Deobandi Books

ماہنامہ البینات کراچی ذوالحجہ ۱۴۳۰ھ - دسمبر ۲۰۰۹ء,

ہ رسالہ

3 - 12
اسلام آباد میں دینی مدارس ومساجد کاقیام اورجناب سید اختر حسین قدس سرہ کی مساعی !
اسلام آباد میں دینی مدارس ومساجد کاقیام اورجناب سید اختر حسین قدس سرہ کی مساعی

اللہ تعالیٰ کا دین کسی فرد، افراد، جماعت برادری یا عالم وقاری کا محتاج نہیں، وہ جب اور جس سے چاہیں یہ کام لے سکتے ہیں۔
کسی انسان کا دین اور دینی امور کے لئے یا مساجد ومدارس کے قیام وسرپرستی کے لئے انتخاب دراصل اللہ تعالیٰ کا انتخاب ہوتا ہے، وہ چاہیں تو ایک خالص سی ایس پی افسر کو اس کے لئے منتخب فرماکر مامور فرمادیں اور نہ چاہیں تو بڑے سے بڑا عالم وفاضل بھی اس سعادت سے محروم ہوسکتا ہے۔
جناب سید اختر حسین صاحب بھی ایک خالص انگریزی خواندہ اور اصطلاحی الفاظ میں ایک خالص جدید تعلیم یافتہ اور سی ایس پی افسر تھے۔مگر اللہ تعالیٰ کے حسن انتخاب کی برکت سے ان کے دل میں مساجد ومدارس کے قیام کا غیر معمولی جذبہ کارفرما تھا،چنانچہ انہوں نے نئے آباد ہونے والے شہر اسلام آباد میں، مساجد ومدارس کے قیام واجراء اور ان کی ترقی وسرپرستی کا جو کام کیا،یہ انہیں کا حصہ تھا، حیرت ہوتی ہے کہ ایک سرکاری افسر ہونے کے باوجود دین ودینی مدارس ومساجد کے لئے اس قدر فکرمند ہونا اور ان کی راہ کی تمام رکاوٹوں کو دور کرنا اور اپنے منصب واختیارات اور تعلقات ودوستیوں کو اس کے لئے وقف کردینا، کسی کرامت سے کم نہیں۔
اس لئے ضروری معلوم ہوتا ہے کہ ان کی اس سلسلہ کی مساعی اور کارناموں کا تذکرہ کرکے ان کے بعد آنے والے مسلمانوں اور خصوصاً نئی نسل کو باور کرایا جائے کہ آپ کے اسلاف واکابر کا دین ومذہب کے معاملہ میں کیا طرز عمل تھا اور اب ہمارا کیا طرز عمل ہے، ایک دور وہ تھا کہ سرکاری افسران مسلمانوں اور ان کی نسلوں کے دین وایمان اور عقیدہ ومذہب کی حفاظت وصیانت کے لئے مساجد ومدارس قائم فرماتے اور آج اس کے برعکس ہمارے سرکاری افسران اور سی ایس پی لوگ انہیں مراکز اسلام کو اُجاڑنے اور ویران کرنے کے نہ صرف درپے ہیں بلکہ ان مراکز اسلام کو دہشت گردی کے اڈے قرار دے کر مسلمانوں اور ان کی نسلوں کو ان سے متنفر کرنے اور ان سے برگشتہ کرنے کے درپے ہیں۔صرف اس لئے کہ اسلام دشمنوں کی خوش نودی حاصل کرنے اور نئی نسل کو دین ومذہب سے دور کرنے اور ان کو ایمان وعقیدہ سے ناآشنا کرنے، بلکہ خالص گمراہی اور ضلالت کے گہرے غاروں میں دھکیلنے کا ناپاک کارنامہ انجام دیا جائے، لیجئے! جناب سید اختر حسین قدس سرہ کی دینی خدمات مدارس ومساجد کے قیام اور ان کی آبادی وسرپرستی کی ایک جھلک ملاحظہ ہو، وہ فرماتے ہیں:
اسلام آباد میں دینی اداروں کے قیام کا ایک مختصر تذکرہ
