Deobandi Books

ماہنامہ البینات کراچی شعبان ۱۴۳۰ھ - اگست ۲۰۰۹ء

ہ رسالہ

2 - 11
در آمدشدہ گوشت کا حکم
در آمدشدہ گوشت کا حکم!

جناب مفتی صاحب! یہاں بہت سے حضرات کو ایک مسئلہ درپیش ہے، امید ہے جواب سے سرفراز فرمائیں گے‘ وہ یہ کہ ہمارے ملک پاکستان کے بڑے بڑے ہوٹلوں میں جو گوشت کھانے کے لئے مہیا کیا جاتا ہے وہ اکثر بیرون ممالک جیسے ساؤتھ افریقہ‘ فرانس‘ اور آسٹریلیا سے لایا جاتا ہے اور سعودی عرب میں جو گوشت بکتا ہے ،خاص طور پر ایام حج میں وہ کچھ تو بیرون ممالک سے آتا ہے ،کیونکہ عازمین حج وعمرہ کے لئے ان کی ضرورت کے مطابق گوشت مہیا کرنے کے لئے اتنے جانور وہاں موجود نہیں ،اور کچھ جانور سعودی عرب میں ہی ذبح ہوتے ہیں ،جو گوشت بیرون ممالک سے درآمد کرتے ہیں یا ہمارے ہوٹلوں میں جو گوشت آتا ہے، اس کے بارے میں بعض مسلمان مندرجہ ذیل خدشات کااظہار کرتے ہیں کہ وہ چند طرح کا ہوتا ہے:
۱:۔ یا تو ٹیپ ریکاڈر کے ذریعے بسم اللہ پڑھ کر ذبح کرتے ہیں۔
۲:۔ چھری پر بسم اللہ لکھی ہوئی ہوتی ہے اور جانور ذبح ہوتا ہے۔
۳:۔ ذبح کرنے سے پہلے بیہوش کرنے کے لئے یا تو کرنٹ دیتے ہیں یا پستول چلاتے ہیں یا کاربن ڈائی اکسائیڈگیس استعمال کرتے ہیں۔
۴:۔ مشین سے ذبح کرتے ہیں جس میں بسااوقات رگیں بھی نہیں کٹتیں۔
۵:۔ اور ان بیرون ممالک کے اہل کتاب ذبح کرتے ہیں، اگرچہ اہل کتاب کا ذبیحہ حلال ہے مگر وہ برائے نام ہیں۔اور خود سعودی عرب میں جو جانور ذبح کئے جاتے ہیں اس میں جب مرغی کو ذبح کیا جا تاہے‘ تو فوراً ہی ٹھنڈا کئے بغیر گرم پانی میں ڈال لیتے ہیں، تاکہ پر اتر جائیں اور بعض اوقات مذبح خانے میں جانور ذبح ہوتے ہی ابھی ٹھنڈا بھی نہیں ہوا ،بعض مرتبہ تو رگیں بھی نہیں کٹتیں اور دوسرا جانور اس پر گرا کر کاٹ لیتے ہیں اور انہی مذبح خانوں میں جو جانور ذبح ہوتے ہیں، خاص طور پر ایام حج میں تو وہ گوشت دوسرے ممالک جیسے پاکستان وافغانستان کے مسکینوں ‘ غریبوں اور مہاجرین کی مالی معاونت کے لئے بھیجا جاتاہے۔
۱…اب پوچھنا یہ ہے کہ جن ہوٹلوں کے بارے میں ہمیں یقین یا ظن غالب ہے کہ وہ گوشت بیرون ممالک سے درآمد کرتے ہیں تو کیا ان ہوٹلوں کا گوشت کھانا جائز ہے یا نہیں؟
۲…سعودی عرب میں جتنے بھی ہوٹل ہیں، سب مسلمانوں کے ہیں ،اب ہمیں پتہ نہیں کہ گوشت مذکورہ اقسام میں سے کس قسم کا ہے، کیا ایسے ہوٹلوں میں ہم کھا نا کھا سکتے ہیں؟
۳…پاکستان وافغانستان کے غریبوں اور مستحقین کو سعودی عرب سے اس سپلائی شدہ گوشت کا کھانا جائز ہے یا نہیں؟ جس کا تذکرہ اوپر ہوچکا۔
۴…کیا موجودہ اہل کتاب کا ذبیحہ حلال ہے یا نہیں؟
۵…کیا مرغی کو ذبح کرنے کے بعد فوراً ہی ٹھنڈاکئے بغیر گرم پانی میں ڈالنا تاکہ پر اتر جائیں جائز ہے یا نہیں؟ اور کیا اس صورت میں گوشت پر تو اثر نہیں پڑتا؟
۶…مشینی ذبیحہ کیسا ہے جائز ہے یا نہیں؟ امید ہے کہ تفصیلی جواب سے سرفراز فرمائیں گے۔
بینوا توجروا۔ المستفتی نصیب الرحمن کوئٹوی
الجواب باسمہ تعالیٰ
واضح رہے کہ ”شریعت اسلامیہ“ ”ذبح“ کے بارے میں خاص طریقے اور اصول مقرر کرنے میں دوسری تمام شریعتوں سے بالکل ممتاز ہے‘ لہذا ”جانوروں کے ذبح“ کا معاملہ ایسے معمولی امور میں سے نہیں ہے کہ انسان اپنی ضرورت اور مصلحت کے مطابق اپنی آسانی کے لئے جس طرح چاہے انجام دے اور وہ کسی اصول اور احکام کا پابند نہ ہو‘ بلکہ یہ معاملہ ان ”امور تعبدیہ“ میں سے ہے جن کے بارے میں قرآن وحدیث میں بیان کردہ احکام کی پابندی ایک مسلمان کے لئے لازم ہے۔ چنانچہ حدیث شریف میں ہے:
۱:۔”من صلی صلاتنا واستقبل قبلتنا وأکل ذبیحتنا فذلک المسلم الذی لہ ذمة الله ورسولہ“۔ (صحیح البخاری رقم:۳۶۱)
۲:۔”امرت ان أقاتل الناس حتی یقولوا: لا الہ الا الله فاذا قالوہا وصلوا صلاتنا واستقبلوا قبلتنا وذبحوا ذبیحتنا فقد حرمت علینا دماؤہم واموالہم الا بحقہا… (صحیح البخاری رقم ۳۹۲)
ان روایات سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ حضور اکرم ا نے جانور کے ذبح کو نماز اور استقبال قبلہ کے ساتھ ملاکر بیان فرمایا ہے اور اس کو شریعت اسلامیہ کے امتیازات میں ارشاد فرمایا ہے ،جس کے ذریعہ غیر مسلمان‘ مسلمان سے ممتاز ہوتا ہے اور یہ چیز اسلام کی ان علامات اور شعائر میں سے ہے جن کے ذریعہ یہ پتہ چلتا ہے کہ یہ شخص مسلمان ہے اور وہ اپنا خون اور مال دوسرے مسلمانوں سے محفوظ کرلیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مشروع طریقے سے حیوان کو ذبح کرنا امور تعبدیہ میں سے ہے۔ دوسری وجہ یہ کہ ”مأکول اللحم“ جانور اس وقت تک حلال نہیں ہوسکتا جب تک کہ اس کو شریعت کے مطابق ذبح نہ کیا جائے اور ذکاة شرعی کے لئے مندرجہ ذیل شرائط ہیں :
الف: ذبح کرتے وقت اللہ کا نام لینا۔
ب: جن جانوروں کے ذبح کرنے پر قدرت ہے ،ان کی روح جانور کے گلے کی رگوں کے کاٹنے کے نتیجہ میں نکلے۔
ج: ذبح کرنے والا عقلمند باشعور مسلمان یا کتابی (یعنی عیسائی یا یہودی جو اپنے مذہب سے واقف) ہو، جس جانور کے ذبح کے وقت ان تین شرائط کا خیال رکھا گیا وہ جانور حلال ہوگا، ورنہ نہیں۔
اس تمہید کے بعد اب سوالات کے جوابات ملاحظہ ہوں:
۱۔ وہ گوشت جو فی زماننا مغربی ممالک مثلاً: امریکہ‘ جنوبی افریقہ‘ آسٹریلیا‘ برازیل وغیرہ سے مسلمان ممالک میں درآمد (امپورٹ) کیا جارہا ہے اور مختلف ہوٹلوں میں اس قسم کا گوشت پکایا اور کھلایا جارہا ہے‘ بہت سی وجوہات کی بنا پر ایسے گوشت کو استعمال کرنے کی ممانعت ہے۔ ان میں سے بعض وجوہ مندرجہ ذیل ہیں:
الف۔ پہلی وجہ یہ ہے کہ اس صورت میں ذبح کرنے والے کے مذہب کے بارے میں پتہ کرنا مشکل ہے۔ کیونکہ ان ممالک میں بہت سے بت پرست ‘ آتش پرست‘ دہریئے اور مادہ پرست آباد ہیں‘ لہذا یہ یقین حاصل کرنا مشکل ہے کہ جس جانور کا گوشت بازار میں فروخت ہورہا ہے‘ اس کا ذبح کرنے والا اہل کتاب ہے یا نہیں؟
ب۔ دوسری وجہ یہ کہ اگر تحقیق سے یا غالب آبادی پر حکم لگانے کی وجہ سے یہ ثابت بھی ہوجائے کہ ذابح کتابی ہے‘ پھر بھی یہ پتہ کرنا بہت مشکل ہے کہ یہ شخص فی الواقع نصرانی یا یہودی ہے‘ یا وہ اپنے عقیدے میں خدا کا منکر اور مادہ پرست ہے‘ جیساکہ آج نصرانیوں کی بہت بڑی تعداد وہ ہے جو اس کائنات کے لئے خدا کے وجود کی منکر ہے (العیاذ باللہ)۔ لہذا ایسی صورت میں ذابح کا فی الواقع نصرانی نہ ہونے کا غالب امکان ہے۔
ج۔ تیسری وجہ یہ ہے کہ یہ بات یقینی طور پر ثابت ہے کہ نصاری ذبح کے وقت تسمیہ نہیں پڑھتے اور جمہور اہل علم کے نزدیک یہ بات راجح ہے کہ اہل کتاب کے ذبیحہ کے حلال ہونے کے لئے تسمیہ وتکبیر بھی شرط ہے۔
