Deobandi Books

ماہنامہ البینات کراچی ذوالحجہ ۱۴۳۰ھ - دسمبر ۲۰۰۹ء,

ہ رسالہ

10 - 12
جدید تعلیم اور اس کے نتائج !
جدید تعلیم اور اس کے نتائج


۱:۔”عن عمر رضی الله عنہ قال: کونوا أوعیة الکتاب وینا بیع العلم وسلوا الله رزق یوم بیوم۔“ (حلیة الاولیاء ج:۱ ص:۵۱)
ترجمہ:۔”ابو نعیم نے حلیہ میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے نقل کیا ہے کہ آپ نے فرمایا: کتاب اللہ کے برتن بنو اور علم کے چشمے بنو، اور اللہ تعالیٰ سے رزق مانگو ایک دن کا ایک دن کے ساتھ۔“
۲:۔”وأخرج أیضًا عنہ قال: جالسوا التوابین فانہ أرق شیء أفئدة۔“
(حلیة الاولیاء ج:۱ ص:۵۱)
ترجمہ۔ ” حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے نقل کیا ہے کہ: توبہ کرنے والوں کے پاس بیٹھا کرو، اس لئے کہ وہ لوگ سب سے زیادہ نرم دِل ہوتے ہیں۔“
۳:۔”عن عمر رضی الله عنہ قال: من خاف الله لم یشف غیظہ ومن یتق الله لم یضع ما یرید ولو لا یوم القیامة لکان غیر ما تسرون۔“(کنز العمال ج:۱۶ حدیث:۴۴۳۷۵)
ترجمہ۔․ ”حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے نقل کیا ہے کہ آپ نے فرمایا: جو اللہ تعالیٰ سے ڈرتا ہو، وہ اپنے غصّے کو ٹھنڈا نہیں کرتا، اور جو اللہ سے خوف رکھتا ہو وہ اپنے غصّے کو ٹھنڈا نہیں کرتا، اور جو اللہ تعالیٰ سے ڈرتا ہو وہ جو کچھ چاہتا ہے وہ نہیں کرتا، اور اگر قیامت کا دن نہ ہوتا تو تم اس کے سوا کچھ اور دیکھتے جو کچھ تم دیکھ رہے ہو۔“
یہ امیر الموٴمنین حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے مواعظ ہیں۔ پہلی روایت میں دو چیزوں کی نصیحت فرمائی ہے:
۱:․․․ ایک یہ کہ کتاب اللہ کے برتن اور علم کے چشمے بنو۔ جس طرح کسی برتن میں کوئی چیز محفوظ ہوتی ہے، ایسے ہی تمہارے قلب میں اللہ تعالیٰ کی کتاب محفوظ ہو، کتاب اللہ کو اپنے قلب میں محفوظ کرو، اور علم کے چشمے بنو، جس طرح چشمے سے پانی پھوٹتا ہے ،اسی طرح تمہارے دِل سے جب بھی کچھ پھوٹے تو علم کی بات ہی پھوٹے، تمہاری زبان سے علم کی بات ہی نکلے۔علم دو قسم کے ہیں:
۱:․․ دُنیا کا علم، ۲:․․․ آخرت کا علم ۔
دُنیا کے کاموں کی طرف راہ نمائی کرنے والا علم، دُنیا کا علم کہلاتا ہے، اس علم کے ذریعے ہم اپنے کھانے کمانے کے طریقے معلوم کرتے ہیں، تجارت کا علم ہے، صنعت کا علم ہے، دُکان داری کا علم ہے، زراعت، حرفت، صنعت اور تجارت ۔دُنیا کی معیشت کے یہ چار ذرائع ہیں۔
سب سے پہلا ذریعہ زراعت ہے، زراعت یعنی زمین سے پیداوار اُگانا۔
دُوسرا ذریعہ حرفت ہے، یعنی دست کاری، اپنے ہاتھوں سے محنت کرکے چیزیں ایجاد کرنا۔
تیسرا ذریعہ صنعت ہے، بڑی بڑی چیزیں جو ایجاد کی جاتی ہیں اور جن چیزوں کے بنانے کے لئے آلات اور مشینوں کی ضرورت ہوتی ہے، اس کو صنعت کہتے ہیں۔
چوتھا ذریعہ تجارت ہے، اور تجارت کا مطلب ہے چیزوں کا تبادلہ کرنا۔
حق تعالیٰ شانہ‘ نے دُنیا کی ساری چیزیں ایک آدمی کو نہیں دیں، کسی کو کوئی چیز دی ہے، کسی کو کوئی چیز دی ہے، کسی علاقے میں کوئی ایک چیز ہوتی ہے، دُوسری چیز وہاں نہیں ہوتی تو اس کی ضرورت اس علاقے والوں کو پیش آتی ہے، دُوسرے علاقے میں دُوسری چیز فراوانی سے ہوتی ہے تو پہلی چیز وہاں نہیں ہوتی، تو اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو تجارت کا اِلہام فرمایا، یعنی جن جن ملکوں میں یا جن جن علاقوں میں جن جن چیزوں کی ضرورت ہے وہاں ان چیزوں کو لے جایا کریں، اور وہاں سے ایسی چیزیں منگوائیں جن کی ان علاقوں کو ضرورت ہے، اور اس کے لئے حق تعالیٰ شانہ‘ نے بر و بحر کے سفر کی بھی ہدایت فرمادی، تجارتی سفر ہوتے ہیں، خشکی کے راستوں سے بھی اور دریا کے راستے سے بھی، اور یہ اَسفار قدیم زمانے سے چلے آرہے ہیں، جیسے جیسے زمانے میں ترقی ہو رہی ہے ویسے ہی ان ذرائع مواصلات میں بھی ترقی ہو رہی ہے، پہلے لوگ بیلوں پر، اُونٹوں پر اور گھوڑوں پر سفر کرتے تھے، اب لوگ ہوائی جہازوں پر سفر کرنے لگے۔
