دوسرا امتحان
اللہ تعالیٰ نے اپنے جلیل القدر پیغمبرحضرت ابراہیم علیہ السلام سے دوسرا امتحان یہ لیا کہ پیغمبر کے گھر میں اولاد نہیں ہے، اللہ کا نبی اللہ کے دروازے پر رورہا ہے، نبی رو کر کہتا ہے: ”رب ہب لی من الصالحین“۔ (صافات) پیغمبر کی عمر ایک سو بیس سال ہے ، نبی اللہ کے دروازے پر رو رہا ہے کہ اے اللہ! مجھے بیٹا عطا فرما تو بیوی دیوار کے پیچھے کھڑی ہے، مسکرا رہی ہے، کیا کہتی ہے؟ تیری عمر ایک سو بیس سال ہے، میری عمر نوے سال ہے، بیٹا کیسے ہوگا؟ یہ کہنے کی دیر تھی کہ حضرت جبرئیل امین اتر آئے اور کہا کیوں گھبراتے ہو؟ جو خدا حضرت آدم علیہ السلام کو بغیر ماں باپ کے پیدا کرسکتا ہے، وہ خدا بڑھاپے میں تمہاری جھولی بھی بیٹوں سے بھر سکتا ہے، یہ کہنے کی دیر تھی۔ ”فبشرناہ بغلام حلیم“۔ جس بچے کو پیغمبر نے رو رو کر مانگا تھا، اللہ نے حکم دیا: اے پیغمبر! اس بیٹے کو اس کی ماں کے ساتھ لے چلو، کہاں لے چلوں؟ خانہ کعبہ میں لے چاؤ، کعبہ کی بستی میں چھوڑ آؤ، قرآن کریم نے اس واقعہ کویوں بیان کیا:
”ربنا انی اسکنت من ذریتی بواد غیر ذی زرع عند بیتک المحرم“ (ابراہیم)
اللہ تعالیٰ نے فرمایا روکر بیٹا تو نے مانگا لیکن امتحان بھی عرش سے خدانے تیرے مقدر میں کردیا، پیغمبر اللہ کے حکم پر لبیک کہتے ہوئے اپنے بیٹے اور بیوی کو ساتھ لیتے ہیں اور جنگلوں کا سفر کرکے مکہ پہنچتے ہیں، کعبہ کے قریب صفا ومروہ پہاڑی کے نیچے ہاجرہ کو کہتے ہیں، ہاجرہ یہاں بیٹھ جاؤ، پیغمبر ان دونوں کو اللہ کے حکم پر چھوڑ کر چلے گئے، ایک دن گذرا، دو دن گذرے، کوئی آبادی نہیں، کوئی پانی نہیں، صرف صفاومروہ کی پہاڑی ہے، جب بیٹا پیاس سے تڑپنے لگا تو تڑپتے ہوئے بیٹے کو دیکھ کر ہاجرہ سے برداشت نہ ہوسکا، ہاجرہ بچے کو رکھ کر کبھی ایک پہاڑ پر چڑھتی ہیں، کبھی دوسرے پہاڑ پر چڑھتی ہیں، اللہ تعالیٰ کو وہ ادائیں اتنی پسند آئیں کہ بیٹا زمین پر پڑا ہے اور ماں کبھی ایک پہاڑ پر کبھی دوسرے پہاڑ پر چکر لگارہی ہیں، عرش والے خدا کو یہ چکر اتنے پسند آئے کہ قرآن مجید میں ذکر فرمادیا: ”ان الصفا والمروة من شعائر الله“۔ (بقرہ) اللہ تعالیٰ کو ان کی ادا اتنی پسند آئی کہ قیامت تک آنے والے عازمین حج کے لئے ان دونوں پہاڑوں کے درمیان سعی کو لازم کردیا، جب ہاجرہ پریشان ہوکر آئی تو کیا دیکھتی ہیں کہ بیٹا ایڑیاں رگڑتا ہے اور ان ایڑیوں سے آب زم زم کا چشمہ نکل رہا ہے، اس پانی کو اتنا بابرکت بنادیا کہ آپ ا نے فرمایا: ”ماء زمزم لما شرب لہ“ یہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کا دوسرا امتحان تھا ،اس میں بھی وہ اعلیٰ نمبروں سے پاس ہوئے۔

