Deobandi Books

ماہنامہ البینات کراچی جمادی الاولیٰ ۱۴۳۱ھ - مئی ۲۰۱۰ء

ہ رسالہ

8 - 12
شریعت میں DNAٹیسٹ کی حیثیت !
شریعت میں DNAٹیسٹ کی حیثیت!


کیا فرماتے ہیں علماء کرام، مفتیان دین اس مسئلہ کے بارہ میں کہ:
زید نے ۲۰۰۵ء میں اپنی پہلی بیوی کے انتقال کے بعد دوسری شادی کی، پہلی بیوی سے ۲ بیٹے، ۲بیٹیاں ہیں، دوسری شادی کے تقریباً ۲ سال بعد اللہ پاک نے زید کو بیٹا دیا۔ زید یو، کے کا نیشنل پاکستانی ہے، اس نے کوشش کی کہ اپنی دوسری بیوی اور ۹ ماہ کے نومولود بیٹے کو بھی برطانیہ لے جائے، برٹش ایمبیسی نے یہ یقین کرنے کے لئے کہ واقعتاً بچہ زید ہی کا ہے ؟ ڈی ، این اے ٹیسٹ کا مطالبہ کردیا، زید نے اپنی بیوی سے مشورہ کیا اور اسے ڈی، این اے ٹیسٹ کی پوری ڈیفنیشن سمجھائی (پوری تفصیل)۔ بیوی نے کہا کہ ضرور ڈی این اے ٹیسٹ کروایا جائے ، برٹش ایمبیسی کے آڈر سے یوکے کی معروف لیبارٹری میں DNAٹیسٹ کروایا گیا تو رپورٹ نے یہ ثابت کیا کہ یہ بچہ زید کا نہیں ہے۔جبکہ بچے کی ظاہر شکل وصورت مرحومہ بیوی کے پیٹ سے پیدا ہونے والے بڑے بیٹے اور زید کے ساتھ ملتی ہے، بلکہ پاؤں اور ہاتھوں کی انگلیوں کی ساخت زید کے ساتھ مطابقت کرتی ہے جوکہ عام لوگوں کی ساخت سے کچھ مختلف ہے۔اب شریعت اسلامیہ کی روشنی میں سوال طلب امر یہ ہے۔
۱…الولد للفراش کے مطابق اس بچے کی ولدیت کے خانے میں زید ہی کا نام آئے گا؟ یاکہ جدید ایجادات کے استفادے کو تسلیم کرتے ہوئے زید کی نسبت کا انکار کیا جائے گا؟
۲…زید کی پہلی بیوی کی اولاد اس بنیاد پر اگر کسی عدالت میں جاتی ہے تو شرعاً یہ بچہ زید کے انتقال کی صورت میں اس کی وراثت شرعی کا حقدار ہوگا؟
۳…کیا اس بچے کے نان ونفقہ کی ذمہ داری زید پر ہوگی یا نہیں؟
۴…شناختی کارڈ بناتے وقت اس کی ولدیت کے خانے میں کیا لکھا جائے گا؟
برائے مہربانی قرآن وسنت کی روشنی میں مسئلہ کی وضاحت فرمائیں۔

