Deobandi Books

ماہنامہ البینات کراچی جمادی الاولیٰ ۱۴۳۱ھ - مئی ۲۰۱۰ء

ہ رسالہ

10 - 12
تاریخ مدارس دینیہ !
تاریخ مدارس دینیہ


گذارش یہ کہ ماہنامہ دارالعلوم دیوبند میں شائع شدہ مضامین ”اسلام کا ابتدائی نظام تعلیم،، اور ”قدیم نظام تعلیم کی ایک جھلک،، نظر سے گذرے، اپنی افادیت اور ضرورت زمانہ کے لحاظ سے یہ دونوں مضامین بہت ہی اہم اور وقیع معلوم ہوئے، مگر بہت طویل اور متفرق قسطوں میں شائع ہونے کی وجہ سے عام طور پر ان سے استفادہ مشکل تھا، اس لئے خیال آیا کہ ان مضامین میں سے مختصر طریقہ پر انتخاب کرکے بعض ضروری اور مناسب مضامین کے ساتھ ایک مختصر مجموعہ مرتب کردیا جائے، تاکہ اس کا نفع عام ہو اوراس سے استفادہ کرنا بھی آسان ہو اور متفرق مضامین بھی یکجا دستیاب ہوسکیں۔
چنانچہ اس مضمون ” تاریخ مدارس دینیہ،، انہیں مضامین بالا سے منتخب اور مرتب کیا گیا ہے اور کہیں کہیں ”نبوی نظام تعلیم،،مرتبہ منشی عبد الرحمن صاحب چہلیک ملتان سے بھی اس میں استفادہ کیا گیا ہے اور کتب تاریخ وغیرہ کے حوالہ جات کے متعلق بھی ان مضامین میں دیئے ہوئے حوالجات پر ہی اعتماد کیا گیا ہے۔
آجکل علوم دینیہ اور مدارس دینیہ کی طرف سے مسلمانوں میں عام طور پرجو بے اعتنائی اور بے توجہی پائی جارہی ہے وہ تو قابل شکایت ہے ہی، مگر زیادہ تر افسوس اس کا ہے کہ اب بعض ایسے حضرات بھی دینی مدارس کو عموماً بے کار اور عضوِ معطل کی طرح ہی سمجھنے لگے ہیں، جن کا ذہن دینی اور تبلیغی ہے اور ان کے اکابر واسلاف نے ہمیشہ ان مدارس دینیہ کی سرپرستی فرمائی اور گراں قدر خدمات انجام دی ہیں۔
اس مضمون کے پڑھنے کے بعد عہد نبوت اور زمانہ خلافت راشدہ سے لے کر ایسٹ انڈیا کمپنی کے ہندوستان پر قبضہ کر لینے تک عام مسلمانوں اور سلاطین اور امراء اسلام کے علوم دینیہ اور مدارس دینیہ کے ساتھ تعلق اور شغف کے حالات اور چیدہ چیدہ واقعات معلوم ہوکر ان حضرات کی غلط فہمی دور ہوگی۔
امید ہے کہ مدارس دینیہ کی طرف رغبت وشوق اور علوم دینیہ کے بقاء وتحفظ کی ضرورت واہمیت کا احساس پیدا ہوگا۔
قارئین کو اس مضمون کے مطالعہ سے یہ بھی معلوم ہوگا کہ قدیم زمانہ میں دینی مدارس کی ضرورت کے پورا کرنے کے لئے بڑی بڑی زمینیں وقف ہوتی تھیں اور امراء اسلام اس نیک مقصد کے لئے اپنی املاک کو وقف کرنا بڑی سعادت سمجھتے تھے، اسی لئے زمانہ قدیم میں دینی مدارس کے لئے تحصیل چندہ کا موجودہ طریقہ رائج نہیں تھا۔
