Deobandi Books

ماہنامہ البینات کراچی ذوالحجہ ۱۴۳۰ھ - دسمبر ۲۰۰۹ء,

ہ رسالہ

5 - 12
اخلاق حسنہ کی اہمیت وعظمت !
اخلاق حسنہ کی اہمیت وعظمت


اللہ تبارک وتعالیٰ نے مسلمانوں کو ایک بڑی دولت اور نعمت سے نوازاہے، جوپورے دین کو جامع اور اس کی تبلیغ کا بہترین ذریعہ ہے۔ وہ نعمت اور دولت اخلاق ہے، ہمارے نبی حضرت محمد رسول اللہ ا اخلاق کے اعلیٰ معیار پر تھے، چنانچہ آپ ا کی راز دار زندگی اور آپ کی زوجہ محترمہ حضرت عائشہ  فرماتی ہے کہ ”کان خلقہ القرآن،، ”آپ کے اخلاق کا نمونہ قرآن کریم ہے،، آپ ا نے اپنے ہرقول وفعل سے ثابت کیا کہ آپ دنیا میں اخلاق حسنہ کی تکمیل کے واسطے تشریف لائے تھے ،چنانچہ ارشاد ہے:
”بعثت لاتتم مکارم الاخلاق،، (مسند احمد ج:۴،ص:۱۲۲)
ترجمہ:۔” میں اخلاق حسنہ کی تکمیل کے واسطے بھیجا گیاہوں ۔
پس جس نے جس قدر آپ کی تعلیمات سے فائدہ اٹھاکر اپنے اخلاق کو بہتر بنایا اسی قدر آپ کے دربار میں اس کو بلند مرتبہ ملا، صحیح بخاری کتاب الادب میں ہے:
”ان خیارکم احسن منکم اخلاقا،، (بخاری ج:۲، ص:۸۹۲)
ترجمہ:-”تم میں سب سے اچھا وہ ہے جس کے اخلاق سب سے اچھے ہوں،،۔
حاکم کی روایت میں ہے کہ:”قیامت کے دن ترازو میں سب سے زیادہ جو چیز بھاری ہوگی وہ اخلاق حسنہ ہے، حسن اخلاق والا انسان اپنے اخلاق حسنہ سے دائمی روزہ دار اور دائمی نماز کا درجہ حاصل کرسکتا ہے،،۔
مصنف ابن شیبہ میں ہے: ”لوگوں کو قدرت الٰہی سے جو چیز عطا ہوئی ان میں سب سے بہتر اچھے اخلاق ہیں،،۔
ترمذی شریف میں ہے کہ: ”مسلمانوں میں اس کا ایمان مکمل ہے جس کے اخلاق سب سے اچھے ہیں،،۔
بیہقی میں روایت ہے: حضور ا نے ارشاد فرمایا: تم میں میرا سب سے پیارا اور نشست میں سب سے زیادہ نزدیک وہ ہے جو تم میں خوش خلق ہو اور مجھے ناپسند اور قیامت میں مجھ سے دور وہ ہوں گے جو تم میں بداخلاق ہوں گے،،۔
حضور ا کی ساری زندگی اخلاق حسنہ سے عبارت تھی، قرآن کریم نے خود گواہی دی۔ ”انک لعلی خلق عظیم،، (بلاشبہ آپ اخلاق کے بڑے مرتبہ پر فائز ہیں)
انسان کے حالات سے واقف بیوی سے بڑھ کر دنیا میں کون ہوسکتا ہے، حضرت خدیجہ  جو آپ کی زوجیت میں پچیس سال رہیں ،آغاز وحی کے زمانہ میں آپ ا کو ان الفاظ میں تسلی دیتی تھی ”ہرگز نہیں خدا کی قسم !خدا آپ کو کبھی غمگین نہیں کرے گا، آپ صلہ رحمی کرتے ہیں، مقروض کا بار اٹھاتے ہیں، غریبوں کی اعانت کرتے ہیں،مہمانوں کی ضیافت کرتے ہیں، حق کی حمایت کرتے ہیں، مصیبتوں میں لوگوں کے کام آتے ہیں،،۔ (بخاری ،ج:۱، ص:۲)
حضرت عائشہ  فرماتی ہیں: آپ ا کی عادت کسی کو برا بھلا کہنے کی نہ تھی ،برائی کا بدلہ برائی سے نہیں دیتے تھے، بلکہ درگذرفرماتے۔
لہذا ہم پر فرض ہے ،خصوصاً انبیاء کرام کے نائبین کو چاہئے کہ وہ لوگوں کے ساتھ اچھے اخلاق سے پیش آئیں، اگر کسی سے کوئی غلطی سرزد بھی ہوجائے تو درگذر کرنے والے بنیں، معذرت کو قبول کرنے والے بنیں، جیسے امام شافعی فرماتے ہیں:
اقبل معاذیر من یأتیک معتذرا
ان بر عندک فیما قال او فجرا
لقد اطاعک من یرضیک ظاہرة
ولقد اجلک من یعصیک مستترا
