Deobandi Books

ماہنامہ البینات کراچی شعبان ۱۴۳۰ھ - اگست ۲۰۰۹ء

ہ رسالہ

4 - 11
کیا نماز باجماعت میں ٹخنے سے ٹخناملانا ضروری ہے؟
کیا نماز باجماعت میں
ٹخنے سے ٹخناملانا ضروری ہے؟

حضور انور ا نے نماز باجماعت میں صفوں کی درستگی پر خصوصی توجہ فرمائی ہے اور صفوں کو سیدھا اور درست رکھنے کو ”حسنِ صلوٰة“ اور ”اتمام صلوٰة“ قرار دیا ہے۔ جیساکہ سیدنا ابوہریرہ  سے روایت ہے: رسول اللہ ا نے ارشاد فرمایا:”اقیموا الصف فی الصلاة فان اقامة الصف من حسن الصلاة“۔(صحیح بخاری:۱/۱۰۰)
ترجمہ:۔’نماز میں صف کو درست کرو اس لئے کہ صف درست کرنا نماز کی خوبی کا ایک جز ہے ۔“
سیدنا حضرت انس  سے روایت ہے کہ رسول اللہ ا نے فرمایا:
”سووا صفوفکم فان تسویة الصف من تمام الصلاة“۔ (صحیح مسلم:۱/۱۸۲)
ترجمہ:۔”تم لوگ اپنی صفیں درست رکھا کرو کیونکہ صف بندی سے نماز کی تکمیل ہوتی ہے“۔
سیدنا حضرت جابر  سے روایت ہے:
”قال رسول اللہ ا ان من تمام الصلاة اقامة الصف“۔
(مسند امام احمد:۳/۳۲۲‘ طبرانی کبیر:۲/۱۹۸)
ترجمہ:۔”رسول اللہ ا نے ارشاد فرمایا: بیشک نمازکی تکمیل صفوں کی درستی سے ہوتی ہے“۔
سیدنا حضرت انس  سے روایت ہے:
”قال رسو اللہ ا اتموا صفوفکم فان تسویة الصف من تمام الصلاة“
(صحیح ابن حبان: حدیث:۲۱۶۸)
ترجمہ:۔”رسول اللہ ا نے فرمایا: صفیں درست کرو کیونکہ صفوں کا برابر کرنا نماز کی تکمیل کا جز ہے“۔
سنت کے مطابق صفوں کو درست کرنے کی صحیح صورت یہ ہے کہ نمازی ایک دوسرے سے اس طرح مل کر کھڑے ہوں کہ درمیان میں جگہ خالی نہ رہے اور صف ایسی سیدھی ہو کہ کوئی آدمی آگے یا پیچھے نکلا ہوا نہ ہو‘ محدثین عظام‘ فقہاء کرام اور جمہور امت نے صفوں کی درستی کا یہی معنی مراد لیا ہے۔لیکن غیر مقلدین اور سلفی حضر ات کا خیال یہ ہے کہ نماز میں نمازی کا ٹخنا اور قدم دوسرے نمازی کے ٹخنے اور قدم سے ملانا سنت اور ضروری ہے‘ اور وہ لوگ ایسا نہ کرنے والوں پر زبانِ طعن دراز کرتے ہیں اور انہیں مخالفین سنت قرار دیتے ہیں، لہذا اس عمل کی وضاحت اور صراحت کے لئے احادیث نبوی سے رہنمائی حاصل کی جاتی ہے اور محدثین اور فقہاء کرام کی تشریحات کو بھی ملحوظ رکھا جائے گا۔
رسول اللہ ا سے نماز میں صفوں کی درستگی کے سلسلہ میں کئی روایات مروی ہیں لیکن رسول اللہا کے کسی بھی ارشاد یا آپ کے عمل سے ٹخنے سے ٹخنا ملانا اور قدم سے قدم ملانا ثابت نہیں ہے‘ اسی طرح حضرات خلفائے راشدین  بھی اپنے اپنے زمانہ ٴ خلافت میں صف بندی کا اہتمام تو فرماتے رہے‘ لیکن ان سے بھی ٹخنے سے ٹخنا ملانا اور قدم سے قدم ملانا نہ قولاً ثابت ہے نہ ہی فعلاً۔اس کے شواہد مندرجہ ذیل ہیں:
۱:-”عن نعمان بن بشیر قال: کان رسول اللّٰہ ا یسوی صفوفنا حتی کانما یسوی بہا القداح حتی رأٰی اناقد عقلنا عنہ‘ ثم خرج یوماً فقام حتی کاد ان یکبر فرأٰی رجلا بادیا صدر ہ من الصف‘ فقال عباد الله التسون صفوفکم او لیخالفن الله بین وجوہکم“۔ (صحیح مسلم:۱/۱۸۲)
ترجمہ:۔”حضرت نعمان بن بشیر سے روایت ہے کہ رسول اللہ ا ہماری صفوں کو اس قدر سیدھا اور برابر کرتے تھے گویا ان کے ذریعہ آپ تیروں کو سیدھا کریں گے‘ یہاں تک کہ آپ کو خیال ہو گیا کہ اب ہم لوگ سمجھ گئے ہیں کہ ہمیں کس طرح سیدھا اور کھڑا ہونا چاہئے اس کے بعد ایک دن ایسا ہوا کہ آپ ا باہر تشریف لائے اور نماز پڑھانے کے لئے اپنی جگہ پر کھڑے بھی ہوگئے، یہاں تک کہ قریب تھا کہ آپ تکبیر کہہ کر نماز شروع فرمادیں کہ آپ کی نگاہ ایک شخص پر پڑی‘ جس کا سینہ صف سے کچھ آگے نکلا ہوا تھا تو آپ ا نے فرمایا: اللہ کے بندو! اپنی صفیں ضرور سیدھی اور درست رکھا کرو‘ ورنہ اللہ تعالیٰ تمہارے رخ ایک دوسرے کے مخالف کردے گا“۔
اہل عرب شکار یا جنگ میں استعمال کے لئے جو تیر تیار کرتے تھے ان کو بالکل سیدھا اور برابر کرنے کی بڑی کوشش کرتے تھے ،اس لئے کسی چیز کی برابری اور سیدھے پن کی تعریف میں مبالغہ کے طور پر کہا جاتا تھا کہ یہ چیز اس قدر سیدھی ہے کہ اس کے ذریعہ تیروں کو سیدھا کیا جاسکتا ہے یعنی جو تیروں کو سیدھاکرنے میں معیار اور پیمانہ کا کام دے سکتی ہے۔
۲:-”عن ابن عمر ان رسول الله ا قال: اقیموا الصفوف وحاذوا بین المناکب وسدوا الخلل ولینوا بایدی اخوانکم ولاتذروا فرجات للشیطان ومن وصل صفّا وصلہ الله ومن قطع صفّا قطعہ الله“۔ (سنن ابی داود:۱/۶۷)
ترجمہ:۔” حضرت عبد اللہ بن عمر  سے روایت ہے کہ رسول اللہ ا نے ارشاد فرمایا: صفیں قائم کرو‘ کندھے ایک دوسرے کی سیدھ میں کرو‘ خلاء کو پُر کرو اور اپنے بھائیوں کے ہاتھ میں نرم ہوجاؤ‘ شیطان کے لئے صفوں میں خالی جگہ نہ چھوڑو‘ جس نے صف کو ملایا‘ اللہ اسے ملائیں گے اور جس نے صف کو کاٹا اللہ اسے کاٹ دیں گے“۔
 
۳:-”قال رسول الله ا من سد فرجة فی صف رفعہ الله بہا درجة وبنی لہ بیتاً فی الجنة“۔ (مجمع الزوائد:۲/۲۰۴‘ مصنف ابن ابی شیبہ:۱/۴۱۶)
ترجمہ:۔”رسول اللہ ا نے فرمایا: جس شخص نے صف میں خالی جگہ پُر کردی (یعنی ساتھ کھڑا ہوگیا) اللہ تعالیٰ اس کا ایک درجہ بلند کردے گا اور اس کے لئے جنت میں گھر بنائے گا“۔
۴:-”عن البراء بن عازب قال: کان رسول الله ا یتخلل الصف من ناحیة یمسح صدورنا ومناکبنا ویقول لاتختلفوا فتختلف قلوبکم وکان یقول ان الله عز وجل وملائکتہ یصلون علی الصفوف الاول“۔
(سنن ابی داود:۱/۶۷)