بہرحال ممانعت کی مندرجہ بالا وجوہ کی بناء پر کسی مسلمان کے لئے مغربی ممالک سے درآمد کیا ہوا گوشت کھاناجائز نہیں۔ جب تک کہ کسی معین گوشت کے بارے میں یہ یقین نہ ہوجائے کہ یہ گوشت مشروع طریقے سے ذبح ہوکر حاصل کیا گیا ہے۔ اور حضرت عدی بن حاتم کی حدیث سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ گوشت کے اندر اصل حرمت ہے، جب تک کہ اس کے خلاف ثابت نہ ہوجائے اور حضور ا نے اس شکار کے کھانے سے منع فرمایا کہ جس شکار میں شکاری کتے کے علاوہ دوسرا کتا بھی شامل ہوجائے۔ چنانچہ حدیث شریف میں ہے:
۱:۔عن عدی بن حاتم قال: قلت یا رسول الله ا انی ارسل کلبی اجد معہ کلبا آخر ،لاادری ایہما اخذہ؟ فقال: لاتأکل! فانما سمیت علی کلبک ولم تسم علی غیرہ۔ (صحیح البخاری کتاب الذبائح رقم ۵۴۹۶)
۲:۔وعنہ مرفوعاً: واذا خالط کلاباً لم یذکر اسم الله علیہا فامسکن فقتلن فلاتاکل۔ (صحیح البخاری رقم ۵۴۸۴)
۳:۔ان وجدتہ غریقا فی الماء فلاتأکل فانک لاتدری الماء قتلہ أو سہمک (مسلم کتاب الصید:۹۷۳)
اس سے یہ معلوم ہوا کہ اگر کسی جانور میں حلت اور حرمت دونوں وجہیں پائی جاتی ہیں تو جانب حرمت کو ترجیح ہوگی‘ یہ احادیث بھی اس اصول پر دلالت کرتی ہیں کہ گوشت کے اندر اصل حرمت ہے‘ جب تک کہ یہ یقینی طور پر ثابت نہ ہوجائے کہ وہ حلال ہے۔
لہذا صورت مسؤلہ میں مذکورہ بالا وجوہ کی رو سے ایسے ہوٹلوں کا گوشت کھانا جن کے بارے میں یقین یا ظن غالب ہے کہ وہ گوشت بیرون ممالک سے درآمد کرتے ہیں‘ جائز نہیں ۔جب تک یقینی طور پر یہ ثابت نہ ہوجائے کہ وہ حلال ہے‘ یعنی حلال طریقے سے ذبح کیا گیا ہے۔
۲۔ سعودی عرب میں تمام ہوٹل کے گوشت دو حال سے خالی نہیں۔ اول یہ کہ وہ گوشت بیرونی ملک سے درآمد کیا ہوا ہوتا ہے۔ دوم یہ کہ وہ گوشت خود سعودی عرب کے جانوروں کا مذبوحہ ہے۔
پہلی صورت کی تفصیل اور حکم وہی ہے جو کہ سوال نمبر ۱ کے جواب میں گذر چکی ہے۔ مزید توثیق کے لئے
”اللجنة الدائمة للبحوث العلمیة والافتاء“
جن کے صدر شیخ عبد العزیز بن باز تھے‘ انہوں نے کچھ لوگوں کو مقرر کیا تھا کہ وہ بالمشافہ تمام بیرونی ممالک کے مذبح خانے جو سعودی عرب کو گوشت مہیا (ایکسپورٹ) کرتے ہیں‘ وہاں جائیں اور ان کے بارے میں تحریری رپورٹ لکھیں کہ آیا وہ اسلامی طریقے پر ذبح کرنے کے تمام شرائط واصول کے موافق ذبح کررہے یا نہیں؟
چنانچہ ان ممالک میں سے آسٹریلیا‘ فرانس‘ لندن‘ یونان‘ ڈنمارک‘ مغربی جرمنی وغیرہ ممالک سے رپورٹیں بھیجی گئیں‘ جن کا خلاصہ یہ تھا کہ :کچھ مذبح خانوں میں جاکر یہ پتہ چلا کہ اس کمپنی کا مالک ایک قادیانی تھا‘ جیسے آسٹریلیا کی کمپنی ”الحلال الصادق“۔ اور یہ کمپنی گائے‘ بکریاں اور پرندے ذبح کرنے میں اسلامی طریقہ اختیار نہیں کرتی‘ لہذا اس کمپنی کا مذبوحہ کھاناحرام ہے۔ کچھ کمپنیوں کے بارے میں یہ پتہ نہیں چلا کہ کمپنی کا مالک مسلمان ہے یا کتابی ہے یا بت پرست ہے یا ملحد ہے؟ جیسے فرانس کی کمپنی برئسا (brisa)۔ اسی طرح لندن میں ذبح کے طریقہ کار کے بارے میں یہ رپورٹ آئی کہ وہاں پر ذبح کرنے والے دین سے منحرف نوجوان‘ بت پرست اور دھریئے ہیں۔ ذبح کا طریقہ کار یہ ہے کہ مرغی کو ایک مشین میں ڈالاجاتا ہے‘ جب وہ مشین سے باہر نکلتی ہے تو وہ مردہ حالت میں ہوتی اور تمام پر اکھڑے ہوئے ہوتے ہیں اور اس کا سرکٹا ہوا نہیں ہوتا‘ بلکہ اس کی گردن پر ذبح کا کوئی اثر ظاہر نہیں ہوتا۔ خود مذبح کے انگریز مالک نے بھی ان باتوں کا اقرار کیا۔ الغرض یہ کہ اکثر بیرونی مذبح خانوں پر ایسی رپورٹیں تحریر کی گئی تھیں جن کی بناء پر ان کمپنیوں کے گوشت کے بارے میں ”ہیئة کبار العلماء“ نے حرمت کافتویٰ جاری کردیا۔ اور بالآخر یہ بھی فیصلہ کردیا کہ جن گوشت کے پاکٹوں پر یہ تحریر لکھی ہے کہ ”برآمد شدہ گوشت حلال ہے“ یہ تحریر اس گوشت کی حلت کے لئے کافی نہیں ہے۔ لہذا ایسے گوشت کو نہ کھایا جائے۔ مزید تفصیل کے لئے دیکھئے ”احکام الذبائح للشیخ محمد تقی عثمانی حفظہ اللہ“۔
جہاں تک دوسری صورت کی بات ہے یعنی سعودی عرب میں مذبوحہ جانوروں کے بارے میں حکم‘ تو چونکہ سعودی عرب مسلمانوں کا ملک ہے اور وہاں کے تمام ہوٹل تقریباً مسلمانوں ہی کے ہیں۔ لہذا ایسے ملک میں جو گوشت ذبح اور فروخت کیا جارہا ہے اس کا کھا نا حلال ہے۔ اگرچہ ہم نے ذبح ہوتے ہوئے نہ دیکھا ہو اور نہ یہ معلوم ہو کہ ذبح کرنے والے نے ذبح کرتے وقت بسم اللہ پڑھی تھی یا نہیں؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ اسلامی ملک یا شہر میں جو چیز فروخت ہوگی اس کے بارے میں یہی حسن ظن رکھا جائے گا کہ یہ گوشت احکام شریعت کے مطابق تیار کیا گیا ہے۔ کیونکہ ہمیں مسلمانوں کے ساتھ حسن ظن رکھنے کا حکم دیاگیا ہے۔چنانچہ حدیث شریف میں ہے:
ان قوماً قالوا للنبیاان قوما یأتوننا بلحم لاندری اذکر اسم الله ام لا؟ فقال: سموا علیہ انتم وکلوہ۔ قالت عائشہ وکانوا حدیثی عہد بالکفر۔ (صحیح البخاری رقم: ۵۵۰۷)
اس کی شرح کرتے ہوئے حافظ ابن حجر فرماتے ہیں:
قال ابن التبن: واما تسمیة علی ذبح تولاہ غیرہم من غیر علمہم فلاتکلیف علیہم فیہ وانما یحمل علی غیر الصحة اذا تبین خلافہا ویحتمل ان یرید ان تسمیتکم الآن تستبیحون بہا اکل مالم تعلموا اذکر اسم الله علیہ ام لا اذا کان الذابح ممن تصح ذبیحتہ اذا سمی۔ ویستفاد منہ ان مایوجد فی اسواق المسلمین محمول علی الصحة وکذا ما ذبحہ اعراب المسلمین لان الغالب انہم عرفوا التسمیة وبہذا الأخیر جزم ابن عبد البر۔ (فتح الباری ص:۶۳۵۔۶۳۶)
پھر حضرت عائشہ کایہ کہنا کہ ان کا زمانہ کفر سے قریب تھا ،یہ جملہ اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ اندیشہ یہ ہے کہ یہ لوگ ذبح کے وقت تسمیہ کے بارے میں صحیح علم ہی نہ رکھتے ہوں‘ لیکن اس کے باوجود حضور اقدس ا نے ان کے ذبح شدہ جانور کا گوشت کھانے کی اجازت دیدی‘ اس کی وجہ یہ ہے کہ مسلمان اگرچہ جاہل ہو پھر بھی حتی الامکان ا سکے عمل کو صحت پر محمول کیا جائے گا‘ جب تک یہ یقین نہ ہوجائے کہ اس نے یہ عمل غلط طریقے پر کیا ہے۔
مذکورہ بالا صورتوں کے علاوہ ایک اور صورت بھی عام ہوچکی ہے اور وہ یہ ہے کہ زندہ جانوروں کو جیسے مرغیوں کو مسلمان ممالک سعودی عرب ‘ کویت وغیرہ میں امپورٹ کیا جاتا ہے اور ان کو وہاں ہی ذبح کیا جاتا ہے‘ چنانچہ اس تیسری صورت کا حکم اور تفصیل وہی ہے جو سوال نمبر۲ کے جواب کی دوسری صورت کی ہے‘ یعنی ایسے گوشت کا کھانا حلال ہے ۔
خلاصہ یہ کہ پہلی صورت میں یعنی سعودی عرب میں بیرونی ممالک سے درآمدشدہ گوشت کو عام حالات اور مشاہدات وواضح قرائن کی بناء پر حرام ہی سمجھا جائے گا‘ جب تک اس کے خلاف کوئی ایسی یقینی دلیل حاصل نہ ہوجائے جو اس کی حلت کو ثابت کرے۔
