Deobandi Books

ماہنامہ البینات کراچی ربیع الاول ۱۴۳۱ھ - مارچ ۲۰۱۰ء

ہ رسالہ

8 - 11
محبت رسول اایمان میں سے ہے !
محبت رسول اایمان میں سے ہے
(۳)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اتباع
اتباع، محبت کی سب سے بڑی علامت اور محبت کی ترقی میں قوی تاثیر رکھتی ہے ، اتباع کا محبت کی علامت ہونا تو عیاں اورظاہر ہے، کیوں کہ محبت کرنے والاہمیشہ اپنے محبوب کی موافقت کرتاہے، وگرنہ وہ اپنے دعوی محبت میں جھوٹا ثابت ہوگا ، اور اتباع :محبت میں مؤثر ہے تو اس لئے کہ مومن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی لائی ہوئی تعلیمات کے جمال اور کمال کو عملی طور پر محسوس کرتا ہے اورتجربہ سے اس میں ایک ذوق پیدا ہوجاتا ہے ،اس سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت میں اضافہ ،اس کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اسے قرب اورمحبوبیت حاصل ہوتی ہے ۔
اللہ کے ساتھ سچی محبت کے دعویٰ کو پرکھنے کے لئے اللہ نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اتباع کو معیار بنایا ہے۔ ارشاد باری ہے :
﴿ قُلْ اِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰہَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْکُمُ اللّٰہُ ﴾ (آل عمران :۳۱)
ترجمہ :۔”آپ ان سے کہہ دیں !اگر تم اللہ سے محبت کرتے ہو تو میرا اتباع کرو، اللہ تم سے محبت کرے گا“ ۔
۲: قرآن کریم سے محبت
قرآن کریم اللہ تعالیٰ کاکلام ہے ، حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کا ثبوت اسی سے ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن کریم کے ذریعے مخلوق کو حق کی راہ بتائی ہے اور اس کے بتائے ہوئے اخلاق کو پوراپورا اپنایا ہے ، یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مخلوق میں سب سے اعلیٰ اخلاق پر فائز ہوگئے ۔جیسا کہ قرآن کریم میں ارشاد ہے:
﴿وَاِنّکَ لَعَلٰی خُلُقٍ عَظِیْمٍ﴾ ( القلم :۴)
ترجمہ :” بے شک آپ اخلاق کے عظیم مقام پر ہیں“۔
اب آپ قرآن کریم کے ساتھ اپنے دل کی محبت کا امتحان لیجئے ، اور اس کے سننے سے جو آپ کو لذت حاصل ہوتی ہے ،اس کا امتحان لیجئے ، کہ کیا قرآن کریم سننے کی لذت گانے باجے سننے کی لذت سے زیادہ ہے ؟اگر معاملہ ایسا ہی ہے تو آپ سمجھ لیجیے کہ آپ قرآن کریم کی محبت میں سچے ہیں ، کیوں کہ یہ ایک واضح حقیقت ہے کہ جب کوئی شخص کسی سے محبت کرتا ہے، اس کے نزدیک تو اس کی باتیں، اس کا کلام ،سب سے زیادہ محبوب ہوتا ہے ،اور ایسی محبت قرآن کریم سے کیوں نہ ہو ، جب کہ وہ اپنے الفاظ اور معانی کے اعتبار سے تمام آسمانی کتب پر فائق وبرترہے ، اور جس کے الفاظ اپنی گیرائی اور گہرائی کے اعتبار سے حق کی تجلیات پر مشتمل ہیں،جس کے بیان کے جمال اور نظم کے کمال نے انسانوں اور جنوں کو اس کی مثل لانے سے عاجز کردیا ہے اور اللہ تعالی نے اسے روح سے تعبیر فرمایاہے ، ارشاد بار ی ہے :
﴿وَکَذٰلِکَ أوْحَیْنَا إلَیْکَ رُوْحاً مِّنْ أمْرِنَا﴾ ( الزخرف ، آیة:۵۲)
ترجمہ :۔”اور اسی طرح بھیجا ہم نے تیری طرف ایک فرشتہ اپنے حکم سے۔“
جس طرح روح اجساموں کے لئے حیات اور زندگی کا سبب ہے ، اسی طرح قرآن کریم تمام ارواحوں کی روح کی حیات اور زندگی کا سبب ہے ، لہذا ایک مُحب اپنے محبو ب کے کلام سے کیسے سیر ہوسکتا ہے جب کہ وہ محبوب ہی اس کا مطلوب ومقصود ہے۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے کیاخوب فرمایا : ”اگر ہمارے دل پاک وصاف ہوتے تو ہم اللہ تعالی کے کلام سے کبھی سیر نہ ہوتے ۔“
۳: آپ اکی سنت سے محبت ، اور آپ کی حدیث پڑھنا