۷/اکتوبر ۱۹۵۸ء کو پاکستان میں مارشل لاء نافذ ہونے کے بعد دارالحکومت کراچی سے اسلام آباد منتقل کئے جانے کا فیصلہ کیا گیا۔اس فیصلہ کے تقریباً چار سال بعد حکومتی دفاتر کا کراچی سے راولپنڈی منتقل کیا جانا شروع ہوا اور مزید ایک سال گزرنے کے بعد راولپنڈی سے اسلام آباد۔ اس وقت اسلام آباد میں وزارت داخلہ میں متعین تھا۔ کراچی میں اس کا کیمپ آفس تھا۔ اس کا عملہ بتاریخ ۱۶/اکتوبر ۱۹۶۴ء اسپیشل ٹرین سے اسلام آباد کے لئے روانہ ہوا، اور دو دن بعد وہاں وارد ہوا۔مجھے جنرل پوسٹ کے سامنے ایک سرکاری مکان دیا گیا، تھوڑے دن بعد ماہ رمضان المبارک شروع ہونے والا تھا، آس پاس کوئی مسجد نہیں تھی، ہمارے مکان کافی فاصلہ پر تھے،ایک آب پارہ میں کوآپریٹیو مارکیٹ کے پاس دوسرا بس اڈے کے قریب کواٹروں میں سے ایک خالی تھا جس میں کچھ عرصے بعد لیڈیزانڈرسٹریل ہوم قائم ہوا، کوشش کرکے اس میں پنج گانہ نماز اور تراویح کے لئے اجازت حاصل کی اور جامع اسلامیہ کشمیر روڈ راولپنڈی سے اپنے کرم فرما حضرت مولانا قاری سعید الرحمن صاحب سے ایک حافظ اور سامع کی خدمات حاصل کیں۔ شہری دفاع کے عملہ سے ایک سائرن اور آلہٴ مکبر الصوت حاصل کیا، جنہیں افطار اور انتہائے سحر کے وقت استعمال کیا جاتا تھا۔ تین چار سال بعد کورڈمارکیٹ (مسقف) کے ساتھ ایک بڑی مسجد کی تعمیر مکمل ہونے کے قریب آئی تو وہاں ایک صاحب کو جو عالم نہیں تھے، اذان اور نماز پنج گانہ کی امامت کے لئے مقرر کیا، نماز جمعہ کے لئے راولپنڈی سے علماء کو مدعو کیا جاتا تھا، کبھی مولانا عبد الخالق صاحب خطیب جامع مسجد کوہ نور ، کبھی مولانا عبد الحکیم صاحب، بانی ومہتمم جامعہ فرقانیہ، کبھی مولانا صدر الدین اصلاحی اور کبھی قاضی شمس الدین جن کا قیام راولپنڈی سے کچھ دور تھا، تشریف لاتے تھے، جب یہ مسجد جس کا نام مسجد بلال رکھا گیا مکمل ہوگئی تو ایک سند یافتہ عالم کو جن کا اسم گرامی عنایت اللہ صاحب تھا، امام وخطیب مقرر کیا گیا، مگر یہ انتظام تھوڑے عرصے کے بعد تبدیل کرنا پڑا اور پامر لائنز راولپنڈی سے حضرت مولانا غلام حیدر صاحب کو بڑی جد وجہد کے بعد مسجد بلال میں امامت وخطابت کے لئے آمادہ کیا۔
اسلام آباد کی خالصتاً سرکاری فضا کی وجہ سے علماء کرام مشکل سے وہاں کے لئے دستیاب ہوتے تھے، حضرت مولانا موصوف کو امامت وخطابت کے ساتھ ساتھ مسجد میں مغرب یا عشاء کی نماز کے بعد قرآن مجید کے ترجمہ اور تفسیر کا فریضہ بھی تفویض کیا گیا اور اس کام کے لئے اضافی وظیفہ بھی مقرر کیا گیا، اطراف وجوانب میں رہائش پذیر حضرات کے بچوں کو قرآن شریف ناظرہ پڑھانے کا کام مؤذن صاحب کے ذمہ رہا۔