دوسری اور تیسری صورت میں گوشت کو حلال ہی قرار دیا جائے گا‘ جب تک اس کے خلاف کوئی یقینی دلیل حاصل نہ ہوجائے جو اس کی حرمت کو ثابت کرے۔
۳۔ ہمیں ہر مسلمان کے ساتھ حسن ظن کا حکم دیا گیا ہے‘ اس لئے ہرایک کے لائے ہوئے گوشت کے بارے میں ذبح کے طریقے پر تحقیق اور تفتیش کرنا واجب نہیں، جب تک یہ ظاہر نہ ہوجائے کہ اس نے غیر مشروع طریقے پر ذبح کیا ہے۔ لہذا مذکورہ گوشت کا کھانا حلال ہے‘ ا س کی تحقیق سوال نمبر۲ کے جواب میں گذر چکی ہے۔
۴۔ اس پر تمام امت کا اتفاق ہے کہ اہل کتاب یعنی یہود ونصاری کا ذبیحہ مسلمانوں کے لئے حلال ہے‘ بشرطیکہ وہ ذبح کرتے وقت ان تمام شروط کی رعایت کریں جو قرآن وحدیث میں بیان کی گئی ہیں۔ چنانچہ ارشاد خداوندی ہے:
”طعام الذین اوتوا الکتاب حل لکم“ (المائدہ:۵)
تفسیر ابن کثیر میں ہے:
قال ابن عباس وابو امامة ومجاہد وسعید بن جبیر وعکرمہ وعطاء والحسن ومکحول وابراہیم النخعی والسدی ومقاتل بن حیان: یعنی ذبائحہم حلال للمسلمین لأنہم یعتقدون تحریم الذبح لغیر الله ولایذکرون علی ذبائحہم الا اسم الله وان اعتقدوا فیہ تعالیٰ ما ہو منزہ عنہ تعالیٰ وتقدس۔ (۲/۱۹ ط:لاہور)
شریعت اسلامیہ نے ذبح اور نکاح کے معاملے میں اہل کتاب کو دوسرے تمام کفار سے جدا رکھا ہے‘ اس لئے کہ ذبح اور نکاح کے احکام میں اہل کتاب اور اہل اسلام کے درمیان اصلاً مماثلت پائی جاتی ہے‘ چنانچہ نکاح اور ذبح کے اندر وہ لوگ اصلاً ان تمام شرائط کا خیال رکھتے ہیں جو اسلام نے مسلمانوں پر فرض کی ہیں۔ اور ذبح کے احکام اب تک ان کی مقدس کتابوں میں موجود ہیں‘ باوجودیکہ ان کے اندر بہت سی تحریفات ہوچکی ہیں‘ ان کی بعض عبارتیں ذبح کے احکام کے بارے میں مندرجہ ذیل کتابوں میں موجود ہیں: اللاویین (کتاب الاحبار) ۷/۲۴ ۔الاستثناء ۱۲/۲۷۔۲۸ ۔اعمال ۱۵/۲۸ ۔کورنثوس ۱۰/۲۰۔۲۱
پھر اہل کتاب کے ذبیحہ کے حلال ہونے کا حکم اس شرط کے ساتھ مشروط ہے کہ ذبح کرنے والا یہود ونصاری کے دین پر قائم ہو اور اپنے مذہب کے بنیادی عقائد پر کاربند ہو‘ اگر چہ وہ بنیادی عقائد اسلام کے خلاف ہیں مثلاً ”تثلیث“ کا عقیدہ ”کفارہ“ کا عقیدہ تحریف شدہ تورات او رانجیل پر ایمان وغیرہ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ نزول قرآن کے وقت اگرچہ وہ مذکورہ بالا باطل عقائد رکھتے تھے‘ لیکن اس کے باوجود اللہ تعالیٰ نے ان کو اہل کتاب کا لقب دیا اور قرآن کریم میں ان کے باطل عقائد کی تصریح بھی فرمائی‘ چنانچہ ارشاد فرمایا: ”وقالت النصاری المسیح ابن الله“ (توبہ:۳۰)دوسری جگہ ارشاد فرمایا:”لقد کفر الذین قالوا ان الله ثالث ثلٰثة“ (مائدہ:۷۲)ایک اور جگہ ارشاد فرمایا:”قالت الیہود عزیر ابن الله“ (التوبہ:۳۰)چنانچہ امام جصاص  فرماتے ہیں:
روی ابن عبادة بن نسی عن غضیف بن الحارث ان عاملاً لعمر بن الخطاب کتب الیہ ان ناساً من السامرة یقرؤن التورٰة ویسبتون السبت‘ ولایؤمنون بالبعث فما تری؟ فکتب الیہ عمر انہم طائفة من اہل الکتاب۔ (احکام القرآن ۲/۳۲۳)
لیکن کسی شخص کے اہل کتاب میں سے ہونے کے لئے صرف یہ کافی نہیں ہے کہ اس کا نام نصاری یا یہود کی طرح ہو‘ اور نہ یہ کافی ہے کہ سر کاری مردم شماری کے وقت اس کا نام نصاری یا یہود کی فہرست میں لکھا جاتا ہو‘ بلکہ یہ ضروری ہے کہ اس کے عقائد بھی اہل کتاب جیسے ہوں۔