بہرکیف! تجارت معیشت کا ایک بنیادی پتھر ہے، اور معیشت کا ایک ذریعہ ملازمت بھی ہے، یہ پانچواں ذریعہ ہے، لیکن اس کو مستقل طور پر ذریعہ نہیں سمجھا جاتا، یہ تو ایسے وقتی سی چیز ہے، پیداواری اور معیشت کے ذرائع صرف یہ چار ہیں۔ زراعت کہ کسان زمین کے جگر کو چیر کر اور اس پر اپنی محنت کی پونجی لگاکر اس کو اُگانے کے قابل بناتا ہے، گویا ایک چیز جو موجود نہیں تھی اس کو وجود میں لاتا ہے، اور یہ زراعت سب سے بنیادی چیز ہے، اس لئے کہ زمین اگر اپنی پیداوار ہی پیدا نہ کرے تو تم کہاں سے کھاوٴگے اور پیئوگے؟ کیا تمہاری حرفتیں، تمہاری صنعتیں اور تمہاری تجارتیں سب ٹھپ نہیں ہوجائیں گی؟
یہ زراعت کا پیشہ ہمارے جدِ امجد حضرت آدم علیہ السلام کو دیا گیا تھا، جب حضرت آدم علیہ السلام کو زمین پر اُتارا گیا تو ان کو زراعت کا طریقہ سکھایا گیا، یعنی اس طرح وہ کاشت کریں، اس طرح بیج ڈالیں، کیونکہ زراعت کا طریقہ تو وہ جانتے نہیں تھے کہ کیسے کریں؟ حضرت جبریل علیہ السلام نے ان کو طریقہ سکھایا، پھر حق تعالیٰ شانہ‘ کی طرف سے ان کو اِلقا ہوتے رہے، اِلہام ہوتے رہے کہ یہ یہ طریقہ اختیار کریں، ظاہر بات ہے کہ نقل و حمل کے لئے بھی ضرورت پیش آتی ہوگی، اور وہ اکیلا آدمی کیا کرسکتا تھا، اس کو بھی کتنا کھانا تھا، بعد میں ان کی اولاد بڑھتی گئی، تو یہ زراعت کا پیشہ بھی ترقی کرتا گیا۔
غرضیکہ زراعت کا پیشہ یہ انسان کی معیشت میں سب سے پہلا اور بنیادی پتھر ہے، اور یہ جو کسان ہیں، محنت کرنے والے لوگ ہیں، جو زمین جودتے ہیں، بیج ڈالتے ہیں، زمین پر محنت کرتے ہیں، یہ سب حضرت آدم علیہ السلام کے خلیفہ ہیں، ان کے جانشین ہیں، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے زراعت اور شجرکاری کی بہت ہی فضیلتیں بیان فرمائی ہیں، یوں فرمایا ہے کہ:
”کوئی شخص کھیتی کرے یا درخت لگادے، تو جب تک وہ کھیتی یا درخت قائم رہے اس سے کوئی پرندہ، کوئی جنگل کا جانور یا کوئی انسان کھائے گا، اس کسان کے لئے صدقہ لکھا جائے گا۔“
کھیتی اور پھلوں کو چڑیاں کھاتی ہیں، یہ اُڑنے والے جانور کھاتے ہیں، کبھی جنگل کے جانور آکر کے کھاجاتے ہیں، کبھی کوئی انسان بھی کھالیتا ہے، اس غلے یا پیداوار کے گھر آنے سے پہلے پہلے جتنے حیوان یا انسان کھائیں گے وہ سارے کا سارا اس کے حق میں صدقہ لکھا جاتا ہے، یہ بہت بڑی فضیلت ہے۔
اسی طرح دست کاری یعنی حرفت ،لوگ اس کو عار سمجھتے ہیں، ہاتھ سے محنت کرنا بابوپن کے خلاف سمجھا جاتا ہے، یہ عیب و عار سمجھا جاتا ہے کہ اتنا بڑا آدمی ہاتھ سے محنت کرتا ہے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ: ”ما أکل أحد طعامًا قط خیرًا من أن یأکل من عمل یدیہ وان نبی الله داود علیہ السلام کان یأکل من عمل یدیہ۔“ (مشکوٰة ص:۲۴۱، بحوالہ بخاری)
ترجمہ:․․․ ”سب سے پاکیزہ کھانا جو آدمی کھائے وہ اپنی ہاتھ کی کمائی کا ہے، اور اللہ کے نبی حضرت داوٴد علیہ السلام اپنے ہاتھوں کی کمائی سے کھاتے تھے۔“
حضرت داوٴد علیہ السلام تخت پر بیٹھے ہیں، سلطنت حاصل ہے لیکن سرکاری خزانے کو ہاتھ نہیں لگاتے تھے، اپنی روٹی اپنے ہاتھ سے کماکر کھاتے تھے۔
