Deobandi Books

ماہنامہ البینات کراچی جمادی الاولیٰ ۱۴۳۱ھ - مئی ۲۰۱۰ء

ہ رسالہ

11 - 12
آہ…شہیدانِ ختم نبوت وناموسِ رسالت !
آہ…شہیدانِ ختم نبوت وناموسِ رسالت


۱۱/مارچ ۲۰۱۰ء عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کراچی کے امیر، ہمارے حضرت شیخ ومربی شہید اسلام حضرت مولانا محمد یوسف لدھیانوی شہید کے علمی جانشین، مذہبی اسکالر، معروف کالم نگار، عالم اسلام کے عظیم سرمایہ، مدرسہ امام ابو یوسف ومسجد باب رحمت شادمان ٹاؤن کراچی کے بانی ومہتمم ، جید عالم دین، ماہر علوم دینیہ، بے ثمال مصنف، مایہ ٴ ناز محقق، سنجیدہ شخصیت، لاکھوں دلوں کی دھڑکن حضرت اقدس مولانا سعید احمد جلال پوری کو گھات لگائے قاتلوں نے پے درپے فائرنگ کرکے رفقاء سمیت شہید کردیا۔ انا للہ وانا الیہ راجعون
راقم الحروف کو جس وقت شہادت کی خبر ملی ،اتفاق سے حضرت شہید کے رہائش گاہ کے قریب ہی ایک تقریب میں تھا ،اپنی اہلیہ سے کہاتقریب سے فراغت کے بعد حضرت مولانا سعید احمد جلال پوری صاحب سے ضرور ملنے جائیں گے، یہ تذکرہ ہوہی رہا تھا کہ اس سانحہ کی اطلاع ملی۔اسی دن صبح ۹ بجے کے قریب نامعلوم دہشت گردوں نے اہلسنت والجماعت پاکستان کے مرکزی سیکریٹری اطلاعات ،شعلہ ٴ بیان مبلغ، صدیق اکبر مسجد ناگن چورنگی کے خطیب حضرت مولانا عبد الغفور ندیم، ان کے تین صاحبزادوں، دوگن مینوں کو ناظم آباد نمبر ۷ پر فائرنگ کرکے شدید زخمی کردیا گیا،جو بعد میں زخموں کی تاب نہ لاکر شہید ہوگئے۔
حضرت مولانا سعید احمد جلال پوری شہید نہ صرف عالم دین ، فقیہ ، بلکہ مؤرخ،صحافی، دانشور، بہترین مبلغ کے طور پر جانے جاتے تھے ۔ دینی حلقوں میں منفرد اہمیت کے حامل ماہنامہ بینات کے مدیر بھی تھے۔ جن کے ملک اور بیرون ملک درجنوں کی تعداد میں شاگرد قرآن وسنت کے علوم کے فروغ میں مصروف عمل ہیں۔
حضرت مولانا نے اپنی ساری زندگی اپنے شیخ وطریقت شیخ الحدیث حکیم العصر حضرت مولانا محمد یوسف لدھیانوی شہید کے طور وطریقہ اور نقش قدم پر چلتے ہوئے گزاری، انتہائی سادہ طبیعت، ملنسار، بے تکلف، باکمال، باحیاء، بے شمار خوبیوں کے مالک تھے، حضرت مولانا کی تقریباً دس کے قریب کتابیں شائع ہوچکی ہیں جو علمی خزانہ سے کم نہیں۔ ہمارے شیخ فرمایا کرتے تھے کہ بعض مرتبہ مضمون لکھنے کے لئے قلم بالکل ہی نہیں چلتا اور بعض دفعہ قلم اتنا دوڑتا ہے کہ لگام دینی پڑتی ہے، یہی حال حضرت مولانا سعید احمد جلال پوری کے ساتھ رہا۔ حضرت مولانا کو اللہ پاک نے وہ کمال عطا فرمایا کہ اس پُر فتن دور میں قلم کے ذریعے ہر فتنہ اور برائی کی کمر توڑ ڈالی، چاہے وہ فتنہ قادیانیت کا ہو یا فتنہ گوہرشاہی کا، ان اسلام دشمن عناصر کا آخر تک عملی تعاقب فرماتے رہے ۔ کچھ عرصہ سے وہ معروف ٹی وی تجزیہ نگار زید زمان (جوکہ زید حامد کے نام سے مشہور ہے) کی سرگرمیوں پر کڑی تنقید اور عوام اور خواص کو حقائق، اور حق وباطل، کھرے کھوٹے سے آگاہ کرنے کی عملی کوششوں میں دن رات مصروف تھے۔ حضرت مولانا نے اس حوالہ سے ”رہبر کے روپ میں راہزن،، کے عنوان سے ۳۶ صفحات پر مبنی کتابچہ بھی تحریر کیا۔
جوں جوں قیامت کا وقت قریب آرہا ہے، نئے نئے فتنے تیزی سے ظاہر ہورہے ہیں، چند سالوں سے حضرت مولانا شہید کے قلم اور مضامین ”امر بالمعروف ونہی عن المنکر،، کی ادائیگی میں بہت تیزی آچکی تھی۔
ایک وہ زمانہ تھا جب حضرت مولانامحمد یوسف بنوری، حضرت مولانا محمد ادریس میرٹھی، امام اہلسنت حضرت اقدس مولانا مفتی احمد الرحمن رحمانی، مولانا شیخ الحدیث ومفسر القرآن حضرت بدیع الزمان، مفتی اعظم پاکستان حضرت مولانا ولی حسن ٹونکی، اقراء روضة الاطفال کے مدیر اعلیٰ حضرت مفتی جمیل خان شہید جیسے جلیل القدر اکابرین حیات تھے، اس وقت ہمارے شیخ لدھیانوی شہید کا ”اقرأ اور جنگ دفتر،، کے نام سے جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن ، دارالافتاء کے متصل ہوا کرتا تھا، عقیدہ ختم نبوت کے تحفظ کے لئے حضرت مولانا نے اپنی زندگی وقف کردی تھی، اس وقت حضرت لدھیانوی شہید اس دفتر میں بیٹھ کر اپنے قلم کے ذریعہ جہاد کا علم بلند کرتے رہے اور امت کو حق وباطل کا فرق اور قادیانیت کے عقائد اور عزائم کھول کھول وضاحت کے ساتھ بتلاتے رہے۔
مکان کفر کی دیوار کو ڈھانا بھی سنت ہے
مصلے پر عبادت کا ثواب اپنی جگہ لیکن
جہاں میں پرچم اسلام لہرا نا بھی سنت ہے
میرے شیخ کے جانشین کا میدان میں آنا بھی سنت ہے
گذشتہ چند سالوں سے باطل نے جہاں سراٹھانے کی کوشش کی، وہیں حضرت کے قلم سے ماہنامہ بینات، ہفت روزہ ختم نبوت، روزنامہ جنگ اخبار، روزنامہ اسلام اخبار کے مضامین میں بہت تیزی آچکی تھی۔
گذشتہ دوسالوں کے مضامین اور اداریات اہل باطل، قادیانیوں، اہل تشیع، دین دشمن عناصر، یوسف کذاب جیسے ملعون دجال اور ان کے چیلوں حامیوں کے آنکھ میں روڑا بن کر کھٹک رہے تھے، جن میں ”زید حامد،، ملعون مکار دغاباز نبوت کا دعویٰ کرنے والے کا حامی بھی شامل ہے۔ دعا ہے اللہ پاک تمام دین دشمنوں کو جہنم رسید فرمائے۔
گذشتہ تقریباً ۲ برس کے مضامین اداریئے (جوکہ ماہنامہ بینات میں شائع ہوچکے ہیں) درج ذیل ہیں :