اور اس سے یہ سوال بھی حل ہوجائے گا کہ جب قدیم زمانہ سے دینی مدارس کی کفالت کا سامان بڑی بڑی جائیدادوں اور اوقاف کی آمدنیوں کی صورت میں موجود تھا تو پھر انگریزی حکومت کے دور میں مدارس دینیہ کے احیاء اور علوم دینیہ کے تحفظ وبقاء کے لئے تحصیل چندہ کا موجودہ طریقہ کیوں اختیار کیا گیا تھا، جس کو اس وقت عام طور پر سطحی نظر سے دیکھنے والے نفرت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ حالانکہ ابتداء اسلام میں جس وقت تک سلاطین اور امراء کے ایسے اوقاف معرض وجود میں نہیں آئے تھے جن سے دینی ضروریات کو پورا کیا جاتا تھا تو علوم دینیہ اور تمام امور خیر کی انجام دہی مسلمانوں کے عمومی چندہ سے ہی ہوتی تھی، خود آنحضور سرور کائنات ا نے بعض امور خیر کے لئے اصحاب خیر کو چندہ کی رغبت دلائی ہے اور آج بھی قومی اور ملکی ضروریات کے لئے چندہ کرنے کو نہ صرف یہ کہ عیب نہیں سمجھا جاتا بلکہ اس کو بہت بڑی قومی اور ملکی خدمت سمجھا جاتا ہے۔
مگر افسوس کہ علوم دینیہ کے لئے تحصیل چندہ جس سے ”ملت اسلام،،کی حفاظت ہوتی ہے جو بنیاد ہے ”ملک اسلام،، کی حفاظت کی، شرفاء اسلام اور معززین قوم کی نگاہ میں خار ہے۔
چندہ کا رائج الوقت طریقہ تو شرفاء اسلام کی نگاہ میں قابل ترک ہے مگر وہ اس پر غور نہیں فرماتے کہ اگر یہ طریقہ اس وقت اختیار نہ کیا جاتا یا،اور اب اس کو ترک کردیا جائے تو دین اور علوم دینیہ کی حفاظت کی اس وقت اور کیا صورت تھی یا اب کیا صورت ہے؟
حقیقت یہ ہے کہ یہ طریقہ اختیار کرکے علمائے کرام نے ملت اسلام کو مٹنے سے بچالیا۔کیا یہی وہ گناہ عظیم ہے جس کی پاداش میں علوم دینیہ کے حاملین اور ملت اسلامیہ کے ان محافظین کو قوم کی نگاہ میں عضو معطل کی طرح سمجھا جاتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ یہ گروہ اور دینی مدارس قوم پر بلاوجہ کا ایک بوجھ ہے اور ان پر قوم کا روپیہ خرچ کرنا اپنے سرمایہ کو ضائع کرنا ہے، فالی اللہ المشتکی۔
بہرحال اس مضمون سے معلوم ہوگا کہ کن ضرورتوں اور مجبور کن حالات میں علماء کرام نے چندہ کے اس مروجہ طریقہ کو اختیار اور برداشت کر کے علوم دینیہ کی حفاظت کا فریضہ انجام دیا تھا اور اب بھی اس فرض کی انجام دہی میں مشغول ہیں۔ یہ بات بھی اہل نظر کے لئے قابل غور ہے کہ کیا اب وہ اسباب اور حالات باقی نہیں رہے جن کی وجہ سے چندہ کا یہ مروجہ طریقہ اختیار کیا گیا تھا؟ اللہ تعالیٰ احقر کی دینی مدارس کی اس ناچیز خدمت کو قبول فرماکر نافع اور مفید فرماویں، آمین۔
قال النبی صلی اللہ علیہ وسلم: ”انما بعثت معلماً،،۔
ترجمہ:…”میں تو صرف معلم واستاذ کی حیثیت سے آیا ہوں،،۔
