Deobandi Books

ماہنامہ البینات کراچی جمادی الاولیٰ ۱۴۳۱ھ - مئی ۲۰۱۰ء

ہ رسالہ

2 - 12
ایک نظریہ، ایک پیغام !
ایک نظریہ، ایک پیغام


اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
”ولنبلونکم بشئ من الخوف والجوع ونقص من الاموال والانفس والثمرات، وبشر الصابرین،،۔ (البقرہ:۱۵۵)
ترجمہ:۔”اور ہم تم کو ضرور بالضرور خوف اور بھوک میں اور مال وجان اور غلوں میں کمی کرکے آزمائش میں مبتلا کرتے رہیں گے اور آپ صبر کرنے والوں کو خوشخبری دے دیجئے،،۔
موجودہ دور میں عالم اسلام کے لئے سب سے بڑی آزمائش اہل اللہ کی قیمتی جانوں کا ضیاع ہے، جن کی جہد مسلسل کے نتیجہ میں آج حق وباطل سادہ لوح مسلمانوں کے سامنے بھی عیاں ہے اور جس کے نتیجہ میں ان کا ایمان جو دنیا ومافیہا سے بہتر چیز ہے، محفوظ بھی ہے اور غیر متزلزل بھی ۔
حضرت مولانا سعید احمدجلالپوری شہید قدس اللہ سرہ خلیفہ ٴ مجاز استاذ الاساتذة حضرت مولانا محمد یوسف لدھیانوی شہید نور اللہ مرقدہ اور دیگر ختم نبوت کے پروانوں کی شہادت بھی ہمارے لئے اللہ کی اسی آمائش کی کڑی ہے ،جس کا اللہ نے وعدہ کررکھا ہے۔
یہ آزمائشیں حضور اکرم ا کے زمانہ مبارک سے ہی چلی آرہی ہیں، جن آزمائشوں کو ہر دور میں سہا گیا، لیکن وارثین انبیاء نے دین پر آنچ نہ آنے دی اور بدستور دین اسلام کی نشر واشاعت ہر جائز اور مؤثر ذرائع سے کرتے رہے اور رسول اکرم ا کے فرمان:
”یحمل ہذا العلم من خلف عدولہ ینفون عنہ تحریف الغالین، وانتحال المبطلین،، (مشکوٰة)
کے مصداق بنے رہے۔
یعنی ہر دور میں اس دین کے علم بردار عادل افراد ہوں گے (جن کے تین کام ہوں گے) دین میں زیادتی کرنے والوں کی تبدیلیوں کو دین سے چھانٹیں گے اور باطل پرستی کو دین سے الگ کریں گے اور جہلاء کی (طرف سے کی گئیں قرآنی واحادیث کی) غلط سلط تشریحات کی نفی کریں گے (اور امت کو صحیح دین سے روشناس کرائیں گے)۔اور اس دین کی نشر واشاعت کے دوران ان پر سخت سے سخت مصائب بھی آئیں گے، قتل وغارت گری کی دھمکیاں بھی دی جائیں گی، لیکن یہ تمام باتیں ان کو نقصان نہیں دے سکیں گی، کیونکہ رسول اللہ ا کا ارشاد ہے:
”لاتزال طائفة من امتی ظاہرین علی الحق لایضرہم من خالفہم الی قیام الساعة (وفی روایة) لایضرہم من خالفہم،،۔ (صحیح مسلم، ابن ماجہ )
ترجمہ:۔”میری امت کا ایک گروہ (جو مجموعی طور پر ساری دنیا میں صرف قرآن وسنت کی رہنمائی میں زندگی بسر کرے گا) ہمیشہ تاقیام قیامت حق (قرآن وسنت) پر قائم رہے گا، جن کو کسی کی مخالفت نقصان نہیں دے سکے گی (اور ایک روایت میں ہے) جن کو کسی کابے یارو مددگارچھوڑنا نقصان نہیں دے گا،،۔
ہمارے اعتبار سے علماء ملت کی شہادتیں یقینا عالم اسلام کا عظیم نقصان ہے، لیکن اللہ تعالیٰ کے ہاں یہ ہمیشہ ہمیشہ کے لئے نفع کا سودا ہے، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
”ان الله اشتریٰ من المؤمنین انفسہم واموالہم بان لہم الجنة،، (التوبہ:۱۱۱)
ترجمہ:۔”بیشک اللہ نے ایمان والوں سے ان کی جانوں اور ان کے اموال کو ان کی جنت کے عوض میں خریدلیا ہے…،،۔
پھر اس امت کو تو خلیفہ اول سیدنا حضرت ابوبکر صدیق نے رسول اللہ ا کی رحلت کے موقع پر ایسا بے دار فرمایا ہے کہ جب بھی ایسا کوئی تکلیف دہ موقع آتا ہے تو حضرت صدیق اکبر کا پیغام ملت کے قلوب کوتسلی دیتا ہے اور ان کے دلوں میں حفاظت دین کے جذبات ابھار دیتا ہے کہ جب صحابہ کرام سکتے میں آچکے تھے اور رسول اللہا کی جدائی پر مایوس تھے، حضرت صدیق اکبر کے خطبہ نے گویا بے روح جسموں میں صور پھونک دی، حمد وصلوٰة کے بعد فرمایا:
”من کان یعبد محمداً فان محمداً قدمات، ومن کان یعبد الله فان الله حی لایموت،،۔ (صحیح بخاری)
یعنی جو محمد ا کی عبادت کرتا تھا تو وہ سن لے! محمد ا دنیا سے پردہ فرما گئے ہیں اور جو اللہ کی عبادت کرتا تھا تو اسے جان لینا چاہئے کہ اللہ زندہ وتابندہ ہے، اسے موت نہیں آئے گی۔
پھر قرآن کریم کی وہ آیت کہ جو آج بھی انسانیت کو جھنجھوڑ دینے کے لئے کافی ووافی ہے، فرمایا:
”وما محمد الا رسول ،قد خلت من قبلہ الرسل، افأن مات او قتل انقلبتم علی اعقابکم ،ومن ینقلب علی عقبیہ فلن یضر الله شیئا…،،۔ (آل عمران:۱۴۴)
ترجمہ:۔” اور محمد ا نہیں ہیں مگر ایک پیغمبر، تحقیق ان سے پہلے بہت سے رسول چلے گئے، سو کیا اگر وہ وفات پاجائیں یا قتل کردیئے جائیں تو کیا تم اپنی ایڑیوں کے بل (دین سے کفر وشرک کی طرف) پھر جاؤ گے، سو جو اپنی ایڑیوں کے بل پھرے گا تو وہ اللہ کو ہر گز ذرا سا نقصان نہیں دے سکے گا،،۔
باطل بظاہر اپنی کارروائی پر نازاں تو ہوتا ہے لیکن وہ پرلے درجہ کا جاہل، ناعاقبت اندیش اور اللہ کی طاقت سے بے خبر ہے، اسی لئے خوش ہوتا ہے ۔حالانکہ حقیقت اس کے برخلاف ہے، کیونکہ اللہ تعالی کی سنت ہمیشہ ایک ہی رہتی ہے، وہ بدلتی نہیں ہے اور وہ سنت یہ ہے کہ وہ اپنے رسولوں کو اپنی آیات انسانیت تک پہنچانے کے لئے بھیجتا ہے اور ان آیات میں جس قسم کے بھی احکام ہوتے ہیں ان کی عملی مشق کرواتا ہے اور جب مقصد پورا ہوجاتا ہے تو وہ اپنے انبیاء ورسل علیہم السلام کو اپنے ہاں بلا لیتا ہے۔
رسول اللہ اکی امت کے تمام علماء حق، رسول اللہ ا کے فرمان کے مطابق انبیاء علیہم الصلوٰة والسلام کے وارث ہیں اور انبیاء علیہم السلام مال ودولت کا وارث نہیں بناتے، بلکہ وہ علم دین کا وارث بناتے ہیں، چنانچہ رسول اللہ ا کا ارشاد ہے:
”انما العلماء ورثة الانبیاء، وان الانبیاء لم یورثوا دیناراً ولادرہماً، انما ورثوا العلم…،،۔ (ترمذی)
اس حدیث کی بنیاد پر علماء ملت کی بھی وہی ذمہ داریاں ہوگئیں جو ذمہ داریاں اللہ تعالیٰ نے اپنے پیغمبروں کو سونپی تھیں، گویا اب دنیا کی کسی سپر پاور کو انبیاء علیہم السلام کی یہ وراثت کتنی ہی چبھے اور کتنی ہی ان سیاہ کاروں کے لئے سوہان روح ہو، علماء اس وراثت سے دست بردار ہونے والے نہیں، بلکہ رسول اللہ ا کے فرمان کے مطابق اللہ تعالیٰ اس وراثت کے علم برداروں کو پیدا کرتا رہے گا اور وہ اس وراثت کا حق ادا بھی کریں گے اور جب علماء ملت انبیاء علیہم السلام کے وارث ہیں تو ان وارثین کے ساتھ بھی وہی معاملات ہوں گے اور ہوتے چلے آئے ہیں کہ جو خود انبیاء علیہم السلام کے ساتھ ہوئے۔ البتہ علمائے ملت ان مصائب میں اپنے ایمانی، روحانی درجات کے بقدر مبتلا ہوں گے۔ رسول اللہ ا کا ارشاد ہے:
”اشد الناس بلاء الانبیاء ثم الامثل فالامثل،،۔ (مستدرک حاکم)
یعنی لوگوں میں سخت ترین امتحان انبیاء کا ہوتا ہے پھر درجہ بدرجہ۔
اعدائے اسلام کو ایک ادنیٰ طالب علم کی یہ تحریر پڑھ کے سمجھ لینا چاہئے کہ جب انبیأ علیہم السلام کے وارثین کے شاگردوں کا یہ نظریہ ہو تو خود وارثین انبیأ کا اللہ کے دین کے سلسلہ میں کیا نظریہ ہوگا اور وہ اللہ کے دین کی حکمرانی کے لئے کس قدر کوشاں ہوں گے اور ان کے قلوب میں اللہ کے دین کے غلبہ کی کیسی تڑپ ہوگی اور وہ کس جان فشانی سے اپنی ذمہ داری کو نبھا تے ہوں گے۔