ترجمہ:۔”حضرت براء بن عازب  سے روایت ہے کہ رسول اللہ ا صف میں ایک جانب سے دوسری جانب تشریف لے جاتے تھے اور صف کو برابر کرنے کے لئے ہمارے سینوں اور کندھوں پر ہاتھ مبارک پھیرتے تھے اور ارشاد فرماتے تھے کہ تم مختلف یعنی آگے پیچھے نہ ہونا ورنہ تمہارے دل باہم مختلف ہوجائیں گے‘ نیز فرماتے تھے: اللہ تعالیٰ پہلی صفوں پر اپنی رحمت نازل فرماتے ہیں اور فرشتے اگلی صف والوں کے لئے دعائے رحمت کرتے ہیں“۔
یعنی اگر صفوں کو برابر اور سیدھا کرنے میں تم بے پروائی اور کوتاہی کروگے تو اللہ تعالیٰ اس کی سزا میں تمہارے رخ ایک دوسرے سے مختلف کردے گا‘ تمہاری وحدت اور اجتماعیت پارہ پارہ ہوجائے گی اور تم میں پھوٹ پڑجائے گی۔,
۵:-”عن انس بن مالک عن رسول اللہ ا قال رصوا صفوفکم وقاربوا بینہا وحاذوا بالاعناق‘ فوالذی نفسی بیدہ انی لاری الشیطان یدخل من خلل الصف کانہا الحذف“۔ ( سنن ابی داود:۱/۶۷)
ترجمہ:۔․”حضرت انس بن مالک رسول اللہ ا سے روایت کرتے ہیں کہ آپ ا نے فرمایا: اپنی صفیں ملاؤ اور انہیں نزدیک رکھو اور گردنوں کو برابر ایک سیدھ میں رکھو‘ قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ ٴ قدرت میں میری جان ہے‘ میں شیطان کو دیکھتا ہوں کہ وہ صف کی خالی جگہ میں گھس آتا ہے‘ گویا کہ بھیڑ کا بچہ ہے“۔
۶:-”عن ابن عباس قال: قال رسول اللہ ا تراصوا الصفوف‘ فانی رایت الشیاطین تخللکم کانہا اولاد الحذف“۔ (مجمع الزوائد:۲/۲۰۴)
ترجمہ:۔’ حضرت ابن عباس  سے روایت ہے کہ رسول اللہ ا نے فرمایا: صفوں کو ملاؤ (کوئی جگہ خالی نہ رہے) میں دیکھتا ہوں کہ شیاطین خالی جگہ گھس رہے ہیں‘ گویا وہ بھیڑ کے بچے ہیں“۔
۷:-”وروی عن عمر انہ کان یؤکل رجلا باقامة الصف ولایکبر حتی یخبر ان الصفوف قد استوت‘ وروی عن علیّ وعثمان‘ انہما کانا یتعاہدان ذلک ویقولان استووا وکان علیّ یقول تقدم یا فلان‘ تاخر یافلان“۔ (جامع ترمذی:۱/۳۱)
ترجمہ:۔” سیدنا حضرت عمر  کے متعلق مروی ہے کہ انہوں نے صفوں کی درستگی کے لئے ایک شخص مقرر فرما رکھا تھا اور جب تک وہ شخص آپ کو صفیں درست ہوجانے کی اطلاع نہیں دیتا تھا آپ تکبیر نہیں کہتے تھے۔ حضرت علی  اور حضرت عثمان کے متعلق مروی ہے کہ وہ بھی اس کا بہت خیال رکھتے تھے اور فرماتے تھے کہ :سیدھے اور برابر ہوجاؤ حضرت علی فرماتے تھے کہ: فلاں! آگے ہو ‘ اے فلاں پیچھے ہو“۔
۸:-”عن مالک بن ابی عامر الانصاری ان عثمان بن عفان کان یقول فی خطبتہ اذا قامت الصلاة فاعدلوا الصفوف وحاذوا بالمناکب“۔
(موطا امام محمد:۸۲)
ترجمہ:․․”حضرت مالک بن ابی عامر انصاری  سے روایت ہے کہ حضرت عثمان بن عفان اپنے خطبہ میں ارشاد فرماتے تھے کہ: جب جماعت قائم ہو تو صفوں کو درست کرنا اور کندھوں کو ایک سیدھ میں برابر کر لینا“۔