نبی کریم اکے ارشاد بالا سے معلوم ہوا کہ آنحضور ا کی بعثت اور دنیا میں تشریف آوری کا مقصد ہی انسانی دل ودماغ میں ایسی دینی تعلیم کی روشنی کا پیدا کرنا ہے جس کے ذریعہ سے انسان دنیا میں اپنے مالک حقیقی خداوند عالم کی مرضی کے موافق زندگی بسر کر سکے اور وہ تعلیم انفرادی، اجتماعی، دنیاوی واخروی تمام حالات میں اس کی راہنمائی اور ہدایت کر سکے، اسلامی تعلیم کی اس ہمہ گیر جامعیت کے پیش نظر فطری اور طبعی طور پر اسلام میں تعلیم وتعلم سیکھنے اور سکھلانے کو جتنی اہمیت حاصل ہے اتنی کسی مذہب میں نہیں ہے ۔اس اہمیت کا اندازہ لگانے کے لئے اسلام کے ابتدائی دور سے لے کر حکومت اسلامیہ کے ترقی اور عروج کے زمانہ تک کے عام مسلمانوں کی اسلامی تعلیم کے ساتھ دلچسپی اور وابستگی کے چیدہ چیدہ مختصر حالات اور امراء اور حکام اسلام کی علوم دینیہ کے اندر سعی اور کوشش کے چند واقعات پر ایک نظر ڈالنے کی ضرورت ہے۔
عہد رسالت اور مکی زندگی
رسول اللہ ا کی نبوت کے بعد کی بارہ سالہ مکی زندگی میں صحابہ کرام  اور مددگارانِ سول ا پر اگرچہ رات دن حوادث وافکار کا ہجوم رہتا تھا، لیکن اس آزمائشی دور میں بھی جس قدر پُر سکون لمحے مسلمانوں کو مل جاتے تھے ان میں بھی وہ قرآن پاک کی تعلیم کا خصوصی اہتمام کرلیا کرتے تھے، اس دور کے ایسے تمام مقامات کو جن میں مسلمانوں نے (خواہ تھوڑے عرصے کے لئے ہو) بیٹھ کر پڑھنے پڑھانے کا خصوصی انتظام کیا تھا، ہم ان کو ”دینی مدرسہ،، سے موسوم کرتے ہیں۔
مدرسہ صحن ابی بکر رضی اللہ عنہ
سب سے پہلے جس مقام کو ہم اس دور میں تعلیم کا مرکز اور مدرسہ کہہ سکتے ہیں حضرت ابوبکر صدیق کا وہ چبوترہ ہے جو آپ کے گھر کے سامنے تھا جس پر آپ نماز اور قرآن پڑھا کرتے تھے اور کفار کے لڑکے اور عورتیں آپ کے گرد جمع ہوجاتے اور قرآن کو سنتے تھے،یہ بات کفار مکہ کو ناگوار ہوئی اور انہوں نے حضرت ابوبکر صدیق کو اس جگہ کے چھوڑنے پر مجبور کیا ۔ (بخاری،کتاب بدء الخلق)
مدرسہ دار ارقم
مکی زندگی میں ایسی خاص مرکزی جگہ جس میں مسلمان تعلیم کے لئے بلاروک ٹوک آتے جاتے ہوں اور اس میں طلبہ کے لئے خورد ونوش کھانے پینے اور قیام کا بھی انتظام ہو، اس پریشانی اور بے سروسامانی کے دور میں بظاہر اس کا تصور بھی نہیں ہوسکتا مگر حیرت کی کوئی انتہاء نہیں رہتی،جب ہم ارباب تاریخ وسیر کی دار ارقم کے متعلق بتلائی ہوئی تفصیلات کو دیکھتے اور پڑھتے ہیں۔ یہ مقام کوہ صفا کے دامن میں تھا، جس میں رسول اللہ ا تقریباً چالیس صحابہ کرام کے ساتھ قیام پذیر تھے، جن میں مرد اور عورتیں سب ہی شامل تھے، اس گھر کے زمانہ قیام میں حضرت عمر بن الخطاب نے اسلام کو قبول کیا تھا۔ اس مکان میں حضور ا مع صحابہ کرام قیام پذیر تھے اور باقاعدہ تعلیم وتعلم میں مشغول رہے۔ حضرت ابوبکر، حضرت حمزہ، حضرت علی  وغیرہم جیسے جلیل القدر صحابہ کرام اس مکان میں رہتے تھے اور رسول اللہ ا سے ان کا تعلیمی مشغلہ جاری تھا، اس مدرسہ دار ارقم کے نظام پر حضرت عمر  کے بیان سے بھی روشنی پڑتی ہے ۔ان کے فرمان کا ترجمہ حسب ذیل ہے:
”مسلمان ہونے والوں کو ایک ایک دو دو کرکے رسول اللہ ا کسی صاحب حیثیت کے پاس بھیج دیتے تھے اور یہ لوگ اس کے پاس رہ کر کھا نا کھاتے تھے، چنانچہ میرے بہنوئی کے گھر بھی دو آدمی موجود تھے، ان میں سے ایک خباب بن ارت تھے۔ خباب میرے بہنوئی اور بہن کے پاس جاجا کر قرآن کریم تعلیم دیا کرتے تھے،، یہ مدرسہ دار ارقم حضرت عثمان بن ارقع کے مکان میں قائم تھا، یہ مکان اس زمانہ میں دار ارقم کی بجائے اسلام کا مرکز تعلیمی مقام ہونے کی وجہ سے دار الاسلام کے نام سے مشہور ہو گیا تھا،،۔ (سیرت حلبیہ)
اسلام کے ابتدائی دورکے اس مختصر مدرسہ کا نظام ناظرین کرام کے سامنے ہے کہ:
۱…طلبہ کی تعداد چالیس کے لگ بھگ تھی۔
۲…یہی جگہ پڑھنے کی بھی تھی اور رہائش کی بھی۔
۳…طعام کا انتظام یہ تھا کہ طلبہ مالدار صحابہ کے گھروں پر بطور وظیفہ کے کھانا کھایا کرتے تھے۔
اس دور ابتلاء اور آزمائش کے زمانہ میں تعلیم کے اس قدر انتظام اور اہتمام سے اندازہ ہوسکتا ہے کہ اسلام میں تعلیمی مراکز اور مدارس دینیہ کے قیام کی کتنی ضرورت اور اہمیت ہے۔
مدرسہ شعب ابی طالب ومدرسہ بیت فاطمہ
اس کے علاوہ مکہ معظمہ میں ہجرت سے قبل حضرت عمر  کے بہنوئی اور بہن کے مکان پر بھی حضرت خباب کے قرآن پڑھانے کا ذکر اوپر آچکا ہے، نیز ”مدرسہ بیت فاطمہ،، اور مدرسہ شعب ابی طالب،، (جس میں رسول اللہ انے مع اپنے ساتھیوں کے ۷/نبوی سے لے کر ۱۰/ نبوی تک قریش مکہ کے ظالمانہ مقاطعہ کی وجہ سے تین سال کا زمانہ اسارت گذرا ہے) وغیرہا میں بھی تعلیم کا سلسلہ جاری رہا،اس کے نتیجہ میں فضلاء مکہ کی ایک جماعت تیار ہوگئی اور دوسرے مقامات پر بھی وہ تعلیمی کام کرنے لگی۔
مدرسہ حبشہ
جب کفار مکہ کے ظلم وستم سے تنگ آکر بعض صحابہ کرام کو حبشہ کی طرف ہجرت کرنی پڑی تو انہوں نے وہاں پر بھی تعلیم کا سلسلہ جاری رکھا، اس کو مدرسہ ارض حبشہ سے تعبیر کیا جاسکتا ہے۔
مدنی زندگی
