Deobandi Books

ماہنامہ البینات کراچی ذوالحجہ ۱۴۳۰ھ - دسمبر ۲۰۰۹ء,

ہ رسالہ

4 - 12
قرآنی دستور کا نفاذ۔فلاح کی راہ !
قرآنی دستور کا نفاذ۔فلاح کی راہ


اُلو ہیت اور کبریائی کے اعتبا ر سے جس طرح اللہ تعالیٰ کو اس کی پیدا کردہ تما م مخلوقات پر برتری حاصل ہے کہ وہ خا لق ہے اور یہ مخلوق !،اسی طرح قرآ ن کریم کی صورت میں اس کا اتارا ہوا سماوی قانون بھی دنیوی اور انسانی وضع کردہ قوانین سے بلحاظ درجہ بلند و ارفع ہے ۔چونکہ انسان کے تدوین کردہ قوانین ہر زمان و مکان کی ضروریات پورا کرنے سے قاصر ہوتے ہیں ۔اس لئے ان میں وقتاًفوقتاً ترامیم کی جاتی ہیں ۔تاکہ وہ وقت کے ساتھ ساتھ چل سکیں ۔بخلاف اس کے کہ وہ دستور جو اوراقِ قرآنی کی صورت میں اس امّت کو عطا ء ہوا تا قیامت زمان و مکان کی ہر ضرورت کو بخوبی پورا کرتا ہے اور ہر لحاظ سے مکمل ہے۔اس میں کسی قسم کی ترمیم،اضافے یا کمی کی گنجائش نہیں ۔اللہ تعالیٰ نے اس میں سراسر خیر و برکت اور پوری کی پوری ہدایت نازل فرمائی ہے ۔ھدیً لِلنَّاس ہے اور اس کی وساطت سے اپنی نعمتیں نوع انسانی پر تمام کردی ہیں ۔کوئی بھی فردو بشر خواہ اس کا تعلق کسی بھی رنگ و نسل اور خطہء ارضی سے ہو، قرآنی دستور کے سامنے گردن نہاد ہوکر اس کے فیوض و برکات سے مستفید ہو سکتا ہے ۔اس دستور کو اپنا کر نہ صرف اس فانی اور چند روزہ عارضی زندگی کی کامرانیاں اور سرفرازیاں حاصل کر سکتا ہے اور ہر میدان میں ترقی اور سرخروئی کے منازل طے کرسکتا ہے۔بلکہ اس کے ذریعے بعد از ممات کی اس نہ ختم ہونے والی زندگی میں نجات اور کامیابی کا بلا شک و شبہ دعویٰ کر سکتا ہے جو ایک مسلمان کے ایمان کا ضروری جز ہے اور جس سے شعوری یا لا شعوری طور پر ہر شخص آگاہ ہے۔ خدا وند عز وجل کی طرف سے اس دستور کے ساتھ مبعوث ہونے والی ہستی ،وہ ہستی ہے جس کے بارے میں فرمان الٰہی ہے کہ ”نہیں بھیجا ہم نے آپ کو مگر رحمت تمام عالمین کیلئے “مقام فکر کہ جو کچھ بھیجا گیا اس کے متعلق دعویٰ کہ اس میں شفا ء ہے اور رحمت ہے مومنوں کے لئے، اور جس کے ہاتھ بھیجا گیا ہے وہ رحمت للعالمین ہے جس نے اپنے اُسوٴحسنہ اور کردار کے عملی مظاہرے سے یہ ثابت کرکے دکھا دیا کہ اس دستور الٰہی پر عمل پیرا ہونے سے دنیا و آخرت کی کامیابی نصیب ہوتی ہے۔توپھر ایک مسلمان کے لئے ا س کے سوا اور کوئی چارہ کارہی نہیں رہتا کہ وہ اسے پورے طور پر اپنائے اور اپنے لئے مشعل راہ بنائے ۔
