اخروی ابدی زندگی کے حصول کا طریقہ
اب میں آپ کو متوجہ کرنا چاہتاہوں کہ آخرت کی ابدی زندگی کے لئے ہم کیا کررہے ہیں؟ شاید آپ کہیں ابھی تو ہم طالب علم ہیں، ڈگری حاصل کرنے کے بعد منزل بھی متعین کرلیں گے، لیکن یہ دھوکا ہے، آخر آپ کے پاس کیا سند ہے کہ اتنی مدت ہم زندہ بھی رہیں گے، یہاں تو یہ ہوتا ہے کہ اسی برس کا بوڑھا رینگتا رہتا ہے اور تنومند، مضبوط نوجوان حرکت قلب بند ہونے سے ختم ہوجاتا ہے، اس قسم کے بیسیوں عبرت آموز واقعات آپ کے سامنے ہیں۔
دوسرا دھوکا یہ ہے کہ ہم خیال کرلیا کرتے ہیں کہ عالم فاضل یا گریجویٹ بننے کے بعد ”کام“ کریں گے، آپ مسلمان ہیں، آپ طالب علمی میں بھی بہت کچھ کام کرسکتے ہیں، پروفیسر ہوں وہ بھی خوب کام کرسکتے ہیں، اگر ہم میں سے ہرشخص اپنی اپنی جگہ دین کی طرف متوجہ ہوجائے تو دنیا میں انقلاب آجائے ت۔اگر آپ نے طالب علمی ہی سے آخرت کی طرف توجہ کرلی تو گویا آخرت کا سامان کرلیا اور اگر مقصد صرف ڈگری اور تنخواہ ہے تو یہ وہی کافروں کی سی حیوانی زندگی ہے، جس کے بارے میں فرمایا ہے:
”والذین کفروا یتمتعون ویأکلون کما تأکل الانعام والنار مثوی لہم“۔ (محمد:۱۲)
ترجمہ:۔”اور جو لوگ کافر ہیں وہ تو (دنیا میں) ایسے ہی نفع اٹھاتے اور کھاتے ہیں جیسے چوپائے اور (آخرت میں تو) ان کا ٹھکانا جہنم ہے۔
ہرانسان کو اللہ تعالیٰ نے عقل وشعور کی دولت دی ہے اور نبوت وبعثت کی نعمت اس کی رہنمائی کے لئے عطا فرمائی ہے، کیا انسان کی قیمت یہی حیوانی زندگی ہے کہ کھائے اور نکالے، کھائے اور نکالے؟ انسان کو اعلیٰ سے اعلیٰ ڈگری ، بڑی سے بڑی تنخواہ میسر آجائے، اچھا فرینچر عمدہ کار، بہترین بنگلہ اور آسائش کا ہرسامان مل جائے لیکن اگر مقصد پیٹ کو بھر لینا اور سو رہنا اور جو کھایا ہے اس کو نکال دینا ہی ہو تو انسان گویا پاخانہ بنانے کی اچھی خاصی مشین بن گیا کہ ڈالو اور نکالو، ڈالو اور نکالو، اگر یہ مقصد زندگی ہو تو ذرا سوچ لیجئے، آپ نے انسان کو کہاں پہنچایا، اسی کے متعلق فرمایا ہے:
”اولئک کالانعام بل ہم اضل“ ( الانعام:۱۷۹)
ترجمہ:۔”یہ لوگ تو جانوروں جیسے ہیں بلکہ ان سے بھی گئے گذرے“۔
اس لئے کہ ان کے پاس تو عقل نہیں کہ وہ کچھ سوچیں وہ تو صرف اتنا شعور رکھتے ہیں کہ بھوک لگی تو چارہ کھالیا اور پیاس لگی تو پانی پی لیا مگر یہ انسان نما جانور تو عقل کے باوجود ڈوب گئے۔
آپ طالب علم اور جوانی میں وہ خدمت کرسکتے ہیں جو بڑھاپے میں نہیں کرسکتے، اسلام ایک دعوت اور پیغام ہے، آنحضرت ا کا ارشاد ہے: ”الا فلیبلغ الشاہد الغائب“ یعنی ہرموجود شخص دین کا پیغام غیر موجود لوگوں کو پہنچائے“ تو آپ کے ذمہ بھی ایک فرض عائد ہوتا ہے، اسلام کو پہنچانے کا، آج اسلام کو خطرناک سیلابوں کا سامناہے جس کا بڑا سبب مغرب کی طاغوتی طاقتیں ہیں ، در اصل اہل مغرب نے ”صلیبی جنگوں“ سے یہ اندازہ اچھی طرح کرلیا تھا کہ ہم مسلمانوں کو قوتِ شمشیر اور زور بازو سے شکست نہیں دے سکتے، اس لئے انہوں نے اسلام کے خلاف ذہنی جنگ شروع کی، تاکہ مسلمانوں کو اسلام کی نعمت سے محروم کردیا جائے، ان کی یہ کوششیں جو کئی صدی پہلے شروع کی گئی تھیں، آج اپنے شباب پر ہیں ، آج ان کے پاس طاقت ہے، وسائل ہیں، بے پناہ ذرائع ہیں، آج ان کا نقشہ ٹھیک وہی ہے جو موسیٰ علیہ السلام نے فرعون کا بیان فرمایا تھا:
”ربنا انک اٰتیت فرعون وملأہ زینةً واموالاً فی الحیاة الدنیا، ربنا لیضلوا عن سبیلک، ربنااطمس علی اموالہم“۔ (یونس:۸۸)
ترجمہ:۔”اے پروردگار! آپ نے فرعون اور اس کے سرداروں کو دنیوی زندگی ، بے حد مال ودولت اور زینت وآرائش دی ہے، اے پروردگار! اس کے نتیجے میں وہ (بجائے شکر کے) تیرے بندوں کو گمراہ کررہے ہیں، اے پروردگار! ان کے مالوں کو ملیامیٹ کردے“۔
وہ خود یہ جانتے ہیں کہ وہ جس زندگی میں مبتلا ہیں وہ بدترین اور تباہ کن زندگی ہے، دنیا ہی میں جہنم کی زندگی میں مبتلا ہیں ، مجھے کراچی کے ایک دوست نے جو انگلینڈ سے آئے تھے، بتلایا کہ وہاں ایک شخص بہت بڑا مالدار تھا، اس نے اپنے والدین کو ملازم رکھ چھوڑا تھا، وہ فخر سے کہا کرتا تھا کہ جب میں دوسروں کو ملازم رکھتا ہوں تو اپنے ماں باپ کو کیوں ملازم نہ رکھوں۔ یہ ہے نئی تہذیب وتمدن، انسانیت ختم، عاطفت ختم، جانوروں میں جو شفقت پائی جاتی ہے، وہ بھی انسانوں میں مفقود ہے، وہ خود جن فواحش، منکرات اور عریانیوں میں غرق ہیں، چاہتے ہیں کہ مسلمانوں کو بھی غرق کردیں، افسوس ہے کہ ہم اسی بدترین زندگی کو اپنا کر ان کے نقش قدم پر جارہے ہیں۔
بہرحال اسلام کے دشمن رات دن اس فکر میں ہیں کہ کسی طرح اسلام کی برکات سے ہمیں محروم کردیں تو جب تک ہمارے نوجوان، طالب علم، پروفیسر، تاجر ، کسان غرضیکہ ہم سب مل کر اپنے دین کو بچانے کی فکر نہیں کریں گے، اس وقت تک بے دینی کے اس بڑھتے ہوئے سیلاب کو روکنا ممکن نہیں ہوگا، اس سیلاب کو روکنا کسی مخصوص طبقے کے بس کا کام نہیں، البتہ اتنا ہوجائے گا کہ یہ لوگ اپنے دین کو بچالیں، لیکن جس عالمگیر پیمانے پر بے دینی کا سیلاب آیا ہے، جب تک اسی پیمانے پر اسے روکنے کے لئے محنت نہیں کی جائے گی، اس وقت تک یہ نہیں رکے گا۔
ہمارا دینی فرض
میری زندگی کا موضوع مسائل ِ حیات پر غور کرنا ہے، میں بہت تڑپ رہا ہوں، ایک چھوٹی سی درسگاہ میرے پاس ہے، دو چار سوطالب علم پاس بیٹھے رہتے ہیں، لگارہتا ہوں ، لیکن جب سوچتا ہوں کہ میرا کام اس سے پورا ہوگیا تو دل جواب دیتا ہے، قطعاً نہیں۔ میں اپنے کو دھوکا دوں گا، اگر میں یہ سمجھ لوں کہ میں نے بخاری شریف کا درس دے لیا اور میرا کام پورا ہوگیا، دین کا تقاضا ہے کہ اگر آگ لگی ہو تو اسے بجھانے کے لئے مجھے جانا چاہیئے، اللہ تعالیٰ شاید مجھے نہیں چھوڑیں گے کہ دنیا میں فسق وفجور کی آگ لگ رہی تھی، ایک جہان اس میں جل رہا تھا اور میں بخاری شریف پڑھا رہا تھا۔