اور حضرت رسول اللہ انے اپنی ہجرت سے بھی پہلے تعلیم دینے کے لئے حضرت مصعب بن عمیر کو مدینہ منورہ روانہ فرمایا، انہوں نے سعد بن ضرارہ کے مکان پر تعلیم قرآن کا باقاعدہ سلسلہ جاری فرمایا، جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ معدودے چند کے علاوہ تقریباً تمام انصار مدینہ مسلمان ہوگئے اور اپنے بت توڑ دیئے اور جب مصعب  مدینہ سے لوٹ کر رسول اللہ ا کے پاس آئے تو ان کا خطاب مقری یعنی معلم پڑ چکا تھا۔ (جمع الفوائد)
صحابہ  میں سب سے پہلے مقری استاد کا لقب حضرت مصعب کے نصیب میں تھا، جس سے وہ معزز ہوئے اور انصار مدینہ کی مسجد بنی زریق میں حضرت رافع بن مالک اور مسجد بنی بیاضہ میں حضرت سعد بن ضرارہ پڑھایا کرتے تھے اور دار سعد بن خیثمہ نیز بنو نجار، بنو عبد الاشہل، بنو ظفر اور بنو عمرو بن عوف وغیرہم کے محلوں میں حضور اکی ہجرت سے پہلے ہی تعلیمی مراکز اور مدارس قائم ہوچکے تھے۔
مدرسہ قبا
اور مدرسہ قبا کا تو ایک مستقل نظام تھا جو حضرت ا کی ہجرت سے بھی پہلے ہی قائم ہوچکا تھا، کیونکہ رسول اللہ اکی مدینہ منورہ میں تشریف آوری سے پہلے ہی صحابہ کرام کی ہجرت کا سلسلہ شروع ہوچکا تھا اور مہاجرین عموماً قبا ہی میں قیام پذیر ہوتے تھے۔
مدرسہ صفہ
رسول اللہ ا کے مدینہ منورہ تشریف لانے کے بعد مسجد نبوی کی بنا رکھی اور حجرہ شریف کی پشت پر جانب شمال باب جبریل علیہ السلام اور باب النساء کے درمیان وسیع چبوترہ ”دکة الاغوات،، کے نام سے موسوم تھا، اس پر جو حضرات فروکش ہوتے تھے وہ ”اصحاب صفہ،، کہلاتے تھے اور یہی چبوترہ کبھی ”اصحاب صفہ،، کا ”صفہ،، تھا یہاں پر طلبہ کا ہجوم رہتا، بعض اوقات سینکڑوں کی تعداد ہوجاتی تمام اصحاب صفہ کی مجموعی تعداد چار سو تک پہنچتی ہے مختلف اوقات میں اس صفہ کے طالب علموں کی تعداد ستر، اسی تک پہنچ جاتی تھی، حضرت معاذ بن جبل کو یہ کام سپرد تھا کہ جو امداد اصحاب ثروت کی طرف سے ان طلبہ کے لئے آوے اس کی حفاظت کریں اور بحصہ مساوی اس کو ان پر تقسیم کردیں۔ حضرت ابوہریرہ  کے ذمہ طعام کا انتظام ہوتا تھا کھانے کے سلسلہ میں ایسا بھی ہوتا تھا کہ کھجوروں کے گچھے مالدار صحابہ بھیج دیا کرتے تھے اور بعض مالدار صحابہ ان طلبہ کو اپنے ساتھ لے جاتے اور انہیں کھانا کھلادیتے۔ ان میں حضرت سعد بن عبادہ نہایت فیاضی سے کام لیتے تھے، حتی کہ کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا کہ اسی، اسی طلباء کو اپنے ہمراہ گھر لے جاکر ان کو کھانا کھلاتے۔ (زرقانی)
جامعہ صفہ کے فاضلین قراء کہلاتے تھے، یہیں کے طلباء نے دنیا میں اسلام کے علوم کو پھیلا یا اور وہی حضرات باہر تعلیمی خدمات کے لئے بھیجے جاتے تھے، عہد رسالت میں جامعہ صفہ کے علاوہ مدینہ منورہ کے اندر دوسرے مدارس کا ذکر بھی علامہ سمہودی نے کیا ہے، بعض کا ذکر اوپراجمالی طور پر ہو بھی چکا ہے۔