ترجمہ:-” معذرت کرنے والے کی معذرت کو قبول کرلے ، چاہے تمہارے خیال میں وہ بھلا ہو یا برا ہو، ظاہر میں تجھے راضی رکھنے والا تیرا مطیع ہے اور جرم کرتے وقت تجھ سے گھبرانے والے کے دل میں تیرا رحم ہے۔“
اب اللہ کے کلام کی طرف آتے ہیں، اللہ تعالیٰ کا ارشاد پاک ہے :
”خذ العفو وأمر بالعرف واعرض عن الجاہلین،،۔
تفسیر ابن کثیر میں ہے جب یہ آیت نازل ہوئی تو حضور اکرم ا نے حضرت جبرئیل علیہ السلام سے اس آیت کا مطلب پوچھا،حضرت جبرئیل علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ سے دریافت کیا، پھر فرمایا: اس آیت میں آپ کو یہ حکم دیا گیا ہے:
”ان اللّٰہ امرک ان تعفو عمن ظلمک وتعطی من حرمک وتصل من قطعک،،۔
ترجمہ:…”بے شک اللہ تجھے حکم دیتا ہے کہ جو آپ پر ظلم کرے آپ اسے معاف فرمادیں، جو آپ کو محروم رکھے آپ اسے عطا کریں اور جو آپ سے قطع تعلق کرے آپ اس سے صلہ رحمی سے پیش آئیں،،۔
غزوہ ٴ احد میں جب حضور ا کے چچا حضرت حمزہ  کو شہید کیا گیا اور بڑی بے دردی سے ان کے اعضاء کاٹ کر لاش کی بے حرمتی کی گئی تو نبی کریم ا نے لاش کو اس ہیئت میں دیکھ کر فرمایا کہ جن لوگوں نے حضرت حمزہ کے ساتھ ایسا معاملہ کیا ہے میں ان کے ستر آدمیوں کے ساتھ ایسا معاملہ کرکے چھوڑوں گا، اس پر یہ آیت نازل ہوئی، جس میں آپ کو یہ بتایا گیا کہ آپ کا یہ مقام نہیں ،آپ کے شایان یہ ہے کہ عفو ودرگذر سے کام لیں۔لہذا عفو سے مراد لوگوں کے اعمال واخلاق میں سرسری اطاعت کو قبول فرمالیا کریں، زیادہ تجسس وتفتیش میں نہ پڑیں اور ان کی خطاؤوں سے عفو ودرگذر کریں، ظلم کا انتقام نہ لیں، چنانچہ آپ ا کے اعمال واخلاق ہمیشہ اسی سانچے میں ڈھلے رہے جس کا پورا مظاہرہ اس وقت ہوا جب مکہ فتح ہوا تو ”لاتثریب علیکم،، کا عمومی اعلان فرمایا اور آپ کے جانی دشمن جو آپ کے قبضہ میں آئے، ان سب کو آزاد کردیا۔
دوسرا جملہ اس آیت مبارکہ کا ”امر بالعرف،، ہے۔
عرف بمعنی معروف ہراچھے اور مستحسن کام کو کہتے ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ جو لوگ آپ کے ساتھ برائی اور ظلم سے پیش آئیں، آپ ان سے انتقام نہ لیں، بلکہ معاف کردیں مگر ساتھ ان کو نیک کام کی ہدایت بھی کرتے رہیں گویا برائی کا بدلہ نیکی سے، ظلم کا بدلہ صرف انصاف سے نہیں بلکہ احسان سے دیں۔
تیسرا جملہ ”واعرض عن الجاہلین،،
جس کے معنی جاہلوں سے آپ کنارہ کش ہوجائیں مطلب یہ کہ ظلم کا انتقام چھوڑ کر آپ ان کے ساتھ خیر خواہی اور ہمدردی کا معاملہ کریں اور نرمی کے ساتھ ان کو حق بتلائیں، مگر بہت سے جاہل ایسے ہوتے ہیں جو اس شریفانہ معاملہ سے متأثر نہیں ہوتے، اس کے باوجود جہالت اور سختی سے پیش آتے ہیں تو پھر آپ ان کی دل خراش اور جاہلانہ گفتگو سے متأثر ہوکر ان ہی جیسی گفتگو نہ کریں ، بلکہ ان سے کنارہ کش ہوجائیں۔ پس جو اللہ پاک اور رسول اعظم اکی خوشنودی حاصل کرنا چاہتے ہیں وہ برے اخلاق سے دور رہیں اور اخلاق حسنہ کے پیکر بنیں تو دنیا کے بھی محبوب اور دنیا والوں کے بھی محبوب بنیں گے۔
اشاعت ۲۰۰۹ ماہنامہ بینات , ذوالحجہ:۱۴۳۰ھ - دسمبر: ۲۰۰۹ء, جلد 72, شمارہ 12

    پچھلا مضمون: قرآنی دستور کا نفاذ۔فلاح کی راہ !
Flag Counter