Deobandi Books

ماہنامہ البینات کراچی شعبان ۱۴۳۰ھ - اگست ۲۰۰۹ء

ہ رسالہ

11 - 11
ادارہ
محاسن موضح قرآن:

مولانا سید اخلاق حسین قاسمی دہلوی‘صفحات :۸۵۴‘ قیمت: درج نہیں‘ پتہ: ایچ ایم سعید کمپنی‘ ادب منزل‘ پاکستان۔
قرآن کریم کے ترجمہ فارسی و اردو زبان میں حضرت شاہ ولی اللہ دہلوی اور ان کے ابنا اور خاندان نے جو خدمت کی ہے ،ہندو پاک میں اس کی نظیر نہیں‘ اگر یہ حضرات ہندو پاک میں قرآن پاک کے تراجم کی داغ بیل نہ ڈالتے تو شاید یہ کام بعد والوں کے لئے ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہوتا۔ اردو ترجمہ میں حضرت شاہ عبدالقادر دہلوی کا ترجمہ اور تفسیر فوائد موضح قرآن بعد کے تراجم کے لئے بنیاد اور ماخذ کا درجہ رکھتا ہے۔
حضرت شاہ عبدالقادر قدس سرہ کے ترجمہ قرآن کی اہمیت و عظمت کا اندازہ حجة الاسلام حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی قدس سرہ کے اس فرمان سے لگایا جاسکتا ہے کہ:
”اگر اردو میں قرآن نازل ہوتا تو شاید اس کی تعبیرات وہی یا اس کے قریب قریب ہوتیں جو اس ترجمہ کی ہیں۔“ (بحوالہ تاثرات قاری محمد طیب قاسمی مندرجہ ص:۱۷)
اس ترجمہ کی جامعیت کے اظہار کے تناظر میں حضرت شیخ الہند کا یہ فرمان بھی قابل غور ہے کہ:
”حضرت شاہ عبدالقادر صاحب رحمہ اللہ علیہ کا ترجمہ ہوتے ہوئے میرے نزدیک جدید ترجمہ کی ضرورت نہیں‘ البتہ زبان کی قدامت کی وجہ سے کہیں کہیں قدیم الفاظ کی موجودہ زبان میں توضیح کافی ہوگی۔“ (ص:۱۷)
چونکہ حضرت شاہ عبدالقادر صاحب رحمہ اللہ نے آج سے سوا دو سو سال قبل ۱۲۰۵ھ میں یہ ترجمہ کیا تھا اور ظاہر ہے اس وقت وہ دہلی کی ٹیکسالی زبان میں تھا‘ مگر اب مرور زمانہ کے ساتھ ساتھ جہاں زبان و محاوارت میں کثرت سے تغیر آگیا ہے‘ وہاں مختلف مطالع میں اشاعت کی وجہ سے اس میں اغلاط بھی در آئی تھیں۔
اللہ تعالیٰ جزائے خیر دے حضرت مولانا سید اخلاق حسین قاسمی کو جنہوں نے اس ترجمہ کے محاسن کے ساتھ ساتھ‘ اس میں طباعتی اغلاط کی تصحیح کرکے اس کی اشاعت کا فیصلہ فرمایا۔
محاسن موضح قرآن‘ ابتدائی طور پر مختصر اسی صفحات پر مشتمل کتابچہ تھا‘ مگر حضرت مولانا اخلاق حسین قاسمی کی شبانہ روز محنت اور دلچسپی کی برکات اور تحقیق و جستجو سے اس پر روز بروز اضافہ ہوتا گیا اور آج وہ اس ترجمہ کے محاسن پر مستقل ایک تصنیف کا درجہ رکھتی ہے۔ مولانا قاسمی صاحب نے اس میں اپنے مقدمہ کے علاوہ اپنی کتاب پر اکابر علمائے دیوبند اور ارباب تحقیق کے تاثرات کے علاوہ اپنے قرآن کے ساتھ شغف کی داستان‘ خاندان ولی اللٰہی کی قرآنی خدمات‘ ہندو پاک میں قرآن پاک کے خادمین اور ترجمہ کرنے والوں کی خدمات کے علاوہ حضرت شاہ عبدالقادر قدس سرہ کے ترجمہ کی بلاغت و سلاست کو بعد کے ترجمہ نگاروں کے تراجم کے تقابل میں نہایت عمدگی سے واضح کیا ہے اور باور کرادیا ہے کہ حضرت شاہ صاحب کا ترجمہ ہی اسلوب قرآن کے مسلب سے زیادہ قریب ہے۔ اسی طرح انہوں اس کا تذکرہ بھی کیا ہے کہ حضرت شاہ عبدالقادر نے ہندی اور سنسکرت کے الفاظ استعمال کرکے ہندوؤں کو قرآن کا پیغام دینے کی کامیاب کوشش کی ہے۔ مولانا قاسمی صاحب نے اپنی اس محاسن میں حضرت شاہ صاحب کے الفاظ‘ محاورات اور متروک الفاظ کو بیان کیا اور ان کی توضیح و تشریح فرماکر ان کی جامعیت کو بھی بیان کیا ہے۔
نیز تقابل مطالعہ میں ان کے اکابر و اصاغر کے تراجم میں حضرت شاہ ولی اللہ ‘ شاہ رفیع الدین‘ حضرت مولانا محمود الحسن دیوبندی‘ حضرت تھانوی ،ڈپٹی نذیر احمد ‘ مولانا ابوالکلام آزاد‘ مولانا احمد سعید دہلوی‘ مولانا احمد علی لاہوری‘ مولانا مودودی اور مولانا احمد رضا خان کے تراجم نقل کرکے باور کرایا ہے کہ قریب قریب بعد سب ہی نے حضرت شاہ صاحب کے ترجمہ سے استفادہ کیا ہے اور کسی قدر تغیر و تبدل کے بعد آپ کی اقتدا کی ہے۔
اس اعتبار سے یہ کتاب واقعی اپنی جگہ بہت بڑی خدمت قرآن ہے‘ اس کتاب پر اپنی جانب سے کچھ لکھنے کے بجائے مناسب ہوگا کہ مولانا سید ازہر شاہ قیصر سابق مدیر دارالعلوم دیوبند کا اس سلسلہ میں تاثر نقل کردیا جائے‘ چنانچہ مولانا ازہر شاہ قیصر لکھتے ہیں:
”مولانا اخلاق حسین صاحب قاسمی کی زندگی گوناگوں خانوں میں بٹی ہوئی ہے‘ ایک طرف وہ سیاسی لیڈر ہیں‘ مدرسہ کے فاضل مدرس ہیں‘ قومی جلسوں کے ہنگامہ خیز مقرر ہیں اور دوسری طرف علمی اور دینی کتابوں کے کامیاب مصنف بھی ہیں‘ وہ تنہا اتنا کام کرتے ہیں کہ کسی ادارہ کے دوچار کارکن بھی مل کر اتنا کام نہیں کرسکتے۔
مولاناعرصہ سے حضرت شاہ عبدالقادر صاحب کے ترجمہ و تفسیر ”موضح قرآن“ پر تحقیقی کام کررہے تھے‘ اس ترجمہ کے متعلق ہر دور کے علماء نے یہ رائے ظاہر کی ہے کہ وہ اپنے وقت کی زبان میں قرآن کریم کا ایک اعجازی اور الہامی ترجمہ ہے۔
شاہ صاحب نے جس لفظ کا ترجمہ جہاں رکھ دیا ہے وہ اپنی مناسبت اور ضروریات کے لحاظ سے آخری ترجمہ ہے۔
محاسن موضح قرآن شاہ صاحب رحمہ اللہ کے ترجمہ و تفسیر کی خوبیوں پر ایک جامع تبصرہ ہے۔ اس کتاب میں مولانا نے وضاحت کے ساتھ بتایا ہے کہ شاہ صاحب رحمہ اللہ کا ترجمہ سب سے پہلے کہاں چھپا‘ اس میں کوئی تصرف ہوا یا نہیں؟ خود شاہ صاحب نے کتنی محنت سے ترجمہ کیا؟ شاہ صاحب عربی مفہوم قرآنی کو ادا کرنے کے لئے اردو کے کیسے کیسے لفظ استعمال کرتے ہیں۔ عربی صرف و نحو‘ ادب اور بلاغت پر شاہ صاحب کی کتنی دسترس ہے اور جب وہ اپنے پورے علم کو سامنے رکھ کر ترجمہ کرتے ہیں تو کلام الٰہی کی تفہیم کتنی شاندر اور معنی خیز ہوجاتی ہے۔
