Deobandi Books

ماہنامہ البینات کراچی شعبان ۱۴۳۰ھ - اگست ۲۰۰۹ء

ہ رسالہ

8 - 11
رؤ یت ہلا ل اور نظام شریعت
رؤ یت ہلا ل اور نظام شریعت

رؤ یت ہلال کے متعلق شریعت کا نظام بالکل فطری مکمل اور پوری طرح قابل اطمینان ہے جو ایک حکیم وفلسفی علم ہیئت کے ما ہر اور ایک غیر تعلیم یا فتہ بدوی دونوں کے لئے یکساں طور پر قابل اعتماد ہے، قمری نظام جو مشاہدہ اور روٴیت بصری پر مبنی ہے، اس حسابی شمسی نظام سے بدر جہاز یادہ باعث یقین اور وجہ طمانیت ہے جو محض عقلی حساب اور یادداشت پر قائم ہے، حساب اگر چہ تقریبی طور پر یقینی ہے لیکن محض عقلی اور علمی ہے اور مشاہدہ وروٴیت کا درجہ یقینا عقلی اور فکری نتائج سے زیادہ قطعی اور قابل اعتماد واطمینان ہے ،اسی لئے اور اس کے علاوہ متعد دو جوہ سے شریعت اسلامی نے عبادات حج ور وزہ کا مدار ہلال کی روٴیت پر رکھا ہے، قرآن کریم میں ارشاد ہے :
”ان عدة الشھور عند اللّٰہ اثنا عشر شھرافی کتاب اللّٰہ یو م خلق السمٰوات والا رض منھا اربعة حرم۔ذلک الدین القیم۔ (التوبہ:۳۶)
ترجمہ:۔” بلا شبہ، مہینوں کا شمار اللہ تعالیٰ کے نزدیک بارہ مہینے ہے اللہ تعالیٰ کی کتاب میں جس دن کہ پید اکیا تھا (اللہ نے) آسمانوں اور زمین کو، ان (بارہ) میں سے چار حرام ہیں (جن میں جنگ کرنے کی ممانعت ہے) یہ درست دین ہے۔“ اور ارشاد فرمایا:
”یسألونک عن الا ھلة، قل ھی مواقیت للناس والحج“(البقرة:۱۸۹)
ترجمہ:۔” وہ آپ سے ہلا لوں کے متعلق دریافت کرتے ہیں، آپ کہہ دیجئے وہ لوگوں کے لئے مقررہ اوقات(کے پیما نے) ہیں اور حج کے لئے۔“
پھر ہلال کے ان فطری مو اقیت کا معیار و مدار، اس کی طبعی رؤیت ومشاہدہ کو ٹھہرایا ہے ، حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
نحن امة امیة لا نکتب ولا نحسب، الشھر ھکذا وھکذا،اوھکذا۔“
ترجمہ:۔” ہم امی قوم ہیں ،نہ لکھتے ہیں نہ حساب رکھتے ہیں، مہینہ ایسا اور ایسا اور ایسا ہوتا ہے، (آپ نے دونوں ہاتھوں کی انگلیوں کے شمار سے ایک مر تبہ تیس اور ایک مر تبہ انتیس کے شمار کی طرف اشارہ فرمایا)۔ اور فرمایا:
”صو موا لر ؤ یتہ وافطروا لر ؤ یتہ، فان غم علیکم الھلال فکملوا عدة شعبان ثلا ثین یو ما۔“
ترجمہ:۔” روزہ رکھو اس (ہلال) کو دیکھنے سے اور افطار کر و اس کے دیکھنے سے اور اگر گھٹا تمہارے لئے چاند (دیکھنے) سے مانع ہو تو شعبان کا شمار تیس دن پوراکرو“۔
قرآن وحدیث کی ان نصوص شرعیہ سے فقہائے امت محمد یہ نے رؤیت ہلال کے لئے ایک مفصل نظام اور قانون مر تب کیا ہے اور رؤیت کے شرعی ثبوت کے لئے ایک مکمل طر یق کار اور نظام عمل واضح فرمادیا ہے، اگر حکومت پاکستان شرعی طر یقوں پر عمل کرے تو عبادات کی تنظیم اور ان کے اوقات کے صحیح تعین میں کبھی اختلال واضطراب پیدا نہیں ہوسکتا۔
