Deobandi Books

ماہنامہ البینات کراچی ذوالحجہ ۱۴۳۰ھ - دسمبر ۲۰۰۹ء,

ہ رسالہ

8 - 12
قرآن کریم میں وقوع نسخ اور اس کی تحقیق !
قرآن کریم میں وقوع نسخ اور اس کی تحقیق:

علمائے کرام کا آیات واجزاء منسوخہ کی تعداد میں باہمی اختلاف رہا ہے، متقدمین علماء نے نسخ کے بہت سے افراد شمار کئے ہیں، اس لئے کہ ان کے ہاں نسخ کے مفہوم میں بہت وسعت تھی ،یہ حضرات عام کی تخصیص ، خاص کی تعمیم، مطلق کی تقیید اور مقید کے اطلاق، استثناء کے وقوع وعدم وقوع ،حکم کے کلیتا منسوخ ہوجانے اور اس کی علت کے بے اثر ہوجانے سب پر نسخ کا اطلاق کیا کرتے تھے، جبکہ ان کے برعکس متأخرین علماء کی یہ سعی وکوشش رہی کہ اس باب نسخ میں کمی کی جائے ،حتی کہ شیخ جلال الدین سیوطی نے تو اس قدر تقلیل کی صرف بیس مواضع میں نسخ ثابت کیا اور حضرت شاہ ولی اللہ دہلوی جو ہند کی نابغہٴ روزگار شخصیات میں سے ہیں اور خاص وعام میں حجت شمار کئے جاتے ہیں انہوں نے توتقلیل میں مزید سعی کی ہے اور اپنی کتاب ”الفوز الکبیر“ میں صرف پانچ مواضع کو منسوخ شمار کیا ہے۔ ہمارے حضرت شیخ کشمیری فرمایا کرتے تھے: ”قرآن متلو میں کوئی بھی ایسی آیت نہیں جو حکماً منسوخ ہونے کے ساتھ ایسی ہوگئی ہو کہ اس سے جہت وطریق سے کوئی بھی حکم مستفاد نہ ہو یا کوئی بھی اس کامحمل نہ بن سکے ،بلکہ بیشک یہ منسوخ آیت بھی کسی ناکسی مرتبہ میں اور کسی ناکسی حالت میں اور کسی ناکسی زمانے میں حکم شرعی کا فائدہ دیتی ہے“۔ حضرت شیخ کی اس تحقیق سے واقعی ایک بہت اہم بات مستفاد ہوتی ہے اگر آپ اس کے اہل ہیں تو اس ”امرمہم“ کے استفادے کی لذت کو چکھ لیجئے ،اس لئے کہ بغیر چکھے انسان کسی شئ کی عمدگی اور ناعمدگی کا تعین نہیں کرسکتا ، اور یہ محاورہ تو کافی مشہور ہے کہ جو شخص چکھتا رہتا ہے چکھتا رہتا ہے وہ اس چکھی چیز کے متعلق حکمت وبصیرت بھی اسی قدر حاصل کرلیتا ہے۔ واللّٰہ الموفق والہادی الی الحق
قرآن کریم میں کوئی حرف زائد نہیں ہے:
حضرت فرمایا کرتے تھے کہ: ”قرآن کریم میں کوئی حرف بھی اس طرح زائد نہیں ہے کہ جس کا معنی ومطلب کی منظر نگاری میں کوئی اثر نہ ہو، ایسا ممکن ہی نہیں ہے“۔ راقم کہتا ہے کہ: ابن الاثیر نے ”المثل السائر“ ص:۱۴۵ پر باری جل شانہ کے ارشاد گرامی : ”فبما رحمة من اللّٰہ لنت لہم“ کے ذیل میں یوں تحریر فرمایا ہے: لفظ ”ما“ اس آیات مذکورہ میں زائد نہیں ہے‘ بلکہ یہ رسول اللہ ﷺ کوعطا کردہ اس نعمت کی جس کے ذریعے رسول اللہ ﷺ نرم گفتار ونرم گستر ہوئے ہیں‘ تفخیم وتعظیم بیان کرنے کے واسطے ہے اور اس طرح کی زیادتی کو محض فصاحت ہی کہا جاسکتا ہے اگر لفظ ”ما“ سے یہ کلام خالی ہو تو اس قدر تفخیم وتعظیم کامعنی حاصل نہ ہوگا ۔