مستفتی:محمد اشرف ولد شیر محمد

الجواب ومنہ الصدق والصواب

واضح رہے کہ ثبوت نسب شریعت اسلامیہ کے اہم قضیوں میں شمار ہوتا ہے، کیونکہ بے شمار مسائل ایسے ہیں جن کا دارومدار ثبوت نسب پر ہے، میراث، محارم، نکاح، کفاء ت وغیرہ کے ابواب میں بے شمار مسائل ایسے ہیں جن کا براہ راست ثبوت نسب کے مسئلہ سے تعلق ہے، اس لئے شریعت مطہرہ نے ثبوت نسب اور نفی نسب کے بارے میں حد درجہ احتیاط سے کام لیا ہے، چنانچہ جہاں اس بات کی انتہائی تاکید کی ہے کہ کوئی بھی بچہ بلانسب نہ رہے، بلکہ جہاں تک (شرعی حدود اور ضابطے میں رہتے ہوئے) ممکن ہو بچہ کا نسب اس کے حقیقی والد سے ثابت کیا جائے، وہاں اس بات کا بھی حددرجہ اہتمام کیا ہے کہ ثبوت نسب کے لئے واضح قرینہ موجود ہو۔
چنانچہ شریعت مطہرہ نے بچہ کو کسی شخص سے ثابت النسب قرار دینے کے لئے ایک بنیادی اصول مقرر کیا ہے اور وہ ہے ”فراش،، کا ہونا ”فراش،، کا مطلب یہ ہے کہ عورت کا مرد سے نکاح کا ثابت ہونا کہ فلاں عورت فلاں مرد کے نکاح میں ہے اور وہ عورت اس کی بیوی ہے، اس کے بعد اس مرد کے نکاح میں ہوتے ہوئے اس عورت سے جو بچہ بھی پیدا ہوگا تو وہ بچہ بہرصورت اسی مرد سے ثابت النسب ہوگا اور اس پیدا ہونے والے بچہ کی نسبت اس عورت کے شوہر کی طرف کی جائے گی اور وہ شوہر اس بچہ کا باپ کہلائے گا، الاّ یہ کہ مرد خود اس بچہ کی نفی کرتے ہوئے لعان کرے۔ چنانچہ مشکوٰة شریف میں ہے:
”…الولد للفراش وللعاہر الحجر،،۔ (ص:۲۸۷)
ترجمہ:۔”بچہ صاحب فراش کی طرف منسوب ہوتا ہے اور زانی کے لئے (نسب ومیراث سے) محرومی اور سنگساری ہے،،۔
بدائع الصنائع میں ہے:
”ومنہا ثبوت السنب وان کان ذلک حکم الدخول حقیقة لکن سببہ الظاہر ہو النکاح لکون الدخول امراً باطناً فیقام النکاح مقامہ فی اثبات النسب ولہذا قال النبی ا الولد للفراش وللعاہر الحجر وکذا لو تزوج المشرقی بمغربیة فجاء ت بولد یثبت النسب، وان لم یوجد حقیقة الدخول لوجود سببہ وہو النکاح،،۔ (۲/۶۴۶)
اس کے علاوہ چند طریقے اور بھی ہیں جن کو شریعت نے ثبوت نسب کے سلسلہ میں معتبر قرار دیا ہے، بعض طریقے تو متفقہ ہیں جن کو تمام فقہاء نے تسلیم کیا ہے اور بعض طریقے وہ ہیں جن کو بعض فقہاء نے تسلیم نہیں کیا جو طریقے متفقہ ہیں: وہ شہادت (گواہی) اور قرار ہیں۔
شہادت کا مطلب یہ ہے کہ: اگر شوہر اپنی بیوی سے پیدا ہونے والے بچہ کا انکار کردے تو اگر اس بچہ کی اس کی بیوی سے پیدا ہونے کی دو مرد یا ایک مرداور دو عورتیں اور وہ بھی نہ ہوں تو صرف ایک عورت یعنی دائی بھی گواہی دیدے کہ فلاں بچہ، فلاں مرد کا ہے اور یہ بچہ فلاں مرد کی بیوی سے پیدا ہوا ہے تو اس صورت میں بھی اس شخص سے ثابت النسب شمار ہوگا۔ فتح القدیر میں ہے:
”واذا ولدت المعتدة ولداً لم یثبت نسبہ عند ابی حنیفة  الا ان یشہد بولادتہا رجلان او رجل وامرأتان الا ان یکون حبل ظاہر او اعتراف من قبل الزوج فیثبت النسب من غیر شہادة، وقال ابویوسف ومحمد رحمہما اللہ یثبت فی الجمیع بشہادة امراة واحدة لان الفراش قائم بقیام العدة وہو ملزم للنسب والحاجة الي تعیین الولد انہ منہا فیتعین بشہادتہا کما فی حال قیام النکاح (قولہ فی جمیع ذلک)اجمع علماؤنا علی انہ یقضی بالنسب بشہادة الواحدة عند قیام النکاح،،۔ (۴/۱۷۶)
بدائع الصنائع میں ہے:
”وان الثانی: وہو بیان ما یثبت بہ نسب ولد المعتدة ای یظہر بہ فجملة الکلام فیہ ان المراة اذا ادعت انہا ولدت ہذا الولد لستة اشہر فان صدقہا الزوج فقد ثبت ولادتہا سواء کانت منکوحة او معتدة وان کذبہا تثبت ولادتہا بشہادة امراة واحدة ثقة عند اصحابنا ویثبت نسبہ منہ حتی لو نفاہ یلاعن… ماروی ان رسول اللہ ا اجاز شہادة القابلة فی الولادة،،۔ (۳/۳۴۱)
المبسوط للسرخسی میں ہے:
”واذا شہد شاہدان علی رجل انہ فلان بن فلان الفلانی وان المیت فلان ابن فلان ابن عمہ وورثتہ لایعلمون لہ وارثا غیرہ ولفلان ذلک المیت دار فی ید رجل وہو مقر انہا لہ غیر انہ لایعرف لہ وارثاً فانا اجیر شہادة ہؤلاء علی النسب وارفع الیہ الدار وان کانوا لم یذکروا اباہ استحساناً،،۔ (۱۶/۱۷۹)
اقرار کا مطلب یہ ہے کہ کوئی شخص بذات خود کسی بچہ کے بارے میں یہ اقرار کرے کہ یہ بچہ میرا ہے تو اگر اس کا اقرار عقلاً وشرعاً ممکن ہو یعنی جس کے بارے میں اقرار کررہا ہے وہ مجہول النسب ہو یعنی اس کا نسب کسی دوسرے شخص سے معروف نہ ہو اور ظاہر حال کے اعتبار سے اس کی تصدیق ہوتی ہو کہ ”مقر،، (اقرار کرنے والا) اور ”مقرلہ،، (جس کے بارے میں اقرار کیا جارہا ہے) کی عمروں میں ایسا تفاوت ہو جو ایک باپ اور بچہ کی عمر کے درمیان ہوسکتا ہے اور وہ بچہ اگر بالغ ہے تو تکذیب بھی نہ کرے تو ان شرائط کی موجودگی میں اقرار سے بھی نسب ثابت ہوجائے گا۔بدائع الصنائع میں ہے:
”واما الاقرار بالنسب فہو الاقرار بالوارث وہو نوعان…اما الاقرار لوارث فلصحتہ فی حق اثبات النسب شرائط: منہا: ان یکون المقر بہ محتمل الثبوت… وبیانہ ان من اقر بغلام انہ ابنہ ومثلہ لایلد مثلہ لایصح اقرارہ … ومنہا ان لایکون المقر بنسبہ معروف النسب من غیرہ فان کان لم یصح… ومنہا تصدیق المقر بنسبہ اذا کان فی ید نفسہ۔“ (۶/۲۶۴)
فتح القدیر میں ہے:
”ومن اقر بغلام یولد مثلہ لمثلہ ولیس لہ نسب معروف انہ ابنہ وصدقہ الغلام تثبت نسبہ منہ وان کان مریضاًلان النسب مما یلزمہ خاصة فیصح اقرارہ بہ،،۔ (۷/۳۶۶)
اثبات نسب کا وہ طریقہ جسے بعض فقہاء نے تسلیم نہیں کیا وہ ”قیافہ،، ہے۔ قیافہ کا مطلب یہ ہے کہ کسی شخص کا اپنی ذہانت وفراست سے انسان کے جسم میں موجود کچھ علامتوں کو دیکھ کر اندازہ لگانا کہ اس کا باپ کون ہے؟
ملحوظ رہے کہ ”علم قیافہ،، کوئی یقینی علم نہیں، بلکہ تجربات اور مشاہدات پر مبنی مہارت کا نام ہے جو کہ سراسر ظنی ہے اور اس میں خطأ کا امکان بھی ہے۔ احناف رحمہم اللہ کے علاوہ تمام فقہاء نے ثبوت نسب اور نفی نسب کے سلسلہ میں ”قیافہ،، کو معتبر مانا ہے، لیکن احناف ثبوت نسب اور نفی نسب کے سلسلہ میں اس طریقہ کو درست نہیں سمجھتے۔
اس طریقہ کے صحیح نہ ہونے کی دلیل یہ ہے کہ حضور ا کے زمانہ میں کئی واقعات ایسے وقوع پذیر ہوئے کہ جن سے معلوم ہوتا ہے حضور ا نے نسب کے معاملہ میں ”قیافہ شناسی،، کا اعتبار نہیں فرمایا۔ مشکوٰة شریف میں ہے:
”وعنہ ان اعرابیاً اتی رسول الله ا فقال ان امرأتی ولدت غلاماً اسود وانی انکرتہ، فقال لہ رسول الله ا ہل لک من ابل؟ قال نعم! قال: فما الوانہا؟ قال: ان فیہا لورقا، قال: فانی تری کیف جاء ہا؟ قال: عرق نزعہا! قال: فلعل ہذا عرق نزعہ ولم یرخص لہ فی الانتفاء منہ،،۔ (ص:۲۸۶۔۲۸۷)
ترجمہ:۔”اور حضرت ابو ہریرہ کہتے ہیں کہ ایک اعرابی رسول اللہا کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ میری بیوی نے ایک ایسے بچہ کو جنم دیا ہے جس کا رنگ کالا ہے اور (اس وجہ سے کہ وہ میرا ہم رنگ نہیں ہے) میں نے اس کا انکار کردیا ہے (یعنی یہ کہدیا کہ یہ بچہ میرا نہیں) رسول اللہ ا نے (یہ سن کر) فرمایا: تمہارے پاس کچھ اونٹ ہیں؟ اس نے عرض کیا: ہاں! آنحضرت انے فرمایا: ”کس رنگ کے ہیں،،؟ اس نے عرض کیا ”سرخ رنگ کے ہیں،، آنحضرت انے فرمایا کہ ”کیا ان میں کوئی اونٹ خاکستری رنگ کا بھی ہے،،؟ اس نے عرض کیا ”ہاں،، ان میں خاکستری رنگ کے بھی ہیں، آپ ا نے فرمایا: ”تمہارا کیا خیال ہے یہ خاکستری رنگ کے اونٹ کہاں سے آگئے؟ اس نے عرض کیا کہ ”کوئی رگ ہوگی جس نے انہیں کھینچ لیا (یعنی اس بچہ کی اصل میں کوئی خاکستری رنگ کا ہوگا، جس کے یہ بھی مشابہ ہوگئے) آپ انے فرمایا: ”تو پھر یہ بچہ بھی ایسی رگ کے سبب کالا ہوا ہے جس نے اس کو کھینچ لیا ہے اور اس طرح آپ انے اس دیہاتی کو اس بچہ کا انکار کرنے کی اجازت نہیں دی،،۔ (۳/۳۱۸۔۳۱۹)
مذکورہ بالا واقعہ میں آپ ا نے بچہ کے بارے میں بدو (دیہاتی) کی ظاہری رنگ وصورت اور قیافہ کے ذریعہ کی گئی قیاس آرائی کو غیر معتبر قرار دیا۔ اگر ثبوت نسب کے سلسلہ میں قیافہ کی گنجائش ہوتی تو آپ ا ضرور اس کی بات کا اعتبار فرماتے۔ نیز اگر ثبوت نسب کے سلسلہ میں ”قیافہ،، معتبر ہوتا تو شریعت مطہرہ میں ”لعان،، کا حکم نہ ہوتا، بلکہ جب بھی کسی شخص کو اپنی بیوی سے پیدا ہونے والے بچہ پرشک ہوتا تو اس کو لعان کا حکم دینے کے بجائے یہ کہا جاتا کہ ”قیافہ شناس،، کے ذریعہ معلوم کرالو کہ یہ بچہ تمہارا ہے یا نہیں؟ چنانچہ المبسوط للسرخسی میں ہے:
”وحجتنا فی ابطال المصیر الی قول القائف ان الله تعالیٰ شرع حکم اللعان بین الزوجین عند نفی النسب ولم یأمر بالرجوع الی قول القائف فلو کان قولہ حجة لامر بالمصیر الیہ عند الاشتباہ ولان قول القائف رجماً بالغیب،،۔ (۱۷/۸۳)
قبل اس کے کہ استفتاء میں ذکر کردہ بچہ کے نسب سے متعلق حکم بیان کیا جائے، سائل کے لئے مروجہ ”ڈی این اے ٹیسٹ،، کی حقیقت کا علم ہونا مفید رہے گا:
چنانچہ ملحوظ رہے کہ ”ڈی این اے،، ایک کیمیائی شئ ہے، جس کا پورا نام:
DEOXY-RIBONUCLEIC ACID”ڈی آکسی رائبونیوکلک ایسڈ،، جس کو عربی میں ”بصمة وراثیة،، کہتے ہیں، جوکہ ایک ”موروثی مادہ ،، ہے، مختصر الفاظ میں اس کی تعریف یوں کی جاسکتی ہے کہ ”ڈی، این، اے ٹیسٹ،، ایسے موروثی مادہ کا نام ہے جوہر ذی روح میں موجود سینکڑوں خلیوں میں پایا جاتا ہے اور ایک نوع کے ذی روح کو اسی نوع کے دوسرے ذی روح سے ممتاز کرتا ہے۔
مذکورہ مادہ کی بناء پر اولاد کی شکل وشباہت اور مزاج واطوار میں اور والدین کی شکل وشہابت، مزاج واطوار میں بڑی حد تک یکسانیت ہوتی ہے۔ ”ڈی، این، اے ٹیسٹ،، میں مذکورہ مادہ کو لے کر مشین کے ذریعہ جانچاجاتاہے، مذکورہ ٹیسٹ کاتعلق چونکہ کسی مخصوص شئ کی رؤیت ومشاہدہ پر نہیں ، بلکہ تمام کارروائی مشین کے ذریعہ ہوتی ہے، اس لئے اس جانچنے میں غلطیوں کے کئی احتمالات پائے جاتے ہیں، مثلاً اجتماعی آبرو ریزی کیس میں خود محققین کے بقول ”ڈی، این، اے ٹیسٹ،، پر اعتماد نہیں کیا جاسکتا، کیونکہ اس ٹیسٹ میں ملے جلے متفرق مادہ مل کر کسی تیسرے شخص کی غلط نشاندہی بھی کر سکتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ ہمارے فقہاء نے اس طریقہ پر اعتماد نہیں کیا۔ چنانچہ موجودہ زمانہ کے نامور فقیہ ڈاکٹر وہبتہ زحیلی فرماتے ہیں:
”وتقدم علی البصمة الوارثیة الطرق المقررة فی شریعتنا لاثبات النسب کالبینة والاستلحاق والفراش ای علاقة الزوجیة، لان ہذہ الطرق اقوی فی تقدیر الشرع فلایلجأ الی غیرہا من الطرق کالبصمة الوارثیة والقیافة الا عند التنازع فی الاثبات وعدم الدلیل الاقوی،،۔ (ص:۱۵۱)
مذکورہ بالا تفصیل کے پیش نظر صورت مسؤلہ میں ”ڈی، این، اے ٹیسٹ،، کے ذریعہ کسی کے نسب کے اثبات یا اس کی نفی کرنے کی حیثیت واضح ہوجاتی ہے کہ یہ ثبوت نسب کے اول الذکر متفقہ تین طریقوں (فراش، شہادت، اقرار) میں سے کسی طریقہ پر منطبق نہیں ہوتا، زیادہ سے زیادہ اس کی حیثیت قیافہ کی ہے، جس کے بارے میں گذر چکا ہے کہ علماء احناف رحمہم اللہ کے ہاں ”قیافہ،، کے ذریعہ کسی کے نسب کا ثبوت یا نفی نہیں