آج ہمارے دور میں خاص طور پر مغربی ممالک میں ایسے لوگوں کی بہت بڑی تعداد نظر آتی ہے جن کے نام تو نصاری یا یہود کے نام کی طرح ہیں‘ لیکن حقیقت میں وہ دہریئے اور مادہ پرست ہیں اور اس کائنات کے پیدا کرنے والے پر بھی ان کا ایمان نہیں ہوتا‘ اس قسم کے لوگ نصاری اور یہود میں سے نہیں ہیں‘ لہذا ان کو اہل کتاب میں سے شمار کرنا درست نہیں اور ان کا ذبیحہ حلال نہیں ہے۔ (المأخود من جواہر الفقہ)
چنانچہ نصاری بنی تغلب کے بارے میں حضرت علی سے ایسا ہی حکم مروی ہے۔ امام جصاص  فرماتے ہیں:
روی محمد بن سیرین عن عبیدة قال سألت علیاً عن ذبائح نصاری العرب فقال لاتحل ذبائحہم فانہم لم یتعلقوا من دینہم بشئ الا بشرب الخمر۔ احکام القرآن ۲/۳۲۳)
خلاصہ یہ کہ جن نصرانیوں یا یہودیوں کے متعلق یہ بات یقینی طور پر معلوم ہوجائے کہ وہ خدا کے وجود کو نہیں مانتے یا حضرت موسی علیہ السلام کو اللہ کا نبی ہی نہیں مانتے، وہ اہل کتاب کے حکم میں نہیں ہیں‘ لیکن اگر وہ اپنے بنیادی عقائد پر ایمان رکھتے ہیں‘ اور جانور کو ذبح کرتے وقت اللہ تعالیٰ کے سوا کسی اور کا نام نہیں لیتے تو ان کا ذبیحہ کھانے کی شرعاً گنجائش ہے۔ تاہم اگر مسلمان کا ذبیحہ میسر ہو تو وہ بہرحال مقدم ہے۔ فتاویٰ شامی میں ہے:
والأولیٰ ان لایأکل ذبیحتہم ولاتتزوج منہم الا للضرورة ۔ (کتاب الذبائح ۶/۲۹۷ )
۵۔ اول تو یہ بات جان لینا ضروری ہے کہ اگر مرغی کی رگیں کٹے بغیر اسے گرم پانی میں ڈالا جائے اور گرم پانی میں ڈالنے کی وجہ سے وہ مرجائے تو ایسی صورت میں اس مرغی کا گوشت حرام ہے (لیکن یہ صورت بہت ہی ناپید ہوتی ہے)۔ اگر مرغی کی رگیں پوری طور سے کٹنے کے بعد اسے گرم پانی میں ڈالا جائے جس کی حرارت درجہ غلیان (BOILING TEMPRATURE) تک پہنچ گئی ہو‘ تو ایسی صورت میں چونکہ بعض مرتبہ پانی میں جوش دینے کی وجہ سے جانور کی نجاستیں گوشت کے اندر سرایت کرجاتی ہیں‘ فقہاء کرام نے یہ تصریح کی ہے کہ اس قسم کا جانور بھی حلال نہیں ہوتا ‘ چنانچہ درمختار میں ہے:وکذا دجاجة ملقاة حالة غلی الماء للنتف قبل شقہا مندرجہ بالا عبارت کے تحت علامہ ابن عابدین  فرماتے ہیں:
قال فی الفتح : انہا لاتطہر ابداً لکن علی قول ابی یوسف تطہر والعلة۔ والله اعلم۔ تشربہا النجاسة بواسطة الغیلان…الخ ۱/۳۳۴
لیکن اگر پانی مذکورہ حد تک کھولتا ہو انہ ہو‘ جیساکہ عام طور پر ہوتا ہے‘ کیونکہ عام طور پر سو درجہ حرارت سے کافی کم ہوتاہے، دوسری بات یہ کہ اس مرغی کو گرم پانی میں اتنی دیر نہ رکھا جائے جتنی مدت میں نجاست گوشت میں سرایت کرنے کے لئے کافی ہوسکتی ہے تو اس مرغی کے استعمال میں گنجائش ہے۔ چنانچہ علامہ ابن عابدین نے مذکورہ بالا مسئلہ ذکر کرنے کے بعد فرمایا:
”وعلیہ اشتہر ان اللحم السمیط بمصر نجس لکن العلة المذکورة لاتثبت مالم یمکث اللحم بعد الغلیان زماناً یقع فی مثلہ التشرب والدخول فی باطن اللحم‘ وکل منہما غیر متحقق فی السمیط حیث لایصل الی حد الغیلان ویترک فیہ الا مقدار ما تصل الحرارة الی ظاہر الجلد لتنحل مسمام الصوف‘ بل لو ترک یمنع انقلاع الشعر…الخ (۱/۳۳۴‘سعید)