اسی طرح کی زیادتی زباء کے کلام میں بھی واقع ہوئی ہے: ”اما انہ لیس من عوز المواس‘ ولامن قلة الاواس ولکنہ شمیة ما اناس“ معنی کلام ولکنہ شیمة اناس سے بھی مکمل ہوسکتا تھا لیکن یہاں لفظ ”ما“ اس صاحب خصلت کی فخامت وعظمت کو نمایاں اجاگر کرنے کے لئے لایا گیا ہے۔ اگر ”ما“ اس کلام سے گرادیا جائے تو اس کلام میں وہ فخامت وجزالت باقی نہیں رہے گی، اس فخامت وعظمت کو اس کے اہل علمائے فصاحت وبلاغت ہی پہچان سکتے ہیں، نحویین کا یہ کہنا کہ:”یہ حرف یا لفظ زائد ہے“ ان کی مراد یہ ہواکرتی ہے کہ یہ حرف زائد ماقبل کو عمل کرنے سے مانع نہیں ہے، جیساکہ ایک دوسری جگہ پر وہ اس ”ما“ کو” کافة“ بھی کہتے ہیں یعنی یہ ما ”حرف عامل“ کو اس کے عمل سے روک دیتی ہے، اسی طرح اس آیت ”فبما رحمة من اللہ “ میں ”ما“ نے باء جارہ کے عمل کو موقوف نہیں کیا ہے منتہی ملخصاً۔
علامہ رافعی  اعجاز القرآن ص:۳۰۵ طبع ثالث میں تحریر فرماتے ہیں: وہ کلمات جن کے متعلق گمان کیا جاتا ہے کہ وہ زائد ہیں اور قرآن میں واقع ہوئے ہیں، جیساکہ نحویین حضرات باری جل شانہ کے اس فرمان گرامی ”فبما رحمة من اللّٰہ“ اور اس ارشاد اقدس ”فلما ان جاء البشیر“ میں ”ما“ پہلی مثال میں اور ”ان“ دوسری مثال میں زائد ہیں یعنی اعراب میں‘ توایک بے بصیرت شخص یہ گمان کر بیٹھا ہے کہ جس طرح یہ اعراباً وترکیباً زائد واقع ہیں تو معنی پر بھی نظم قرآن میں زائد واقع ہوئے ہیں، حالانکہ اس زیادتی میں تصویر کشی کا وہ رنگ مضمر ہوا کرتا ہے کہ اگر اس زیادتی کو حذف کردیا جائے تو کلام کا حسن اور اس کی جاذبیت جاتی رہتی ہے۔ اب پہلی آیت میں آپ علیہ الصلاة والسلام کی اپنی قوم کے متعلق نرم خوئی کی منظر کشی کی جارہی ہے اور یہ بیان کیا جارہا ہے کہ یہ نرم خوئی خداوند برتر وبالا کی نعمت ہے، اس بیان میں نرم خوئی کے معنی کی تاکید اور اس کی فخامت وعظمت کے بیان کو لفظ ”ما“ کے ذریعے لفظی وصف لاکر مزید بڑھایا جارہا ہے اور اس نکتہ سے بڑھ کر یہ ملاحظہ کیجئے کہ اس ”ما“ کی ادائیگی سے جو اللہ کریم کے لطف وعنایت کا احساس ہوتا ہے وہ احساس ‘ سیاق وسباق کی بلاغت کی رعایت رکھتے ہو ئے اس لفظ ”ما“ کے بغیر ہرگز پیدا نہیں ہوسکتا ہے۔