۹:-”عن بلال  قال: کان النبی ا یسوی مناکبنا فی الصلاة“۔
(طبرانی صغیر:۲/۸۱‘ مجمع الزوائد: ۲/۳‘۲)
ترجمہ:․․․”حضرت بلال  سے روایت ہے کہ رسول اللہ ا نماز میں ہمارے کندھوں کو بالکل برابر کرتے تھے“۔
۱۰:-”عن عبد اللہ بن عمر قال: قال رسول اللہ ا : خیارکم الینکم مناکب فی الصلاة وما من خطوة اعظم اجراً من خطوة مشاہا رجل الی فرجة فی الصف فسدہا“۔ (مجمع الزوائد:۲/۲۰۳)
ترجمہ:۔”حضرت عبد اللہ بن عمر سے روایت ہے کہ رسول اللہ ا نے ارشاد فرمایا: تم میں وہ لوگ بہت اچھے ہیں جو نماز میں کندھے برابر رکھتے ہیں اور جو قدم صف میں خالی جگہ پُر کرنے کے لئے اٹھتا ہے‘ اس پر اجر عظیم حاصل ہوتا ہے“۔ امام بخاری  نے باب قائم فرمایا: ”باب اثم من لم یتم الصفوف“ اس باب کے ضمن میں حدیث بیان فرماتے ہیں:
۱۱:-”عن انس بن مالک انہ قدم المدینة‘ فقیل لہ ما انکرت منا منذ یوم عہدت رسول اللہ ا قال ما انکرت شیئا الا انکم لایقیمون الصفوف“ ۔ (صحیح بخاری:۱/۱۰۰)
ترجمہ:۔”حضرت انس بن مالک بصرہ سے مدینہ تشریف لائے‘ تو ان سے پوچھا گیا کہ آپ نے رسول اللہ ا کے زمانہ کے لحاظ سے اس زمانہ میں کونسی بات ناپسند یدہ پائی ہے؟ انہوں نے فرمایا کہ :اور تو کوئی خاص بات نہیں، البتہ یہ کہ تم لوگ صفوں کو سیدھا نہیں کرتے ہو“۔
مذکورہ بالا تمام احادیث سے ثابت ہوتا ہے کہ رسول اللہ ا صفوں کی درستگی کے لئے کندھے برابر کرنے کا حکم فرمایا کرتے تھے اور جب صفیں درست کراتے تو نمازیوں کے سینے اور کندھے برابر کرنے کی تاکید فرماتے تھے‘ لیکن صفوں کی درستگی کے وقت نہ تو حضور انور ا نے ٹخنے سے ٹخنا ملانے کا حکم فرمایا اور نہ ہی قدم ملانے کی تاکید فرمائی۔
یہی طرز عمل خلفاء راشدین نے اختیار فرمایا تھا۔خلیفہ راشد سیدنا عثمان صفوں کو درست کرنے اور کندھوں کو برابر کرنے کا حکم دیتے تھے‘ ٹخنے سے ٹخنا ملانے یا پاؤں ملانے کا حکم ہر گز نہیں دیتے تھے۔ خلیفہ راشد سیدنا علی المرتضی  صفوں کی درستگی کے وقت نمازیوں کو آگے پیچھے ہونے کو تو فرماتے تھے لیکن ٹخنے سے ٹخنا ملانے یا قدم سے قدم ملانے کا حکم نہیں دیتے تھے‘ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ ٹخنے سے ٹخنا ملانا اور قدم سے قدم ملانا مقصود نہیں تھا۔ غیر مقلدین حضرات اپنے موقف میں حضرت نعمان بشیر اور حضرت انس کی روایات پیش کرتے ہیں‘ جنہیں امام بخاری  نے روایت کیا ہے:
”باب الزاق المنکب بالمنکب والقدم فی الصف وقال النعمان بن بشیر رایت الرجل منا یلزق کعبہ بکعب صاحبہ ۔ عن انس  عن النبیا قال: اقیموا صفوفکم فانی اراکم من وراء ظہری وکان احدنا یلزق منکبہ بمنکب صاحبہ وقدمہ بقدمہ“۔ (صحیح بخاری :۱/۱۰۰)