ہمارے اپنے بعض ذاتی مشاہدوں اور تجربوں سے بھی ذبح کے بعد مرغی کو گرم پانی میں ڈالنے کی مذکورہ صورت کا یہ اندازہ ہوا ہے کہ مذکورہ طریقہ میں گرم پانی کا درجہ حرارت اتنا معمولی ہوتا ہے کہ اس پانی میں ہاتھ ڈالا جاسکتا ہے۔ اس لئے اس قسم کے معمولی درجہ حرارت والے گرم پانی میں معمولی وقت کے لئے شرعی طریقے پر ذبح شدہ مرغی کو ڈالنے پر ناجائز ہونے کا حکم نہیں لگے گا‘ یعنی ایسی مرغی کا گوشت کھانا جائز ہے۔
۶۔ مشینی ذبیحہ سے متعلق مسئلہ پر اس سے قبل بہت تفصیل سے لکھا جاچکا ہے خصوصیت کے ساتھ حضرت مفتی محمد شفیع صاحب رحمہ اللہ ‘ مفتی محمود صاحب رحمہ اللہ اور مفتی رشید احمد صاحب رحمہ اللہ اور دیگر مفتیان کرام نے اس پر سیر حاصل بحث کی ہے اور اس موضوع کے تمام پہلوؤں کا فقہی جائزہ اپنے اپنے انداز میں پیش فرمایا ہے۔مختصراً یہ ملحوظ رہے کہ ”مشینی ذبیحہ“ میں دو الگ الگ بحثیں ہیں:
۱۔ مرغی کا مشینی ذبیحہ۔۲۔ چوپائے یعنی گائے‘ بکری وغیرہ کا مشینی ذبیحہ اور ان دونوں کی تفصیل جدا ہے۔
یہ بات تمہید میں گذر چکی ہے کہ ”ذکاة شرعی“ کی تین شرائط ہیں: جن میں سے اگر ایک شرط کو بھی چھوڑا جائے تو جانور کا گوشت حرام ہوگا اور ”ذکاة شرعی“ نہیں ہوگی۔ چنانچہ مرغی کے ذبح کے لئے ”مروجہ مشینری ذبیحہ“ میں پہلی شرط ”ذکاة شرعی“ کی یعنی ہر جانور کو ذبح کرتے وقت تسمیہ پڑھنا ذابح پر لازم ہے‘ حتی کہ اگر ایک شخص تسمیہ پڑھے اور دوسرا شخص ذبح کرے تو یہ صورت جائز نہیں۔ اور فقہاء کرام کا اجماع اس بات پر ہے کہ عمداً تسمیہ چھوڑنا گوشت کو حرام کردیتا ہے۔ اور بعینہ مروجہ مشینی ذبح میں ایسے ہی ہوتا ہے۔ اور کبھی کبھی ذابح کے تسمیہ کے اور ذبح کے دوران کافی وقفہ پایا جاتا ہے‘ جس کے بارے میں فقہاء نے یہ تصریح کی ہے کہ یہ تسمیہ معتبر نہیں ہے۔ چنانچہ فتاویٰ ہندیہ میں ہے:
واما الشرط الذی یرجع الی محل الذکاة‘ فمنہا تعیین المحل بالتسمیة فی الذکاة الاختیاریة‘ وعلی ہذا یخرج ما اذا ذبح وسمی ثم ذبح اخریٰ‘ یظن ان التسمیة الأولیٰ تجری عنہما لم تؤکل فلابد أن یجدد لکل ذبیحة تسمیة علی حدة (کتاب الذبائح باب الاول ۵/۲۸۶)
وفیہ ایضاً: ولو أضجع شاة وأخذ السکین وسمی ثم ترکہا وذبح شاة اخریٰ وترک التسمیة عامداً علیہا لاتحل (۵/۲۸۶)وفیہ ایضاً: واذا أضجع شاة لیذبح وسمی علیہا ثم کلم انساناً أو شرب ماء أو حدد سکیناً أو ما اشبہ ذلک من عمل لم یکثر‘ حلت بتلک التسمیة وان اطال الحدیث وکثر العمل کرہ أکلہا ولیس فی ذلک تقدیر‘ بل ینظر فیہ الی العادة‘ ان استکثرہ الناس فی العادة یکون کثیراً‘ وان کان یعد قلیلاً فہو قلیل… الخ (۵/۲۸۸)
مندرجہ بالا فقہی عبارات اس بارے میں بالکل صریح ہیں کہ جمہور ائمہ کے نزدیک تسمیہ کا متعین جانور پر ہونا‘ اور ذبح کے وقت تسمیہ پڑھنا‘ اور تسمیہ اور ذبح کے درمیان معتد بہ فاصلہ نہ ہونا جانور کے گوشت کے حلال ہونے کے لئے شرط ہے۔ یہ تمام شرائط مروجہ مشینی ذبیحہ میں نہیں پائی جاتیں۔
خلاصہ یہ کہ ذکاة شرعی کے شرائط کا اہتمام نہ کرنے کی وجہ سے مروجہ مشینی ذبیحہ شرعی ذبیحہ نہیں ہے۔ لہذا اس کا گوشت حرام ہے۔