پھر یہاں آیت مذکورہ میں باء جارہ اور اس کے مجرور جو لفظ ”رحمت“ ہے کے ما بین اس فصل کی وجہ سے نفس معنی ومقصد میں تدبر کی طرف التفات کرتا ہے اور رحمت خداوندی کی بلندی کے لطیفہ پر فکر ونظر کو متنبہ کرتا ہے ،یہ تمام تر شعور واحساس ایک فطری امر ہے جو آیت بالا کی بلاغت میں جیساکہ آپ نے ملاحظہ کیا واضح ہوجاتا ہے ۔ دوسری آیت ”فلما ان جاء البشیر“ میں حرف ”ان“ زائد کے ذریعے اس فصل کی منظر کشی مقصود ہے جو فصل وتاخر یوسف علیہ السلام کی قمیص کے ذریعے خوشخبری سنانے اور یوسف علیہ السلام اور ان کے والد حضرت یعقوب علیہ السلام کے درمیان بوجہ دوری مسافت کے اس خوشخبری سنانے والے کے آنے اور پہنچنے کے درمیان واقع ہوا ہے اس طور پر کہ گویا حضرت یعقوب علیہ السلام اسی ”بشیر“کے منتظر ہیں اور اسی خبر کے سننے کے لئے مضطرب ہیں، اس اضطراب وقلق کو مؤکد کرنے اور خوشخبری سنانے والے کے آنے پر خوشی وسرور کی کیفیت کی توصیف ”کلمہ فاصل ”ان“ کے نون کا غنہ ہے۔اسی طرز تاویل پر جہاں بھی یہ کہا جائے گا اور گمان کیا جائے گا کہ یہ حرف زائد ہے، وہاں اسی قسم کے زائد معانی ومقاصد ہوا کرتے ہیں، اس لئے کہ اس محض زیادتی کا پایا جانا اور اس محض زیادتی کے معنی کا اقرار واعتراف کرنا قرآن کریم میں نقص وعیب کا موجب ہے ،جبکہ قرآن کریم ہرنقص وعیب سے برتر وبالا ہے۔انتہی
”العبرة لعموم اللفظ“
حضرت شیخ فرماتے ہیں کہ : علمائے اصول میں مشہور یہ قاعدہ واصل کہ: ”العبرة لعموم اللفظ لا لخصوص السبب“(اعتبارالفاظ کے عموم کا ہوتا ہے نہ کہ سبب کے خصوص کا) یہ قاعدہ اپنے عموم پر نہیں ہے، اس قاعدہ کے متعلق سب سے اہم نکتہ یہ ہے کہ متکلم کی غرض ومقصد کی جستجو کی جائے اور اس کو آشکارا کیا جائے ،یہ لازم نہیں کہ تمام احوال میں اس کے کلام کا منطوق اس کی غرض ومقصد کے عین موافق ومطابق ہوگا، بلکہ کبھی منطوق کلام متکلم کی غرض سے اخص بھی ہوتا ہے اور کبھی اعم بھی ہوتا ہے اور گاہ گاہ مساوی بھی ہوتا ہے۔اب محض الفاظ کے عموم کا اعتبار اس وقت ہوگا جبکہ شارع کی غرض کا تعین نہ ہوجائے اور شارع کے مطلوب ومراد معنی پر کوئی واضح دلیل نہ قائم ہوجائے، اس قاعدہ کا عموم لیا بھی کس طرح جاسکتا ہے،دیکھئے باری جل شانہ کا ارشاد ہے:”فاقرؤوا ما تیسر منہ“ کیا اس آیت سے مراد یہ ہے کہ سورہ فاتحہ کی قراء ت کئے بغیر صرف ایک آیت پر اکتفاء کرلینا نمازی کے لئے وظیفہ صلاة کو ادا کر لینے کے لئے کافی ہوگا؟ اور کیا ایک شخص نماز میں قرآن کی ایک آیت کے تلاوت کر لینے سے قرآن کے حکم کو پورا کرنے والا شمار ہوگا، جبکہ وہ ان امور کی رعایت نہ رکھے جو ہمیں خارج سے معلوم ہوئے ہیں؟ اور کیا قرآن کے حکم پر اس قدر عمل کافی ہوگا کہ نماز ‘ سورہ فاتحہ اور دیگر واجبات قراء ت کی تعیین کے بغیر ادا کرلی جائے؟ پس جب یہ بات ظاہر ہوئی تو معلوم ہوا کہ قرآن کریم ہمیں اس چیز کا حکم کررہا ہے جوشریعت میں معہود نہیں بلکہ شریعت میں اس کے علاوہ حکم دیا گیا ہے اور ایسا ہرگز ہرگز نہیں ہوسکتا کہ قرآن کچھ اور حکم بیان کرے اور شریعت میں کچھ اور حکم جاری ہو۔ جو شخص اس طرح کا خیال فاسد رکھے گا وہ طریق مستقیم سے بھٹکا ہوا اور مقصود شریعت سے بے بہرہ ہوگا ،بلکہ قرآن کریم کا مقصد اس امر قراء ت سے‘ قراء ت میں مریضوں میں اور مجاہدین کا خیال رکھتے ہوئے تخفیف برتنے کا بیان مقصود ہے اور ان خواص حضرات کے پیش نظر چونکہ قیام اللیل کا حکم مشقت وتکلیف سے بھر پور تھا، اس لئے باری تعالیٰ نے محض اپنے فضل وکرم سے تخفیف مرحمت فرمادی۔ جہاں تک سورہ فاتحہ کی رکنیت اور اس کے وجوب کا مسئلہ ہے تو یہ ایک علیحدہ مسئلہ ہے جو ایک دوسری اصل جس کا عنوان ”الزیادة علی القاطع بالظنی کاخبار الآحاد“ (یعنی قرآن کریم کے قطعی حکم پر ظنی مأخذ مثلاً خبر واحد سے زیادتی کرنا جائز ہے یا نہیں) ہے پر متفرع ہے، چنانچہ حنفیہ کے نزدیک مرتبہٴ ظنیت میں یہ زیادتی روا ہے یعنی قطعی حکم پر زائد ہونے والا یہ حکم امر ظنی بھی ہوگا ،اس کو قطعی کے حکم میں شمار نہ کیا جائے گا، اور اس پر عمل بہرحال واجب ہوگا اور شافعیہ کے نزدیک یہ زیادتی مرتبہ قطعیت میں ہوگی۔ حنفیہ نے قطعیت وظنیت کے مراتب میں فرق وامتیاز کو ملحوظ رکھتے ہوئے ہرایک کو اس کے مستحق مرتبہ بحسن وخوبی عطا کیا ہے۔ حنفیہ کے ہاں یہ عمومی تعبیر کہ: ”خبر واحد کے ذریعے کتاب اللہ پر زیادتی جائز نہیں ہے“ یہ تعبیر کچھ نامناسب سی معلوم ہوتی ہے۔ اس لئے کہ احناف کے ہاں بھی سورہ فاتحہ کے بغیر نماز ادا کرنے والے کو اگرچہ قرآن کریم کے قطعی حکم کی بجاآوری کرنے والا شمار کیا جائے گا ،لیکن یہ شخص بہرحال گناہ گار ضرور ٹھہرے گا اور اگر یہ ترک فاتحہ اس نے عمداً وبالقصد کی ہے تو اس پر نماز کا اعادہ بھی واجب ہوگا، جب کہ عمومی تعبیر کے پیش نظر اس زیادتی کو بھی‘ قرآن کریم کے بیان کردہ حکم کے مصداق میں ایک مکروہ زیادتی شمار کرنا لازم ہوگا، حالانکہ یہ کسی طور پر بھی مناسب نہیں۔ ٹھیک ہے کہ امر سے مراد امر کی غرض مدنظر رکھی جائے لیکن ان دومراتب منطوق قطعی اور معہود ظنی کے تفاوت کا خیال بھی از بس ضروری ہے، قطعیات میں اجمال کئی وجوہات: مثل وسعت وسہولت اور حکم کی بجا آوری میں آسانی پیدا کرنے کے لئے کی بناء پر ہوتا ہے، اس اصل کو محفوظ کرلینا چاہئے۔ حضرت شیخ کے کلام باالہام سے میں یہی سمجھا ہوں۔