کچھ مدت گذرجانے کے بعد G6/5سیکٹر میں ٹیلیگراف آفس کے مقابل ایک اور جامع مسجد کی تعمیر کا آغاز ہوا۔ وہاں کام کرنے والے اور آس پاس رہنے والوں کے لئے نماز کی امامت اور بچوں کو ناظرہ قرآن شریف پڑھانے کے لئے ایک قاری صاحب کو متعین کردیا۔ مسجد کی تعمیر مکمل ہوجانے اور اسے نمازیوں کے لئے کھول دیئے جانے کے بعد شیخ القرآن حضرت مولانا غلام اللہ خان صاحب کی وساطت سے ایک خطیب صاحب کو مقرر کیا گیا، ان کا اسم گرامی نیاز احمد تھا وہ محکمہ اوقاف میں کہیں خطیب تھے کچھ عرصے کے لئے رخصت لے کر آگئے کہ اگر یہاں مستقل طور پر قیام فرما ہو سکے تو وہاں سے مستعفی ہوجائیں گے، لیکن اطراف وجوانب کے بعض ذی اثر حضرات نے ان کو خوف زدہ اور دل برداشتہ کردیا وہ باوجود ہر چند تشفی وتسلی کے ٹھہرنے پر آمادہ نہ ہوئے اور واپس چلے گئے۔
چند روز بعد جمعہ کا دن آپہنچا، کوئی بزرگ اس دن امامت وخطابت کے لئے دستیاب نہ ہوئے۔ بالآخر احقر نے خود ہی نماز جمعہ ادا کرائی اور اس کے بعد فوراً اپنے رفقاء سے مشورہ کرکے حضرت علامہ سید محمد یوسف بنوری کو ٹیلیفون پر اس صورتحال سے مطلع کیا اور ان سے گزارش کی کہ وہ اس مسجد میں خطابت وامامت کے لئے کسی موزوں عالم کا بند وبست فرمادیں، انہوں نے جلد جواب سے مشرف فرمایا کہ وہ مولوی عبد اللہ صاحب کو بھیج رہے ہیں، اگر وہ اس مسجد کے لئے موزوں سمجھے جائیں تو انہیں اس میں متعین کردیں، ورنہ متبادل انتظام کردیا جائے گا۔ احقر اور اس کے رفقاء نے مولانا عبداللہ صاحب کو عاریتاً متعین کردیا اور احقر نے ان کے قیام وطعام کا انتظام اپنے غریب خانہ پر کردیا۔
تھوڑے عرصہ بعد مولانا عبد اللہ صاحب کو مستقل طور پر خطابت کے لئے منتخب کرلیا گیا، ا س مسجد میں بھی مسجد بلال کی طرح درس قرآن مولانا عبد اللہ صاحب ہی سے شروع کرایا، مولانا اولاً سامعین کی تعداد کی قلت سے مطمئن نہ تھے، لیکن ان کو کام جاری رکھنے کی ترغیب دی گئی اور تسلی دی گئی کہ رفتہ رفتہ ان شاء اللہ آپ کی جمعیت خاطر کے لئے ترقی ہوتی رہے گی۔
الحمد للہ! ایسا ہی ہوا، زیادہ عرصہ نہیں گزرا تھا کہ سامعین کی تعداد کئی سو ہوگئی۔قاری محمد نیاز صاحب مذکور کے معاملہ کو پیش نظر رکھتے ہوئے احقر نے شیخ القرآن حضرت مولانا غلام اللہ خان صاحب سے درخواست کی کہ کچھ بڑے چاق وچوبند طلباء جامع مسجد میں قیام کے لئے مہیا فرمادیں جو مولانا عبداللہ صاحب کی حفاظت اور دل جمعی کا خیال رکھیں ، مولانا نے از راہ نوازش احقر کی درخواست کو منظور فرمایا اور طلباء مہیا فرمادیئے، تاکہ کوئی مولانا کو ڈرا دھمکا کر وہاں سے جانے پر مجبور نہ کرے، جیسا قاری نیاز صاحب کے ساتھ کیا گیا۔کچھ عرصے بعد محمد اقبال صاحب ڈائریکٹر میونسپل ایڈمنسٹریشن، سی،ڈی ، اے کے یہاں سے اطلاع ملی کہ وہ مسجد کو اپنی تحویل میں لینا چاہتے ہیں۔ مولانا عبد اللہ صاحب اب پوری طرح متمکن ہو چکے تھے، اس لئے ہم نے ان سے تصادم ضروری نہیں سمجھا اور مسجد ان کے زیر انتظام منتقل کردی، طلباء کو فارغ کریا گیا، اس کے بعد ڈائریکٹرمیونسپل ایڈمنسٹریشن نے مسجد بلال کے خطیب مولانا غلام حیدر صاحب کو فارغ کرنے کے لئے ایک مرتبہ نماز جمعہ کے خطبہ سے قبل ایک صاحب کو متعین کیا کہ مولانا کو منبر مسجد پر نہ جانے دیں، ان سے مزاحمت کرنا مشکل تھا۔ بالآخر احقر پیچھے کی صف میں جاکر بیٹھ گیا، مولانا جیسے ہی منبر پر جانے کے لئے اٹھے وہ صاحب بھی فوراً ان کو روکنے کے لئے اٹھ کھڑے ہوئے۔ احقر نے ان کا ہاتھ پکڑ کرروک دیا اور ان سے کہا کہ یہ مسجد ہمارے زیر انتظام ہے، مولانا کو کوئی نماز پڑھانے سے نہیں روک سکتا، آپ اپنی جگہ پر بیٹھ جائیں۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے انہوں نے میری عرض کو قبول کر لیا، کچھ عرصہ کے بعد ڈائریکٹر میونسپل نے باقاعدہ ہمیں پیشگی اطلاع دی کہ وہ مسجد بلال کو اپنی تحویل میں لینا چاہتے ہیں، ہم نے پھر وہی طریقہ اختیار کیا جو لال مسجد کے معاملہ میں کیا تھا یعنی مسجد کا انتظام مع عملہ ان کے سپر کردیا۔
اس کے بعد دیگر مقامات پر مساجد تعمیر کرنے کے لئے کوششیں شروع کی گئیں۔سی،ڈی، اے کے زیر اہتمام جہاں تعمیراتی منصوبہ شروع کیا جاتا وہاں تعمیراتی ساز وسامان پہنچایاجاتا اور اس کی حفاظت کے لئے عملہ ومزدور وغیرہ تعینات کئے جاتے، ہم مسجد کی جگہ کی سی، ڈی، اے سے نشاندہی کراکے مسجد کا معمولی ڈھانچہ کھڑا کردیتے تاکہ لوگ وہاں نماز ادا کرسکیں، بعد میں سی، ڈی، اے نے انہیں مقامات پر جو اس کے پلان کے عین مطابق تھے، پختہ عمارات تعمیر کرائیں، اس طرح ویران ، تجدید کردہ اور نئی قائم شدہ مساجد کی تعداد (۴۰) سے تجاوز کر گئی، ہر مسجد میں تعلیم القرآن کا مدرسہ بھی قائم کیا گیا۔
جیساکہ پہلے عرض کیا جاچکا ہے مولانا عبد اللہ صاحب کراچی سے تشریف لاکر احقر کے غریب خانہ قیام فرما رہے، کچھ عرصہ بعد انہوں نے اپنے اہل خانہ کو ڈیرہ غازی خان سے اسلام آباد بلانے کا ارادہ کیا، ان کے اور مولانا غلام حیدر کے لئے جوراولپنڈی میں قیام فرماتھے، احقر کیبنٹ ڈیویژن کے سیکریٹری جناب محمد حسین صاحب صوفی سی،ایس، پی کے دولت خانہ پر ان کے قریبی دوست کو ساتھ لے کر حاضر ہوا (سی، ڈی، اے ان کے ماتحت اداروں میں سے ایک تھا)اور ان سے اپنا مدعا بیان کیا، انہوں نے ہمدردانہ غور فرمانے کا وعدہ کیا، تھوڑے ہی عرصہ بعد دو سی ٹائپ کوارٹر بالمقابل لال مسجد دونوں خطباء حضرات کے لئے الاٹ کردیئے گئے، اس کے بعد کمیٹی نے مسلم لیگ راولپنڈی آفس کے سیکریٹری عباسی صاحب سے جناب سید شرف الحق صاحب کی وساطت سے رابطہ قائم کیا، انہوں نے مشورہ دیا کہ ایک ادارہ قائم کیا جائے جو امور دینیہ، مساجد اور مدارس پر توجہ دے اور حکومت کی نظر میں بااعتماد ہو، چنانچہ ایک ادارہ موسومہ بہ ادارہٴ عالیہ تنظیم المساجد قائم کیا گیا۔ اسے سوسائیٹیز رجسٹریشن ایکٹ کے تحت رجسٹر کرادیا گیا، اس خیال سے کہ اس ادارے کے قیام کو حکومت کا اعتماد حاصل رہے۔