محبت کالازمی نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ محب اپنے محبوب کے ساتھ ہر چیز میں موافقت اور اتفاق کرے۔ لہذا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کا تقاضا یہ ہے کہ آپ کی سنت اور طریقہ کی اتباع کی جائے اور جو شخص خود اس سنت کو معلوم کرنے پر قادرنہیں ،اسے چاہیے کہ جو اس کا عالم ہے اس سے پوچھے، اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کلام کا حال ہے ، جو ایسے محبوب کا کلام ہے جو افضل البشر ہے ، اور وہ سب سے بہتر کلام ہے جوکسی انسان کی زبان سے نکلا ہے ، یہ کلام معنی کے اعتبار سے خوبصورت اور الفاظ کے اعتبار سے نہایت عمدہ ہے ،، اگر آپ اس درجہ تک نہیں پہنچ سکے تو آپ اسے غور سے سنیں اور ایسی مجلس میں جائیں جہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث پڑھی جاتی ہو ، اب آپ خود فیصلہ کریں کہ حدیث کی ان مجالس اور ان حلقوں سے آپ کی کیا نسبت ہے ؟
۴:آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیر ت اور شمائل سے محبت
یہ محبت کا طبعی تقاضا ہے کہ محب اپنے محبوب کو پہچانے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیر ت اور شمائل ہی آپ کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات کی پہچان کرائیں گے ۔ علیہ افضل الصلاة واتمّ التسلیم ۔ اور آپ کی سیرت اور شمائل کے اعتبار سے جتنا آپ کے علم میں اضافہ ہوگا اتناہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ آپ کی محبت میں اضافہ ہوگا ، کیوں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے کمالات کے علم کے بعدآپ کی معرفت میں اضافہ ہوگا ۔اور پھر آپ کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت میں کمال حاصل ہوگا، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی روحانیت شریفہ آپ کے دل پر چھا جائے گی، پھر اللہ تعالیٰ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی روحانیت شریفہ کو آپ کے لئے استاذ معلم ، شیخ اور مُقتدیٰ بنادیں گے، جیسا کہ اللہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنا نبی اپنا رسول اوراپنا ہادی بنایا ہے ۔
اس سے معلو م ہوا کہ ایک مومن محب کے لئے ضروری ہے کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیر ت ، آپ کے ابتدائی حالات ، آپ پر وحی کے نزول کی کیفیت کا علم، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی صفات ، اخلاق ، حرکات و سکنات ، آپ کے جاگنے اورسونے ، اپنے رب کی عبادت کرنے ، گھروالوں کے ساتھ حسن معاشرت ، صحابہ کرام کے ساتھ آپ کا کریمانہ معاملہ اور اس طرح کے دوسرے امور کو پہچانے اور ان کا علم حاصل کرے، اور ایسا ہوجائے گویا وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ آپ کے صحابہ میں سے ایک ہے ۔
۵: آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکرِ خیر کثرت سے کرنا
اورجب بھی آپ کا ذکر آئے آپ کی تعظیم کرنا
بعض بزرگوں کا قول ہے کہ ” محبت نام ہے محبوب کو ہر وقت یا دکرنے کا “ اور تمام عقلا کا اس بات پر اتفاق ہے کہ جوشخص کسی سے محبت کرتا ہے تو وہ اس کا ذکر بار بار کرتا ہے ۔
اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذکر کے ساتھ آپ کی تعظیم میں یہ بھی شامل ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے ” سیدنا“ استعمال کیا جائے ، اور آپ کے نام کے ذکر کرنے یا سننے کے وقت خشوع و خضوع کااظہار کیا جائے ، اور یہ بہت سے صحابہ کرام اور ان کے بعد آنے والے حضرات سے ثابت ہے ۔
بطور مثال :حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے ایک دن فرمایا :”قال رسول الله صلی الله علیہ وسلم : تو تھرتھرانے لگے اور ان کے کپڑے بھی ہلنے لگے۔
یہ کیفیت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعظیم کی وجہ سے طاری ہوئی، عنقریب صلح حدیبیہ کی حدیث اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت اورتعظیم کا بیان آنے والا ہے ۔
۶:آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملنے کا انتہائی شوق
ہر مُحبّ اپنے محبوب سے ملنے کا مشتاق ہوتا ہے ، تونبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ محبت کرنے والے کا کیا حال ہوگا ! وہ چاہتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کوخواب میں دیکھے اور آخرت میں آپ کی ذات سے ملاقات ہو ، اسی لئے لوگوں نے یہاں تک کہہ دیا ہے کہ ” محبت تو محبوب کے اشتیاق کانام ہے :“