راقم نے امام حافظ علامہ ابن دقیق العید کی کتاب ”احکام الاحکام“ میں بھی ایک مضمون دیکھا ہے جو ہمارے حضرت شیخ کے بیان کردہ فائدے کی مانند لطائف پر مشتمل ہے۔ ابن دقیق العید فرماتے ہیں: یہ قاعدہ کافی مشہور ہے کہ العبرة لعموم اللفظ لالخصوص السبب (اعتبار الفاظ کے عموم کا ہوتا ہے نہ کہ سبب کی خصوصیت کا) لیکن ایسے امر میں جہاں سیاق وسباق اور دیگر خارجی قرآئن عموم کی تخصیص اور متکلم کی واضح مراد تخصیص پر دلالت کررہے ہو ں اور ایسے امر میں جو محض سبب پر وارد ہواہو کے مابین فرق وامتیازملحوظ رکھنا وجوب کی حیثیت رکھتا ہے، ان ہر دوقسم کے امر کو ایک ہی طرز کا نہ سمجھ لینا چاہئے، اس لئے کہ مطلق عام کا کسی سبب کے تحت واقع ہونا یہ اس سبب کے ساتھ اس عام کی تخصیص کا متقاضی نہیں ہوتا۔ مثلاً باری جل شانہ کا یہ ارشاد: ”والسارق والسارقة فاقطعوا ایدیہما“ حضرت صفوان کے چادر چوری ہوجانے کے سبب نازل ہوا لیکن بدیہی اور اجماعی طور پر اس عمومی قاعدہ کی اسی خاص سبب کے ساتھ تخصیص کا کوئی تقاضا ومطالبہ نہیں ہے، البتہ سیاق وسباق متکلم کی اپنے کلام سے غرض ومقصد پر دلالت کیا کرتے ہیں اور یہی قرائن مجملات کی توضیح اور مختلف احتمالات کے تعین کی راہ ہموار کرتے ہیں اور ان کی طرف رہنمائی کرتے ہیں۔ (احکام الاحکام)
”احرف سبعہ“ کے متعلق تحقیقی کلام:
۱- علامہ ابوعبید فرماتے ہیں کہ: ان دو ابواب گذشتہ میں ہم نے جو حروف ذکر کئے ہیں وہ زوائد کہلاتے ہیں، علمائے قراء ت نے ان حروف کو اس حیثیت سے نقل اور روایت نہیں فرمایا کہ یہ حروف بھی اسی حرف کی مانند ہیں جو قرآن کریم کے ان دوگتوں کے درمیان ہے اور اسی بناء پر نماز میں قرآن اسی حرف پرپڑھتے ہیں اور اس خاص معروف کے قرآن کے منکر پر کفر کا فتویٰ بھی لگایاجاتاہے ،یہ معروف اور خصوصی حرف وہی ہے جو اس مصحف امام میں ثبت ہے، جس کو حضرت عثمان نے مہاجرین وانصار کے اجماع کے ساتھ نسخ وتالیف فرمایا اور اس حرف کے علاوہ دیگر حروف کو ساقط فرمایا ،پھر امت کا اسی حرف خاص پر اجماع واتفاق ہوگیا اور کسی حرف میں کوئی اختلاف باقی نہ رہا ،اب اس قرآن کو حامل عامی بھی ویساہی پہنچانتا ہے جیساکہ ایک عالم پہنچانتا ہے اور صدیوں سے یہ قرآن کریم متوارث چلا آرہا ہے،بچے‘ مکتب ومدرسہ میں اسی قرآن کریم کو سیکھتے چلے آرہے ہیں، یہ جمع ونسخ حضرت عثمان کے بڑے مناقب میں سے ایک عظیم منقبت ہے، بعض گمراہ لوگوں نے تالیف پر رد وقدح بھی کیا ہے لیکن تمام لوگوں پر ان کی گمراہی اور بے راہ روی آشکارہ ہوگئی ہے۔