عالمگیر رحمہ اللہ کا بھی یہی معمول تھا، مغلیہ خاندان کا تخت ہے اور ماشاء اللہ ہمیشہ جہاد میں رہتے تھے، لیکن اس کے باوجود اپنے ہاتھ کی کمائی سے کھاتے تھے، ٹوپیاں بنتے تھے اور قرآنِ کریم کی کتابت فرماتے تھے، عالمگیر کے دست مبارک سے لکھے ہوئے مصاحف، قرآنِ کریم کے نسخے اب بھی کتب خانوں میں محفوظ ہیں۔ اور جب عالمگیر کا انتقال ہوا تو وصیت فرمائی کہ فلاں پوٹلی کے اندر کچھ رقم پڑی ہے ،اس سے میرا کفن دفن کیا جائے، اور فلاں پوٹلی میں ایک رقم پڑی ہے وہ اللہ تعالیٰ کے راستے میں صدقہ کردی جائے، وہ رقم میرے کفن دفن میں استعمال نہ کی جائے ،اس لئے کہ وہ قرآنِ کریم کی کتابت کی اُجرت ہے۔ اور بعض اہلِ علم اس کو جائز نہیں سمجھتے تھے کہ قرآنِ کریم کی کتابت کے پیسے لے کر استعمال کئے جائیں، چونکہ ایسی رقم کے استعمال میں علماء کا اختلاف ہے، کوئی اس کو جائز کہتا ہے، کوئی اس کو ناجائز کہتا ہے، تو فرمایا کہ: میرا کفن دفن اس سے نہ کیا جائے۔خلاصہ یہ کہ ہاتھ سے کماکر کھانا تو عار نہیں تھا بھائی! ایک دفعہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”ما بعث الله نبیًّا الا رعَی الغنم، فقال أصحابہ: وأنت؟ فقال: نعم! کنت أرعٰی علٰی قراریط لأھل مکة۔“ (مشکوٰة ،ص:۲۵۸، بحوالہ بخاری)
ترجمہ:․․․ ”کوئی نبی ایسا نہیں ہوا جس نے بکریاں نہ چَرائی ہوں، صحابہ نے عرض کیا: یارسول اللہ! آپ نے بھی بکریاں چَرائی ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جی ہاں! میں نے بھی بکریاں چَرائی ہیں، میں قریش کی بکریاں چرایا کرتا تھا چند قیراط پر۔“
قیراط بہت معمولی سکہ کہلاتا تھا، جیسے دمڑی پرانے زمانے میں مشہور تھی، چند دمڑیوں کے عوض قریش کی میں بکریاں چرایا کرتا تھا۔ اللہ کے نبیوں سے اللہ تعالیٰ نے بکریاں چروائی ہیں، حضرت موسیٰ علیہ السلام کا بکریاں چرانا تو قرآنِ کریم میں مذکور ہے، حضرت شعیب علیہ السلام کی بکریاں چراتے تھے، حضرت موسیٰ علیہ السلام نے دس سال بکریاں چرائی ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ: کوئی نبی ایسا نہیں ہوا کہ جس نے بکریاں نہ چرائی ہوں، بکریاں چرانا نبیوں کی سنت ہے، کوئی عار کی بات نہیں، اور سر پر ٹوکری اُٹھانا، محنت و مزدوری کرنا یہ بھی کوئی عار کی بات نہیں ہے، تم بہترین قسم کے لباس پہن کر سوٹ وغیرہ پہن کر کرسیوں پر بیٹھ کر لوگوں سے جو ناجائز ٹیکس وصول کرتے ہو، یہ حرام کی کمائی ہے، غصب ہے، اور اگر تم لوگ ٹوکری اُٹھاوٴ، اپنے ہاتھ سے محنت کرو، تو یہ حلال کی کمائی ہے، اس حرام کی کمائی کو عزت سمجھتے ہو اور حلال کی کمائی کو ذِلت سمجھتے ہو۔
حضرت حکیم الامت تھانوی رحمة اللہ علیہ ارشاد فرماتے تھے کہ: پتا نہیں مسلمانوں کو کیا ہوگیا ہے؟ انہوں نے کسبِ حلال کو عار سمجھنا شروع کردیا ہے، سینکڑوں ہزاروں نوجوان بے کار پھر رہے ہیں، میاں! تم جاکر کوئی کام کرو۔ کہتے ہیں کہ جی ہم نے تو ایف ایس سی کیا ہے، بی اے کی تعلیم کی ہے، ایم اے کی تعلیم حاصل کی ہے، فلاں فلاں تعلیم حاصل کی ہے، اب کیسے ٹوکری اُٹھائیں؟ میں کہتا ہوں: تمہارا جاہل رہنا بہتر تھا، اور یہ نہایت جہالت کی بات ہے جو آج اخباروں میں باقاعدہ اس کی تشہیر ہو رہی ہے کہ تعلیم کو عام کرو، تعلیم کو عام اس لئے کریں تاکہ لوگ زیادہ بے کار ہوجائیں؟