اس سال ہلال عید کے بارہ میں جو اختلاف واضطراب پیش آیا، اس کی وجہ یہی تھی کہ اس معاملہ میں شرعی دستورا لعمل کو نظر انداز کر دیا گیا تھا، اس کے نتیجہ میں قوم کو مذہبی معاملات کے متعلق حکومت کے رویہ پر مز ید بد اعتمادی پیدا ہوئی اور حکومت کو اس فرو گذاشت کے لئے سجدہ سہو کر نا پڑا۔
روٴیت ہلال کے شر عی ثبوت کے لئے فقہائے امت اسلامیہ نےجو اصول بیان فرمائے ہیں، ان کا خلاصہ یہ ہے کہ :
الف:- رؤ یت ہلال کی شہادت علماء کے سامنے آئے اور وہ اس کے ر دو قبول کا فیصلہ کریں۔
ب:- شاہد اگر خود علماء تک نہ پہنچ سکیں تو ہر شاہد اپنی شہادت کے دو گواہ بنائے اور پھر یہ گواہ علماء کے سامنے اس شہادت پر گواہی دیں۔
ج:- اگر کسی جگہ علماء اور قاضیوں کے سامنے شرعی شہادت پیش ہوجائے تو دوسرے علاقہ میں اس عالم یا قاضی کی سر بمہر تحریر پر دو شاہد اپنی شہادت پیش کریں۔
د:- ان تین طر یقوں کے علاوہ ایک چو تھی صورت استفا ضہٴ خبر (خبر کی شہرت اور تواتر) کی بھی ہے اور وہ یہ کہ ملک کے مختلف علاقوں سے عام اطلا عات ملیں اور ان خبروں سے رؤ یت کا ایک گو نہ یقین حاصل ہوجائے۔
روزہ اور فطر کو رؤیت ہلال پر مو قوف رکھنے کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے واضح ارشاد اور فقہا ء کے استخراجی اصول وقوانین کے ساتھ اگر اس مصلحت عامہ کو پیش نظر رکھا جائے جو اسلام کے تمام اصول واحکام، فر ائض اور ادائے فرائض کے سلسلہ میں ملحوظ رکھی گئی ہے اور جس کو سمجھنے کے لئے کسی غیر معمولی عقل وفہم کی ضرورت نہیں ہے تو ہلال کی طبیعی اور عادی رؤیت و مشاہدہ پر روزہ وافطار کا مدار رکھنے کے اس حکم کی علت وحکمت بہ آسانی سمجھ میں آسکتی ہے، خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ(الدین یسر) دین آسان ہی ہے۔
روزہ اور فطر ایک مسلمان کے انفرادی فرائض اور ذمہ داریاں ہیں، فرضیت کے شعور اور ادائے فرض کی ذمہ داری سے سبکد وش ہونے کے لئے اس پر آلات رصد یہ کے استعمال اور فو ق العادہ وسائل ِسائنس اختیار کرنے کی ذمہ داری عائد نہیں کی گئی، ہوسکتا ہے کہ ایک مسلمان یا مسلمانوں کی ایک آبادی ایسی جگہ ہو جہاں ان کو آلاتِ رصدیہ اور حسابی سائنس کی سہو لتیں حاصل نہ ہو سکتی ہوں، یہ صورتحال خود ہمارے ملک ہی میں موجود ہے، بہت سے دیہات اور قصبات ایسی الگ تھلگ وادیوں اور دوردراز علاقوں میں واقع ہیں جہاں ما ہر ین ِسائنس اور آلات رصدیہ کی سہولتیں تو کیا ،شہری علاقوں سے جلد خبر یں پہنچنے اور حاصل کرنے کی آسانیاں بھی مسیر نہیں ہیں اور ان مسلمانوں کے لئے اس کے سوائے کوئی چارہ نہیں ہے کہ وہ چاند کی طبعی رؤیت ومشاہدہ پر ہی روزہ اور افطار کا انحصار رکھیں، اس لئے اگر صرف اپنے ہی ملک پا کستان میں عید کی وحدت اور اجتماعیت پیدا کرنے کے لئے ہم سائنس اور رصد یہ آلات کے ذریعہ چاند کی دریافت کو معیار بنائیں تب بھی، اس سے قطع نظر کہ اس فوق العادت اجتماعیت کے ہم مکلف نہیں ہیں، ان پسما ند ہ ودور افتاد ہ بسیتوں میں روزہ وافطار کی یہ وحدت اور یکسانیت ممکن نہیں ہو گی اور مشرقی ومغربی پاکستان میں تو روزہ اور عید کی یہ یکسا نیت طو ل بلد کے فر ق کی وجہ سے بسا اوقات سائنس اور حسابی اصول کے بھی خلاف ہو گی۔