احقر نے اس وقت کے مرکزی وزیر داخلہ جناب شہاب الدین صاحب کو اس کا سرپرست اعلیٰ ہونے اور جناب معز الدین صاحب سی، ایس، پی کو اس کی صدارت قبول فرمانے کی درخواست کی جو ان دونوں حضرات نے از راہ عنایت قبول فرمالی۔ احقر کے ایک مخلص محب ومکرم مولانا محمد عثمان ہزاروی جو جامعہ فرقانیہ میں ناظم تعلیمات تھے اور مولانا حسین احمد مدنی کے شاگرد اور خلیفہٴ مجاز بھی تھے، احقر کو اسلام آباد میں ایک دینی مدرسہ کے قیام کی اہمیت پر وقتاً فوقتاً متوجہ فرماتے رہتے تھے اور احقر کو اس کے لئے عملی اقدام کی پُر زور ترغیب دیتے رہے۔ احقر تو اپنی علمی بے مائیگی اور اس منصوبے کے لئے اپنی نااہلی کا عذر پیش کرتا رہا، مگر بالآخر ان کے اصرار پر ان کی خواہش کے احترام میں اس کے لئے ضروری انتظامات کا آغاز کرنا پڑا اور F6/3میں اسکول روڈ پر ایک پرانی مسجد ویران پڑی تھی، اس کے صحن میں تعمیرات کا کام کرانے والے ٹھیکیدار کے گدھے بندھے رہتے تھے اور اندر مزدور آرام کرتے تھے۔ سرکاری مکانات کے قریب مکینوں کے لئے کوئی مسجد نہ تھی، مسجد روڈ پر ایک تھی جو قدرے فاصلے پر تھی۔ احقر نے سی، ڈی، اے سے باقاعدہ رابطہ کرکے مسجد کو ٹھیکیدار سے خالی کرایا اور اس کی صفائی اور سفیدی کا کام کرایا، پانی کا کنیکشن لیا اور وہاں مسجد کے ساتھ حجرے میں چھوٹی سی درسگاہ قائم کرنے کا بندوبست کیا، پھر محترم ومکرم حضرت مولانا محمد یوسف بنوری کی خدمت میں عرض کیا کہ وہ اس مدرسہ کا افتتاح فرمائیں جب وہ اسلام آباد تشریف لائے تو احقر نے علماء اور دیگر معزز حضرات کو مدعو کرکے حضرت علامہ سے اس مدرسہ کا افتتاح کرایا اور دعا کرائی۔ ان کے ہمراہ اس وقت پاکستان میں لیبیا کے سفیر بھی موجود تھے۔
چھچھ کے علاقہ سے مولانا غلام حیدر صاحب ، خطیب مسجد بلال، کے توسط سے آئے ہوئے چھ طلباء داخل کئے گئے اور ان کو شالیمار 6/4میں جاری مدرسہ کے طلباء کے ساتھ وہیں مقیم کردیا۔ حضرت مولانا بنوری نے مولانا محمد عثمان سے ابتدائی چار جماعتوں کا نصاب مرتب کرایا اور اس پر اپنے دستخط ثبت فرمائے۔ احقر نے اس دستاویز کو بطور یادگار اور تبرک محفوظ کرلیا، حضرت بنوری نے احقر کو نصیحت فرمائی کہ زیادہ طلباء داخل کرنے کی کوشش نہ کریں، طلباء تھوڑے ہی ہوں لیکن مدرسہ سے حقیقتاً علماء بن کر نکلیں، حضرت بنوری نے اپنے کراچی کے جامعہ کے ایک فاضل استاد کو مقرر فرمایا۔ طلباء کا قیام مسجد کے حجرہ کے اندر درسگاہ ہی میں رہا اور ان کے کھانے کا انتظام احقر کے غریب خانہ پر، احقر نے بہت اصرار کیا کہ مدرسہ کا اہتمام یا تو حضرت مولانا محمد عثمان کو تفویض کردیاجائے یا مولانا عبد اللہ صاحب کو مگر ان دونوں حضرات نے احقر ہی کو یہ ذمہ داری تفویض کرنے پر اصرار کیا، حالانکہ احقر خود کو اس قابل نہیں سمجھتا تھا،مدرسہ کے اخراجات کے لئے احقر یا تو حضرت مولانا بنوری کی طرف رجوع کرتا تھا یا کراچی میں اپنے کرم فرماؤں کی طرف یا اپنے وسائل پر اکتفاء کرتا تھا۔