باطل نے تو ابھی وارثین انبیأکی صرف تحریر وتقریر کا سحر دیکھا ہے، جس سے اس کے ایوانوں میں کھلبلی مچی ہوئی ہے، تب ہی تو حضرت مولانا سعید احمد جلالپوری شہید کو جام شہادت پلادیاگیا۔
قرآن کریم نے ہمیں صبر کی تلقین کی ہے:
”یا ایہا الذین آمنوا اصبروا…،،۔ (آل عمران:۲۰۰)
یعنی اے ایمان والو صبر کرو۔
چنانچہ صبر کی تین قسمیں ہیں:
۱…الصبر علی الطاعة: یعنی اللہ اور اس کے رسول ا کی فرمانبرداری پر مسلسل قائم رہنا اور اللہ اور اس کے رسول اکی فرمانبرداری قرآن وحدیث پر عمل میں مضمر ہے۔
۲… الصبر علی المصیبة: یعنی کسی بھی قسم کی تکلیف وپریشانی میں آپے سے باہر نہ ہونا، واویلا اور نوحہ نہ کرنا اور رسول اللہ اکے ارشاد:
”لیس منا من ضرب الخدود وشق الجیوب ودعا بدعوی الجاہلیة،،۔ (مشکوٰة)
کو ملحوظ نظر رکھنا۔
یعنی وہ شخص ہم میں سے نہیں ہے جو رخساروں کو پیٹے اور گریبانوں کو چیرے اور جاہلانہ رسوم کی دعوت دے۔
اس صبر کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہنا اور دشمن کو آزاد چھوڑے رکھنا، بلکہ اس کا حقیقی مفہوم یہ ہے کہ قانون کے ذریعے دشمن سے قصاص لینا اور ہراس جائز راستہ کو اختیار کرنا کہ جس سے اس مفسد کا مؤاخذہ ہو ،تاکہ آئندہ اعدائے اسلام میں سے کوئی گھناؤنی جرأت نہ کرسکے۔
۳…الصبر عن المعصیة: اور صبر کی تیسری قسم ہے: ہر طرح کے گناہوں سے اپنے نفس امارہ کو رو کے رکھنا۔
آخر میں اپنے بعض مسلمان بھائیوں سے یہ کہتا ہوں کہ علماء حق کی یہ خصوصیت ہے کہ وہ کسی میدان کو خالی نہیں چھوڑتے اور حقیقت میں ہرمیدان میں علماء حق کی ضرورت بھی ہے اور وہ بخوبی اپنا کردار ادا بھی کررہے ہیں، لہذا علماء کرام کو خصی سے تعبیر کرنا بایں معنی کہ وہ کمزور اور ڈر پوک ہیں تو میں ایسے نادانوں سے کہتا ہوں کہ وہ آجائیں میدان میں اور کھلم کھلا اپنی جوانی دکھائیں، وہ کیوں ایسے مواقع پر چھپ جاتے ہیں ، توہین آمیز اشعار پڑھ لینا بظاہر بہت اچھا معلوم ہوتا ہے،لیکن حقیقت یہ ہے کہ ہرہر موقع پر اکابر علمأ نے جو کردار ادا فرمایا اسے دھند لایا نہیں جاسکتا، اگر آپ ان علمائے حق کے کردار پر ضرب لگاتے رہیں، تو یہ امت کی تباہی کے نقصان کا سبب ہوگا۔
اور یہ ناممکن بھی ہے اور تکوینی امر کے بھی خلاف ہے کہ تمام علمائے حق دین کے کسی ایک شعبہ سے ہی وابستہ ہوکر رہ جائیں اور دیگر شعبوں کو معطل کردیں ۔ حضرت مولانا سعید احمد جلالپوری شہید اس بات کی واضح دلیل ہیں کہ اگر وہ پرنٹ میڈیا سے وابستہ نہ ہوتے تو زید زمان حامد کے سیلاب میں مزید اہل اسلام بہتے چلے جاتے اور پھر اس کے (مستقبل قریب میں) ہونے والے نبوت کے دعوی تلے دب کرہلاک ہوجاتے۔
اللہ تعالیٰ حضرت مولانا سعید احمد جلالپوری قدس سرہ اور ان کے رفقاء، خاص کر سری لنکا کے مخلص مہمان کے درجات بلند سے بلند تر فرمائے اور علماء ملت کو متحد فرما کر اپنی اس عظیم ذمہ داری کو نبھانے کی مزید توفیق نصیب فرمائے اور صحابہ کرام کی طرح ہمیں ایک دوسرے کی قدردانی کی توفیق میسر فرمائے کہ جس قدردانی کا فقدان ہماری جمعیت کو پارہ پارہ کئے ہوئے ہے۔
اشاعت ۲۰۱۰ ماہنامہ بینات , جمادی الاولیٰ:۱۴۳۱ھ - مئی: ۲۰۱۰ء, جلد 73, شمارہ 5

    پچھلا مضمون: عدل وانصاف کی اہمیت !
Flag Counter