Deobandi Books

ماہنامہ البینات کراچی ربیع الاول ۱۴۳۱ھ - مارچ ۲۰۱۰ء

ہ رسالہ

10 - 11
جامعہ بنوریہ سائٹ کے استاذِ حدیث مولانا عبدالمجید !
جامعہ بنوریہ سائٹ کے استاذِ حدیث مولانا عبدالمجید

جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن کے فاضل، حضرت اقدس مولانا حکیم محمد اختر صاحب کے خلیفہ مجاز، امام اہل سنت مولاناحضرت مفتی احمد الرحمن کے خادم اور جیل کے رفیق، جامعہ بنوریہ سائٹ کراچی کے استاذِ حدیث، غیر ملکی شعبہ کے نگراں، تعویذات و عملیات کے ماہر،فاضل عالم دین اور لائق مدرس جناب مولانا عبدالمجید ۴/ صفر المظفر ۱۴۳۱ھ ، مطابق ۲۰/ جنوری ۲۰۱۰ء بروز بدھ صبح تقریباً ساڑھے گیارہ بجے اچانک حرکت قلب بند ہونے سے رحلت فرمائے عالم آخرت ہوگئے۔ انا للّٰہ وانا الیہ راجعون۔ ان للّٰہ ما اخذ ولہ ما اعطی وکل شئی عندہ باجل مسمیٰ۔
مولانا عبدالمجید نے جنوبی پنجاب کے مشہور شہر لیہ میں ۱۹۶۲ء میں جناب مولانا عبدالعزیز صاحب کے دینی اور علمی گھرانے میں آنکھ کھولی۔ مولانا عبدالعزیز صاحب بنیادی طور پر ہری پور ضلع ہزارہ سے تعلق رکھتے تھے اور تعلیم و تبلیغ کی غرض سے اپنے آبائی علاقہ ہری پور سے ہجرت فرماکر لیہ آگئے تھے، اس لئے مولانا عبدالمجید صاحب اپنی مادری زبان کے علاوہ جنوبی پنجاب کی علاقائی زبان سرائیکی بھی اچھی طرح جانتے تھے، اس لئے عام طور پر ان کو لیہ کا اور سرائیکی باور کیا جاتا تھا۔
مولانا عبدالمجید صاحب کی ابتدائی تعلیم گھر پر والد صاحب کے پاس ہوئی، جب کہ درس نظامی کے لئے مختلف مدارس کا رخ کیا، چنانچہ آپ کچھ عرصہ جامعہ رشیدیہ ساہیوال میں بھی زیر تعلیم رہے، البتہ دورئہ حدیث کے لئے آپ نے ملک کی مایہ ناز اسلامی یونیورسٹی جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن کا انتخاب کیا۔
جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن سے ۱۹۸۲ء میں فاتحہ فراغ پڑھ کر تعلیمی و تدریسی زندگی کا آغاز کرنا چاہا تو آپ کے اساتذہ نے اس وقت کے نومولود ادارہ جامعہ بنوریہ سائٹ کراچی میں آپ کا بحیثیت استاذ درس نظامی تقرر فرمایا، یوں آپ ۱۹۸۳ء سے باقاعدہ جامعہ بنوریہ سائٹ کراچی سے منسلک ہوگئے، آپ  نے تقریباً دو سال تک یہاں تدریسی خدمات انجام دیں، اس دوران جب کینیا کے ایک بزرگ اورحضرت بنوری  کے شاگرد رشید اور امام اہل سنت حضرت مولانا مفتی احمد الرحمن  کے محب مخلص مولانامطیع الرسول صاحب نے حضرت مولانا مفتی احمد الرحمن  سے کینیاکے ایک دینی ادارہ کے لئے استاذ کی ضرورت کا اظہار کیا اور ان سے قابل اعتماد استاذ مانگا توامام اہل سنت حضرت مولانا مفتی احمد الرحمن  نے حضرت مولانا عبدالمجید صاحب کو کینیا کے اس مدرسہ کی تدریس کے لئے نامزد فرماکر کینیا بھیج دیا، چنانچہ آپ تقریباً ۸ سال تک کینیا میں تدریسی خدمات انجام دیتے رہے، آٹھ سال بعدآپ پاکستان آکر دوبارہ جامعہ بنوریہ سے منسلک ہوگئے۔