بلاشبہ دنیا کے تمام دساتیر انسانی زندگی کی معاشرتی ، معاشی ، اقتصادی اور سیاسی پہلووٴں کا احاطہ کرتے ہیں اورانسانی اقدار کو صحیح سمت میں متعین کرکے انسان کی دنیاوی زندگی کو باقاعدہ کامیاب اور باسہولت بنانے کی ضمانت دیتے ہیں لیکن قرآن وہ واحد دستور ی دستاویزہے جو اپنے پیروکار کو موت کی بعدوالی ابدی زندگی میں بھی کامیابی کی ضمانت فراہم کرتاہے، اس لحاظ سے یہ دنیاوی دستاتیر سے ممتاز ہے۔ جب تک مسلمان اس آسمانی دستور سے روابط استوار کئے رہے ، اس کی تعلیمات پر سختی سے کاربند رہے ، ہر شعبہ حیات میں اس کی راہنمائی میں چلتے رہے ، دنیامیں ان کی دھاک تھی ، اک عالم ان سے لرزہ براندام تھا،لیکن جوں جوں انہوں نے رشد وہدایت کے اس سرچشمے سے روگردانی اختیار کی، اس سے سیراب ہوناضروری خیال نہ کیا ، نئے ادوار کی نام نہاد ترقی یافتہ تہذیبوں کی تقلید میں یہ درس انقلاب فراموش کرنے لگے اور اس کے سوا دوسروں کوروشنی کے مینار سمجھنے لگے ،اس کی خیروبرکت سے محروم ہوتے گئے، رعب جاتارہا ،مرکز یت ختم ہوتی چلی گئی ، بٹتے گئے ، سمٹتے گئے اور آج باوجود اس حقیقت کے کہ افرادی قوت کے لحاظ سے مسلمانوں کا شمار اقوام عالم میں سرفہرست ہے، انڈونیشا سے لیکر مراکش اور وسطی افریقہ تک چھوٹی چھوٹی ٹکڑیوں میں منقسم نظرآرہے ہیں ، اجتماعیت مفقودہے ، سامراجی ، استعماری اوراسلام دشمن قوتیں دن رات اس کے درپے ہیں کہ مسلمان اسی طرح ایک دوسرے سے الگ تھلگ ، غیر متحد، بلکہ ہوسکے توایک دوسرے سے برسر پیکار رہیں ،تاکہ ان کی قوت ہمہ وقت منتشر رہے، ان کی شیرازہ بندی نہ ہو اور وہ یکجا ہوکر استعمار پسندوں کی ریشہ دوانیوں کے تاروپود نہ بکھیرسکیں ،بلکہ ان کے دست نگر ہوں او رآپس کے معاملات اور تنازعات حل کرنے میں بھی ان کی مددو تعاون کے محتاج ہوں۔
مقام افسوس ہے کہ آج مسلم ممالک تقریباً سب کے سب اس سحر سامری میں بری طرح گرفتار ہیں ،صدیوں میں ان میں اتحاد بین المسلمین کا علمبردار ، کوئی شاہ فیصل جنم لیتاہے تووہ بھی دشمنان اسلام کی آنکھوں میں کانٹے کی طرح کھٹکتاہے اور ان کی گھناوٴنی سازشوں کی بھینٹ چڑھ جاتاہے، مسلمانوں کی بے حسی ، غفلت ، ناعاقبت اندیشی اور کتاب رشد وہدایت سے لاتعلقی نے انہیں طرح طرح کے مصائب سے دوچا رکیا ہے۔ آج کویت ، عراق ، فلسطین ، لبنان ، افغانستان ، کشمیر ، فلپائن ، اورسری لنکا میں مسلمان تختہٴ مشق بنے ہوئے ہیں ، کیاذلت وخواری مسلمانوں ہی کا مقدر بن گیاہے ، کیامسلمان ا س پستی میں سد ا رہنے کے لئے زندہ رہیں گے ؟کیا فلسطینی ، افغان ، اور کشمیری مہاجرین سدا دوسرے دیاروں میں کیمپوں میں سڑتے رہیں گے ؟ کیا سامراجی اور طاغوتی طاقتیں مسلم اتحاد کو پارہ پارہ کرنے ہمیشہ یونہی سرگرم عمل رہیں گی ؟آج ان سوالات نے ہرمسلمان کو حیرانی اور پریشانی میں مبتلا کردیاہے ۔