عہد خلافت راشدہ
عہد رسالت کے بعد خصوصیت سے حضرت عمر نے اپنے عہد خلافت میں حجاز اور ہر اسلامی آبادی میں قرآن مجید کی تعلیم کے لئے مستقل حلقے اور مکاتب قائم فرمائے، حضرت ابو الدرداء کو دمشق شام کی جامع مسجد میں قرآن پاک کی تعلیم کے لئے مقرر فرمایا۔ ایک مرتبہ طلبہ کا شمار کرایا گیا تو معلوم ہوا کہ سولہ سو(۱۶۰۰) طالب علم ان کے حلقہ درس میں شریک ہیں۔(طبقات القراء للذہبی ص:۶۰۶)
قرآن مجید کے ساتھ حضرت عمر نے درس حدیث کے حلقے بھی قائم فرمائے، اس کام کے لئے حضرت عبد اللہ بن مسعود کو ایک گروہ کے ساتھ کوفہ اورحضرت معقل بن یسار، حضرت عبد اللہ بن معقل اور حضرت عمران بن حصین کو بصرہ اورحضرت عبادہ بن صامت اورحضرت ابودرداء کو شام میں مقرر فرمایا اور لوگوں کو تاکید کی کہ ان سے حدیث کی تحصیل کریں۔(ازالة الخفاء)
علامہ ابن جوزی نے سیرة العمرین میں لکھا ہے کہ حضرت عمر نے جو مکاتب قائم کئے تھے، ان میں معلمین کی تنخواہیں مقرر تھیں اور ہر معلم کو پندرہ پندرہ درہم بیت المال سے ملتے تھے۔ حضرت عثمان کے زمانہ خلافت میں ان مدارس کو اور زیادہ وسعت حاصل ہوئی اور تمام ممالک مفتوحہ میں جابجا مکاتب اور مدارس قائم ہوگئے۔
عہد خلفاء وامراء اسلام
عہد رسالت اور خلافت راشدہ کے بعد اسلامی آبادی اور فتوحات میں اضافہ ہونے کے ساتھ تعلیمی مکاتب میں بھی ترقی ہوتی گئی، یہاں تک کہ خلفاء اور امراء اور ارباب ثروت نے اپنے اپنے گھروں پر بھی تعلیمی انتظام کیا اور کوئی قابل ذکر اسلامی آبادی ایسی نہیں ملتی جس میں درس وتدریس کا انتظام نہ ہو۔ تعلیم مفت ہوتی تھی، غریب طلبہ کے کھانے کپڑے اور لکھنے ،پڑھنے کی ضروریات بغیر کسی معاوضہ کے پوری کی جاتی تھیں۔
عہد قدیم کے علمی حلقوں کی اب صرف دو یادگاریں باقی ہیں: پہلی ٹیونس کی جامع زیتون ہے جو تیسری صدی ہجری میں قائم ہوئی تھی، یہ درس گاہ اس زمانہ کے عام طرز کے مطابق ٹیونس کی جامع اعظم میں قائم ہے اور شروع سے اب تک خاص عظمت وشہادت کی مالک ہے۔
دوسری یادگار مصر کا جامع ازہر ہے، یہ عظیم الشان جامع مسجد فاطمی سلاطین مصر کے زمانہ کی یادگار ہے ، جامع ازہر کی تکمیل ۳۶۱ھ میں ہوئی ہے، مگر اس کی علمی زندگی کی ابتداء چوتھی صدی اواخر سے ہوئی ہے، مسجد کا وسیع صحن اور اندرونی حصہ قدیم طرز کے علمی حلقوں کی درگاہوں کے طور پر کام آتا ہے، جامع ازہر اسلامی دنیا کی سب سے بڑی اور قدیم یونیورسٹی ہے جو ایک ہزار سال سے جاری ہے اور آج جبکہ تقریباً تمام قدیمی مدارس صفحہ ہستی سے محو ہوچکے ہیں، یہ یونیورسٹی اپنی اسی قدیم شان وشوکت کے ساتھ باقی ہے، دس، پندرہ ہزار طلباء اس کے اندر تعلیم حاصل کرنے والے اور سینکڑوں اساتذہ اس میں تعلیم دینے کے لئے موجود رہتے ہیں۔