ہوتی۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ ”ڈی، این، اے ٹیسٹ،، ایک ظنی اور تخمینی چیز ہے اور ثبوت نسب کے سلسلہ میں جو شریعت کے متفقہ بنیادی اصول ہیں ان میں سے کسی کے ساتھ اس کا تعلق نہیں، اس لئے ”ڈی، این، اے ٹیسٹ،، کے ذریعہ کسی ثابت النسب بچہ میں شک پیدا کرنا اور اس کا انکار کرنا یا غیر ثابت النسب بچہ کے نسب کو ثابت کرنا یا ایک بچہ کے مختلف دعویدار ہوں تو ”ڈی، این، اے ٹیسٹ،، کے ذریعہ ان میں سے کسی ایک شخص کے ساتھ بچہ کا نسب متعین کرنا، ان میں سے کوئی بھی صورت شرعاً جائز اور درست نہیں۔
لہذا صورت مسؤلہ میں زید کی پہلی بیوی کے انتقال کے بعد دوسری منکوحہ بیوی سے جو بیٹا پیدا ہوا ہے چونکہ مذکورہ عورت زید کے نکاح میں ہے اس لئے ”الولد للفراش،، کے بنیادی قاعدہ کے تحت وہ بچہ زید ہی کا ہے، جبکہ خود زید بھی اس بچہ کو اپنابچہ قرار دے رہا ہے،لہذا اس بچہ کا نسب شرعاً زید ہی سے ثابت ہے۔
”ڈی،این، اے ٹیسٹ،، کی مذکورہ رپورٹ نے جو ثابت کیا ہے کہ مذکورہ بچہ زید کا نہیں ، شرعاً اس رپورٹ کا کوئی اعتبار نہیں اور محض اس رپورٹ کی بنیاد پر اس بچہ کے نسب پر شک کرنا اور بیوی پر غلط الزام لگانا شرعاً بہت بڑا سنگین جرم ہے ، لہذا مذکورہ رپورٹ پر اعتماد کرتے ہوئے مذکورہ بچہ کے نسب میں شک کرنے کی شرعاً کوئی گنجائش نہیں ہے۔
۱/۴… مذکورہ بچہ کا نسب چونکہ شرعاً زید ہی سے ثابت ہے، اس لئے اس کی نسبت زید کی طرف کرتے ہوئے شناختی کارڈ اور اس کے علاوہ دیگر کاغذات میں ہرجگہ ولدیت کے خانہ میں زید ہی کا نام آئے گا، جدید ایجادات کی افادیت سے انکار نہیں، لیکن ان کی افادیت اس وقت تک تسلیم ہے جب تک شریعت کے اصولوں سے نہ ٹکرائے، لیکن جہاں ان کا شریعت کے اصولوں سے ٹکراؤ ہوگا، وہاں ان کا کوئی اعتبار نہیں ہوگا ، بلکہ شریعت کے اصولوں کو ترجیح دی جائے گی۔
۲…زید کی پہلی بیوی کی اولاد کا زید کے انتقال کے بعد مذکورہ رپورٹ پر اعتماد کرتے ہوئے عدالت میں جاکر مذورہ بچہ کے نسب کی زید سے نفی کرکے اس کو وراثت سے محروم کرنا شرعاً ہرگز قطعاً جائز نہیں ہوگا، بلکہ مذکورہ بچہ زید کے انتقال کے بعد شرعاً اس کی وراثت کا حقدار ہوگا۔
۳…جب مذکورہ بچہ کا نسب شرعاً زید ہی سے ثابت ہے تو اس کے نان وفقہ کی ذمہ داری بھی زید پر ہے۔ فقط واللہ اعلم

الجواب صحیح الجواب صحیح

محمد عبد المجید دین پوری محمد داؤد

کتبہ

محمد نہال دانش

متخصص فی فقہ اسلامی

جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن کراچی
اشاعت ۲۰۱۰ ماہنامہ بینات , جمادی الاولیٰ:۱۴۳۱ھ - مئی: ۲۰۱۰ء, جلد 73, شمارہ 5

    پچھلا مضمون: علماء کرام کا قتل عام مسلمانانِ پاکستان کے لئے ایک چیلنج !
Flag Counter