شریعت کی مطلو ب وحدت واجتما عیت میں بھی عوام کی سہولت ومصلحت ہی ملحوظ ہے، جمعہ اور عید ین میں مسلمانوں کا اجتماع مطلو ب بہ شرعی ہے، لیکن کثیر آباد ی کے شہروں میں شہر کی پوری آبادی کے لئے کسی ایک ہی مسجد یا عید گاہ میں اجتماع کو ضروری قرار دینا حرج عام اور غیر شرعی تکلیف ہے، اسی طرح ایک ایک ملک کے وسیع علاقہ میں مطالع کے طبیعی اور حسابی فرق اور اختلاف کو نظر انداز کر کے روزہ اور عید میں بہ تکلف وحدت و اجتماعیت پیداکرنا غیر معقول بھی ہے اور شرعی طور پر غیر مطلو ب اور عوام کو حرج اورتنگی میں مبتلا کرنے کے مترادف بھی ہے۔قرآن کریم میں ارشاد ہے:
”یر ید اللّٰہ بکم الیسر ولا یر ید بکم العسر۔“
ترجمہ:”اللہ تعالیٰ تمہارے ساتھ آسا نیاں بر تنا چاہتا ہے اور تمہارے لئے تنگی اور سختی نہیں چاہتا۔“
اس لئے فرائض عبادات (حج وروزہ وزکوٰة) کے لئے آسان صحیح اور مکمل نظام الاوقات وہی ہے جو قران وسنت نے ہلال اور اس کی عادی رؤیت ومشاہدہ پر قائم کیا ہے اور جس کے لئے فقہائے امت نے نہایت مر تب اور منظم اصول وقواعد مر تب فر مادیئے ہیں۔
رؤ یت ہلال

اللہ تعالیٰ کا بڑا احسان ہے کہ دین اسلام ایک معقول فطری نظام ہے، پھر یہ تمام ادیان سماویہ اور ادیان عالم میں واحد جامع تر ین نظام بھی ہے، اسلام کے پیش کردہ معاملات اور معاشرت کی معقولیت تو واضح ہے ہی ،لیکن نظام عبادات بھی جو بظا ہر عقول وادراکات کے احاطے سے بالاترہوتا ہے، اسلام میں بڑی حدتک معقول ہے اور اس کے اسرار وحکم کی گہرائیوں میں جہاں تک عقل نارساکی رسائی ہوسکی ہے، قلب مومن کو اس سے بڑا سکون واطمینان حاصل ہوتا ہے ،خواہ وہ عبادتِ نماز ہو یاروزہ و زکوٰة ہویا حج۔
مثلاً عبادات کے نظام اوقات ہی کو لیجئے :اسلام نے عبادات کے اوقات کا مدار حس اور مشاہدے پر رکھا ہے، تاکہ ان کے بارے میں جس طرح یونان کا ایک فلسفی مطمئن ہوسکتا ہے، ٹھیک اسی طرح جزیرة العرب کا ایک دور افتادہ بادیہ نشین بھی مطمئن ہوسکے، طلوع فجر سے صبح کا وقت شروع ہو ا اور طلوع آفتاب پر ختم ہوا، سورج کے ڈھلنے سے ظہر کا وقت شروع ہوا،اور سائے کے دو قامت ہونے تک باقی رہا، پھر عصر کا وقت شروع ہوا اور غروب آفتاب پر ختم ہو کر مغرب کا وقت شروع ہوگیا، شفق سرخ یا سفید پر مغرب کا وقت ختم ہو کر عشاء کا وقت شروع ہو ااور طلوع فجر تک رہا، اوقات نماز کا یہ کتنا صاف ،واضح اور فطری نظام ہے ؟ جبریل امین نے حضر ت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اسی طرح تعلیم دی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے امت کو اسی طرح تعلیم فر مائی۔
