Deobandi Books

ماہنامہ البینات کراچی ذوالحجہ ۱۴۳۱ھ -دسمبر ۲۰۱۰ء

ہ رسالہ

11 - 12
شیخ الحدیث مولانا محمد یوسف خانؒ کی رحلت!
۱۲/ستمبر ۲۰۱۰ء مطابق ۲/شوال ۱۴۳۱ھ بروز اتوار بعد نماز مغرب دارالعلوم دیوبند کے فاضل، حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی، مولانا شبیر احمد عثمانی، مولانا محمد ابراہیم بلیاوی کے شاگرد رشید ، حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدر کے ہم سبق وہم درس، جمعیت علماء اسلام آزاد کشمیر کے سابق امیر، آزاد کشمیر قانون ساز اسمبلی کے سابق رکن، آزاد کشمیر قاضی کورٹس کے محرک وبانی، دار العلوم تعلیم القرآن پلندری کے شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد یوسف خان صاحب نماز مغرب باجماعت ادائیگی کے بعد ذکر الٰہی کے دوران خالق حقیقی سے جاملے۔
انا لله وانا الیہ راجعون، ان لله مااخذ ولہ ما اعطیٰ وکل شئ عندہ باجل مسمی۔
حضرت مولانا محمد یوسف  ایک متبحر عالم، زاہد، متقی قرآن وحدیث سے زندگی بھر شغف رکھنے والے، حضور ا سے حد درجہ عشق ومحبت اور ہرحال میں اتباع سنت پر مکمل کاربند رہنے والے اور بے باک سیاسی راہنما تھے، انہوں نے ہمیشہ حق کا بول بالا کیا اور ذاتی مفادات سے ہٹ کر قومی اور ملی مفادات کو ترجیح دی۔ انہوں نے اپنی عملی زندگی کے آغاز سے لے کر تادم واپسی باطل کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر احقاقِ حق اور ابطالِ باطل کا فریضہ سرانجام دیا، انہوں نے کبھی کسی باطل سے مصالحت نہیں کی، بلکہ انہوں نے جس بات کو حق جانا بغیر کسی ہچکچاہٹ کے برملا اعلان کیا، انہوں نے قوم وملک اور مذہب وملت کی بقا کی ہرتحریک میں قائدانہ کردار ادا کیا۔
موصوف شیخ الحدیث نے آزاد کشمیر کے مردم خیز خطہ ”منگ“ میں ۱۹۱۸ء میں آنکھ کھولی، ابتدائی تعلیم اپنے علاقہ میں پائی، اعلیٰ دینی تعلیم کے حصول کے لئے عالم اسلام کی عظیم یونیورسٹی دار العلوم دیوبند کا قصد کیا اور وہاں جبال العلم والعمل شخصیات سے کسب فیض کیا اور ۱۹۴۳ء میں فاتحہ فراغ پڑھا۔
دینی تعلیم سے فراغت کے بعد جب اپنے علاقہ میں آئے تو دیکھا کہ ظالم اور جابر حکومت نے مسلمانوں پر عرصہ حیات تنگ کیا ہوا ہے اور مسلمان غلاموں سے بھی بدتر زندگی گزارنے پر مجبور ہیں، اس وقت کی جابر ڈوگرہ حکومت نے قانون بنارکھا تھا کہ ”گائے کو ذبح کرنے پر سات سال قید اور کسی مسلمان کو قتل کرنے پر تین سال قید“ آپ نے حکومت کے ان ظالمانہ قوانین کے خلاف علم بغاوت بلند کرتے ہوئے اعلان کیا: کہ ہم ایسے قوانین نہیں مانتے جن قوانین میں انسانیت کی تذلیل ہو، اس ظالمانہ قانون کے خلاف آپ نے رائے کو منظم کیا، جس کی پاداش میں آپ کو تین ماہ قید بامشقت کی سزا سنائی گئی۔رہائی کے بعد آپ نے دوسرے قائدین سے مل کر جہاد کا اعلان کیا اور اپنے علاقہ کے مسلمانوں سے بیعت علی الجہاد لی اور کئی خوف ناک معرکوں میں آپ شریک عمل رہے۔