جو مصحف حضرت عثمان نے جمع فرمایا تھا وہی قرآن آج بھی مسلمانوں کے ہمراہ موجود ہے ،اس کے منکر پر وہی حکم لگایا جائے گا جو کہ مرتد پر حکم لگایاجاتا ہے ، اولاً اس کو توبہ کرنے کی دعوت دی جاتی ہے اور توبہ سے انکار کرنے پر اس کو قتل کردیا جاتا ہے، اس کے علاوہ وہ حروف جن کا علم اسناد وروایات کی صورت میں منقول نہیں ہے، جنہیں خاص علماء ہی پہنچانتے ہیں ،عوام الناس ان حروف سے واقف نہیں ہیں ،ان حروف سے اہل علم کا مقصد یہ ہوا کرتا ہے کہ اس معروف قرآن کے حرف خاص کی تاویل وتفسیر میں ان حروف سے استشہادات ودلائل حاصل کریں اور ان کے ذریعے ان کو قرآن کریم کے معانی ومطالبہ اور وجوہ ومحتملات کے پہنچاننے میں راہنمائی ملے ،جیساکہ حضرت عائشہ  اور حضرت حفصہ کی قراء ت: ”حافظوا علی الصلوٰت والصلوٰة الوسطی صلاة العصر‘حضرت ابن مسعود کی قراء ت ‘ والسارقون والسارقات فاقطعوا ایمانہم‘ حضرت ابی بن کعب کی قراء ت: الذین یؤلون من نسائہم تربص اربعة اشہر فان فاء وافیہن‘ ابن عباس کی قراء ت: لاجناح علیکم ان تبتغوا فضلاً من ربکم فی مواسم الحج اسی طرح حضرت جابر کی قراء ت: فان اللّٰہ من بعد اکراہہن لہن غفور رحیم“۔
یہ مختلف قرأ ات اور اسی قسم کی دیگر کی قرأ ات قرآن کریم کے بیان کی ہی تفسیر کرتی ہیں، اسی قسم کی تفاسیر بعض تابعین کرام سے بھی منقول ہیں اور اس طرح تفسیر بیان کرنا مستحسن شمار کیا گیا ہے، جب تابعین کی تفاسیر پسندیدہ کہی گئی ہیں تو پھر جو تفاسیر کبارصحابہ سے منقول ہوں اور پھر یہ تفاسیر واقع بھی نفس قرأا ت کے درمیان ہوں وہ تو مزید تفاسیر میں مزید بلند مرتبت اور قوی ترین تفاسیر شمار کی جائیں گی۔ نیز تاویل وتفسیر کی درست پہچان کے لئے ان مختلف حروف سے مستنبط فوائد مزید برمحل اور بجا واقع ہوں گے اور یہ وہ علم ہے جس کی قدر ومنزلت عوام نہیں پہچان سکتے ‘ خاص علمائے کرام ہی اس کے فضل کو پہچان سکتے ہیں، اس نوع کی تفاسیر کثرت سے ہیں اور اگر ان میں آپ غور وتدبر فرمائیں گے تو ایک زکی فطین شخص کے لئے اس میں وسیع بیش بہا علمی خزانہ پایا جاتا ہے۔ احرف سبعہ کا مطلب ہرگز یہ نہیں ہے کہ صرف سات طریقوں پر پڑھا جاسکتاہو ،اس طرح تو قرآن میں کہیں موجود نہیں ہے بلکہ ہمارے نزدیک مطلب یہ ہے کہ قرآن مجموعی طور پر عرب کی مختلف لغات میں سے سات مختلف لغات پر نازل ہوا ہے جن میں ایک قبیلہ اپنی لغت پر قرآن کے حروف کی ادائیگی کرتا ہے، دوسرے قبیلے کے افراد اپنی لغت کے موافق جو پہلی لغت سے مختلف ہوا کرتی ہے اور تیسرے قبیلے والے ان دونوں لغات کے برخلاف اپنی لغت پر تلاوت کرتا ہے اسی طرح یہ سات لغات پائی جاتی ہیں پھر بعض قبائل ان حروف کے متعلق زیادہ خوش نصیب ہواکر تے ہیں اور ان کی لغت بنسبت دوسرے قبیلے کے زیادہ جاری ہوا کرتی ہے، یہ اختلاف لغات احادیث سمجھنے میں بھی معاون ہوتا ہے اور ان حروف کے معانی سمجھنے میں بھی جن کے معانی صرف لغات کے آئینے میں پرکھے جاسکتے ہیں۔ (مأخوذ از فضائل القرآن ابوعبید قلمب مخطوطہ)
