Deobandi Books

ماہنامہ البینات کراچی ربیع الاول ۱۴۳۱ھ - مارچ ۲۰۱۰ء

ہ رسالہ

6 - 11
صحیح بخاری کی حجیت پر اعتراضات کا علمی جائزہ !
صحیح بخاری کی حجیت پر اعتراضات کا علمی جائزہ

”انڈیا کے ایک فاضل جناب شبیر احمد ازہر میرٹھی کی کتاب ”صحیح بخاری کا مطالعہ،، دو حصوں میں دار التذکیر لاہور سے بہت عرصہ قبل شائع ہوئی، جس میں بخاری شریف کی ایک سوپچاس سے زائد احادیث کو بزعم خود اصول حدیث سے موضوع روایات ثابت کیا گیا۔ ان میں سے ایک حدیث درج ذیل ہے، ازہری صاحب کے اعتراضات اور ان کے جوابات ملاحظہ فرمائیں،،۔
”حدثنا موسی بن اسماعیل قال اخبرنا ابوعوانة قال حدثنا موسی بن ابی عائشہ قال حدثنا سعید بن جبیر عن ابن عباس فی قولہ تعالی: ”لاتحرک بہ لسانک لتعجل بہ ،، قال: کان رسول الله یعالج من التنزیل شدةً وکان مما یحرک شفتیہ، فقال ابن عباس: فانا احرکہما کما کان رسول الله یحرکہما وقال سعید: انا احرکہما لک کما رأیت ابن عباس یحرکہما، فحرک شفتیہ، فانزل الله:” لاتحرک بہ لسانک لتعجل بہ، ان علینا جمعہ وقرآنہ“ قال: جمعہ لک فی صدرک وتقرأہ، فاذا قرأناہ فاتبع قرآنہ، قال: فاستمع لہ وأنصت، ثم ان علینا بیانہ ،ثم ان علینا ان نقرأہ۔فکان رسول الله بعد ذلک اذا أتاہ جبرئیل: استمع، فاذا انطلق، قرأہ النبی ا کما قرأہ۔“ (الجامع الصحیح الجزء الاول)
اس روایت پر ازہری صاحب کے اعتراضات:
محترم ازہری صاحب نے حدیث کی سند اور اس کے متن پر تقریباً آٹھ صفحات میں اعتراضات نکل کئے ہیں، جن کا حاصل یہ ہے:
۱…روایت کے مطابق حضرت ابن عباس نے فرمایا کہ: رسول اللہ ایسے ہونٹ ہلاتے، حالانکہ اس پر سوال ہوتا ہے کہ ابن عباس کو کہاں سے معلوم ہوا؟ ”سورة القیامة،، کے نزول کے وقت تو وہ نہ تھے؟دراصل یہ ابن عباس سے روایت ہے ہی نہیں، اگر ان سے مروی ہوتی تو وہ ضرور بتاتے کہ ان کو رسول اللہ نے بتایا یا کسی صحابی نے:
ایسے ہی ابن المسیب ہیں، اگر انہوں نے ابن عباس سے یہ روایت کی ہوتی تو وضاحت سے کہتے، انہوں نے بھی وضاحت نہیں کی، ان سے کسی نے کہہ دیا کہ ابن عباس ایسے کہتے تھے ،انہوں نے بھی بلاتحقیق اعتماد کرتے ہوئے بیان کردیا۔
۳:…مزید براں روایت کی سند میں ابن عباس اور ابن مسیب کے مابین انتقطاع ہے، اس حدیث کے مختلف طرق ہیں، سب میں ”عن ابن عباس،، ہے۔
۴:… علاوہ ازیں اس حدیث کو بیان کرنے والے محض ابن مسیب ہیں، دیگر تلامذہ ابن عباس بھی اس کو بیان نہیں کرتے، لہذا یہ روایت منقطع ہے، محدثین کے اصول کے مطابق صحیح روایت متصل السند ہوتی ہے، غالباً سعید نے یہ بات موسی سے نہ کہی ہوگی بلکہ یہ خود موسی بن ابی عائشہ کا طبع زاد اضافہ ہے۔
جواب
