Deobandi Books

ماہنامہ البینات کراچی ربیع الثانی ۱۴۳۰ھ - اپریل ۲۰۰۹ء

ہ رسالہ

8 - 9
حضرت مولانا حسین احمد حقانی ؒ
حضرت مولانا حسین احمد حقانی 

۸/فروری ۲۰۰۹ء مطابق ۱۰/ربیع الاول ۱۴۳۰ھ بروز اتوار دارالعلوم حقانیہ اکورہ خٹک کے فاضل، دارالعلوم حقانیہ اکوڑہ کے بانی، مدیر اور شیخ الحدیث حضرت مولانا عبدالحق قدس سرہ کے محبوب شاگرد، خادم خاص اور منہ بولے بیٹے، جامعہ حقانیہ بلدیہ ٹاؤن کراچی کے بانی، مدیر و استاذ، تحریک تحفظ ختم نبوت، سواد اعظم کے راہنما، جمعیت علماء اسلام بلدیہ ٹاؤن کے روح رواں، خیبر اسکول بلدیہ ٹاؤن کے استاذ، درسِ نظامی کے کامیاب مدرس، رحمانی مسجد سوات کالونی بلدیہ ٹاؤن کراچی کے خطیب، ہمارے مخدوم اور مخدوم العلماء حضرت مولانا حسین احمد حقانی رحلت فرمائے عالم آخرت ہوگئے۔ انا للّٰہ وانا الیہ راجعون۔ ان للّٰہ مااخذ ولہ ما اعطی وکل شئی عندہ باجل مسمیٰ۔
حضرت مولانا حسین احمد حقانی قدس سرہ کا آبائی تعلق ضلع سوات کے علاقہ شانگلہ دندئی اور گاؤں تختہ سے تھا۔ آباؤ اجداد سے آپ کا خاندان، علمی و روحانی چلا آرہا ہے، چنانچہ آپ کے والد ماجد حضرت مولانا حسن الماٰب ․․․ عرف بابا جی․․․ بھی ایک بلند پایہ محقق عالم اور عظیم صوفی تھے۔ جنہوں نے سمر قند بخاریٰ کے علمی مراکز سے کسب فیض کرکے نام کمایا، اور جس دور میں رسد و رسل کے اسباب نہ ہونے کے برابر تھے، اس دور میں آپ نے پیدل حج بھی کیا۔ اپنے دور کے مشہورمنطقی عالم دین حضرت مولانا خان بہادر عرف مارتونگ بابا اور علم و ادب میں مشہور عالم اور فاضل دارالعلوم دیوبند حضرت مولانا محمود عالم میروی جیسے زعمائے وقت آپ کے تلامذہ میں سے تھے، حضرت مولانا حسن الماٰب ،عرف باباجی، کے تین صاحبزادے :حضرت مولانا عبدالقادر حقانی، حضرت مولانا حسین احمد حقانی اور حضرت مولانا شبیر احمد حقانی دارالعلوم حقانیہ اکورہ خٹک کے فاضل تھے۔
اسی طرح حضرت مولانا حسین احمد حقانی  کے صاحبزادے مولانا محمود الحسن بھی حقانیہ کے فاضل ہیں۔ حضرت مولانا حسین احمد حقانی نے ۱۹۴۶ء میں حضرت مولانا حسن الماٰب کے گھر میں آنکھ کھولی، ابتدائی تعلیم گھر پر ہوئی اور مطولات کی تعلیم کے لئے آپ نے جامعہ حقانیہ اکوڑہ خٹک کا رخ کیا، چونکہ آپ سے پہلے آپ کے بڑے بھائی حضرت مولانا عبدالقادر حقانی دارالعلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک میں زیر تعلیم تھے، اس لئے انہوں نے اپنے چھوٹے بھائی کو بانی مدرسہ حضرت مولانا عبدالحق قدس سرہ کی سرپرستی اور سایہ عاطفت میں دے دیا، حضرت مولانا عبدالحق قدس سرہ نے بھی کمال درجہ کی محبت اور بے مثال شفقت کا برتاؤ کیا، جبکہ اس ہونہار حسین احمد نے بھی حضرت شیخ الحدیث کی خدمت اور ان کی راحت رسانی میں انتہا کردی، چنانچہ آپ نے اپنے بزرگ استاذ اور مشفق عالم دین کی خدمت کا ایسا ریکارڈ قائم کیا کہ حضرت شیخ الحدیث یہ فرمانے پر مجبور ہوگئے کہ: میرے چار بیٹے تھے اور اب پانچواں بیٹا حسین احمد ہے۔ چونکہ مولانا حسین احمد حقانی  پورے نو سال تک حضرت شیخ کی خدمت میں رہے، اس لئے حضرت شیخ الحدیث کی شفقت و محبت اور تربیت نے آپ کو کندن بنادیا۔