میرے دوستو! میں اور آپ ایک کشتی کے مسافر ہیں، ہماری منزل آخرت ہے، اگر اس کشتی میں کوئی سوراخ کردے تو ہم سب غرق ہوں گے، اس لئے اس کے ہاتھوں کو پکڑنا اور اس کی صحیح راہنمائی کرنا ہم سب کا فرض ہے، اس لئے میں آپ حضرات سے اس مختصر وقت میں یہی عرض کرنا چاہتا ہوں کہ خدا کے لئے دنیا کو مقصد نہ بناؤ، اپنے منصب کو پہنچانو، اپنے وقت کی قدر کرو اور حق تعالیٰ کے سامنے جوابدہی کی تیاری کرو اور اسلام کا پیغام دنیا کو پہنچاؤ، اس کے لئے کسی خاص فراغت اور فرصت کی ضرورت نہیں، تم ہر جگہ رہ کر ہرحال میں اسلام کی خدمت کرسکتے ہو، اگر آپ نے ایسا کرلیا تو واللہ! دنیا کی کامرانی بھی آپ کے ہاتھ ہوگی اور اگر بالفرض کامیابی نہ بھی ہوئی تو آپ کاکام تو بہرحال پورا ہوہی گیا۔
عالمگیر فتنوں کے مقابلہ کے لئے تبلیغی جماعت کا وجود
اب میں ایک ضروری مضمون عرض کرکے ختم کرتا ہوں، ایک دفعہ مکی مسجد (کراچی) جانا ہوا، میں کبھی کبھی وہاں چلا جاتاہوں، وہاں تبلیغی حضرات نے مجھے پکڑلیا اور کچھ بیان کرنے کی دعوت دی، میں نے سوچا کیا بیان کروں، بولنا مجھے آتا نہیں، خیر میں ان حضرات کے اصرار پر بیٹھ گیا، الحمد للہ رب العالمین کی آیت پڑھی، بس پھر کیا تھا قرآن کی برکت سے سینہ کھل گیا، عجیب وغریب مضامین ذہن میں آئے، کوئی ڈیڑھ دو گھنٹہ بیان ہوا، تفصیل تو مجھے اب یاد نہیں رہی، کچھ مضمون یاد ہے، وہی اس موقع پر عرض کرنا چاہتاہوں، میں نے کہا اللہ جل ذکرہ عالمین کا رب ہے، اس کی ربوبیت کے کرشمے ظاہر ہیں لیکن اتنے عجیب وغریب کہ عقل حیران ہے، جسمانی ربوبیت کی تفصیل کو چھوڑتا ہوں، صرف روحانی ربوبیت کو دیکھئے کہ نبوت ختم ہوچکی ہے، علماء امت کی مساعی اول تو ناکافی ہیں، پھر جتنی کچھ ہیں وہ بھی کامیاب نہیں اور نئی نسل کی تباہی اور گمراہی کے لئے بیسیوں فتنے موجود ہیں، تھیٹرسینما وغیرہ وغیرہ اخلاق کی قربان گاہ تھے ہی ،اب تو بے دینی کے انتہائی غلبہ اور تسلط کی وجہ سے اسکولوں ، کالجوں اور یونیورسٹیوں کا بھی جو حال ہے وہ آپ کو معلوم ہے۔ اخبارات میں روزانہ اس کی خبریں آپ پڑھتے ہیں، اس کے علاوہ وہ ممالک جو فحاشی اور بے حیائی کے مرکز ہیں، امریکہ ، برطانیہ وغیرہ ان ممالک سے مواصلات اور رسل ورسائل کی آسانی کی وجہ سے فتنوں کا ایک تانتا بندھا ہوا ہے۔
الغرض ان حضرات کی برکت سے پوری بات ذہن میں آگئی، میں ان تبلیغی حضرات کے اخلاص کا بڑا معتقد ہوں ، اب بھی بعض مخلصین کی وجہ سے بول رہا ہوں، ورنہ مجھے بیان کرنا نہیں آتا،تو دل میں یہ بات آئی کہ اللہ تعالیٰ کی شان ِ ربوبیت کا کرشمہ یوں ظاہر ہوا ہے کہ ان عالمگیر فتنوں کے مقابلہ میں اللہ تعالیٰ نے تبلیغی جماعت کا یہ نظام جاری فرمادیا، یہ وہ نظام ہے جو عالمگیریت چاہتا ہے، اس میں عالم بھی کھپ جاتا ہے اور ان پڑھ بھی، امیر بھی اور غریب بھی، تاجر بھی اور صناع بھی،کالا بھی اور گورا بھی، مشرقی بھی اور مغربی بھی، اگر اس زمانے میں یہ تبلیغی نظام جاری نہ ہوتا تو گویا اللہ تعالیٰ کی شان ربوبیت کا کمال ظاہر نہ ہوتا، ورنہ ہمارے مدارس ، تعلیمی ادارے اسکول اور کالج جتنے آدمی تیار کرتے ہیں وہ تو اس عالمگیر سیلاب کے لئے کافی نہیں تھے، یہ تبلیغ والے ایک گشت لگاتے ہیں، سیلاب کے طریقہ سے آتے ہیں اور دوچار پانچ دس آدمیوں کی ہدایت کا سامان بن جاتے ہیں، کہیں کسی کو امریکہ سے پکڑلاتے ہیں، کہیں لندن سے، مصر کے صدر ناصر نے پانچ ہزار مبلغ بھیجے اور سالانہ کروڑوں روپیہ ان پر صرف ہوتا ہے لیکن ان سے پوچھئے کہ کتنے لوگوں کو صحیح مسلمان بنایا، ادھر تبلیغی نظام کی برکات آپ کے سامنے ہیں کہ ہزاروں ، لاکھوں بندگان خدا کی ہدایت کے لئے یہ نظام ذریعہ بن گیا تو اللہ پاک نے تبلیغی جماعت کا جو نظام جاری فرمایا ہے یہ درحقیقت اللہ تعالیٰ کی روحانی ربوبیت کا ایک کرشمہ ہے جو اللہ پاک نے اس امت کے اندر ظاہر فرمایا ہے، تاکہ اللہ کی حجت پوری ہوجائے اور کسی کو یہ کہنے کا موقع نہ رہے کہ میرے پاس فرصت نہ تھی، اللہ نے یہ نظام ہی ایسا جاری فرمایا کہ مشغول سے مشغول آدمی بھی اس میں کھپ سکتا ہے، اس نظام کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے یہ سبق دیا کہ تمہارے ذمے اس پیغام کا پہنچانا ہے، اگر کسی کو “لا الٰہ الا اللہ محمد رسول اللہ“ یاد ہے وہ یہی دوسرے بھائی کو سکھا دے، کسی کو سبحانک اللہ یاد ہے وہ سکھا دے ،کیونکہ ایسے لوگ بھی موجود ہیں جن کو یہ بھی یاد نہیں تو اللہ رب العالمین کی ربوبیت کا جیسا مادی نظام ہے، ایسا ہی تبلیغی جماعت کا وجود میرے نزدیک روح کی غذا اور آخرت کی تیاری کے لئے اللہ تعالیٰ کا روحانی نظام ربوبیت ہے۔ یہ ایک ”مختصر متن“ ہے ،جس کی شرح پر کتابیں لکھی جاسکتی ہیں، اس لئے میں آپ حضرات سے یہی عرض کروں گا کہ آپ اس جماعت سے تعلق رکھیں، خدا تعالیٰ آپ کو توفیق دے، آپ دنیا کے اندر انقلاب پیدا کردیں گے، فرض شناسی اور دین پر چلنے کی ہمت آپ میں پیدا ہوگی اور اس کی وہ لذت، فرحت اور مسرت آپ کو حاصل ہوگی کہ:
لذتِ ایں بادہ بخدا نشناسی تا نہ چشی
اور سچ پوچھئے تو اللہ تعالیٰ کے ذکر میں وہ لذت ،وہ سرور اور وہ اطمینان قلب رکھا ہوا ہے کہ بے چارے بادشاہوں کو اس کی ہوا بھی نہیں لگی اور یہ وہ دولت ہے جو آج دنیا میں مفقود ہے، امریکہ اور برطانیہ کو خبر نہیں کہ ان بوریا نشین فقیروں کے پاس سکون قلب کی کتنی بڑی دولت ہے، ان کا حال تو وہی ہے جو قرآن مجید میں بیان فرمایا گیا ہے:
”وان جہنم لمحیطة بالکافرین ۔“ (التوبة:۴۹)
ترجمہ:۔” اور بے شک جہنم محیط ہے کافروں کو۔“
آخرت میں تو جہنم ان کو گھیرے ہوئے ہوگی ہی، یہ دنیا بھی ان کے لئے سراپا جہنم بن کررہ گئی ہے ،تو اللہ جل ذکرہ نے تبلیغی جماعت کے ذریعہ ہدایت کا سامان پیدا کردیا ہے اور آپ کے لئے اپنی اور اپنے بھائیوں کی اصلاح کی صورت پیدا کردی ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو توفیق عطا فرمائیں کہ ہم اس پر گامزن ہوجائیں، تاکہ ہماری زندگی درست ہوجائے، ہماری ساری زندگی آخرت کے لئے بن جائے اور ہمیں آخرت کی جاودانی زندگی نصیب ہوجائے۔
اشاعت ۲۰۱۰ ماہنامہ بینات , ذوالحجہ:۱۴۳۱ھ -دسمبر: ۲۰۱۰ء, جلد 73, شمارہ 12
پچھلا مضمون: رحمت الٰہی کی تقسیم کا مرکز