دو جہالتیں اس زمانے میں بہت زیادہ رائج ہوگئی ہیں، ایک لڑکیوں کو تعلیم دینا، اور ایک تعلیم کو عام کرنا۔ اگر تمہاری تعلیم قوم میں اخلاق پیدا کردیتی تو میں مانتا کہ یہ تعلیم بہت اچھی چیز ہے، واقعی بڑی اچھی چیز ہے، لیکن جتنی تعلیم بڑھتی ہے اتنا اخلاق بگڑتا ہے، اگر میں غلط کہتا ہوں تو آپ لوگ مجھے ٹوک سکتے ہیں کہ تم غلط کہتے ہو، میں دیکھتا ہوں عام اُجڈ قسم کے لوگ ان کے اخلاق ان لکھے پڑھے لوگوں کے اخلاق سے اچھے ہیں، وہ کم از کم کسی کی مان ہی لیں گے، اور تم میں پڑھے لکھے ہونے کے باوجود بداخلاقیاں پیدا ہوگئی ہیں، غرور ہے، تکبر ہے، حسد ہے، مار دھاڑ ہے، دوسرے کو نیچا دِکھانا اور اپنے آپ کو اُوپر دِکھانا، یہ سارے گندے اخلاق تمہیں اس تعلیم نے دئیے ہیں، اُستادوں کی پگڑیاں اُچھالنا، لڑکیوں سے چھیڑچھاڑ کرنا، اور شریف خاندان کی لڑکیوں سے عشق لڑانا، اس کے سوا تم کیا سکھاتے ہو؟ مجھے بتاوٴ یہ تمہارے کالج اور یونیورسٹیاں اس کے سوا کیا سکھاتی ہیں؟ اگر تمہارا یہ علم لوگوں کو اخلاق سکھاتا، تہذیب سکھاتا، تو میں مانتا کہ واقعی تم نے علم سیکھا ہے، اخلاق اور تہذیب کے معنی چبا چباکر باتیں کرنے کے نہیں ہیں، جس کو تم نے تہذیب سمجھ لیا ہے، اخلاق اور تہذیب یہ ہے کہ جس کا جو حق ہے وہ اسے دیا جائے۔ چھوٹوں کے ساتھ چھوٹوں کا سا معاملہ کیا جائے، بڑوں کے ساتھ بڑوں کا معاملہ کیا جائے، ماں باپ کے ساتھ ماں باپ جیسا حسنِ سلوک کیا جائے، ادب ہے، احترام ہے، یہ چیز اخلاق کہلاتی ہے، تہذیب کہلاتی ہے۔ کسی دیہاتی سے کسی نے پوچھا تھا کہ تمہارا لڑکا پڑھتا ہے کتنا لکھ پڑھ گیا ہے؟ اب وہ بے چارہ کیا جانے کہ کتنا پڑھ گیا ہے کتنا نہیں؟ دیہاتی جاہل کہتا ہے: جی وہ کافی پڑھ گیا ہے، کھڑے ہوکے پیشاب تو کرنے لگا ہے۔ بس تم کھڑے ہوکر پیشاب کرنا سکھاتے ہو، پینٹ پہنو، کھڑے ہوکر پیشاب کرو!
تمہیں تو ایک ہی اجتہاد سوجھتا ہے کہ مولوی دِین کو بدلیں، شریعت کو بدلیں، اجتہاد کریں، یہ لوگ ہمیں تلقین کیا کرتے ہیں کہ اجتہاد کرو، تم بھی کوئی اجتہاد کرو نا!
تم میں سے کچھ نوجوان اُٹھیں اور اُٹھ کر ایسی چھوٹی موٹی صنعتیں لگائیں، جس سے اپنے گھر کی کفالت ہوسکے، ملک کو فائدہ ہو، نفع ہو، نوجوان کام پر لگیں، اب تو دہشت گردی کی وجہ سے کراچی میں سناٹا چھا گیا ہے، ورنہ میں دیکھتا تھا کہ نوجوانوں نے سڑکیں بند کی ہوئی ہیں، کرکٹ کھیل رہے ہیں، بس نوجوان اس کام کے لئے رہ گئے ہیں، بلے اُٹھائے پھرتے ہیں، سڑکیں بند کی ہوئی ہیں، کوئی گاڑی نہیں جاسکتی اور یا پھر کلاشنکوف اُٹھالی، میرے بھائی! کوئی ایسا کام کرو جو تمہارے لئے مفید ہو چاہے چھوٹا سا کام ہو، قوم کو بھی پیداوار ملے اور تمہیں بھی اپنے ہاتھ کی محنت ملے۔
اسی طرح یہ جو کہا جاتا ہے کہ لڑکیوں کو پڑھاوٴ اور ان کو ملازمت دِلواوٴ، میں پوچھتا ہوں: کیا تم نے لڑکوں کے لئے ملازمتیں پوری کردیں کہ اب ان سے بچ رہی ہیں جو تم لڑکیوں کو دوگے؟ لڑکیوں کو تو گھر کا کام ذمے کیا گیا ہے، اب یہ کتنی بڑی حماقت کی بات ہے کہ جس شخص کے ذمے گھر کی ذمہ داری ہے اس کو تو بے کار کرو اور جس کا نان و نفقہ مرد کے ذمے ڈالا گیا تھا، اس کو ملازمت دِلواوٴ! نوجوان بے کار اور ہماری بچیاں برسرِ روزگار، اب تم ہی بتاوٴ وہ اپنے شوہر کے پاس کیوں رہیں گی؟ اپنا گھر کیوں آباد کریں گی؟ جب لڑکی خودکفیل ہے اور اپنا بوجھ خود اُٹھاسکتی ہے تو وہ شوہر کے گھر میں پابند ہوکر رہنا کیوں گوارا کرے گی؟ ہاں! اس کے ساتھ عشق و محبت کا افسانہ دو چار دن چلے گا ،بعد میں رنگ دھل جاتا ہے، میں جانتا ہوں۔
اللہ تعالیٰ نے مرد کو عورت کا اور عورت کو مرد کا محتاج بنایا ہے اور اسی احتیاج کی سریش کے ساتھ چپکادیا ہے، یہ احتیاج کی سریش ہے جو مرد اور عورت دونوں کو چپکائے رکھتی ہے۔