الغرض آپ ۱۹۹۳ء سے دوبارہ جامعہ بنوریہ کے شعبہ تدریس کے ساتھ منسلک ہوگئے، اس کے ساتھ ساتھ جامعہ بنوریہ کے غیر ملکی طلبا کا شعبہ بھی آپ کے حوالے کردیا گیا۔چنانچہ۱۹۹۳ء سے تادم واپسیں آپ درس و تدریس کے ساتھ ساتھ اس شعبہ کی نگرانی کی ذمہ داری بھی بحسن و خوبی نبھاتے رہے، اس دوران آپ ہر سال امریکہ ،افریقہ ،یورپ وغیرہ مختلف ممالک کے تعلیمی اور تبلیغی دورے کرتے رہے اور جامعہ بنوریہ کی فراہمی فنڈ کی خدمات بھی انجام دیتے رہے ،اس کے ساتھ ساتھ آپ نے حضرت مولانا حکیم محمد اختر صاحب مدظلہ سے اصلاح و ارشاد کا تعلق قائم کرکے سلوک واحسان کی منزلیں طے کرنا شروع کردیں،چنانچہ بہت جلد آپ کو اپنے شیخ کی جانب سے مجاز بیعت قرار دے دیا گیا، چنانچہ آپ نے جہاں پریشان حال خلق خد اور جن وجادو سے متاثرین کی فی سبیل اللہ خدمت انجام دیناشروع کی، وہاں آپ نے اصلاح و ارشاد کی مسند قائم فرماکر جامعہ بنوریہ میں ہفتہ واری مجلس ذکر اور وعظ و اصلاح کا سلسلہ بھی شروع فرمادیا، اور بہت تھوڑے عرصہ میں ان کا اچھا خاصا حلقہ ہوگیا اور جامعہ بنوریہ کے طلبا ان کے گرد پروانہ وار جمع ہونے لگے۔
مولانا موصوف مرنجان و مرنج طبیعت کے مالک تھے، آپ کا اخلاق، خوش خلقی، نیکی اور تقویٰ زبان زد عام و خاص تھا، اسی طرح اکابر و بزرگان کی خدمت اور ان کی راحت رسانی، ان کی گھٹی میں تھا، ان کا جذبہ تھا کہ تمام طلبا اپنے اسلاف و اکابر کی سیرت و کردار کا مثالی نمونہ بن کر دکھائیں، اس لئے وہ اپنے شعبہ کے تمام طلبا کو ذکر، اذکار، اوراد وظائف اور تہجد، اشراق اور اوابین کی خوب ترغیب دیتے تھے۔
برادرم محترم مولانا مفتی محمد نعیم صاحب کا بیان ہے کہ وہ ہمیشہ مجھے کہا کرتے تھے کہ تم مسجد میں تہجد ادا کیا کرو تاکہ طلبا آپ کو دیکھ کر آپ کی اقتدا اور تقلید کیا کریں، چنانچہ ان کا اپنا ذاتی معمول یہ تھا کہ سردی ہو یا گرمی محض طلبا کی ترغیب کے لئے جامعہ بنوریہ کی چھوٹی مسجد کے صحن میں تہجد ادا فرمایا کرتے تھے۔
مولانا کی نیکی کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ پنجاب کے ضلع بہاول پور کے ایک نہایت غریب و نادار طالب علم سے اپنی بیٹی کی نسبت طے کردی اور فرمایا :”میں نے صرف اور صرف اس کی نیکی کی وجہ سے اس سے اپنی بیٹی کا رشتہ طے کیا ہے۔“ اس دنیاداری اور ہوأ و ہوس کے دور میں ایسی مثالیں ناپید نہیں تو کم از کم کمیاب ضرور ہیں۔