ترجمہ:۔”باب ہے صف میں کندھے سے کندھا اور قدم سے قدم ملانے کے متعلق“ حضرت نعمان بشیر  فرماتے ہیں کہ میں نے ایک شخص کو دیکھا کہ وہ اپنا ٹخنا اپنے ساتھی کے ٹخنے سے ملاتا تھا۔ حضرت انس  فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ا نے فرمایا: تم اپنی صفوں کو سیدھا رکھو‘ بے شک میں تمہیں اپنی پشت کی طرف سے دیکھ رہا ہوں۔اور ہم میں سے ہر شخص اپنا کندھا اپنے ساتھی کے کندھے سے اور اپنا قدم اس کے قدم سے ملاتا تھا“۔
غیر مقلدین حضرات ان روایات سے استدلال کرتے ہوئے یہ موقف پیش کرتے ہیں کہ نمازی کا جماعت کی صورت میں دوسرے نمازی کے قدم کیساتھ قدم ملانا اور ٹخنے سے ٹخنا ملانا ضروری ہے اور ایسا نہ کرنے والے سنت کے تارک ہیں۔ ان روایات پر ادنیٰ سا غور کرنے سے یہ حقیقت واضح ہوجاتی ہے کہ ان میں رسول اللہ ا کا ارشاد صرف اس قدر ہے۔”واقیموا صفوفکم فانی اراکم من وراء ظہری“۔اور یہی بات گذشتہ تمام احادیث سے آشکارا ہوتی ہے اور یہی موقف حضرات احناف کثرہم اللہ کا ہے۔
ٹخنے سے ٹخنا اور قدم سے قدم ملانے کا حکم رسول اللہ ا نے ہرگزنہیں دیا‘ بلکہ یہ تو حضرت بشیر بن نعمان اور حضرت انس بن مالک  کے اقوال ہیں۔ جیساکہ حافظ احمد بن علی بن حجر عسقلانی  رقمطراز ہیں ۔
”عن انس رواہ سعید بن منصور وہی قولہ وکان احدنا الخ وصرح بانہا من قول انس واخرجہ الاسماعیلی من روایة معمر عن حمید بلفظ قال انس فلقد رایت احدنا الخ “۔ (فتح الباری قدیم:۲/۲۱۱)
حضرت نعمان  بن بشیر اور حضرت انس بن مالکوغیرہ صحابہ کرام کے اقوال وافعال غیر مقلدین کے نزدیک حجت شرعی نہیں ہیں‘ اگر بالفرض اپنی ”ضد“ کا بھرم قائم رکھنے کے لئے وہ ان صحابہ کے اقوال سے استدلال کرتے ہیں تو پھر اسے رسول اللہ ا سے منسوب کرنے کے جرم کا ارتکاب تو نہ کریں‘ کیونکہ کندھے سے کندھا ملانا یہ حضرت نعمان بن بشیر کا قول ہے اور کندھے سے کندھا اور قدم سے قدم ملانے کا قول حضرت انس  کا ہے ۔ علاوہ ازیں اگر صحابہ کے اقوال وافعال کو حجت تسلیم کرتے ہیں تو پھر اس مسئلہ میں حضرات خلفاء راشدین کے طرز عمل کو قبول کریں‘ جس کی تفصیل پہلے بیان ہوچکی ہے اور اگر حضرت انس  کا قول آپ حضرات کو قابل قبول ہے تو جیساکہ بخاری شریف کی روایت بیان ہوچکی ہے‘ جس میں انہوں صفیں درست نہ کرنے کا شکوہ تو کیا ہے‘ مگر ٹخنے سے ٹخنا اور قدم سے قدم ملانے کا نام تک نہیں لیا۔
(جاری ہے)
اشاعت ۲۰۰۹ ماہنامہ بینات , شعبان ۱۴۳۰ھ - اگست ۲۰۰۹ء, جلد 72, شمارہ 8, جلد 72, شمارہ 
Flag Counter