جامع ازہر کے مصارف واخراجات کے لئے مصر کے مختلف سلاطین نے جو جاگیریں وقف کی ہیں، ان کی سالانہ آمدنی لاکھوں پونڈ ہے۔ ابھی قریبی زمانہ میں دوسری جنگ سے کچھ پہلے کی بات ہے کہ مصر کے سابق شاہ فاروق نے اپنی جیب خاص سے ساٹھ ہزار مصری پونڈ جامع ازہر کو عطا کئے تھے، حکومت کی سرپرستی اور اوقاف کی آمدنی کی بدولت آج بھی یہ جامع ازہر اپنے اقتدار اور عظمت کے لحاظ سے اس درجہ اونچا اور بلند ہے کہ شیخ الازہرکے منصب کو مصر کی وزارت عظمیٰ سے بڑھ کر سمجھا جاتا ہے۔علامہ مقریزی نے لکھا ہے کہ:
”مدرسے کے بانی اول اہل نیشاپور ہیں، جہاں سب سے پہلے مدرسہ بیہقیہ کی بنیاد ڈالی گئی(ج:۲،ص:۳۶۲) اور تاریخ فرشتہ میں ہے کہ ”۴۱۰ھ میں سلطان محمود غزنوینے اپنے پایہ تخت غزنی میں ایک جامع مسجد عروس الفلک کے نام سے تعمیر کروائی اور اس کے ساتھ ایک عظیم الشان مدرسہ بھی تعمیر کرایا تھا، مدرسہ کے ساتھ کتب خانہ بھی تھا جو نادر الوجود کتب سے معمور تھا، مسجد ومدرسہ کے اخراجات کے لئے سلطان نے بہت سے دیہات کی آمدنی وقف کردی تھی،،۔
سلطان محمود کی اس مثال سے تھوڑے ہی دنوں میں غزنی کے اطراف وجوانب میں بے شمار مدرسے قائم ہوگئے اور سلطان کے فرزند سلطان مسعود نے تو اپنے عہد سلطنت میں اس کثرت سے مدرسے قائم کئے کہ تاریخ فرشتہ کے بیان کے مطابق زبان ان کا شمار کرنے سے عاجز وقاصر ہے۔ اسی زمانہ میں ابن خلکان کی روایت کے مطابق علامہ ابواسحاق اسفرائنی (المتوفی ۴۱۸ھ) کے لئے نیشاپور میں ایک مدرسہ قائم ہوا۔
ان مدارس کے قیام کے کچھ عرصہ کے بعد دولت سلجوقیہ کے مشہور علم دوست وزیر نظام الملک طوسی (المتوفی ۴۸۵ھ) نے نیشاپور اور بغداد میں دو دار العلوم قائم کئے جن کو تاریخ کے اوراق میں نظامیہ کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے۔ اس دار العلوم کے لئے جو بغداد ۴۵۹ھ میں قائم ہوا تھا چھ لاکھ دینار (تیس لاکھ روپے) کی گرانقدر رقم تو شاہی خزانہ سے مقرر تھی اور نظام الملک نے خود اپنی جاگیر کا دسواں حصہ اس کے لئے وقف کردیا تھا، طلباء کے لئے وظائف کا انتظام کیا گیا اور اساتذہ کے لئے بیش قرار مشاہرے مقرر کئے گئے۔