مولانا موصوف بدھ کے روز حسب معمول مدرسہ کی شاخوں کے امتحانات کی نگرانی سے فارغ ہوکر مدرسہ واپس آئے، گاڑی سے گھر کی سبزی وغیرہ نکال کر اوپر رہائش گاہ تشریف لے گئے، گھر والوں سے کہا لگتا ہے شوگر تیز ہے، اس لئے کہ میرا جی گھبرا رہا ہے، گھر والوں نے زمزم میں کریلے کا پانی ملاکر پلایا، اتنے میں وضو کیا ،بچے کو کہا: گاڑی نکالو اور مجھے ڈاکٹر کے پاس لے چلو، بچے نے گاڑی نکالی اور ان کو سہارا دے کر نیچے لارہا تھا ،ابھی چار سیڑھیاں باقی تھیں کہ ایک دم زور دار آواز سے کلمہ پڑھا اور سیڑھی سے اُترتے اُترتے گرگئے، اڑوس پڑوس کے مکین حضرات کلمہ کی آواز سن کر اپنے گھروں سے نکل کر باہر آگئے ،مولانا کو اٹھایا اور جامعہ بنوریہ کی کلینک لے جانے لگے،مگر وہ کلینک جانے سے پہلے ہی راستے میں اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔
موصوف کی رحلت کی خبر آنا فانا شہر بھر میں پھیل گئی اور آپ کے متعلقین و منتسبین نے آنا شروع کردیا، مگر افسوس کہ ان کے دور دراز کے اعزہ ،اقربا کی شدید خواہش بلکہ اصرار پر جنازہ اور تدفین دوسرے دن بعد نماز ظہر تک موٴخر کرنا پڑی، دوسرے دن ظہر سے قبل مدرسہ میں مولانا کی میت دیدارعام کے لئے رکھی گئی، جامعہ بنوریہ ہی میں بعد نماز ظہر آپ کی نماز جنازہ ہوئی، چونکہ آپ کا اصلاحی تعلق حضرت مولانا حکیم محمد اختر صاحب مدظلہ سے تھا، اس لئے حضرت حکیم صاحب کے صاحبزادہ گرامی جناب مولانا حکیم محمد مظہر صاحب نے اپنے والد صاحب کی نمائندگی کرتے ہوئے اپنے والد ماجد کے خلیفہ مجاز کی نماز جنازہ پڑھائی۔ جنازہ میں مدرسہ کے علماء، طلبا کے علاوہ شہر بھر کے متعدد دینی ، مذہبی اور سیاسی راہنماؤں کے علاوہ متعدد علماء کرام نے بھی شرکت کی۔جنازہ کے بعد انہیں جامعہ بنوریہ کے قبرستان میں سپرد خاک کردیا گیا۔
بلاشبہ مولانا عبدالمجید صاحب کی اچانک رحلت جہاں ان کے گھر والوں کے لئے ایک عظیم صدمہ ہے، وہاں جامعہ بنوریہ اور اہل حق کے لئے بھی کسی سانحہ سے کم نہیں، اس دور میں جب کہ قحط الرجال ہے، ایسے نیک دل، مخلصین اور اصحاب فن کا یکے بعد دیگرے اٹھ جانا یقینا بہت بڑا سانحہ ہے۔
مولانا مرحوم نے اپنے پسماندگان میں اہلیہ ،دو بیٹوں اور بیٹیوں کو سوگوار چھوڑا ہے۔اور سارے بچے ہی غیر شادی شدہ ہیں، اللہ تعالیٰ مولانا مرحوم کی بال بال مغفرت فرمائے، جامعہ بنوریہ کو ان کا نعم البدل عطا فرمائے اور ان کے پسماندگان کو صبر جمیل کی توفیق عطا فرمائے۔
جامعہ علوم اسلامیہ اور ادارہ بینات کے کارکنان اس صدمہ کو اپنا ذاتی صدمہ سمجھتے ہوئے مرحوم کے پسماندگان کے غم میں برابر کے شریک ہیں۔ اللّٰہم اغفر لہ وارحمہ وادخلہ الجنة
بینات کے باتوفیق قارئین سے درخواست ہے کہ وہ مولانا مرحوم کو اپنی صالح ادعیہ میں فراموش نہ فرماویں اور ان کے لئے ایصال ثواب سے دریغ نہ فرماویں۔
اشاعت ۲۰۱۰ ماہنامہ بینات , ربیع الاول:۱۴۳۱ھ - مارچ: ۲۰۱۰ء, جلد 73, شمارہ 3

    پچھلا مضمون: علماء وطلباء کے خلاف خطرناک سازش !
Flag Counter