اس سلسلہ میں ایک مشہور واقعہ حضرت بلال رضی اللہ عنہ کا ہے کہ جب ان کو موت کا استحضار ہوا تو ان کی بیوی کی زبان سے پریشانی کی حالت میں یہ الفاظ نکلے ”واہ حَرَباہ“ہائے میرا گھر ویران ہوگیا ، تو اس کے جواب میں حضرت بلال رضی اللہ نے فرمایا :
” واطَربا، غداً ألقی الأحبة، محمداً و صحبہ“․
ترجمہ :”او میری خوشی ! کل میں اپنے محبوبوں سے ملوں گا ، حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ سے “۔
۷:آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر کثرت سے درود وسلام پڑھنا
آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر کثرت سے درود و سلام پڑھنا، یہ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کثرت سے یاد کرنے ،آپ کی تعظیم کرنے اور آپ سے ملنے کا شوق رکھنے کا لازمی نتیجہ ہے اور اس سلسلہ میں ہمارے لئے اللہ تعالی کا یہ فرمان ہی کافی ہے :
﴿اِنَّ اللّٰہَ وَ مَلَائِکَتَہ یُصَلُّوْنَ عَلَی النَّبِیِّ یَااَیُّھَا الَّذِیْنَ آمَنُوْا صَلُّوْا عَلَیْہِ وَسَلِمُوْا تَسْلِیْمًا﴾ (سورة الأحزب:۵۶ )
ترجمہ:۔” الله اور اس کے فرشتے رحمت بھیجتے ہیں رسول پر ، اے ایمان والو! رحمت بھیجو اس پر اور سلام بھیجو سلام کہہ کر۔“
اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان:
” من صلّٰی علیّ صلاةً واحدةً صلَّی الله علیہ بہا عشراً“
(اخرجہ مسلم واصحاب السنن․)
ترجمہ :”جس نے مجھ پر ایک بار درود بھیجا ،اللہ اس پر دس رحمتیں نازل فرماتے ہیں “۔
اور آپ صلی اللہ علیہ کا یہ ارشاد کہ جبریل علیہ السلام نے مجھ سے فرمایا :
”ألاأبشّرک ۔ إن الله عزوجل یقول: من صلیّٰ علیک صلّیتُ علیہ ، ومن سلّم علیک سلّمتُ علیہ“ (رواہ أحمد وحاکم وصححہ ووافقہ الذھبی․)
ترجمہ :” کیا میں آپ کو خوش خبری نہ سناوٴں… اللہ عز وجل فرماتے ہیں، جس نے آپ پر درود پڑھا، میں اس پر رحمت نازل کروں گا، اور جس نے آپ پر سلام بھیجا میں اس پر سلامتی نازل کروں گا۔“
اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد ہے :
”إن أولی الناس بی یوم القیامة أکثرھم علیّ صلاةً ‘ ( صححہ ابن حبان)
ترجمہ :”قیامت کے دن سب سے زیادہ میرے قریب وہ شخص ہو گا جو مجھ پر زیادہ درود پڑھے گا۔“
اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے محبین کے لئے خصوصاً یہ حدیث قابل ذکر ہے ، جسے حضرت انس رضی اللہ نے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
”من صلّٰی علی بلغتنی صلاتُہ ، و صلّیتُ علیہ ، و کُتِبَ لہ سوی ذلک عشرُ حَسناتٍ“(طبرانی فی الاوسط باسناد لا باس بہ و لہ شواھد بإسناد حسن عن ابن مسعود)
ترجمہ :”جس نے مجھ پر درور پڑھا ، اس کا درود مجھ تک پہنچتا ہے اور میں اس کے لئے دعائے رحمت کرتا ہوں اور اس کے لئے دس مزید نیکیاں لکھی جاتی ہیں۔“
آپ صلی اللہ علیہ و سلم پر درود و سلام بھیجنا گویا آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ بمنزل مناجات کے ہے،کہ جب آپ یہ کہتے ہیں:”اللّٰھم صَلِّ علی سیدنا محمد و سلم“
ترجمہ:” اے اللہ! رحمت اور سلامتی نازل فرما، ہمارے سردار حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) پر۔“
آپ صلی اللہ علیہ و سلم جواب میں فرماتے ہیں:”صلی الله علیک یا فلان “
ترجمہ :”اللہ تعالی تجھ پر اپنی رحمت فرمائے ، اے فلانے “۔
اے اللہ ! آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے قلب مبارک کو ہمارے اوپر پھیر دے ، اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو ہماری جانب سے وہ بہترین بدلہ دے جو آپ نے کسی نبی کو ا س کی امت کی طرف سے دیا ہے ۔
اشاعت ۲۰۱۰ ماہنامہ بینات , ربیع الاول:۱۴۳۱ھ - مارچ: ۲۰۱۰ء, جلد 73, شمارہ 3

    پچھلا مضمون: حضرت شیخ الہند اور مطالعہ قرآن !
Flag Counter