خود اپنے ملک کے حالات کوسامنے رکھئے !وطن عزیز کو آزادی حاصل کئے ہوئے باسٹھ سال سے زائد کا عرصہ ہوچکاہے، تقابلی جائزے لیکر کہاجاتاہے کہ مادی اعتبار سے ہم نے کئی شعبوں میں ترقی کی منزلیں طے کی ہیں، لیکن یہ کیا ترقی ہے کہ آزادی کی سلورجوبلی منانے سے قبل ہی آدھا پاکستان ہم سے کٹ جائے ، باقیماندہ ملک میں سیاسی عدم استحکام کا دور دورہ ہو ، حکومتیں بنتی رہیں اور ٹوٹتی رہیں ، ملک میں بے یقینی کی فضا قائم رہے ، عوام اور خواص دونوں عد م تحفظ اور بے چینی کی کیفیت سے دوچار رہیں ۔آج اخبارات اٹھاکر دیکھئے صفحات کے صفحات قتل ، ڈکیتی ، چوری بینکوں اور بسوں کو لوٹنے کی واردات ، اغوا ، بے راہ روی ، فحاشی ، بدعنوانی اور دیگر نوعیت کے جرائم سے بھرے پڑے ہیں ، پرسوں کے مقابلہ میں کل اورکل کے مقابلہ میں آج ، جرائم روبترقی ہیں ، کلاشنکوف اور ویڈیوکلچر نے جنم لیاہے، منشیات کی لعنت تیزی سے پھیل رہی ہے ، رشو ت ، اور سفارش کی چھتریوں سے حقدار وں کو ذبح کیا جارہاہے ، یونی ورسٹیاں اور دوسرے تعلیمی ادارے اسلحہ خانے، غنڈہ گردی اور دہشت گردی کے اڈے بن چکے ہیں، جس سے حقیقی طلبا،ان کے سرپرست اور تعلیمی اداروں کے منتظمین خوف وہراس اور بے چینی میں مبتلا ہیں ،نوجوان طبقہ ڈاکٹر اور انجنیئرنگ جیسی اعلی تعلیم کی تکمیل کے بعد بھی روزگار کے مواقع نہ ملنے کے سبب اپنے مستقبل سے مایوس نظر آرہاہے، حکومت اپنی بھر پور مشینری کی موجودگی کے ساتھ بے بس ہے، ہرصاحب دل پاکستانی اس پرا گندہ صورت حال سے کبیدہ خاطر ہے ،جاپانی ایک قوم ، چینی ایک قوم، جرمن ایک قوم ، انگریز ایک قوم ، لیکن مملکت خداد اد کے وجود میں آنے کے بعد اس کے باسی ایک قوم ، ایک باوقار پاکستانی قوم کے طورپر اُبھر آتے ، بدقسمتی سے یہ تصور پروان نہ چڑھ سکا ۔ اس لئے کہ اس کے لئے راہ ہی ہموار نہ ہوئی ، اس کو مقصد بناکر اس کے لئے کام ہی نہیں کیا گیا، ا س ملک کی اساس اسلام تھا ، اسلام کے نام پر یہ آزاد ہوا، اورنظام اسلام کو پیش نظر رکھ کر اس نے آگے بڑھنا تھا ، صدافسوس کہ ایسا نہ ہو،ا قوم کے اتحاد کے بجائے ہم چھوٹی ، چھوٹی لسانی ، طبقاتی اور گروہی یونٹوں میں بٹتے گئے ، نفرتیں پلتی رہیں ، رقابتیں بڑھتی رہیں، یہ سب کچھ اُن عوامل کا منطقی نتیجہ ہیں جن کی طرف سے ہم آنکھیں بندکیے رہے ، اسی غفلت اور اغماض میں قوم توکیا متحد ہوتی ،وہ اخلاقی اور تمدنی اقدار وروایات ہمارے معاشرے سے رخصت ہوئے جوایک پُرشکوہ ، بالغ النظر اور ایک ترقی یافتہ مسلم معاشرے کی پہچان ہیں،آج کے معاشرے میں ہمیں سب کچھ نظر آتاہے، اگرناپید ہیں توخلوص ، ہمدردی ، اتفاق ، یگانگت ، اور ایثار ہیں۔ کاغذی پھولوں کی طرح بظاہر ہم خوبصورت لگتے ہیں، لیکن خوشبوسے عاری ہیں ۔
اسلامی نظام کے نفاذ کی بات ہوتی ہے توسب سے پہلے حملہ اس کے نظام تعزیرات پرہوتاہے،بے شک اسلام کا یہ نظام تادیبی اورسخت ہے، لیکن اسے ظالمانہ اوروحشیانہ ہرگز قرار نہیں دیاجاسکتا ،اس کی روح میں اصلاح کا پہلوزیادہ کارفرما ہے، جب ایک قاتل کا سر ،قتل کی پاداش میں برسر عام قلم ہوگا تو معاشرہ میں ممکنہ ہونے والے قتل رُک جائیں گے، تب یہ بات سمجھ میں آجائے گی کہ ”قصاص میں تمھارے لئے حیات ہے “ کیوں ارشاد فرمایاگیا ہے۔ جب ایک چور اپنے کٹے ہوئے ہاتھ کے ساتھ درس عبرت بن کر معاشرے میں چلتاپھرتانظر آئے گا توچوروں کی سینکڑوں ممکنہ وارداتیں وقوع پذیر نہ ہوسکیں گی اور معاشرے کا ہرفرد چوری کے ڈرسے بے نیاز سُکھ چین کی نیند سوسکے گا ، کوئی کم فہم ، بلکہ کج فہم ہی اللہ تعالیٰ کی نافذ کردہ حدود پر معترض ہوسکتاہے ۔