ازہری صاحب کے اعتراضات کا مرکزی نکتہ یہ ہے کہ انہوں نے ”انا احرکہما لک کما کان رسول الله یحرکہما،، کو مشاہدہ پر محمول کیا ہے، حالانکہ یہ الفاظ مشاہدہ پر بالکل دلالت نہیں کررہے، البتہ حضرت ابن عباس کا قطعیت کے ساتھ مذکورہ بالا جملہ ارشاد فرمانا، اس بات کی ضرور دلیل ہے کہ مذکورہ واقعہ مبنی برحقیقت ہے۔ازہری صاحب کایہ کہنا کہ اگر ابن عباس نے اس کو روایت کیا ہوتا تو وہ ضرور بتاتے کہ مجھ سے کس نے بیان کیا؟ یہ بات علم اصول حدیث کی روسے درست نہیں۔ محدثین کے اصول اور ان کی تحقیق کے مطابق اگر کسی روایت کی سند صحابی تک پہنچ جائے اوردیگر رواة میں انقطاع نہ ہو تو یہ مرسل کہلاتی ہے ،اور حدیث کی یہ قسم مقبول ہے۔ صحابی نے براہ راست آنحضرت ا سے سنا ہو (یعنی جس واقعہ کو صحابی نے بیان کیا ہے) یا کسی دوسرے صحابی سے سنا ہو۔مشہور محقق عالم مولانا عبد العزیز الفرہاروی اپنی کتاب ”کوثر النبی،، میں فرماتے ہیں:
”اذا روی الصحابی مالم یشاہدہ فحدیثہ یسمی مرسل الصحابی کروایة احداث الصحابة کالسبطین وابن عباس وابن الزبیر… والصحیح انہ موصول اذا غالب ان الصحابی لایروی الا عن مثلہ اھ،،۔
ترجمہ:۔”جب صحابی ایسا واقعہ روایت کرے جس کا مشاہدہ نہ کیا ہو تو یہ روایت مرسل صحابی کہلاتی ہے، جیسے چھوٹے صحابہ مثلاً حضرات حسنین، ابن عباس اور ابن زبیر کی روایت… صحیح بات یہ ہے کہ یہ متصل ہے جب کہ یقین غالب ہو کہ صحابی ہی سے روایت کررہا ہے،،۔
خود صحابہ کرام کا اس بات پر اجماع تھا کہ وہ ابن عباس کی روایات کو قبول کرتے، حالانکہ ان کا شمار چھوٹے صحابہ میں تھا، کسی نے بھی اس کی تحقیق کی ضرورت نہ سمجھی کہ ان کو یہ بات کہاں سے معلوم ہوئی؟ وجہ صرف یہی تھی کہ صحابہ کرام ایک دوسرے سے اور موقع بموقع خود رسول اللہ سے استفادہ کرتے رہتے تھے، اسی وجہ سے اجماع ہوگیا کہ مرسل مقبول ہے، مولانا ظفر احمد تھانوی فرماتے ہیں:
”…اما الاجماع: فہو ان الصحابة والتابعین اجمعوا علی قبول المراسیل من العدل ،اما الصحابة فانہم قبلوا اخبار عبد الله بن عباس مع کثرة روایتہ وقد قیل انہ لم یسمع من رسول الله سوی اربعة احادیث لصغر سنہ،،۔
ترجمہ:۔”باقی رہا اجماع: تو صحابہ وتابعین کا عادل شخص کی مرسل کو قبول کرنے پر اجماع ہے،صحابہ کرام نے ابن عباس کی روایات کو بکثرت ہونے کے باوجود قبول کیا، حالانکہ کہا جاتاہے کہ انہوں نے چھوٹی عمر کی وجہ سے براہ راست صرف چار حدیثوں کو رسول خدا سے سنا،،۔
حضرت براء بن عازب فرماتے ہیں:
”ما کل ما نحدثکم بہ عن رسول الله سمعناہ من رسول الله ولکن سمعنا بعضہ وحدثنا اصحابنا لبعضہ۔
ترجمہ:۔”ہم رسول اللہا سے جو بیان کرتے ہیں ،یہ سب ہم نے براہ راست نہیں سنا ہوتا بلکہ کچھ سنا ہوتا ہے اور کچھ آپ کے صحابہ کا بیان کردہ ہوتا ہے،،۔
بعض اہل اصول اسی مرسل کو مرفوع حکمی قرار دیتے ہیں، جس سے روایت کی اہمیت دو چند ہوجاتی ہے۔ یہ ساری بحث اس صورت میں ہے جب ہم فرض کریں کہ حضرت ابن عباس نے یہ بیان نہیں کیا کہ ا س کا مأخذ کیا ہے، جیساکہ محترم ازہری صاحب کا خیال ہے۔لیکن واقعہ یہ ہے کہ حضرت ابن عباس نے خود بیان فرمایا کہ ان کو خود رسول اللہ ا سے یہ بات معلوم ہوئی۔حافظ ابن حجر کہتے ہیں:
”…لکن یجوزان یکون النبیا اخبرہ بذلک بعد، او بعض الصحابة اخبرہ انہ شاہد النبی ﷺ والاول ہو الصواب، فقد ثبت ذلک صریحا فی مسند ابی داؤد الطیالسی، قال حدثنا ابو عوانة،،۔ (فتح الباری طبع ریاض ۱/۴۰)
ترجمہ:۔”لیکن یہ بھی ممکن ہے کہ خود رسول اللہ نے حضرت ابن عباس کو بتلایا ہو یا پھر بعض دیگر صحابہ کرام نے بتایا ہو کہ انہوں نے اس کا مشاہدہ کیا ہے، پہلی بات ہی درست ہے، یہ ابو داود طیالسی میں بالتصریح مذکور ہے،،۔
لیجئے! بات صاف ہوگئی کہ یہ روایت اصلاً مرفوع ہے۔ باقی ازہری صاحب کا یہ اصول کہ” ابن مسیب ضرور تصریح کرتے کہ کہاں سے معلوم ہوا،، درست نہیں، چنانچہ بخاری شریف کی ایک روایت (۲/۹۶۶ باب کیف الحشر) کی سند دیکھئے!
”حدثنا علی ،حدثنا سفیان، قال عمرو: سمعت سعید بن جبیر سمعت ابن عباس سمعت النبی ا …الخ،،۔
یہی روایت قدرے مختلف الفاظ سے اس طرح مروی ہے:
”حدثنا قتیبة قال :حدثنا سفیان عن عمروعن سعید عن ابن عباس قال: سمعت النبی ا ،،۔ (۲/۹۶۶ باب کیف الحشر)
حدیث کی دیگر کتب میں بھی ابن مسیب کا یہی طریق کار ہے، مثلاً ”سنن ابی داود،، میں ”عن سعید قال سمعت ابن عباس،، کے کلمات ہیں، یہی روایت آگے عن سعید عن ابن عباس کے کلمات سے مروی ہے۔ (ابوداود طبع لاہور ۲/۲۳۷)
درحقیقت اخبار ،انباء، تحدیث وعنعنہ میں فرق بہت بعد میں آیا، وگرنہ بالخصوص صحابہ کرام ان کو برابری کے درجہ میں لیا کرتے، لیکن جب اہل بدعت نے التباس اور اختلاط کا سلسلہ شروع کیا تو محدثین نے ان کو فرق سے بیان کرنا شروع کردیا۔حافظ ابن حجر ایک حدیث کے مختلف طرق نقل کرنے کے بعد تحریر فرماتے ہیں:
”ندل ذلک علی ان التحدیث والاخبار والانباء عندہم سواء، وہذا لا خلاف فیہ عند اہل العلم بالنسبة الی اللغة،،۔ (فتح الباری۱/۱۹۱)
ترجمہ:۔”یہ روایات کا اختلاف اس پر دلالت کرتا ہے کہ صحابہ کرام، تابعین کے ہاں تحدیث ، اخبار ، انباء سب برابر ہیں، بحیثیت لغة اس میں اہل علم کا کوئی اختلاف نہیں،،۔
ازہری صاحب کی یہ بات بھی درست نہیں کہ ابن مسیب اور ابن عباس کے مابین انقطاع ہے، ہماری نظر میں ان کے مابین انقطاع کا پہلا دعوی یہی ہے۔حافظ ابن حجر اور علامہ عینی دونوں نے لکھا ہے:
”واما سعید بن جبیر فرای ذلک عن ابن عباس فلانزاع،،(فتح الباری ۱/۴۰ عمدة القاری طبع دار الحدیث ملتان ۱/۱۲۲)…”
باقی رہے سعید! تو انہوں نے یہ حضرت ابن عباس کو کرتے دیکھا پس کوئی اعتراض ہی نہیں ،،۔
باقی یہ شرط اہل علم میں سے کسی نے بھی نہیں لگائی کہ اتصال اس چیز کا نام ہے کہ راوی مروی عنہ سے ہرہر روایت کی تصریح کرے کہ کہاں سے لی ، سنی یا نہیں۔ وکفی بہ جرحا۔ازہری صاحب کہتے ہیں کہ: ابن مسیب متفرد ہیں۔ گویا تفرد ان کی صحت کے لئے قادح ہے، یہ بات بھی درست نہیں ”ما تفرد بہ الثقة،، محدثین کے ہاں بچند شرائط مقبول ہے اور یہ روایت بھی اسی قبیل سے ہے ،اس کو ہم آگے حدیث میں بیان کریں گے۔