مرد جانتا ہے کہ عورت کے بغیر گھر کی گاڑی نہیں چل سکتی، خانہ داری ہے، بچوں کی حفاظت ہے، بچوں کی پروَرِش ہے، یہ عورت کے بغیر نہیں ہوسکتی۔ اور عورت جانتی ہے کہ جب تک سر پر سائیں کا سایہ نہیں ہوگا میری زندگی بے سایہ گزرے گی۔ دونوں ایک دُوسرے کے محتاج ہیں، قدرت نے ان دونوں کو محتاج بنایا ہے، اس کا شوہر بے روزگار اور لڑکی برسرِ روزگار، مجھے بتاوٴ کہ اللہ تعالیٰ نے اِلہام کیا ہے، لوگوں کے دِل میں ڈالا ہے کہ اس طرح نظام بناوٴ؟ ہماری حکومتیں تو منصوبہ بندیاں کرتی ہیں، لیکن اللہ تعالیٰ نے یہاں فطری منصوبہ بندی کی ہوئی ہے، ان کی منصوبہ بندی پر معاملہ نہیں ہے، جس چیز کی احتیاج ہوتی ہے اللہ تعالیٰ لوگوں کے دِل میں اس کا حل ڈال دیتے ہیں کہ یہاں یہ چیز پیدا کرو، مہیا کرو یا باہر سے لاوٴ، تاجر لے آتے ہیں۔ ایک حدیث شریف میں فرمایا ہے کہ: بادشاہ اگر تجارت کرنے لگے تو رعایا کو بگاڑ ڈالے گا۔
آج ہماری ہر چیز اُلٹی ہوگئی ہے، آج تجارت ساری کی ساری گورنمنٹ کے قبضے میں ہے، اور جو تاجر بے چارے اپنی تجارت کر رہے ہیں وہ بھی گورنمنٹ کے دست نگر ہیں، گورنمنٹ سے اجازت ملنی چاہئے اور درآمد و برآمد بینک کے ذریعے سے تبادلہ ہونا چاہئے، بہت سے شعبے تو گورنمنٹ نے اپنے پاس رکھے ہوئے ہیں کہ گورنمنٹ ہی ان کی درآمد کرسکتی ہے، دُوسرا کوئی نہیں کرسکتا، اور گورنمنٹ کا جو حال ہے وہ تمہارے سامنے ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان کی نافرمانی کی وجہ سے قوموں کا جو حال ہے وہ آپ کے سامنے ہے، حکومت کا کام تو نظم و نسق بحال رکھنا ہے، نظم و نسق کا بحال رکھنا اور ظالم کو مظلوم سے انصاف دِلانا، کوئی کسی پر زیادتی نہ کرے، لوگوں کی تعلیم و تربیت کا انتظام کرنا، معیشت کے سلسلے میں جہاں کسی چیز کی ضرورت ہو، وہاں ان کی امداد کرنا، سرکاری وسائل کے ذریعے لوگوں کی معاونت کرنا، یہ مملکت کا کام ہے۔
لیکن دورِ جدید میں حکومت کا مطلب یہ سمجھا جاتا ہے کہ دُنیا کی ہر دولت اس فرعون کے ہاتھ میں ہو، کوئی آدمی بغیر لائسنس کے تجارت نہ کرسکے، کوئی دُکان داری نہ کرسکے، کوئی حیوانات کی پروَرِش کرنا چاہے بغیر لائسنس کے وہ یہ کام نہ کرسکے، ہر چیز میں حکومت کا لائسنس اور اجازت نامہ لازمی ہے، گویا کنٹرول حکومت کا ہے، یہ سب اس کے نوکر ہیں، اور پھر حکومت جتنا چاہے ان کو حصہ دے اور جتنا چاہے اپنے پاس رکھے، اس ٹیکس کے معنی سوائے حصہ داری کے اور کیا ہیں؟ کماوٴ تم اور عیش و عشرت اُڑانے کے لئے حکومت اپنا ٹیکس وصول کرے۔
ابنِ خلدون لکھتے ہیں کہ: کسی مملکت کے زوال کا باعث یہ بنتا ہے کہ عوام پستی چلی جاتی ہے، مہنگائی بڑھتی ہے اور مہنگائی کی وجہ سے مطالبات زیادہ بڑھتے ہیں، اور مطالبات کی وجہ سے ٹیکس زیادہ لگائے جاتے ہیں، جتنے زیادہ ٹیکس لگائے جاتے ہیں اتنی ہی مہنگائی زیادہ بڑھتی ہے، جتنی مہنگائی زیادہ بڑھتی ہے اتنی ہی زیادہ تنخواہیں بڑھتی ہیں، جتنی زیادہ تنخواہیں بڑھتی ہیں اتنا ہی زیادہ ٹیکس بڑھتا ہے، یہ ایک چکر چلتا ہے۔ اور وہ لکھتے ہیں کہ: کسی مملکت کی کسی حکومت کی سعادت مندی یہ ہے کہ اس میں کم سے کم ٹیکس ہوں اور لوگوں کو زیادہ سے زیادہ آسانیاں ہوں۔
آج یہ جتنے ماہرِ معاشیات ہیں اور حکومت کے دُوسرے شعبوں میں کام کرنے والے لوگ ہیں، آپ نے کبھی ان کی زبان مبارک سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا، خلفائے راشدین کا، اور بادشاہانِ عدل کا تذکرہ اور حوالہ نہیں سنا ہوگا، یہ جب بھی حوالہ دیں گے جرمنی، فرانس، برطانیہ اور امریکا کے مدبرین کا حوالہ دیں گے، ان کے ذہن پر مغرب اتنا سوار ہے کہ کبھی بھول کر بھی کسی معاملے میں انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا حوالہ نہیں دیا، انہوں نے سوچا ہی نہیں، ان کا ذہن یہ بن گیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تو بس ثواب و عذاب بیان کرنے کے لئے آئے تھے۔ زندگی کا کون سا شعبہ ہے جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اصلاحات نہیں فرمائیں؟ مگر تمہاری آنکھیں پھوٹ گئی ہوں تو اس کا کیا علاج؟ زندگی کا کوئی شعبہ ایسا نہیں جس میں آقا نے راہ نمائی نہ فرمائی ہو، اور اس کے اُصولِ موضوعہ ترغیب اور ترہیب کے ساتھ بیان نہ فرمادئیے ہوں، لیکن تمہارے لئے یہ چیزیں بالکل بے کار ہیں۔