حقیقت میں یہ کتاب ترجمہ قرآن کے اصولوں پر پہلی اور منفرد کتاب ہے‘ مولانا قاسمی نے اس میں یہ بھی بتایا ہے کہ دوسرے اردو مترجمین نے شاہ صاحب رحمہ اللہ کے ترجمہ سے کتنی مدد لی ہے۔ مولانا کی اس گراں قدر مفصل بحث سے اردو تراجم کے تقابلی مطالعہ کی صلاحیت پیدا ہوتی ہے اور قرآن کریم کے عربی الفاظ‘ عربی محاورات کی گہرائیوں کا علم حاصل ہوتا ہے۔
ہمیں افسوس اور حسرت ہے کہ ایسے علمی اور تحقیق کاموں کی اس زمانہ میں کھپت نہیں۔ مولانا کی یہ کتاب اپنی تحقیق و محنت کے لحاظ سے یقینا اس قابل ہے کہ کسی صوبہ کی اردو اکیڈمی اسے درجہ اول کی کتاب قرار دے کر اس پر مولانا کو انعام دے۔
اور مسلمانوں کے مستطیع حضرات اس کے بہت سے نسخے خرید کر کم از کم اہل علم حضرات تک اسے پہنچادیں‘ تاکہ انہیں نہ صرف شاہ عبدالقادر صاحب رحمہ اللہ کے ترجمہ کے اسرار و غموض پر اطلاع ہو بلکہ تفسیر قرآن کی راہ بصیرت ان پر کھلے اور انہیں معارف قرآن سے خود دلچسپی اور اس دریائے ناپیداکنار میں غواصی کا شوق ہو۔ محاسن موضح قرآن زیادہ باد۔“
الغرض یہ کتاب علماء اور خصوصاً وہ حضرات جو ترجمہ و تفسیر کے ساتھ شغف رکھتے ہیں یا تفسیر پڑھاتے ہیں‘ ان کے لئے نعمت غیر مترقبہ ہے۔ اللہ تعالیٰ جزائے خیر دے ایچ ایم سعیدکمپنی کو‘ جس نے یہ اہم علمی دستاویز اہل علم کے لئے مہیا کی۔
روح کا سفر
سید محبوب حسن واسطی ۔صفحات :۴۴۰ ، قیمت: ۲۵۰روپے ، پتہ: مکتبہ واسطیہ جے ون ۲۱ کورنگی ، کراچی، ۷۴۹۰۰
پیش نظر کتاب جناب موٴلف واسطی صاحب کے ان مختلف موضوعات پر لکھے گئے مضامین کا مجموعہ ہے جو مختلف اخبارات و رسائل کی زینت بنے۔ کتاب تین حصوں پر مشتمل ہے: حصہ اول میں مشائخ کے تبرکات اور ان کے احباب کی نگارشات ہیں جبکہ دوسرے حصہ میں موٴلف کے خود نوشت مضامین و مقالات ہیں، جن کو انہوں نے فن وار تقسیم کیا ہے
چنانچہ ارود مضامین سے تفسیر ،حدیث ، فقہ ، تصوف تقابل ادیان، سیرت ،تاریخ ، سوانح ووفیات کے عنوانات پر مضامین کو شامل کیا گیا ہے ،اس طرح جھوٹے مدعیات نبوت ،شعر و ادب ، یادیں، تبصرے اور اسفار بھی اس میں شامل ہیں۔اسی طرح اس کے انگریزی میں بھی چار مضامین ہیں جبکہ حصہ سوم میں ان کے ذاتی اور خاندانی حالات کا تذکرہ ہے۔
موٴلف چونکہ سلسلہ نقشبندیہ کے شیخ حضرت ڈاکٹر غلام مصطفیٰ صاحب کے مرید ، مسترشد اور مجاز ہیں، اس لئے ان کے مضامین پر تصوف غالب ہے، اس لئے انہوں نے اپنی کتاب کا نام بھی”روحانی سفر “طے کیا ہے۔ خدا کرے کہ یہ کتاب ہر ایک کے روحانی سفر میں معاون و مدد گار ثابت ہو۔
اشاعت ۲۰۰۹ ماہنامہ بینات , شعبان ۱۴۳۰ھ - اگست ۲۰۰۹ء, جلد 72, شمارہ 8, جلد 72, شمارہ 
Flag Counter