تیسرا امتحان
جب حضرت اسماعیل علیہ السلام تھوڑے بڑے ہوئے چلنے پھرنے لگے تو ایک دن حضرت ابراہیم علیہ السلام کو خواب آیا: ”فلما بلغ معہ السعی قال یا بنی انی ارٰی فی المنام انی اذبحک فانظر ماذا تریٰ“۔ (صافات) مولانا حفیظ جالندھری نے اشعار میں یوں تعبیر کیا:
پدر بولا کہ بیٹا رات میں نے خواب دیکھا ہے
کتابِ زندگی کا اک نرالا باب دیکھا ہے
یہ دیکھا ہے کہ خود میں آپ، تجھ کو ذبح کرتا ہوں
خدا کے حکم سے تیررے لہو سے ہاتھ بھرتا ہوں
حضرت اسماعیل علیہ السلام نے کہا: اباجان! جلدی کرو خدا کے حکم کی خلاف ورزی نہ ہوجائے، حضرت اسماعیل علیہ السلام اتنی چھوٹی عمر میں اتنی بڑی قربانی کے لئے تیار ہوگئے۔
میری مشاطگی کی کیا ضرورت ہے حسن معنیٰ کو
کہ فطرت خود بخود کرتی ہے لالہ کی حنابندی
حضرت ابراہیم علیہ السلام اپنے لخت جگر کو لٹاتے ہیں، بڑے جذباتی انداز میں چھری چلاتے ہیں، تاکہ اللہ کا حکم مؤخر نہ ہوجائے۔
کم ہوئیں عارف نہ دل کی رونقیں
اس نگر کا راستہ چلتا رہا
جذبات کی لہریں جوش پہ ہیں ہلچل بھرے ارمانوں میں
ساحل کی لڑائی اب جاکر لڑنی ہوگی ارمانوں میں
جب حضرت ابراہیم علیہ السلام پریشان ہوجاتے ہیں کہ چھری کا کام تو کاٹنا ہے لیکن آج یہ چھری کیوں نہیں چلتی ، آواز آئی کہ اگر آج چھری چل جاتی تو پھر قیامت تک عید الاضحیٰ کے موقع پر ہرباپ اپنے بیٹے کے گلے پر چھری چلاتا، ابراہیم مجھے پتہ ہے کہ ایک قوم تو استطاعت وصاحب نصاب ہونے کے باوجود بکرے قربان نہیں کرے گی، گائے، اونٹ کا ساتواں حصہ ان کے لئے قربان کرنا مشکل ہوگا، بیٹے کو کس طرح قربان کریں گے۔ اے ابراہیم !تم سر اٹھاؤ، تم اپنے امتحان میں کامیاب ہوگئے۔

چوتھا امتحان
اللہ تعالیٰ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو حکم دے رہے ہیں کہ اپنے بچے کو لے کر میرے گھر کو تعمیر کرو، حضرت ابراہیم علیہ السلام اپنے بیٹے حضرت اسماعیل علیہ السلام کو لے کر کعبہ کی تعمیر کررہے ہیں، قرآن نے کہا:
”واذ یرفع ابراہیم القواعد من البیت واسماعیل، ربنا تقبل منا انک انت السمیع العلیم“ (بقرہ)
ان چار امتحانوں کے بعد اللہ تعالیٰ نے کہا: اے ابراہیم !ہم نے آپ کو تمام امتحانات میں اعلیٰ نمبروں سے کامیاب کردیا، اب جو مانگنا چاہتے ہو، مانگو! حضرت ابراہیم علیہ السلام نے یہ دعا کی:
”ربنا وابعث فیہم رسولا“ (بقرہ)
اے اللہ! اس انعام میں، میں تجھ سے ایک چیز مانگتا ہوں کہ جس نبی کو تونے آخر الزمان نبی بناکر بھیجنا ہے اس کو میری اولاد میں پیدا کردے۔
اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دعا قبول فرمائی۔ آج تمام ادیان والے جو حضرت ابراہیم علیہ السلام کو مانتے ہیں اور ان کی تعریف کرتے ہیں، یہ سعادتیں ان کو ایسے ہی نہیں ملیں، بلکہ ان کو کافی کٹھن امتحانوں سے گزرنا پڑا ،پھر ان کو پوری دنیا کا مقتداء وپیشوا بنایا گیا۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ان امتحانات سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ انہوں نے اللہ رب العزت کے ہر حکم کو مقدم رکھا، انہوں نے اپنی اولاد کی کوئی فکر نہیں کی، بلکہ اپنی جان کی بھی پرواہ نہیں کی، آگ میں گرنے کا حکم ہوا تو آگ میں چھلانگ لگادی، اگر بنظر غایت دیکھا جائے تو جان کے بعد انسان کو سب سے زیادہ اولاد پیاری ہوتی ہے، لیکن پیغمبر علیہ السلام نے اولاد بھی قربان کردی، انسان کو مال بھی بہت پیارا ہوتا ہے جس کو وہ سنبھال کر رکھتا ہے لیکن حضرت ابراہیم علیہ السلام نے مال کو بھی کعبہ کی تعمیر پر لگادیا۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی زندگی سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ مقام قرب حاصل کرنے کے لئے بڑے بڑے امتحانات سے گذرنا پڑتا ہے، اور جب دین کا معاملہ آجائے تو وہاں عقل دوڑانے کی ضرورت نہیں ہے، بلکہ سرخم تسلیم کرنے میں ہی انسان کی ابدی کامیابی ہے اور انسان کو دین ہر چیز پر مقدم رکھنا چاہئے۔ اللہ رب العزت ہمیں عمل کرنے کی توفیق عنایت فرمائیں۔
اشاعت ۲۰۱۰ ماہنامہ بینات , ذوالحجہ:۱۴۳۱ھ -دسمبر: ۲۰۱۰ء, جلد 73, شمارہ 12

    پچھلا مضمون: ۱۸۵۷ء کا انقلاب حریت اور علماء اسلام
Flag Counter