صحابہ کرام اور خلفائے راشدین رضوان اللہ علیہم اجمعین اور ان کے بعد بھی دُوسرے عادل سلاطین انہوں نے بڑے بڑے کارنامے انجام دئیے ہیں، مگر کبھی ہم نے ان اکابر کی تاریخ کو اُٹھاکے دیکھا ہی نہیں، اگر دیکھا بھی ہے تو اس سے سبق نہیں لیا، اس سے راہ نمائی نہیں لی، تمہاری راہ نمائی کے لئے یہی مغرب والے رہ گئے ہیں، اس لئے کہ تمہارا ذہن بھی غیرمسلم تھا، تمہارا دِل بھی غیرمسلم ہے، تم زبان سے ”لا اِلٰہ اِلَّا الله محمد رسول الله“ پڑھتے ہو، مگر ذہن و دِل جب تک مسلمان نہ ہو تو کلمہ پڑھنے سے کیا فائدہ؟
خلاصہ یہ کہ علم دو ہیں، ایک علمِ معاش اور ایک علمِ معاد۔
علمِ معاش وہ ہے جو مرنے سے پہلے تک کی زندگی ہے ،اس میں رہنے سہنے کے طریقے سکھاتا ہے کہ یہ زندگی کیسے گزاریں؟ کیا کھائیں؟ کس طرح کھائیں؟
اور ایک علمِ معاد ہے، اور وہ ہے موت کے وقت سے لے کر ابد الآباد کی زندگی تک راہ نمائی کرنے والا علم، اس علمِ معاش کی حد ہے، اس علمِ معاد کی حد نہیں، اسکولوں اور کالجوں پر بھی لکھا ہوا ہوتا ہے:
”طلب العلم فریضة علٰی کل مسلم“ (مشکوٰة ص:۳۴)
ترجمہ:․․․ ”علم کا حاصل کرنا ہر مسلم پر فرض ہے۔“
اس حدیث سے یہ علم مراد نہیں ہے جو اسکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں میں پڑھایا جاتا ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایک اور تہمت گھڑی ہے کہ: ”أُطلبوا العلم ولو کان بالصین“ علم کو تلاش کیا کرو چاہے تمہیں چین جانا پڑے۔ یہ بالکل جھوٹ ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ نہیں فرمایا، چین تو ابھی پچاس سال پہلے تک جاہلیت میں ڈُوبا ہوا تھا، یورپ بھی بے چارہ اپنی جہالت سے انگڑائی لے کر اُٹھا تھا، یہ مچھلیوں کے مچھیرے انگریز تمہاری بے وقوفی کی وجہ سے تم پر ڈیڑھ سو سال حکومت کرکے گئے ہیں، یہ مچھلیوں کے مچھیرے تھے، یہ ڈاکو، بحری قزاق ہیں، سن ۱۹۸۲ء بلکہ اس سے پہلے میں پہلی دفعہ یورپ گیا مولانا متالا صاحب نے بلایا تھا، تو میں نے ان سے کہا کہ: حضرت! مجھے یہ بتائیے کہ یہ روشنی کا زمانہ، بجلی اور گیس اور جدید وسائل، رسل و رسائل، مواصلات ان تمام چیزوں کی عمر تو بہت تھوڑی ہے، اس سے پہلے اس ملک میں کون رہتا تھا اور کس طرح رہتا تھا؟ انگلینڈ کا ملک بھی کوئی رہنے کے قابل ہے؟ آج دُنیا سے یہ بجلی کے چکر ختم ہوجائیں تو کوئی رہ سکتا ہے وہاں؟ مولانا نے مسکراکر فرمایا کہ: یہاں دو طرح کے لوگ رہتے تھے، ایک مچھیرے، مچھلیاں پکڑنے والے اور دُوسرے بحری قزاق، جو کوئی جہاز جاتا تھا اس کو لوٹ لیتے تھے، نہ وہاں زراعت ہے اور نہ کوئی اور چیز ہوسکتی ہے، سیب لگاتے ہیں، پھل آتا ہے بہت ہی اچھا، لیکن کوئی ذائقہ نہیں، جب پھلوں کو سورج کی روشنی ہی نہ پڑے تو ان میں مٹھاس کہاں سے آئے؟ میں نے کہا کہ: یہ مغربی دُنیا کے لوگ تو نہایت غیرمہذّب قوم تھی، اور اس امریکا غریب کا تو ڈھائی سو سال پہلے کوئی وجود ہی نہیں تھا، دُنیا کو معلوم ہی نہیں تھا کہ امریکا بھی کوئی ملک ہے، یہ مغرب بھی انگڑائی لے کر اُٹھ کھڑا ہوا تھا، لیکن چین والے ابھی تک افیونی تھے، سو رہے تھے، یہ سب سے بعد میں بیدار ہوئے ہیں، ان کے بارے میں کہنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا علم حاصل کیا کرو چین جاکر، یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر تہمت ہے!