قرآنی دستور کے نفاذ سے معاشرے کی تطہیر ہوتی ہے ،جرائم کی بیخ کنی ہوتی ہے، ظلم اورناانصافی کا قلع قمع ہوتاہے، ہرچھوٹے بڑے کے حقوق کی نگہداشت ہوتی ہے اور ہرکسی کے ساتھ مبنی بہ عدل وانصاف سلوک روا رکھا جاتاہے ۔ایسے معاشرے میں جہاں قرآن وسنت کی بالادستی ہو، احکامات خداوند باقاعدہ طورپر نافذالعمل ہوں ،ا س امرکا تصور تک نہیں کیاجاسکتا کہ کسی کے حقوق پامال ہوں گے، بلکہ ایسا معاشرہ اُنس ومحبت ، اخوت ورواداری ، یگانگت ویکجہتی اور ایک دوسرے کے دُکھ درد بانٹنے کی ترغیبات کا مظہر ہوگا ، اس میں اخلاقی قدروں کی قدر وقیمت ہوگی، انسان کو انسان کی نظر سے دیکھا جائے گا، یہ معاشرہ معاشی آسودگی اورآسودہ حالی کا ضامن ہوگا اور اس میں احترام انسانیت کے تمام تقاضوں کا لحاظ رکھا جائے گا، مجھے قصاص میں مارے جانے کا خوف دامن گیر کیوں ہو کہ میں نے کسی کا ناحق خون نہیں کیا ، مجھے ہاتھ کے کٹ جانے کا ڈر کیوں ہو کہ میں چور اور رہزن نہیں ، مجھے سنگسار ہونے کا اندیشہ کیوں رہے کہ میں نے بدکاری کا ارتکاب نہیں کیا ،اسلامی نظام کے نفاذ سے صرف وہی لوگ خوفزدہ ہوں گے جن کے ہاتھ آلودہ ہوں گے بلکہ درحقیقت یہ نظام اُن کے لئے بھی رحمت ہے کہ اُنہیں راہ راست پر لانے والا ، اُنہیں ضمیر کی ملامت ، اور دنیاوی اور اُخروی شرمساری سے نجات دلانے والا ہے ۔نظام اسلام کے برعکس غیر ملکی سابقہ آقاوٴں سے ورثے میں ملا ہوا انگریزی قانون جو اس وقت ہمارے ہاں پورے آن بان سے نافذ العمل ہے اور جسے حصول آزادی کے بعد سے نصف صدی سے زائد عرصہ سے ہم نے گلے لگایا ہواہے ، اُن فرنگیوں کی یادگار ہے جنہوں نے برصغیر پاک وہند میں مسلمانوں کی اسلامی سلطنت کی بساط اُلٹ دی تھی، ان کے لارڈ کلائیوں اوردوسروں نے فریبوں ، سازشوں، ریشہ دوانیوں سے اپنی ہمنوائی میں میر جعفر ، میر صادق اورکئی ددسرے غدار پیدا کئے اور ان کو پھانس کر اُن سے قابل احترام مسلمان اکابرین اور فرمانرواوٴوں ، نواب سراج الدولہ ، سلطان ٹیپو، اورشہنشاہ بہادر شاہ ظفر کو رسوا کیا۔
۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی کو غدر سے تعبیر کیا ،اور حریت پسند مسلمانوں کو غدار اور شورش پسند قرار دے کران سے ظالمانہ انداز میں انتقام لیا ،درختوں کی شاخ سے اجتماعی پھانسیاں دیں ، کئی ایک توپ سے اُڑادئے گئے ، جید مسلمان علماء وفضلاء اور دانشوروں کی تضحیک وتحقیر کرنے کے بعد انہیں بیدردی سے تہ تیغ کیا ، مسلمانوں کی صدیوں پرانی ثقافت اور روایات ملیا میٹ کرکے اس پر برٹش انڈیا کی نوآبادی قائم کی ، غرضیکہ مسلمانوں کی بربادی اور تخت وتاراج میں اُن سے جوکچھ ہوسکا اس سے دریغ نہ کیا اور پھر اصلاحات کانام دے کراس خطہ ارض میں اپنی تہذیب وثقافت کورواج دینا شروع کردیا ، اپنا قانون ، نظام تعلیم، لباس ، وضع قطع اور یورپی طور طریقے رائج کئے اور انہیں حصول ترقی کے زینے قرار دیا ۔
جاتے جاتے ۱۹۴۷ء میں پاکستان کی پیٹھ میں کشمیر کے تنازعے کا خنجر گھونپ کر مسلمانوں کی آزادی کا آخری موقع بھی ضائع ہونے نہ دیا ، افسوس درافسوس کہ ہم نے پھر بھی ایسی قوم کے چھوڑے ہوئے قانون کو اپنے آپ میں رچایا ،بسایا ہواہے اوراپنے آپ کو فخر یہ طور پر مسلمان کہلا کر بھی اسلام کے نظام حیات کے آگے گردن نہاد ہونے پر تیار نہیں .
انگریزی قانون کیاہے؟ موم کی ناک ہے، جس طرف موڑنے کی کوشش کرو، مڑ جاتی ہے۔ اس میں مجرم کی صحیح نشاندہی کرکے اسے کیفر کردار تک پہنچانے پر کم اور ملزم کو شک کا فائدہ دے کر اسے رہاکردینے پر زیادہ زور ہے۔ اگر کسی طرح قتل کا مجرم قانون کے شکنجے میں آبھی جائے اور ایک طویل اور پیچیدہ طریقہ کار سے گزرنے کے بعد اسے سزائے موت سنادی جائے تو اسے جیل کی چار دیواری کے اندر صبح کاذب کے وقت جیل سپرنٹنڈنٹ، ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ اور ڈاکٹر کی موجودگی میں ایک غیر مسلم خاکروب پھانسی دیتاہے اور علی الصبح لاش چپکے سے ورثاء کے حوالہ کردی جاتی ہے۔ عوام الناس کو کھلے بندوں پتہ ہی نہیں چلتا کہ کون ، کس کے قتل کی پاداش میں پھانسی ہوا، اور کب ہوا؟ اس سے لوگ خاک عبرت پکڑیں گے اور قتل جیسے گھناوٴنے جرم کا ارتکاب بند ہوگا۔
یہی حال دیوانی مقدمات کا بھی ہے، مظلوم کی جھولی میں فوری انصاف ڈالنے کی بجائے اسے ایک طویل عدالتی طریقہ کار والی دقت طلب اور صبر آزما مقدمہ بازی میں پھنسا دیاجاتاہے، تاریخوں پر تاریخیں ہوتی ہیں۔ فریقین کے وکلاء کے گرماگرم بحث مباحثے ہوتے ہیں اور معاملہ اس قدر طول پکڑلیتاہے کہ مظلوم انصاف ملنے کی توقع سے دل برداشتہ اور مایوس ہوکر رہ جاتاہے۔ دیوانی مقدمات سے اکثر خوفناک عداوتیں پیدا ہوتی ہیں اور فریقین کے مابین قتل ،مقاتلے کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہوجاتاہے۔
اس میں شک نہیں کہ وطن عزیز کی آزادی کے بعد مختلف ادوار میں حکومت وقت کی طرف سے کچھ اقدامات ہوتے رہے کہ ملک میں ایک فلاحی معاشرہ کی تشکیل ہو۔ اسلامی نظریاتی کونسل کا قیام عمل میں لایاگیا۔ اس کے اجلاس ہوتے رہے۔ اس کی سفارشات کا جائزہ لیاجاتارہا۔ فیڈرل شریعت کورٹ بنی۔ وقتا ً فوقتا ًعلماء، ممتاز قانون دانوں اور مشاہیر کے ورکنگ گروپ بنے ،لیکن مکمل اسلامی نظام کے نفاذ کے ضمن میں قابل ذکر پیش رفت حکومتی حلقوں کی طرف سے عدم دلچسپی کے باعث نہ ہوسکی۔”