اسی طرح جب آزاد کشمیر حکومت قائم ہوئی تو آپ نے نفاذ اسلام کی عملی جد وجہد اس طرح کی کہ اپنے طور پر شریعت کورٹس کا قیام عمل میں لائے اور عوام کے لئے عدل وانصاف کی غرض سے ان کورٹس میں علماء کرام کا تقرر کیا، جس کو عوام نے بے حد سراہا اوراپنے تنازعات کے تصفیہ اور حل کے لئے ان کورٹس اور علمائے کرام کی طرف رجوع کرنے لگے۔ ان کی مقبولیت سے متاثر ہوکر اس وقت کے آزاد کشمیر کے صدر سردار محمد ابراہیم نے حضرت شیخ الحدیث سے مذاکرات کئے اور آپ کے دلائل سے قائل ہوکر ان شریعت کورٹس کو حکومتی نظام عدل کا حصہ بناکر ان کو ”قاضی کورٹس“ کے نام سے موسوم کردیا۔
مولانا موصوف نے ۱۹۷۵ء میں آزاد کشمیر قانون ساز اسمبلی کا الیکشن لڑا، اور مدمقابل کو بھاری اکثریت سے شکست دی، اور اسمبلی میں پہنچ کر آپ نے دین اسلام کی نمائندگی اور ترجمانی کا حق ادا کیا، اس کے علاوہ آپ اسلامی نظریاتی کونسل کے ممبر بھی رہے۔
آزاد کشمیر میں جب لاکمیشن بنایا گیا تو اس کی مرتب کردہ رپورٹ پر ۷۵ گھنٹے بحث ہوئی اور اراکین اسمبلی کی طرف سے اسلامی دفعات پر جو سوالات اور اعتراضات اٹھائے گئے تو آپ  نے بڑے تحمل وتدبر سے ان اشکالات واعتراضات کے مدلل، جامع مانع اور تسلی بخش جوابات دیئے کہ تمام اراکین اسمبلی آپ  کی علمیت کے معترف اور آپ کے جوابات سے مطمئن ہوگئے۔
اس کے ساتھ ساتھ آپ نے زندگی بھر قرآن وحدیث کی درس وتدریس اور نشر اشاعت کو اولین مقصد بنائے رکھا، اس کے لئے آپ نے جامع مسجد پلندری کو اپنا مرکز بنایا، جہاں آپ نے تمام عمر تحریر وتقریر کے ذریعے مسلمانوں کی راہبری وراہنمائی فرمائی۔ ۶۰/سال تک آپ نے دارالعلوم تعلیم القرآن پلندری میں صحیح بخاری کا درس دیا اور تیس سال تک جمعیت علمائے اسلام آزاد کشمیر کے امیر رہے۔ حضرت مولانا زاہد الراشدی مدظلہ تحریر فرماتے ہیں:
”حضرت مولانا محمد یوسف خان نے نوے برس کے لگ بھگ عمر پائی، ان کی ساری زندگی جہد مسلسل سے عبارت رہی ہے، دینی اور قومی زندگی کا کوئی شعبہ ان کی تگ وتازسے خالی نہیں رہا، ہر شعبہ زندگی کے لوگ سمجھتے تھے کہ شاید سب سے زیادہ توجہ انہیں حاصل ہے، مگر ان کے اوقات کار اور توجہات کی ایسی متوازن تقسیم تھی کہ انہوں نے مختلف شعبوں کو بھر پور وقت دیا اور زندگی کا کوئی لمحہ مصروفیت سے خالی نہیں رہنے دیا۔ دینی علوم کی تدریس کا شعبہ ہو، سلوک وارشاد کے ذریعے علماء اور عوام کی روحانی اصلاح کا میدان ہو، سیاسی قیادت اور راہ نمائی کا محاذ ہو، سماجی خدمات کا دائرہ ہو، نفاذ شریعت کی جدوجہد کی فکری علمی پشت پناہی ہو، آزادی کشمیر کی جد وجہد ہو، جمعیت علماء آزاد کشمیر کے عنوان سے علمائے کرام میں تحریکی ذوق پیدا کرنے کا معاملہ ہو، حضرت مولانا محمد یوسف خان ہرمحاذ پر صف اول میں موجود رہے۔