تم تو علم اسی کو سمجھتے ہو، حالانکہ یہ علم ہے ہی نہیں، محض کھانے پینے کا دھندا ہے، چاہے تمہارے سائنسی علوم ہوں یا تمہارے آج کے ترقی یافتہ علوم ہوں، یہ سب کے سب پیٹ کا چکر ہے، اور کچھ بھی نہیں۔ گھسیارا بے چارہ گھاس کھود کرکے روٹی کھاتا ہے، تم بڑے بڑے ادارے بناکر روٹی کھاتے ہو، چکر سارا صرف روٹی کا ہے اور کچھ نہیں․․․!
مجھے معاف رکھیں گے، تمہاری سائنس نے آدمی کو نفع سے زیادہ نقصان پہنچایا ہے، تم کہوگے کہ یہ مولوی بہت تعصب برتتا ہے، میں مانتا ہوں کہ سائنس نے بہت نفع بھی پہنچایا، لیکن جتنا انسان اس زمانے میں تلملا رہا ہے اور جس قدر اس کی رُوح آج بے چین ہے، کبھی انسانی زندگی میں بے چین نہیں ہوئی ہوگی، اور آج کا انسان جتنا مظلوم ہے اتنا کبھی نہیں رہا ہوگا، آج کا انسان مسائل سے جس قدر دوچار ہے اس سے پہلے کبھی نہیں رہا ہوگا، اور یہ سب برکتیں ہیں تمہاری سائنس کی، تمہارے ترقی یافتہ علوم کی، تم نے نعرہ لگایا کہ ہم نے فلاں بیماری پر فتح پالی، فلاں بیماری پر فتح پالی، فلاں بیماری کا نشان ختم کردیا، چیچک کا نشان ختم کردیا، یا فلاں چیزیں ختم کردیں، قدرت نے کہا کہ: تم نہیں کرسکتے، ایسی ایسی بیماریاں ایجاد کریں گے کہ تمہارے باپ کو بھی ان کا پتا نہ چلے، نئی نئی بیماریاں آتی ہیں، ان پر بے چارے تحقیقات شروع کرتے ہیں، اور جب وہ قابو میں آنے کے قریب ہوتی ہے تو ایک نئی بیماری سر اُٹھالیتی ہے۔ یہ کینسر اب تو بہت پُرانی چیز بن گئی ہے، لیکن ہمارے یہاں کبھی نہیں جانی گئی تھی، حالانکہ ہماری طب کی کتابوں میں اس کا تذکرہ ہے، یونانی طب میں سرطان کے نام سے یہ بیماری ہوتی تھی اور اس کا علاج بھی کیا جاتا تھا، لیکن اب جس کثرت سے یہ بیماری ہونے لگی ہے، اور اس نے دُنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے ایسا کبھی نہیں ہوا تھا، اب تو ہر دسویں آدمی پر شبہ ہوتا ہے کہ وہ کینسر میں مبتلا ہے۔تو اصل علم یہ ہے جو آخرت کی راہ نمائی کرے، قرآنِ کریم نے ایک جگہ اپنے بلیغ انداز میں فرمایا:
”یَعْلَمُوْنَ ظَاھِرًا مِّنَ الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا وَھُمْ عَنِ الْاٰخِرَةِ ھُمْ غٰفِلُوْنَ۔“ (الروم:۶)
ترجمہ:․․․ ”یہ لوگ دُنیا کے صرف ظاہر کو جانتے ہیں، حقیقت اس کی بھی معلوم نہیں، اور آخرت سے بالکل ہی غافل ہیں، بے خبر ہیں۔“
دُنیا کا ایک ظاہر ہے، ایک اندر، اس کا چھپا ہوا ہے، تم دُنیا کے ظاہر ہی ظاہر کو جانتے ہو، اس کے اندر کا تمہیں بھی معلوم نہیں، اور دعویٰ کرتے ہو خدا اور نبی کے مقابلے میں علم کا، تو مسلمان ایسا ہونا چاہئے کہ وہ کتاب اللہ کا برتن ہو کہ اللہ تعالیٰ کی کتاب اس کے سینے میں محفوظ ہو، اس کے الفاظ بھی، اس کے معانی بھی اور اس کے انوار و برکات بھی اس کے سینے میں محفوظ ہوں، اس کے دِل سے اللہ تعالیٰ کی کتاب کی شعائیں پھوٹیں ”ینابیع العلم“ اور علم کے کے چشمے ہوں، جب بھی تمہاری زبان سے کچھ نکلے تو علم کی بات نکلے۔