پاکستان اسلام کا قلعہ ہے“۔”اسلام ہی سے اس کی بقاہے“۔”اسلامی نظام نافذ ہوکر ہی رہے گا“ یہ نعرے ہردور میں لگتے رہے ہیں۔ قدرت کی طرف سے اچھے مواقع فراہم ہوئے مگر انہیں یہ توفیق نصیب نہ ہوئی کہ اسلام کے نام پر عالم وجود میں آنے والے اس ملک میں اللہ تعالیٰ کا قانون رائج کرکے اس کے ہاں دنیا وآخرت کی سرخروئی حاصل کرتے اور اس ملک کے رہنے والوں کو جو اسلام کے سچے شیدائی ہیں، دور غلامی کے فرسودہ، مزاج کے ناموافق، غیر موزوں اور تکلیف دہ انگریزی قانون سے نجات دلاکر ان پر احسان عظیم کرتے اور اس ملک کی تاریخ میں اپنے لئے ایک مثالی، منفرد اور یادگار مقام بناتے۔
داخلی بحران اور نازک ملکی حالات جس سے ہرشہری پریشان وہراساں ہے، اس امر کے متقاضی ہیں کہ پاکستان کو حقیقی معنوں میں ایک آزاد، خود مختار اور فلاحی ریاست بنانے کے لئے اسلامی دستور کا نفاذ فوری طور پر کیاجائے۔ مزید عرصہ کے لئے اسلامی دستور کے نفاذ سے گزشتہ حکومتوں کی طرح پہلو تہی کرنا یا سہل انگاری سے کام لے کر اسے التواء میں ڈالنا ملک وقوم کے لئے سخت نقصان دہ،بلکہ تباہ کن ثابت ہوسکتاہے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ بھاری اکثریت سے منتخب ہونے والی موجودہ حکومت اپنے پیشروٴں کی غلطیوں سے احتراز کرے۔ راستے میں حائل ہونے والی تمام رکاوٹوں کو خاطر میں لائے بغیر اور بے بنیاد وساوس اور خدشات سے بے نیاز ہوکر پوری جرأت کے ساتھ پورے ملک میں قانون اسلام کو فوری طور پر نافذ کرے۔
مرحوم بھٹوصاحب نے اس ملک کے لئے اور اس کے عوام کے لئے وہ جرأت مندانہ کارنامے سرانجام دئیے جن کی ان سے پہلے کی حکومتوں کو توفیق ملی اور نہ ہی بعد میں آنے والی حکومتوں کو! بھٹومرحوم عوام کے نبض شناس تھے۔ عوام کی امنگوں کا احترام کرتے تھے اور ان کو ساتھ لے کر چلتے تھے۔ اسلامی سربراہ کانفرنس کا انعقاد ، قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دینا، لیبیا ، عراق ، کویت اور دوسرے ممالک میں ہنر مند پاکستانیوں کے لئے روزگار کے دروازے کھلوانا، عام شہری کو ملکی سیاست سے روشناس کرانا، سقوط مشرقی پاکستان کی تلخیاں اہلیان پاکستان کے ذہنوں سے محو کرنا اور کئی دوسرے ان کے یادگار کارنامے ہیں۔ آج بھی پاکستان میں ان کی پارٹی قیادت سنبھالے ہوئے ہے۔ ان کے ساتھ کام کرنے والے برسراقتدار ہیں۔ یہ چاہیں اور اپنے نڈر لیڈر کی جرأت سے کام لیں تو آن کی آن میں پاکستان میں اسلامی نظام نافذ کرکے ملک کی تاریخ میں اپنے لئے ایک روشن باب رقم کرسکتے ہیں۔
اشاعت ۲۰۰۹ ماہنامہ بینات , ذوالحجہ:۱۴۳۰ھ - دسمبر: ۲۰۰۹ء, جلد 72, شمارہ 12

    پچھلا مضمون: اسلام آباد میں دینی مدارس ومساجد کاقیام اورجناب سید اختر حسین قدس سرہ کی مساعی !
Flag Counter