ہاں یہ سوال ضرور عرض کریں گے کہ اگر ما تفرد بہ الثقة ناقابل التفات ہے تو پھر بخاری شریف کی پہلی حدیث ”انما الاعمال بالنیات،، کو ازہری صاحب نے بلاتنقید چھوڑ دیا؟ حالانکہ اس کے مرکزی راوی یحی بن سعید ہی تن تنہا اس کو روایت کرتے ہیں اور وہ بھی یہ کہہ کر کہ انہوں نے منبر پر اس کو سنا؟حازمی کہتے ہیں:”تفرد بہ یحی بن سعید، وقد رویٰ عن یحی خلق کثیر“ (شروط الائمہ للحازمی طبع کراچی مع ابن ماجہ ۔۷۷) ․․․․”یحی ہی اس کو بیان کرتے ہیں، ہاں یحی سے بہت لوگوں نے اس کو روایت کیا،،۔
آگے ازہری صاحب نے موسی بن ابی عائشہ پر بہتان لگاتے ہوئے وضع کا الزام لگایا ہے، اور اس پر اپنے گمان کو دلیل بنایاہے۔اہل علم واہل عقل خود ہی فیصلہ فرمائیں کہ تحقیق اسی معیار کا نام ہے؟موسی بن ابی عائشہکے بارے میں علامہ عینی فرماتے ہیں:
”وری عن کثیر من التابعین وعنہ الاعلام، الثوری وغیرہ ووثقہ السفیانان ویحیی والبخاری وابن حبان،،۔ (عمدة القاری۱/۱۱۸)
ترجمہ:۔”موسی بن ابی عائشہ بہت سے تابعین سے بیان کرتے ہیں ،ان سے بھی بڑے ائمہ، ثوری وغیرہ روایت کرتے ہیں ،ان کوابن عیینہ ، ابن معین، بخاری اور ابن حبان رحمہم اللہ تعالیٰ ثقہ قرار دیتے ہیں۔ (فالی الله المشتکی)
اعتراض :۲
”مذکورہ بالا روایت کو اگر درست تسلیم کر لیا جائے تو سورة القیامة کی آیات میں باہمی ربط نہیں رہتا ہے، بلکہ ایک بے ربطی سی پیدا ہوجاتی ہے۔ ”لاتحرک بہ لسانک لتعجل بہ… الخ میں سات ضمیریں ہیں، اگر ان کو راجع الی القرآن مانا جائے تو پھر کوئی لفظی ومعنوی قرینہ ضرور ہونا چاہے، حالانکہ یہاں قرینہ نہیں ہے، صحیح بات یہ ہے کہ ان ضمائر کا مرجع یوم القیامة ہے اور خطاب کفار کو ہے، رہی یہ روایت تو یہ منکر ہے۔“
جواب
مذکورہ حدیث ان آیات کے شان نزول کے بارے میں ہے اور بظاہر سطحاً ایسے ہی معلوم ہوتا ہے کہ ماقبل ومابعد میں ربط نہیں، لیکن حقیقاً ربط ہے۔مزید گزارشات سے قبل ہم مختصرایہ ضرور پوچھنا چاہیں گے کہ ”ربط بین الآیات،، کی اپنی حیثیت کتنی ہے؟ کیا اس کو مدار بناکر روایات صحیحہ صریحہ متفق علیہا کو موضوع ومنکر قرار دینا درست ہے؟ ظاہر ہے کوئی بھی ذی شعور وذی فہم اس کی اجازت نہ دے گا۔
قرآ ن پاک کی آیات کے مابین ربط انسانی کدوکاوش کا نتیجہ ہے، یہی وجہ ہے کہ اس موضوع پر مہیا شدہ مواد کا اگر مطالعہ کیا جائے تو ہر مصنف جدا جدا توجیہات کرتے نظر آئیں گے، اب بھلا دیکھئے کہ انفرادی کوشش کو لے کر اجتماعی فیصلہ کو ٹھکرانا کیا سورج کو چراغ دکھانے کے مترادف نہیں؟