نظام الملک نے نہ صرف نیشاپور اور بغداد ہی میں دارالعلوم قائم کئے بلکہ اس نے حکم دے دیاکہ تمام ملک کے اندر جس جگہ بھی کوئی ممتاز عالم موجود ہو، وہاں اس کے لئے ایک مدرسہ اور مدرسہ کے ساتھ ایک کتب خانہ قائم کردیا جاوے، چنانچہ اس کے زمانہ میں ہزاروں مدارس اور کتب خانے قائم ہوئے، اس سے قبل سلطان محمود غزنویاور اس کے بیٹے سلطان مسعود غزنوی نے اپنے اپنے عہد میں بکثرت مدرسے قائم کئے تھے، نظامیہ کے قیام سے قبل بھی اسی نیشاپور میں سعدیہ اور بیہقیہ کے نام سے دو بڑے دار العلوم موجود تھے، سعدیہ سلطان محمود غزنوی کے بھائی امیر نصرنے قائم کیا تھا، امام الحرمین(امام غزالی کے استاد) نے بیہقیہ میں تعلیم پائی تھی، جب نظامیہ قائم ہوا تو امام الحرمین کو اس کا صدر بنادیا گیا۔
امام غزالی جیسے یکتائے زمانہ نظامیہ کے خوشہ چینوں میں ہیں، نظامیہ کے علاوہ بغداد میں تیس اور بڑے بڑے دارالعلوم قائم تھے، جن کے متعلق علامہ ابن جریر نے لکھا ہے کہ ”ہر مدرسہ بجائے خود ایک مستقل آبادی معلوم ہوتا ہے،،اور نظام الملک کے بعد خلیفہ مستنصر باللہ عباسی نے بغداد میں ۶۳۱ھ میں ایک دارالعلوم المصتنصریہ کے نام سے قائم کیا، طلباء کے قیام وطعام، کاغذ، قلم، دوات وغیرہ اشیاء بھی مدرسہ سے ملتی تھیں، اس کے علاوہ ایک ایک دینار (تقریباً پانچ روپے) ہرطالب علم کو ماہانہ وظیفہ ملتا تھا، خلیفہ مستنصر باللہ نے ان مصارف کے لئے جو وقف کیا تھا، اس کی آمدنی آجکل کے حساب سے تقریباً چار لاکھ روپیہ سالانہ تھی۔
ہندوستان
ہندوستان میں اسلامی حکومت کا مستقل قیام ساتویں صدی کے شروع میں قطب الدین ایبک (۶۰۲ھ/۶۰۶ھ) سے شروع ہوتا ہے، اس پر بمشکل ایک صدی گذری تھی کہ ہندوستان علوم وفنون کا گہوارہ بن چکا تھا۔
علامہ مقریزی نے کتاب الخطط میں سلطان محمد تغلق کے زمانہ کی دہلی کی نسبت لکھا ہے کہ:
”سلطان محمد تغلق کے عہد میں دہلی کے اندر ایک ہزار اسلامی مدارس قائم تھے، جن میں مدرسین کے لئے شاہی خزانہ سے تنخواہیں مقرر تھیں، تعلیم اس قدر عام تھی کہ کنیزیں تک حافظ قرآن اور عالم ہوتی تھیں،،۔
فیروزشاہ تغلق کے تعمیر کرائے مدرسہ فیروز شاہی کے متعلق ضیاء برنی نے لکھا ہے:
”مدرسہ کی عمارت نہایت وسیع ہے اور ایک بہت بڑے باغ کے اندر تالاب کے کنارہ پر واقع ہے، ہر وقت سینکڑوں طلبہ اور علماء وفضلاء یہاں موجود رہتے ہیں، باغ کے کنجوں میں سنگ مرمر کے فرش پر نہایت آزادی کے ساتھ علمی مشاغل میں منہمک نظر آتے ہیں،،۔
(جاری ہے)
اشاعت ۲۰۱۰ ماہنامہ بینات , جمادی الاولیٰ:۱۴۳۱ھ - مئی: ۲۰۱۰ء, جلد 73, شمارہ 5

    پچھلا مضمون: مجموعہ خاندانی فلاح و بہبود سے متعلق چند غور طلب اور قابل اصلاح امور !
Flag Counter