جس طرح اوقات نما زکا مدار حس اور مشاہدے پر رکھا، اسی طرح تمام عبادات سے متعلقہ نظام اوقات کو قمری مہینوں سے مر بوط فرمایا گیا اور اسی قمری نظام کو قرآن حکیم نے دین قرار دیا (ذالک الدین القیم) شمسی نظام خواہ وہ ایران کا ہو یا یو نان کا، ر وما کا ہویا ہندو ستان کا، محض عقلی اور حسابی نظام ہے، دین فطرت میں حسابی تخمینوں پر عبادات واحکام کا مدار نہیں رکھا گیا،بلکہ چاند کے محکم فطری نظام پر ان کا مدار رکھا گیا ،تاکہ امت مرحومہ کا ہر عامی وخاصی اس پر عمل پیر اہو سکے ،چنانچہ روزہ رمضان کے بارے میں حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد واضح ہے:
” ہم تو امت امیہ ہیں، نہ لکھنے کی حاجت نہ حساب کی ضرورت ! چاند دیکھ کر روزہ رکھو اور چاند دیکھ کر عید کرو، ہاں اگر بادل ہوں تو پھر تیس دن پورے کرو۔“
فقہائے امت نے اس کی تفصیل بیان فرمائی ہے، جسے یہاں بیان کر نے کی ضرورت نہیں، یہ حقیقت بھی واضح ہے کہ اگر کوئی اسلامی حکومت رؤیت ہلال (چاند ہونے) کا اعلان کرتی ہے توا مت کے لئے وہ اعلان واجب القبول ہونا چاہیے، لیکن یہ شرط ضرور ہے کہ اس اعلان کا طریقہ کا رشر عی قواعد سے نہ ٹکرائے، بلکہ اس کا طریقہ کار وہی ہو جس کی شرعی صورتیں فقہائے امت رحمہم اللہ نے بیان کی ہیں۔
یہ بات تو سبھی جانتے ہیں کہ شاہد خود آکر قاضی یا عالم کے پاس اپنی شہادت بیان کرتا ہے اور شرعی قاضی فیصلہ کر کے اعلان کراتا ہے، اس وقت حجا ز ہو یا مصر، شام ہویا اردن، ہر جگہ یہی طریقہٴ کار ہے کہ حکومت نے یہ کام ملت کے معتمد علیہ قاضی یا شیخ الاسلام کے (اگر کسی اسلامی حکومت میں اس عہدے پر کوئی عالم مقرر ہو) سپر د کر رکھا ہے، وہ شہادت لے کر فیصلہ کرتا ہے اورحکومت، مملکت میں اس فیصلے کا اعلان کر تی ہے، بعض لوگوں کو یہ غلط فہمی ہورہی ہے کہ عرب ممالک میں رؤیت ہلال کا نظام صرف حکومتوں کے ہاتھ میں ہے اور وہ آپ سے جب چاہتی ہیں چاند کا اعلان کر دیتی ہیں، کل تک جہاں ہندوستان میں اسلامی ریاستیں قائم تھیں، بھوپال رامپور ،ٹونک سبھی جگہ علماء اور قاضیوں کے یہ کام سپردکیا تھا، وکا نوااحق بھا واھلھا۔
یہ کون نہیں جانتا کہ ”شاہد“ اور قاضی کا ایک جگہ ورود ہونا صحت شہادت کے لئے قطعی شرط ہے، جہاں قاضی ہو وہاں شاہد پہنچے یا جہاں شاہد ہوں قاضی صاحب وہاں تشریف لے جا کر شہادت سنیں، اس کے بغیر نہ شہادت کا کوئی وزن ہے اورنہ وہ کسی کے لئے قابل قبول ہے، اس عید الفطر کے موقع پر دوسری دفعہ جو صورت حال پیش آئی ،نہایت ہی افسو سناک تھی، اگر ارباب حکومت ذرا غور کرتے اور شرعی اصول کے مطابق اس مشکل کو حل کر نے کی تد بیر فرماتے تو معاملہ بالکل آسان تھا، یعنی جہاں رؤ یت ہوئی تھی ان گواہوں کو مر کز میں مر کزی رؤیت ہلال کمیٹی کے پاس پہنچا تے ،وہ ان سے رو در رو شہادت لے کر فیصلہ کر دیتی اور اعلان ہوجاتا۔