شاید یہی وجہ تھی کہ شیخ الاسلام عز الدین بن عبد السلام آیات کے مابین سرے سے ربط کو ڈھونڈنے اور اس کی کوششیں کرنے کے قائل ہی نہیں (الاتقان للسیوطی ۲/۱۰۸ نوع ۶۲، تفسیر طبری کے مشہور محقق عالم علامہ محمود شاکر المصری کی بھی یہی رائے ہے ”معارف،، دار المصنفین اعظم گڑھ انڈیا) کہ کہاں انسانی کوشش اور کہاں کلام خداوندی۔وفی الصبح، ما یغنیک عن المصباح
مزید براں آیات میں ایسی بھی ”بے ربطی،، نہیں کہ حدیث صحیح کو رد کردیا جائے، ہمارے متفقہ عرف میں بسااوقات متکلم بات کرتے کرتے درمیان میں کوئی دوسری بات کہہ دیتے ہیں جس کا نام جملہ معترضہ ہے، نحو کی بالکل ابتدائی کتب سے انتہائی کتب تک میں یہ آپ کو اقسام جملہ میں مل جائے گا۔
۱…چنانچہ ہم کہہ سکتے ہیں کہ یہ جملہ معترضہ درمیان میں کلام خداوندی میں آیا ہے۔
۲…”فن بدیع،، جس میں کلام کو لفظی ومعنوی حسن سے مزین کرنے کے اصول وضوابط ہیں، اس کی ایک قسم ”استطراد،، ہے۔ چنانچہ علم معانی کی کتب میں تحریر ہے۔
”الاستطراد: وہو الانتقال من معنی الی معنی آخر متصل بہ لم یقصد بذکر الاول التوصل الی الثانی،، ۔ (البلاغة الصافیة للشیخ بدخشانی ۳۲۹ دروس البلاغة)
ترجمہ:۔”ایک بات کو معنی (بحث ومفہوم) سے دوسرے معنی کی طرف منتقل کرنا یہ دوسرا معنی پہلے معنی سے ملا ہوا بھی ہو اور پہلے معنی کو دوسرے کے لئے وسیلہ نہ بنایا گیا ہو،اسے استطراد کہتے ہیں،،۔
۳… امام زمخشری جن کے ادب وعلم کے چرچے مشرق ومغرب میں یکساں ہیں ،وہ فرماتے ہیں: کہ” لاتحرک بہ لسانک لتعجل بہ،، ان آیات کے ماقبل ومابعد سبہی میں عاجلہ یعنی جلدی کی مذمت کی گئی ہے۔ (روح المعانی للآلوسی ۱۵/۲۴۷)
مصنف یعنی ازہری صاحب کے بیان کردہ ربط میں کوئی قباحت نہیں، بلکہ متقدمین میں سے بعض نے اس کو اختیار بھی کیا ہے اور علامہ آلوسی ایسے مفسر بھی اس کو مستحسن نظروں سے دیکھتے ہیں، لیکن یہ نصوص کے مخالف ہونے کی وجہ سے مردود ہے۔ علامہ آلوسی فرماتے ہیں:
”فالربط علیہ ظاہر جدا ومن ہنا اختارہ البلخی ومن تبعہ لکنہ مخالف الصحیح الماثور الذی علیہ الجمہور من ان ذلک خطاب لہ،،۔(روح المعانی للآلوسی ۱۵/۲۴۷)
ترجمہ:…”اس صورت میں آیات کا ربط بہت اچھا ہے، اس لئے اس کو بلخی وغیرہ نے پسندیدہ قرار دیا، لیکن یہ صحیح روایت اور جمہور امت کے مسلک کے خلاف ہے کہ خطاب آنحضرت کو ہے،،۔
یاد رہے کہ بلخی اور قفال مروزی نے ازہری صاحب کے بیان کردہ ربط کو مختار قرار دیتے ہوئے مذکورہ روایت سے سکوت اختیار کیا ہے۔ باقی حدیث مذکور کی صحت پر ضمائر کو قرآن کی طرف مرجوع ماننے کے قرائن درج ذیل ہیں:
۱… اجماع امت ، جیساکہ روح المعانی کے حوالے سے چند سطور قبل گذرا۔
۲…صحابی کا قول جوکہ حکماً مرفوع ہے۔
۳…مسند طیالسی کی روایت جس میں اس کا مرفوع حقیقی ہونا مذکور ہے۔(والله ہو الہادی)
اشاعت ۲۰۱۰ ماہنامہ بینات , ربیع الاول:۱۴۳۱ھ - مارچ: ۲۰۱۰ء, جلد 73, شمارہ 3

    پچھلا مضمون: شریعت میں بدعات کی روک تھام !
Flag Counter