حضرت شیخ کی علمی، دینی ، قومی، تحریکی اور سماجی خدمات کا احاطہ اس مختصر تاثراتی مضمون میں ممکن نہیں ہے مگر ان کی وفات پر جنازے کے لئے آنے والے ہزاروں افراد سے خطاب کرتے ہوئے مختلف حضرات نے جن تاثرات کا اظہار کیا، ان کے چند پہلوؤں کا تذکرہ مناسب معلوم ہوتا ہے۔ ایک مقرر نے جن کا نام میں یاد نہیں رکھ سکا، کہتا ہے کہ آزاد کشمیر کی عدالتوں میں آج اگر ججوں کے ساتھ قاضی بیٹھتے ہیں اور بہت سے معاملات میں شریعت کے مطابق فیصلے ہوتے ہیں تو یہ حضرت مولانا محمد یوسف خان اور ان کے رفقاء کی طویل جد وجہد کا ثمرہ ہے، انہوں نے بتایا کہ جب آزاد کشمیر کی عدالتوں میں شرعی قوانین کے نفاذ کا فیصلہ ہورہا تھا تو انتظامیہ اور عدلیہ کے ایک اعلیٰ سطحی بھر پور اجلاس میں چیف جسٹس آزاد کشمیر نے اس سلسلے میں اپنے اشکالات اور اعتراضات تفصیل کے ساتھ پیش کئے مگر حضرت مولانا محمد یوسف خان نے ان کے اس قدر مدلل اور تسلی بخش جوابات دیئے کہ خودجسٹس موصوف نے اسی محفل میں برملا اعتراف کیا کہ مولانا محمد یوسف خان کے مفصل خطاب نے نہ صرف ان کے بہت سے اشکالات دور کردیئے ہیں، بلکہ ان کے ذہن کا رخ بھی بدل ڈالا ہے۔
آزاد کشمیر کے وزیر اعظم سردار عتیق احمد خان نے اپنے خطاب میں کہا کہ مولانا محمد یوسف خان صرف آزاد کشمیر کے اور پاکستان کے نہیں، بلکہ عالم اسلام کی شخصیت تھے اور وہ ان کے بارے میں ایک مغربی دانش ور کا یہ قول بیان کرنا چاہیں گے کہ ”کسی چھوٹے آدمی کا بڑی جگہ پر بیٹھ کر کام کرنا بڑی بات نہیں ہے، بلکہ بڑے آدمی کا چھوٹی جگہ پر بیٹھ کر اپنے کمالات کا اظہار کرنا اور انہیں منوانا اصل کمال کی بات ہے“ اور یہ مقولہ مولانا محمد یوسف خان کی جد وجہد پر صادق آتا ہے۔ سابق صدر آزاد کشمیر سردار محمد محمد انور خان نے کہا کہ مولانا محمد یوسف خان کی خدمات کو صرف دینی دائرے میں محدود کرنا درست نہیں ہے، وہ تحریک آزادی اور نفاذ اسلام کے ساتھ ساتھ سیاسی اور سماجی محاذ پر بھی ہمارے راہ نما تھے۔ راقم الحروف نے اپنی گزارشات میں عرض کیا کہ حضرت شیخ نے ایک کامیاب اور بھر پور زندگی گزاری ہے، آج سے ۶۵ برس پہلے جب وہ دارالعلوم دیوبند سے فارغ التحصیل ہوکر اس علاقے میں آئے تھے تو ان کا استقبال ڈوگرہ حکمرانوں کے جیل خانے نے کیا تھا اور آج جب وہ رخصت ہورہے ہیں تو قوم کے تمام طبقات ان کو الوداع کہنے کے لئے جمع ہیں اور ان کی یہ کامیاب زندگی ”فزت ورب الکعبة“ …رب کعبہ کی قسم ! میں کامیاب ہوگیا… کا عملی نمونہ پیش کررہی ہے“
(روزنامہ اسلام کراچی، ۱۵/ستمبر ۲۰۱۰ء)
بلاشبہ موصوف اپنے اکابر واسلاف کی روایات کے امین اور ان کے علوم ومعارف کے سچے جانشین تھے، اللہ تعالیٰ حضرت مرحوم کے ساتھ رضا ورضوان کا معاملہ فرمائے اور ان کے اخلاف کو ان کے چھوڑے ہوئے مشن پر کاربند رہنے کی توفیق اور صبر جمیل سے سرفراز فرمائے۔
آمین، اللہم لاتحرمنا اجرہ ولاتفتنا بعدہ
اشاعت ۲۰۱۰ ماہنامہ بینات , ذوالحجہ:۱۴۳۱ھ -دسمبر: ۲۰۱۰ء, جلد 73, شمارہ 12

    پچھلا مضمون: ننگے سر نماز پڑھنے کا حکم!
Flag Counter