رفتہ رفتہ مدرسہ میں طلبہ کی تعداد میں اضافہ ہوتا گیا، کیونکہ ہرسال امتحانات کے بعد کامیاب طلباء کے لئے نئے درجات قائم کرنے پڑتے تھے۔ ضرورت کے پیش نظر ایک شعبہ حفظ وتجوید بھی قائم کیا گیا، چنانچہ مدنی مسجد کے حجرے میں گنجائش باقی نہ رہی۔
احقر نے کوشش کرکے ورکس ڈویژن سے F-6/4میں ایک E-Typeکوارٹرالاٹ کرایا اور مدنی مسجد سے مدرسہ اس کوارٹر میں منتقل کیا، مگر اس میں بھی زیادہ عرصہ تک اتنی وسعت باقی نہ رہی جس میں طلباء آسانی سے سما سکیں۔ اخراجات بھی بہت بڑھ گئے تھے، احقر کے ایک بہت ہی مخیر کرم فرما سیٹھ ہارون جعفر صاحب ایک روز غریب خانہ پر تشریف لائے، میں نے ان سے عرض کیا کہ ایک مدرسہ ہے، اس کے اخراجات سات،آٹھ ہزار روپے ماہانہ تک ہیں، انہوں نے فرمایا کہ اتنی سی رقم کے لئے کسی سے کہنے کی ضرورت نہیں وہ خود ہی اتنی رقم مہیا کردیا کریں گے، کچھ عرصہ تو اس طرح کام چلتا رہا لیکن درجات تعلیم کے سال بہ سال اضافہ کی وجہ سے مزید وسعت کی سخت ضرورت پیش آئی، ایک روز احقر E-7سیکٹر کے گرین ایریا میں ایک دور افتادہ چک کی غیر آباد مسجد میں ایک مولوی صاحب تلاش میں پہنچا وہ صاحب تو ملے نہیں لیکن مجھے معاً خیال آیا کہ کاش یہاں ایک درس گاہ قائم ہوجاتی جو شہر سے الگ بھی نہ ہوتی اور نہ زیادہ دور۔ اس سلسلہ میں احقر نے ایک مرتبہ پھر سیٹھ ہارون جعفر صاحب ہی سے رجوع کیا، انہوں نے کہا کہ پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے، میں ایک عمارت تعمیر کرا کے مہیا کردوں گا، چنانچہ انہوں نے وہاں تعمیر شروع کرادی، کام لنٹل لیول تک ہی پہنچا تھا کہ C.D.Aکے چیئرمین گردیزی صاحب نے بلڈوزر بھیج کر عمارت منہدم کرادی۔ مولانا عبد اللہ صاحب نے مجھے بذریعہ ٹیلیفون اطلاع دی، احقر ان دنوں مظفر آباد میں حکومت آزاد جموں وکشمیر کا سیکریٹری محکمہ جات مالیات وامداد باہمی تھا، دور وز بعد احقر اسلام آباد آیا اور گردیزی صاحب سے ملا ،ان کو تحریری یاد داشت بھی پیش کی نہ تو مجھے ان سے کسی قسم کی مدد کی توقع تھی نہ ہی انہوں نے میری یادداشت پر غور کرنا مناسب سمجھا، چنانچہ احقر نے اپنے کرم فرما محترم جناب ایڈمرل محمد شریف صاحب کی طرف رجوع کیا جو اس وقت نیول چیف اور ڈپٹی چیف مارشل لاء ایڈمنسٹر تھے۔ احقر نے ایک محضرنامہ بنام صدر اور چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر جناب جنرل ضیاء الحق صاحب کو پیش کرانے کے لئے مرتب کیا۔ایڈمرل صاحب موصوف دامت برکاتہم نے میری درخواست پر ہمدردانہ غور فرمایا اور اسے جنرل صاحب کی خدمت میں پیش کیا، جنرل صاحب نے اس وقت کے وزیر داخلہ محمود ہارون صاحب کو انکوائری آفیسر مقرر کیا، میں نے اپنے ذاتی ذرائع سے گرین ایریا میں تعمیر شدہ ۱۳/عمارتوں کی فہرست اور ان کی تصاویر مہیا کیں، یہ عمارتیں ایک دوسرے فرقہ کی تعمیر کرائی ہوئی تھیں۔ محمود ہارون صاحب نے جنرل صاحب کی خدمت میں پیش کرنے کے لئے ایک رپورٹ تیار کی جس میں یہ سفارش کی گئی تھی کہ ہمارے ادارے کو گرین ایریاکے علاوہ کہیں اور اراضی دی جائے ،جب مجھے اس بات کا علم ہوا تو میں نے ایک اور محضرنامہ تیار کیا اور اس میں منہدم کی گئی عمارت پر لاگت کی رقم کا ذکر کرتے ہوئے اظہار کیا کہ اگر موجودہ بنیادوں پر عمارت تعمیر نہ کی گئی تو اس پر لگائی ہوئی خطیر رقم ضائع ہوجائے گی، جب گرین ایریا میں ۱۳/عمارتیں بغیر سی، ڈی، اے کی منظوری حاصل کئے پہلے سے تعمیر کی جاچکی تھیں اور جناب گو تم بدھ کا مجسمہ مع بعض لوازمات کے موجود تھا، تو اب زیر بحث تعمیر کی ممانعت کیوں کی جارہی تھی؟ یہ محضرنامہ بھی احقر نے محترم ومکرم جناب ایڈمرل صاحب کے توسط سے جنرل صاحب کی خدمت میں ارسال کیا، جنرل صاحب نے اس پر ہمدردانہ توجہ مبذول فرمائی اور ہمیں موجودہ بنیادوں پر تعمیر کی اجازت مرحمت فرمانے کے ساتھ ساتھ حکومت کی طرف سے چار لاکھ روپے بطور تلافی مافات ادا کئے جانے کا حکم صادر فرمایا۔
الغرض جناب سیٹھ صاحب موصوف نے تقریباً ۳۳/لاکھ روپیہ صرف فرماکر مدرسہ کی عمارت مکمل کرادی، مدرسہ وہاں منتقل کردیا گیا، سیٹھ صاحب اس کے بعد ہرماہ تقریباً ۶۰ سے ۷۰ ہزار روپیہ ماہوار مدرسہ کے اخراجات کے لئے عنایت فرماتے رہے، اس کے علاوہ اتفاقی اخراجات کے لئے بھی رقوم عطا فرماتے رہے۔
ایک روز انہوں نے فرمایا کہ تم تو جانتے ہی ہو میں دل کا مریض ہوں، نہ جانے کب کیا ہوجائے، میرا ایک بیٹا ہے جو ابھی کم سن ہے، ا سکا نام فرید ہے ، ہوسکتا ہے وہ بڑا ہوکر میرے بعد اپنے نام کی رعایت سے اس مدرسہ کی طرف متوجہ ہو، اگر اس کا نام مدرسہ سے منسلک کردیا جائے تو کیا ہی اچھا ہو، میں نے ان کی خواہش کا احترام کرتے ہوئے ادارہ ٴ عالیہ تنظیم المساجد کی مجلس عاملہ کی منظوری حاصل کرکے اس کا نام جامعة العربیة الاسلامیة الفریدیة رکھ دیا۔
۱۹۸۵ء میں میرا تبادلہ اسلام آباد سے کراچی ہوگیا، میں نے اس کا اہتمام حضرت علامہ محمد یوسف بنوری رحمہ اللہ کے ایک نو مسلم شاگرد جو امریکی نژاد تھے، ان کے سپرد کردیا، ان کا اسلامی نام یوسف طلال تھا، میرے چلے آنے کے کچھ عرصہ بعد سیٹھ صاحب کی طرف سے دفتری کام کے لئے متعین حفیظ اللہ صاحب اور مولانا عبد اللہ صاحب کے درمیان طلباء کے معاملہ اور دیگر بعض امور پر کچھ اختلافات ہوگئے ، سیٹھ صاحب نے اس جامعہ سے بادل ناخواستہ دست کشی فرمالی۔ احقر نے مدرسہ کے اہتمام وانصرام کی ذمہ داری مولانا عبد اللہ صاحب کے سپرد کردی۔
اشاعت ۲۰۰۹ ماہنامہ بینات , ذوالحجہ:۱۴۳۰ھ - دسمبر: ۲۰۰۹ء, جلد 72, شمارہ 12

    پچھلا مضمون: مسائل اعتقادی واجتہادی کی پہچان !
Flag Counter