البتہ اگر مشینی ذبیحہ کے لئے جو مشین (MACHINE) میں آٹو میٹک (AUTOMATIC) چھری لگی ہوئی ہوتی ہے‘ اگر اس کو ہٹا دیا جائے اور اس کی جگہ پر چار مسلمان کھڑے کردئے جائیں اور جب لٹکی ہوئی مرغیاں ان کے پاس سے گذریں تو باری باری ایک ایک شخص ”بسم اللہ‘ اللہ اکبر“ پڑھتے ہوئے مرغیوں کو ذبح کرتا رہے‘ تو اس صورت میں ذکاة شرعی کی تینوں شرائط پائی جائیں گی جس کی بناء پر وہ گوشت حلال ہوگا۔ نیز یہ طریقہ دنیا کے بعض مذبح خانوں میں استعمال کیا جارہا ہے جیسے جزیرہ ری یونین (REUNION) اور جنوبی افریقہ میں مستعمل ہے۔
جہاں تک چوپائے یعنی گائے اور بکری جیسے بڑی جانوروں کے مشین سے ذبح کا تعلق ہے تو اس صورت میں جانور کو ذبح کرنے سے پہلے مختلف طریقوں سے جانور کو بے ہوش کیا جاتا ہے، تاکہ جانور کو تکلیف نہ ہو‘ او ران کی نظر میں ذبح کے وقت جانورکی بے ہوشی کا یہ عمل جانور کو راحت پہنچانے کے لئے اور اس کی تکلیف کو کم کرنے کے لئے کیا جاتا ہے‘ حالانکہ دراصل بزعم خویش جانوروں کے ساتھ بھلائی اور خیر خواہی کے نام سے درحقیقت ظلم اور زیادتی ہے‘ کیونکہ کسی طریقے سے یا کسی آلہ کے ذریعہ سے بے ہوش کرنا یہ جانور کو ذبح سے پہلے تکلیف میں مبتلا کرنا ہے‘ جب کہ شریعت نے اس کی ممانعت فرمائی ہے اور جانور کو قبل از ذبح بلاوجہ جسمانی اور روحانی تکلیف پہنچانے کو مکروہ قرار دیا ہے۔چنانچہ در مختار میں ہے:
”وکرہ کل تعذیب بلافائدة مثل قطع الرأس والسلخ قبل أن تبرد أی تسکن عن الاضطراب وہو تفسیر باللازم کما لایخفی،، ۔ (۶/۲۹۶‘سعید)
حدیث شریف میں ہے:
”ان الله تعالیٰ کتب الاحسان علی کل شئ فاذا قتلتم فأحسنوا القتلة واذا ذبحتم فأحسنوا الذبح ولیحد أحدکم شفرتہ فلیرح ذبیحتہ“۔
(صحیح مسلم ۲/۱۵۲)
ایسے جانور کے گوشت کا حکم یہ ہے کہ جس صورت میں بے ہوشی کے بعد جانور کی حیات یقینی ہو‘ تو اس صورت میں مذبوحہ جانور حلال ہوگا‘ ورنہ نہیں۔درمختار میں ہے:
”ذبح شاة مریضة فتحرکت أو خرج الدم حلت وإلا لا،ان لم تدر حیاتہ عند الذبح‘ وان علم حیاتہ حلت مطلقاً وان لم تتحرکت ولم یخرج الدم وہذا یتأتی فی منخنقة ومتردیة ونطیحة والتی فقر الذئب بطنہا فذکاة ہذہ الأشیاء تحلل‘ وان کانت حیاتہا خفیفة وعلیہ الفتویٰ؟ لقولہ تعالیٰ ”إلا ما ذکیتم“ من غیر فصل۔ (۶/۳۰۸)
پس جن صورتوں میں بے ہوشی کی وجہ سے علامات حیات موجود نہ ہوں‘ تو ایسی صورتوں میں ذبح کرکے استعمال کرنا کراہت سے خالی نہیں۔
خلاصہ یہ ہے کہ چوپائے کے لئے جو ”مروجہ مشینی ذبیحہ“ ہے اس میں ذکاة شرعی کی دوسری شرط یعنی جانور کی رگیں کاٹنے سے موت واقع ہوئی ہو‘ اس شرط کے نہ پائے جانے کا بہت سے جانوروں میں قوی اندیشہ ہے‘ جس کی وجہ سے یہ مشینی ذبیحہ‘ شرعی ذبیحہ نہیں ہوا۔ اور اگر بالفرض جانوروں کے بے ہوش ہونے کے بعد ان میں حیات ہوتی ہے اور پھر تسمیہ پڑھتے ہوئے ان کو ذبح کیا جاتا ہے‘ اس صورت میں بھی شریعت کے بتائے ہوئے ذبح کے شرعی آداب و احکام کے مطابق ذبیحہ نہیں ہوتا‘ جس کی وجہ سے وہ کراہت سے خالی کسی طور پر بھی نہیں۔ چنانچہ اس قسم کے ذبیحہ کے نتیجہ میں حاصل شدہ گوشت کھانے سے پرہیز کرنا ضروری ہے۔ فقط واللہ اعلم بالصواب

 صحیح کتبہ
عبد الرحمن وحید
متخصص جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاوٴن ،کراچی
الجواب صحیح الجواب
(مفتی)محمد عبد المجید دین پوری
 رفیق احمد
اشاعت ۲۰۰۹ ماہنامہ بینات , شعبان ۱۴۳۰ھ - اگست ۲۰۰۹ء, جلد 72, شمارہ 8, جلد 72, شمارہ 8

    پچھلا مضمون: بولتے حقائق مجرم کون مسٹریاملا؟
Flag Counter