فائدہ:
یہ حدیث مبارک: ”انزل القرآن علی سبعة احرف“ حضرت عمر ‘ حضرت عثمان‘ حضرت عبد اللہ‘ حضرت ابی بن کعب‘ حضرت معاذ بن جبل‘ حضرت حذیفہ‘ حضرت ہشام بن حکیم‘ حضرت ابن عباس‘ حضرت عبد الرحمن بن عوف ‘حضرت ابوہریرہ‘ حضرت انس وغیرہ کئی حضرات سے مروی ہے اور ان کے رواة صحابہ کی تعداد ۲۱ تک پہنچتی ہے اور علامہ ابو عبید القاسم بن سلام کے مطابق یہ حدیث متواتر ہے اور ان روایات کے طرق کے سیاق وسباق سے واضح طور پر معلوم ہوجاتا ہے کہ اس اختلاف قرأا ت سے غرض ومقصد آسانی اور سہولت پیدا کرنا ہے اور ان لوگوں کے لئے جو صرف اپنی لغت اور اپنے پہنچ کے عادی ہواکرتے ہیں‘ کسی لغت خاص کی بندش تنگی کو زائل کرنا ہے اور جب وہ اسی خاص حرف کے عادی ہوگئے اور خوب مشق آور ہوگئے تو یہ ”احرف سبعہ“ منسوخ ہوگئے اور صرف ایک حرف‘ جو لغت قریش تھی باقی رہ گیا اور اصل نزول بھی اسی لغت قریش پر ہوا تھا اور بقیہ حروف پر ابتداءً تخفیف اور سہل انگاری کے پیش نظر نازل ہوا اور پھر بعد ازاں یہ منسوخ ہوگئے۔
امام ثعلب‘ علامہ ابو عبید‘ امام ازہری اور دیگر علماء قرآن کے نزدیک ان احرف سبع سے مراد لغات سبعہ ہیں۔ پھر ان ”لغات سبعہ“ کا اختلاف یا تو کلمات کے اختلاف پر مبنی ہے جیساکہ: حتی اور عتی میں‘ الاشیم الفاجر میں‘ اقتل اور تعال میں‘ ہلم اور تعجل میں اور اسی طرح دیگر کلمات میں اختلاف مراد ہے یا مراد ‘ حرکات واعراب کا اختلاف ہے یا پھر لہجوں اور بوقت تلاوت کیفیت نطق کا اختلاف ہے، جیساکہ ادغام واظہار میں‘ تفخیم وترقیق میں‘ تسہیل وتحقیق میں‘ امالہ اشمام وغیرہ میں۔ چنانچہ مشق اور عادت بن جانے کے بعد کلمات کا اختلاف تو باقی نہ رہا‘ البتہ حرکات لہجوں اور کیفیت نطق کا اختلاف بہرحال برقرار رہا لیکن اس قسم کے اختلاف کو حرف واحد مخصوص یا پھر رسم الخط میں داخل کرلینا ممکن تھا ،چنانچہ حرف واحد ہی پر سب کا اجماع ہوگیا لیکن بہرحال ان حرف سبعہ سے قرأ ات سبعہ ہرگز مراد نہیں ہیں ،علامہ ابوشامہ نے اس پر اجماع نقل کیا ہے، کیونکہ یہ قراء ات تو خود نبی کریم ﷺ سے متواتر منقول ہیں اور قیامت تک باقی رہیں گی (ان شاء اللہ) یہ مبحث جو میں نے گذشتہ سطور میں بیان کی ،ابن قتیبہ اور ابو عبید کی آراء کا مجموعی خلاصہ ہے، علامہ ابن قتیبہ نے اپنے مذہب کی تفصیل اپنی کتاب ”تاویل مشکل القرآن“ میں بیان کی ہے ،ص:۶ سے اس بحث کی ابتداء ہوتی ہے وہیں مراجعت کی جاسکتی ہے۔
فائدہ:
قرآن کریم کی آیات مبارکہ کی ترتیب توقیفی اس مسلک پر امت کا اتفاق ہے ،البتہ ترتیب سور کے متعلق اختلاف ہے‘ بعض حضرات جن میں ابو جعفر النحاس ابوبکر بن الانباری‘ بھی شامل ہیں نیز علامہ بیہقی کا بھی یہی رجحان ہے ،فرماتے ہیں کہ یہ ترتیب بھی توقیفی ہے، اس مسلک کی تائید کئی روایات سے ہوتی ہے، بہرحال اس موقف کی تائید کرتا ہے جبکہ بعض دیگر حضرات اہل علم فرماتے ہیں کہ یہ ترتیب سور اجتہادی ہے، اس پر اجماع نقل کیا گیا ہے یا کہئے کہ جمہور علماء کی رائے یہی ہے جن میں امام مالک ‘ قاضی ابوبکر باقلانی اور دیگر کئی حضرات شامل ہیں ،بعض دیگر اہل علم حضرات کی رائے یہ ہے کہ: بعض سور کی ترتیب توتوقیفی ہے۔ اور بعض کی اجتہادی ہے ،مختلف روایات اور بیشتر قرائن اس موقف کی تائید میں پائے جاتے ہیں ،اولیٰ یہی ہے کہ یوں کہا جائے: ترتیب سور بالفعل توقیفی ہے‘ بالقول توقیفی نہیں ہے اور بالفعل توقیفی ہونا‘ رسول کریم ﷺ کے فعل اور مصاحف عثمانیہ کی ترتیب پر مبنی ہے، اسی بناء پر بعض صحابہ کے درمیان اسی ترتیب میں اختلاف بھی منقول ہے ،جیساکہ حضرت ابن مسعود نے اپنے مصحف کو ایک خاص طرز پر مرتب فرمایا، بہرحال چونکہ کوئی واضح ارشاد نبوی اور نص صریح آیات مبارکہ کی ترتیب کے مانند‘ سورتوں کی ترتیب کے متعلق نہیں تھی ،اس لئے اس ترتیب سوری میں کچھ اختلاف رائے رہا ہے، اسی موقف کی طرف غور وتدبر کے بعد راقم کے قلب کا میلان ہے۔ واللّٰہ اعلم بالصواب
اس مبارک رسالہ کی تالیف سے فراغت شب جمعہ ۱۸/رجب ۱۳۵۶ھ کو حاصل ہوئی ،اسی سال جمادی الاولیٰ کے اواخر میں اس رسالہ کی تالیف شروع کی گئی تھی ۔ اے اللہ تو اس رسالہ کو میری طرف سے قبول فرما اور اس کومحض اپنی رضا کا وسیلہ بنا، اس رسالہ کو اے میرے مولیٰ! اپنے مسکین اور عاجز بندے پر اپنے پاک کلام اوراپنی بابرکت کتاب مبین کے اسرار کی فتحیابی کا ذریعہ بنا اور غمگین بندے کے واسطے اپنے خفیہ خزانے سے باربارکتاب کے علوم کی طرف راہنمائی کا ذریعہ بنا ۔ اے اللہ کریم! قرآن عظیم کو میرے قلب کی بہار میری بصارت کے لئے نور، میرے غموں کی دوری اور میری پریشانیوں کا ازالہ بنا۔ اے اللہ میں تجھ سے تیری اس رحمت کا طلبگار ہوں جس کے ذریعے تو میرے قلب کی ہدایت فرمائے‘ میرے منتشر اور پراگندہ امور کو یکجا فرمائے، میرے خفیہ مقاصد کی تکمیل فرمائے ،میری الفت مجھ کو لوٹائے اور مجھے ہربرائی سے محفوظ ومأمون فرمائے۔
وصلی اللّٰہ تعالی علیٰ سید المرسلین وامام المتقین محمد وآلہ وصحبہ اجمعین آمین ۔یارب العالمین ‘ رب السماوات والارضین ورب الاولین والاخرین۔
اشاعت ۲۰۰۹ ماہنامہ بینات , ذوالحجہ:۱۴۳۰ھ - دسمبر: ۲۰۰۹ء, جلد 72, شمارہ 12

    پچھلا مضمون: سرور کونین ﷺ کے معاہدات !
Flag Counter