یہاں ہمیں اس سے بحث نہیں کہ وہ شہود کیسے تھے؟ نہ اس سے بحث ہے کہ ملک بھر میں مطلع صاف ہونے کے باوجود راو لپنڈی سے کراچی تک صو بے بھر میں کسی بھی جگہ چاند نظر نہ آنے کی صورت میں ان کی شہادت کی شرعاً کیا حیثیت تھی ؟ مگر اتنا تو ہوا ہو تا کہ ان کو اس کمیٹی کے پاس پہنچا دیا جاتا یا پھر جن اصحاب کو اس فیصلے کے لئے مقرر کیا گیا تھا ،ان ہی کو شہود کے پاس پہنچا دیا گیا ہوتا، موجود ہ دور کے وسائل اور مواصلات میں جہاں عمدہ سے عمدہ تیز رفتار کاریں موجود ہوں، ہیلی کاپٹر ہوں، فو کر اور ڈیکوٹا طیارے موجود ہوں، ہر مر کزی مقام میں ہوائی اڈہ موجود ہو، حکومت کے لئے یہ انتظام کیا مشکل تھا ؟
کون نہیں جانتا کہ آج تک محاکم عدلیہ میں خواہ وہ اسلامی ہوں یا غیر اسلامی، ٹیلی گر ام سے شہادت قابل سماع نہیں ہو تی ! پھر رؤیت ہلال کی شہادت کو ٹیلیفون پر قبول کر نے پر کیوں اصرار کیا جاتا ہے ؟ بہر کیف ہوا یہ کہ جب رات کے تقریباً دس بجے مر کزی رؤیت ہلال کمیٹی سے حضرت مولانا مفتی محمد شفیع صاحب نے خود ر جو ع کیا اور اس ذمہ دار قاضی سے براہ راست ٹیلیفون پر بات کی تو معلوم ہو اکہ گواہ تو کو ہاٹ میں تھے، مگر ٹیلیفون پر گواہوں کی خبر مر کزی رؤیت ہلال کمیٹی کو دی گئی ہے، کیا شرعا ًوعقلا ًشہادت کی یہ عجیب وغریب صورت قابل اعتبار ہو سکتی ہے ؟ کہ گواہ تو ہوں کو ہاٹ میں اور قاضی صاحب پنڈی میں؟ البتہ اگر ملک کے مختلف مقامات میں تو اتر کی حدتک رؤیت ہلال ثابت ہوجاتی اور ان متعددو مختلف مقامات سے رؤیت کی خبر یں ٹیلیفون یاٹیلیگر اف سے پہنچ جاتیں تو یہ فقہ اسلامی کا ایک اور قانون ہوتا ،یعنی استفا ضہٴ خبر (کسی خبر کا شہرت اور تو اتر کی حدتک پہنچ جانا) اور اس وقت ”قانون شہادت پر عمل کی ضرورت نہ تھی (شر یعت میں مو سمیات کے فیصلوں کا کوئی وزن نہیں)
کراچی کے جن علماء نے ریڈ یو کے اعلان سے موافقت نہیں کی ،وہ اس وقت ، جبکہ ان پر شہادت کی مندرجہ بالا نو عیت واضح ہو گئی، خود راقم الحروف نے رات گئے تک نہ خود تر اویح پڑھیں، نہ بنوری ٹاوٴن کی مسجد میں پڑھو ائیں، بلکہ صورت حال کی وضاحت کا انتظار کرتا رہا۔
بہرحال آئندہ اس بد مز گی کے سد باب کے لئے اسلام کے صاف واضح اور فطری قانون پر عمل ضروری ہے،۔
اس مشکل کا آسان حل یہی ہے کہ مختلف مقامات اور علاقوں کے مر کزی شہروں میں رؤیت ہلال کمیٹیاں قائم ہوں جن میں ملت اسلامیہ کے تمام طبقات کے معتمد ماہر ین فقہ کو نمائندہ گی دی جائے اور جہاں شہادت میسر آئے، وہیں کی روٴیت ہلال کمیٹی فیصلہ کرے اور وہ اپنے اپنے فیصلوں کی اطلاع مر کزی رؤیت ہلال کمیٹی کو کریں اور مر کزی کمیٹی کا ذمہ دار شخص خود ر یڈ یو پر اعلان نشر کرے۔ اس صورت میں مختلف جہات واطراف سے جو خبر یں موصول ہوں گی، ان کے لئے ٹیلیفون کا واسطہ بھی کافی ہے۔
اشاعت ۲۰۰۹ ماہنامہ بینات , شعبان ۱۴۳۰ھ - اگست ۲۰۰۹ء, جلد 72, شمارہ 8, جلد 72, شمارہ 8

    پچھلا مضمون: چند اہم اسلامی آداب
Flag Counter