Deobandi Books

ماہنامہ البینات کراچی ربیع الاول ۱۴۳۱ھ - مارچ ۲۰۱۰ء

ہ رسالہ

11 - 11
نقدونظر !
تبصرے کے لیے ہرکتاب کے دونسخوں کا آناضروری ہے
(ادارہ)
نماز رب کے لئے جس کی لاشریک ہے ذات
ڈاکٹر فرحت جمشید، ہیوسٹن، ٹیکساس ،یو، ایس، اے، صفحات: ۶۴۸ قیمت: درج نہیں پتہ: گیلانی بک سینٹر سرسید اردو بازار کراچی۔
جیساکہ نام سے ظاہر ہے یہ کتاب نماز کے تفصیلی احکام پر مشتمل ہے اور اس کی مؤلفہ مشہور عام الہدی انٹرنیشنل کی بانی مبانی ڈاکٹر فرحت ہاشمی ہے ، جس نے کتاب پر اپنے نام کے ساتھ ہاشمی کے لاحقہ کے بجائے اپنے شوہر جمشید کا لاحقہ لگاکر اپنا نام ڈاکٹر فرحت جمشید لکھا ہے ۔چونکہ موصوفہ کے افکار ونظریات ایک عرصہ سے اہل علم کے ہاں موضوع بحث ہیں اور ان کے افکار ونظریات اہل سنت علمائے دیوبند کے نظریات سے متصادم تھے، چنانچہ اس پر جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن کے فاضل مفتی محمد اسماعیل طورو ، رئیس دار الافتاء جامعہ اسلامیہ کشمیر روڈ راولپنڈی، اور جامعہ ہی کے فاضل مولانا مفتی مطیع الرحمن نے ان کے نظریات پر تفصیلی کلام کیا ہے اور ان ہر دوکتابوں پر راقم کے تاثرات بھی بینات کے صفحات میں آچکے ہیں، اس کے ساتھ ساتھ حضرت مولانا مفتی نظام الدین شامزئی شہید اور حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی زید مجدہ اور دارالعلوم کراچی کا تفصیلی فتویٰ بھی آچکا ہے اور عوام کو اس کے دروس اور کیسٹیں سننے اور اس کی کتابیں پڑھنے سے باز رہنے کی تلقین کی گئی تھی۔
ایسا محسوس ہوتا ہے کہ موصوفہ نے اس تأثر کو زائل کرنے کے لئے یہ کتاب مرتب کی ہے اور اس میں قصداًان تمام باتوں کا تذکرہ نہیں کیا، جو اس کے دروس میں پائی جاتی ہیں، مثلاً: اب تک ان کے بارہ میں یہی مشہور تھا کہ وہ نمازوں کی قضا کی قائل نہیں ہے، مگر اس کتاب میں قضا نمازوں کا بیان ہے۔ اسی طرح اس کے بارہ میں ثقہ اطلاعات یہ تھیں کہ وہ غیر مقلدہ ہے، چنانچہ اس کے نظریات کے خلاف مولانا مطیع الرحمن فاضل ومتخصص جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن کراچی کی لکھی گئی کتاب کے جواب میں ادارہ دارالا حسان منظور کالونی کراچی کے ایک غیر مقلد صاحب نے قلم اٹھاکر اس کا دفاع کیا ہے۔
تاہم اس کتاب کے تفصیلی مطالعہ سے محسوس ہوا کہ یہ صاحبہ یاتو ذہنی اور فکری انتشار کا شکار ہے یاپھر ”دروغ گورا حافظہ نباشد“ کا صحیح مصداق ہے، کیونکہ انہوں نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ :
”برصغیر کی اکثریت کے مسلک فقہ حنفی کو بنیاد بناکر مضامین لکھے گئے ہیں، لیکن جہاں کہیں بھی دوسرے اماموں کی رائے مل سکی ہے، وہ بھی بیان کرائی گئی ہیں،، (ص:۲۱)
جب کہ اس میں چشم بد دور! ایسے ایسے ”حقائق،، سے پردہ اٹھایا گیا ہے کہ ان کا مسلک حنفی سے دور کا بھی واسطہ نہیں ہے ،مثلاً اس نے لکھا ہے کہ :
ا…”مکی دور مسلمانوں کے لئے ایک پر خطر دور تھا،اس لئے اس دوران نمازوں پرخشوع وخضوع کرنے کی تاکید بھی نہیں آئی تھی، چنانچہ اس وقت نماز کی کیفیت یہ تھی کہ:
ب…کوئی بات یاد آنے پر نماز ہی کے دوران دوسروں کو ہدایات بھی دیدیا کرتے تھے… ابوداؤد کی کتاب الصلاة کے حوالے سے، حضرت عائشہ دروازہ کھٹکھٹاتی تو آپ ا نماز کے دوران ہی جاکر دروازہ کھول دیتے تھے،،۔(ص:۵۹)
نہیں معلوم کہ موصوفہ نے یہ کس حنفی کتاب سے نقل کیا ہے کہ کس مکی دور میں حضرت عائشہ رخصت ہوکر حضور کے گھر میں آئی تھیں؟ کہ وہ دروازہ کھٹکھٹائیں اور حضور ا نماز میں چل کر دروازہ کھول دیتے تھے؟حالانکہ حضرت عائشہ کی رخصتی ہجرت کے چھ ماہ بعد شوال:۱/ھ میں ہوئی ہے۔ایک جگہ عصر اور فجر کا وقت لکھتے ہوئے ارشاد فرماتی ہیں کہ: ج…بخاری میں حضرت ابوہریرہ کی حدیث کے حوالے سے نبی کریم ا کا فرمان مبارک ہے کہ جس نے سورج غروب ہونے سے پہلے عصر کی ایک رکعت پالی، اسے چاہئے کہ وہ اپنی نماز مکمل کرے، اسی طرح سے فجر کی نماز میں سورج طلوع ہونے سے پہلے ایک رکعت پانے پر نماز مکمل کی جائے،،۔ (ص:۱۵۴)
حالانکہ احناف کے ہاں فجر کی نماز کے دوران اگر سورج طلوع ہوجائے تو نماز فاسد ہوجاتی ہے۔
د…ایسا لگتا ہے کہ موصوفہ ذہنی انتشار کا شکار ہے، چنانچہ ایک جگہ واجبات نماز کے بیان میں چوتھے نمبر پر فرماتی ہیں:
”سورہ ٴ فاتحہ کے آخیر میں آمین کہنا، (دوسری سورت شروع کرنے سے پہلے،، (ص:۱۸۴) اس کے دو صفحے بعد نماز کی سنتوں کے زیر عنوان ساتویں نمبر پر لکھتی ہیں:
”سورة فاتحہ کے ختم پر آمین کہنا،،
ہ…فرض غسل کے بیان میں غسل کے فرائض کی تعین کئے بغیر غسل کا طریقہ یوں بیان کیا گیاہے:
”غسل کا مسنون طریقہ یہ ہے کہ دونوں ہاتھ دھوئے جائیں اور استنجاء کرنے کے بعد ہاتھ پاک کرکے وضو کیا جائے، سر اور پورے جسم کو اس طرح دھویا جائے کہ بال برابر بھی جگہ باقی نہ رہے، سب جگہ پانی پہنچ جائے،،۔ (ص:۲۰۱،۲۰۲)
آپ نے دیکھا اس میں منہ بھر کلی کرنے اور ناک میں پانی دینے کا کہیں کوئی تذکرہ نہیں ہے، زیادہ سے زیادہ اتنا ثابت ہوتا ہے کہ جس طرح وضو میں کلی کرنا اور ناک میں پانی دینا سنت ہے، اسی طرح غسل میں بھی اس کا درجہ سنت سے کچھ زیادہ نہیں ہے، لہذا جس طرح اگر کوئی شخص وضو میں کلی نہ کرے یا ناک میں پانی نہ ڈالے تو اس کا وضو ہوجاتا ہے ،اسی طرح اگر کوئی غسل سے پہلے کے وضو میں بھی ایسا کرلے تو اس کا غسل ہوجائے گا ۔بتلایاجائے! یہ کس فقہ حنفی کا مسئلہ ہے؟کیا یہ حنفیت کے نام پر حنفی عوام کو دھوکہ دینے کے مترادف نہیں ہے؟
و…نماز کے فرائض اور ارکان بیان کرتے ہوئے یہ صاحبہ عنوان قائم کرتی ہیں:
”استعاذہ نماز کا تیسرا رکن،،۔ (ص:۲۸۶)
بتلایا جائے !کس امام کے نزدیک استعاذہ یعنی اعوذ باللّٰہ من الشیطان الرجیم کو نماز کا رکن قرار دیا گیا ہے کہ اگر نماز میں اعوذ باللہ نہ پڑھاگیا تو اس کی نماز نہ ہوگی؟
ز… پھر آگے چل کر اس کے ثبوت میں قرآن کریم کی تحریف معنوی کا ارتکاب کرتے ہوئے فرماتی ہیں:
”سورہ نحل آیت نمبر ۹۸ ترجمہ: ”جب آپ قرآن پڑھنے لگیں تو شیطان مردود کے شر سے اللہ کی پناہ مانگ لیا کریں،،۔
اس آیت مبارکہ میں صاف طور پر کہا گیا ہے کہ جب نماز یا قرآن پڑھنے کا ارادہ ہو تو بارگاہ رب العزت میں صدق دل اور خلوص نیت کے ساتھ دینی بے بسی، عاجزی، کمزوری کا اظہار یہ کہہ کر کریں…،،۔