دُوسری بات یہ ارشاد فرمائی کہ ایک دن کے بدلے میں ایک دن کا رزق تلاش کرو، آج کماوٴ کل کے کھانے کے لئے، بس! آج کی محنت کل کے لئے، کل کی محنت پرسوں کے لئے، ہوس نہ کرو، ”سامان سو برس کا، پل کی خبر نہیں!“ قدرتی طور پر ہر آدمی کے دِل میں اپنے بعد اپنے بیوی بچوں کا خیال ہوتا ہے، کسی حد تک ہونا بھی چاہئے، یہ فطری چیز ہے، لیکن ایسا تو نہ کرو کہ اپنی آخرت سے بالکل غافل ہوجاوٴ، بھائی! آج کھالیا، آج کمالیا، کل کے لئے تو تم نے کچھ نہیں چھوڑا، پوری دُنیا کی زندگی کو ایک دن سمجھو، تم کماکر یہیں کھالیا یا کچھ تھوڑا بہت اپنے بچوں کے لئے چھوڑ گئے تو آنے والی زندگی کے لئے تمہاری محنت سے اس کا کوئی تعلق نہیں، اگلی زندگی پر ایمان ہی نہیں یا اگلی زندگی پر بھی ایمان ہے لیکن سوال یہ ہے کہ اس کے لئے ہم نے محنت کیا کی؟ یہاں تو یہ اُصول ہونا چاہئے تھا کہ ایک دن کی روٹی چاہئے تھی اور بس! ایک دن کی روٹی مل گئی ہے کافی ہے، حدیث میں ہے:
”من أصبح منکم اٰمنًا فی سربہ معافًی فی جسدہ عندہ قوْت یومہ فکأنما حیزت لہ الدنیا بحزافیرھا۔“ (مشکوٰة ص:۲۴۲)
ترجمہ:․․․ ”تم میں سے جو شخص اس حالت میں صبح کرے کہ اپنی ذات کے بارے میں امن سے ہو، بدن دُرست ہو، اور اس کے پاس ایک دن کی خوارک ہو، تو یوں سمجھو گویا ساری دُنیا اپنے ساز و سامان کے ساتھ سمٹ کر اس کے پاس جمع ہوگئی ہے۔“
جو شخص صبح کرے اس حالت میں کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے عافیت ہے، کوئی بیماری نہیں ہے، اللہ تعالیٰ کا شکر ہے دِماغ کام کر رہا ہے، اللہ تعالیٰ کا احسان ہے آنکھیں کام کر رہی ہیں، اللہ تعالیٰ کا شکر ہے ہاتھ پاوٴں کام کر رہے ہیں، اللہ تعالیٰ کا احسان ہے یہ وجود کی جو مشینری ہے کام کر رہی ہے، بس عافیت ہو، الحمدللہ! اور اپنے دِل میں امن اور اطمینان ہے کہ گھر میں کوئی خوف نہیں، اللہ تعالیٰ کا شکر ہے، ایک دن کی روزی موجود ہے، شام تک بچے کھاسکتے ہیں، اتنی روٹی موجود ہے، فرمایا: گویا اس کے لئے ساری دُنیا اپنے ساز و سامان کے ساتھ جمع کردی گئی ہے، باقی ہوس ہے۔ بھائی! ایک دن کی روزی ضرورت ہے، علماء کہتے ہیں کہ تین دن کی روزی ہو کافی ہے، اور نیچے آجاوٴ، باقی ہوس ہے۔ اور ہماری ہوس ہی پوری نہیں ہوتی، کسی شخص کی آمدنی پہلے دس روپے تھی، گھٹتے گھٹتے ایک روپے رہ گئی، بس اس کی پریشانی دیکھنے کے لائق ہے، حالانکہ روٹی اب بھی چل رہی ہے، الحمدللہ کسی کا مقروض نہیں ہے، اللہ تعالیٰ کا شکر ہے، لیکن وہ ٹھاٹ جو دس روپے والی تھی وہ نہیں ہے، بہت پریشان ہوتے ہیں، تو ایک دن کی روزی ایک دن کے بدلے میں تلاش کرو۔
دُوسری روایت میں فرمایا کہ توابین کے پاس بیٹھا کرو، توبہ کرنے والوں کے پاس بیٹھا کرو، کیونکہ ان کے دِل بہت نرم ہوتے ہیں، اپنے گناہوں کو دیکھ دیکھ کر شرمندہ ہوتے ہیں، اور گناہوں کا بوجھ ان کی کمر کو دُہرا کردیتا ہے، اور ان کی آنکھوں کو جھکا دیتا ہے، نہ یہ تن کر چلیں گے اور نہ آنکھ اُٹھاکر متکبرانہ انداز میں دیکھنے کے لائق ہوں گے، ان کے گناہوں کے احساس نے ان کو شرمندہ کردیا ہے، اور ان میں کبر کی بجائے عجز پیدا کردیا ہے۔
شیخ سعدی فرماتے ہیں کہ: مدعی اپنے سوا کسی اور کو نہیں دیتا، اگر اللہ تعالیٰ تجھے چشمے خدا بھی بخش دیتے ․․․․یعنی اللہ تعالیٰ کو دیکھنے والی نظر․․․ تو تجھے دُنیا میں اپنے سے عاجز کوئی نظر نہ آتا، تو سمجھتا کہ اللہ تعالیٰ کی مخلوق میں عاجز تر آدمی میں ہوں، اور یہ بھی نظر آتا کہ سب سے زیادہ گناہگار میں ہوں، تجھے نظر آتا کہ اگر میری بخشش ہوگئی تو اِن شاء اللہ سب کی بخشش ہوجائے گی، اگر اللہ تعالیٰ مجھ جیسے گناہگار کو بھی معاف فرمادیں گے تو پھر اس کا مطلب یہ ہے کہ ساری دُنیا بخشی جائے گی، یہ ہیں توابین، ان کے دِل نرم ہوتے ہیں، ان کے پاس بیٹھنا چاہئے۔
اشاعت ۲۰۰۹ ماہنامہ بینات , ذوالحجہ:۱۴۳۰ھ - دسمبر: ۲۰۰۹ء, جلد 72, شمارہ 12

    پچھلا مضمون: چند اہم اسلامی آداب !
Flag Counter