آپ نے دارالعلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک میں درج ذیل اکابر و اساطین علم و فضل سے کسب فیض کیا: حضرت مولانا عبدالحق ، حضرت مولانا عبدالحلیم زروبی ٴ عرف صدر صاحب، حضرت مولانا عبدالغفور عرف شینڈ مولوی صاحب، حضرت مولانا عبدالحلیم کوہستانی ، حضرت مولانا مفتی محمد یوسف بونیری، حضرت مولانا جلال الخالق فاضل دیوبند اور حضرت مولانا محمود الحسن میروی وغیرہ۔
الغرض دارالعلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک میں مسلسل نو سال تک رہ کر آپ نے باقاعدہ علوم درسیہ کا نصاب مکمل کیا اور ۱۹۶۵ء میں فاتحہ فراغ پڑھ کر سند حاصل کی۔
فراغت کے بعد آپ اپنے کسی ذاتی و نجی کام کے سلسلہ میں کراچی تشریف لائے تو کراچی کے ایک بڑے ادارے تبلیغی کالج کی پیشکش پر آپ نے اس کی تدریس کی ذمہ داری قبول فرمالی، چنانچہ آپ اس کے صدر مدرس قرار پائے، اسی دوران آپ نے پرائیویٹ طور پر مولوی فاضل کا امتحان دیا اور اوّل درجہ میں کامیابی حاصل کی اور یہاں رہتے ہوئے رحمانی مسجد سوات کالونی کی امامت و خطابت کی پیشکش ہوئی تو آپ نے اسے بھی شرف قبولیت بخشا اور پھر ساری زندگی کے لئے کراچی کے ہوکر رہ گئے۔
آپ کی تدریس کا چونکہ شہرہ ہوچکا تھا، اس لئے حضرت مفتی نظام الدین شامزی شہید جس دور میں دارالخیر بکرا پیڑی میں زیر تعلیم تھے اور کسی تحریک کی بنا پر آپ کی شرح جامی کے کچھ اسباب رہ گئے تھے، اس لئے آپ نے حضرت مولانا حسین احمد حقانی قدس سرہ سے اپنے ان اسباق کی تکمیل کرکے شرف تلمذ حاصل کیا۔
جیسا کہ ہم نے پہلے عرض کیا ہے کہ مولانا حقانی صاحب جہاں بھی رہے اپنے فرائض سے غافل نہیں رہے، آپ جہاں سیاسی اعتبار سے جمعیت علماء اسلام کے کارکن تھے، وہاں دینی اور مذہبی اعتبار سے تحریک تحفظ ختم نبوت، سوادِ اعظم، تنظیم فضلاء حقانیہ اور تنظیم اہل حق کے بھی روح رواں تھے۔ چنانچہ بلدیہ ٹاؤن میں جمعیت علماء اسلام کے تعارف یا غدارانِ ختم نبوت کے تعاقب، فضلاء حقانیہ کی تنظیم اور سوادِ اعظم کی جو کچھ شکل نظر آتی ہے یہ سب مولانا حسین احمد حقانی قدس سرہ کی مساعی و کوششوں کا ثمرہ ہے۔
جن دنوں آپ تبلیغی کالج اور رحمانی مسجد سوات کالونی میں دینی و مذہبی خدمات انجام دے رہے تھے، انہی دنوں علاقہ کے معززین اور اہلِ ثروت حضرات نے مل کر آپ سے درخواست کی کہ چونکہ اس علاقہ میں کوئی دینی مدرسہ نہیں ہے ،اس لئے آپ یہاں ایک دینی مدرسہ قائم کریں۔