ایک عام آدمی بھی باآسانی سمجھ سکتا ہے کہ مذکورہ بالا آیت میں کہاں صاف طور کہا گیا ہے کہ نماز یا قرآن پڑھنے کا ارادہ ہو؟؟ اس لئے کہ قرآن کریم میں مطلقاً قرآن کریم کی تلاوت کے وقت استعاذہ کا حکم دیا گیاہے، اس میں نماز میں تلاوت سے قبل استعاذہ کا تذکرہ نہیں ہے، لہذا اس پر لفظ نماز کا اضافہ کرنا کھلی معنوی تحریف نہیں تو اور کیا ہے؟
الغرض !ایسی بہت سی جگہیں اور مقامات ہیں جہاں فقہ حنفی کے خلاف لکھے گئے مسائل کو فقہ حنفی سے منسوب کیا گیاہے۔
لہذا عوام اور سادہ لوگوں کو اس کتاب کے مطالعہ سے پرہیز کرنا چاہئے، ورنہ وہ ذہنی پراگندگی اور خلفشار کا شکار ہوجائیں گے۔
دراصل یہ صاحبہ غیر مقلدہ ہیں اور اپنی غیر مقلدیت کو فقہ حنفی کے خلاف استعمال کرکے حنفی عوام کو گمراہ کرنا چاہتی ہیں ۔ لطف کی بات یہ ہے کہ موصوفہ نے تکرار سے بھرپور اور ذہنی انتشار سے اپنی اس کتاب کے شروع میں لکھا ہے کہ:
”تمام مضامین قرآن اور احادیث کی روشنی میں تیار کئے گئے ہیں ،اس لئے ان میں شک وشبہ کی کوئی گنجائش نہیں ہے، پھر کتاب پر شخصی رائے کا کوئی دخل نہیں ہے۔اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ کتاب کے مندرجات، مطالب اور مسائل وغیرہ کو پوری تحقیق کرنے کے بعد کامل احساس ذمہ داری کے ساتھ تحریر کیا گیاہے…،،۔ (ص:۲۱)
گویا یہ کتاب ایک لاریب دستاویز ہے، جس میں کوئی شک وشبہ راہ نہیں پا سکتا اور اس کی صداقت وحقانیت میں شبہ کرنا نعوذ باللہ! قرآن وسنت میں شک وشبہ کے مترادف ہوگا۔حالانکہ کتاب کے شروع میں اور اندر بھی متعدد جگہ اس کا اعلان کیا گیا ہے کہ : ”نماز ایمان کی بنیاد ہے ،،۔ (ص:۱۸)
بلکہ ص:۳۱ پر نماز کے بارہ میں موصوفہ فرماتی ہیں:” یعنی اگر یہ (نماز) ہے تو پورا دین موجود ہے اور اگر نہیں ہے تو پورا ایمان موجود نہیں ہے،،۔
حالانکہ ایک معمولی پڑھا لکھا مسلمان جانتا ہے کہ نماز ارکان اسلام میں سے ایک رکن اور دین کا ستون ضرور ہے مگر اس کو ایمان کی بنیاد کا درجہ دینا، یا اس کو پورے ایمان سے تعبیر کرنا اور اس کے نہ ہونے پر پورے ایمان کی نفی کرنا جہالت اور حماقت ہے، بلکہ خالص معتزلی عقیدہ ہے ۔کیونکہ ایمان کی بنیاد تو اللہ پر، اس کے ملائکہ پر ، اس کی کتابوں پر، ا سکے رسولوں پر، قیامت کے دن پر اور اس بات پر کہ اچھی اور بری تقدیر اللہ کی جانب سے ہے اور مرنے کے بعد دوبارہ جی اٹھنے پر ایمان لانا ہے، اس میں کہیں نماز کا تذکرہ نہیں ہے مگر ان کا فرمان ہے کہ نماز ایمان کی بنیاد ہے ،یہ دوسری بات ہے کہ اس سے ایک صفحہ بعد خود اس نے اس کا اعتراف کیا ہے کہ ”نماز اسلام کی ایک نہایت ہی اہم عبادت ہے،،۔ اس سے معلوم ہوا کہ موصوفہ اسلام، ایمان، ارکانِ اسلام اور ایمان کی بنیادوں کے فرق جیسی اہم اور بنیادی معلومات سے بھی لاعلم ہے تو اس کے دوسرے معاملات میں علم وفقہ کی کیا حیثیت ہوسکتی ہے؟؟
اشاعت ۲۰۱۰ ماہنامہ بینات , ربیع الاول:۱۴۳۱ھ - مارچ: ۲۰۱۰ء, جلد 73, شمارہ 
Flag Counter