#․․․روشن خیال کون؟ ماہ شعبان ۱۴۲۶ھ
#․․․اسلام آباد کی مساجد کا انہدام، دین دشمنی کی خطرناک سازش ماہ صفر ۱۴۲۸ھ
#․․․فرقہ واریت کی آگ بھرکانے کی سازش۔ماہ ربیع الاول ۱۴۲۸ھ
#․․․کرکٹ ٹیم کی آڑ میں شعائر اسلام پر حملہ۔ربیع الثانی ۱۴۲۸ھ
#․․․شریعت کے نام پر شریعت کی مخالفت/ پس حردہ محرکات علل واسباب۔ جمادی اخری ۱۴۲۸ھ
#․․․سانحہ لال مسجد مغربی ایجنڈے کی تکمیل۔ رجب ۱۴۲۸ھ
#․․․مسلمان بچوں کو مرتد بنانے کی سازش؟۔ماہ ذو القعدہ ۱۴۲۸ھ
#․․․کیا اسلام مکمل ضابطہ حیات نہیں؟ اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین کی خدمت میں۔ ذو الحجہ ۱۴۲۸ھ
#․․․حجاب کا حکم صرف ازواج نبی کے لئے تھا۔اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین کی خدمت میں۔ محرم ۱۴۲۹ھ
#․․․اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین ڈاکٹر مسعود کا تعارف، عقائد ونظریات، فکر اور فلسفہ۔ ماہ ربیع الاول ۱۴۲۹ھ
#․․․یہودی مدارس میں عسکریت کی تعلیم اور انتہاء پسند یہودیوں کا مسلمانوں کے خلاف غیظ وغضب۔ ماہ ربیع الثانی ۱۴۲۹ھ
#․․․آٹھ سالہ پرویزی دور کے کارنامے اور نئی حکومت سے چند گزارشات! ماہ جمادی الاولیٰ ۱۴۲۹ھ
#․․․ذلت اور رسوائی کا ذمہ دار مسٹر یا ملاّ؟ماہ جمادی الثانی ۱۴۲۹ھ
#․․․فرقہ پرستی کی تخم ریزی کی کوشش ۔ ماہ شعبان ۱۴۲۹ھ
#․․․قلم در کفِ دشمن است/نذیر جانی صاحب کی خدمت میں۔ ماہ جمادی الثانی ۱۴۳۰ھ
#․․․راہبروں کے روپ میں راہزن۔ ماہ محرم ۱۴۳۰ھ
#․․․پاکستان اور کراچی کی حالیہ تباہی۔ ماہ صفر ۱۴۳۱ھ
#․․․غدیر خم اور خلافت علی کے سلسلہ میں امام غزالی پر بدترین تہمت۔ ماہ ربیع الاول ۱۴۳۱ھ
حضرت شہید کی ۵۴/سالہ زندگی پر نظر ڈالیں تو پوری زندگی جہد وعمل تعلیم تعلم ،امامت خطابت، محفل ذکر وتصوف، تصنیف وتالیف میں گزری۔
راقم الحروف کے والد محترم جامعہ کے استاذ حضرت مولانا عبد الرزاق لدھیانوی صاحب سے بہت گہرا قلبی تعلق اور محبت تھی، حضرت والد صاحب بارہا مشورے ان سے لیا کرتے تھے، عرصہ تک دفتر بینات میں مل بیٹھ کر کام سرانجام دیتے رہے۔
اللہ تعالیٰ نے ہمارے اکابرین کو شہادت کی وجہ سے وہ مقام دیا ہے کہ ہم اور آپ اس کا تصور تک نہیں کرسکتے، اللہ پاک حضرت کی دینی، تالیفی، تصنیفی اور تدریسی خدمات کو قبول فرماکر اعلیٰ علیین میں جگہ نصیب فرمائے اور چھوٹے صاحبزادے کو آپ کا سچا پکا جانشین بنائے ،آمین۔
اشاعت ۲۰۱۰ ماہنامہ بینات , جمادی الاولیٰ:۱۴۳۱ھ - مئی: ۲۰۱۰ء, جلد 73, شمارہ 5

    پچھلا مضمون: تاریخ مدارس دینیہ !
Flag Counter