چنانچہ اہلِ محلہ کے اصرار اور خواہش پر آپ نے جامعہ حقانیہ کے نام پر ۱۹۸۴ء میں بلدیہ ٹاؤن کے پہلے دینی مدرسہ کی داغ بیل ڈالی، حضرت مولانا حسین احمد حقانی کے انتظام و اہتمام میں اس مدرسہ نے دیکھتے ہی دیکھتے ترقی کی منازل طے کیں، چنانچہ آج اس میں جہاں بنات کے دورہ حدیث شریف کی تعلیم ہورہی ہے، وہاں شعبہ بنین میں بھی مشکوٰة شریف تک کی تعلیم کا معقول انتظام ہے۔ یہ بھی حضرت مولانا حقانی قدس سرہ کے حسن انتظام اور مدرسہ کے تعلیمی نظم پر گرفت کا منہ بولتا ثبوت ہے کہ اس مدرسہ کی ایک طالبہ نے اپنے درجہ میں پاکستان بھر کی طالبات کے مقابلہ میں دوسرے نمبر پر کامیابی کا اعزاز حاصل کیا۔
حضرت مولانا قدس سرہ نے بلاشبہ بلدیہ ٹاؤن میں بھرپور دینی اور علمی خدمات انجام دیں، جس طرح آپ اکابر علماء اور اساتذہ کی خدمت کو اپنی سعادت سمجھتے تھے، اسی طرح اکابر علما ء نے بھی ہر موقع پر ان کی سرپرستی فرمائی۔ چنانچہ امام اہل سنت حضرت اقدس مولانا مفتی احمد الرحمن قدس سرہ جب تک حیات رہے اس مدرسہ کی سرپرستی اور مالی ضروریات کی کفالت فرماتے رہے، دراصل حضرت مفتی صاحب کو اللہ تعالیٰ نے وسعت ظرفی کا اعزاز و ملکہ عطا فرمایا تھا، اس لئے وہ پاکستان بھر کے تمام دینی مدارس کو اپنا مدرسہ سمجھتے تھے۔ اور وہ ان کی ضروریات کی کفالت فرماتے تھے... دوسری جانب حضرت مولانا حسین احمد حقانی قدس سرہ بھی اپنے اکابر و بزرگان دین کے ساتھ والہانہ محبت اور اخلاص کا تعلق رکھتے تھے۔ چنانچہ جن دنوں کراچی میں سواد اعظم کی تحریک زوروں پر تھی، ان دنوں جامعہ حقانیہ بلدیہ ٹاؤن اکابرین تحریک کی مشاورت کا مرکز تھا۔
یوں تو حضرت مولانا گزشتہ کئی سالوں سے عارضہ قلب میں مبتلا تھے، لیکن گزشتہ چند مہینوں سے آپ کی تکلیف میں کسی قدر شدت آگئی تھی، بایں ہمہ امسال پورا رمضان آپ نے حرمین شریفین میں گزارا، حرمین شریفین سے واپسی پر آب و ہوا کی تبدیلی کی غرض سے گاؤں تشریف لے گئے، مگر وہاں جاکر بھی طبیعت نہیں سنبھلی، بلکہ روز بروز بیماری میں اضافہ ہوتا گیا، تاآنکہ طبیعت بہت ہی کمزور ہوگئی۔
جس دن آپ کا وصال ہوا، اس روز صبح کے وقت تمام اہل خانہ اور عزیزوں کو جمع کیا، اجتماعی دعا کرائی، سب سے معافی تلافی کی اور فرمایا کہ میری جانب سے رحمانی مسجد سوات کا لونی کے تمام نمازیوں سے معافی کی درخواست کی جائے، وفات کے دن آپ صبح سے بار بار یہ فرماتے رہے کہ مجھے اس کرایہ کے مکان سے لے جاؤ، کیونکہ مالک مکان کہہ رہا ہے کہ کرایہ کا مکان خالی کردو اور اپنے سامنے والے بنگلہ میں آجاؤ، لہٰذا میں اپنے بنگلہ میں جارہا ہوں۔
عصر کے وقت طبیعت میں بہت زیادہ کمزوری اور نقاہت ہوگئی، عین اس وقت جب سورج غروب ہورہا تھا، یہ علم و عمل کا آفتاب و ماہتاب اپنی زندگی کی ۶۳ منزلیں پوری کرکے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے غروب ہوگیا، ان کی رحلت کی خبر جنگل کی آگ کی طرح ہر جگہ پھیل گئی، جیسے جیسے احباب و متعلقین کو اطلاع ہوتی گئی، سب دیوانہ وار آپ کے آخری دیدار اور جنازہ میں شرکت کے لئے آپ کے گاؤں کی جانب روانہ ہوگئے، دوسرے دن ظہر تک گاؤں اور اس کی ملحقہ آبادیاں حضرت مولانا کے عشاق و خدام سے بھرچکی تھیں، بہرحال بعد نماز ظہر نماز جنازہ ہوئی، آپ کے بڑے بھائی حضرت مولانا عبدالقادر حقانی مدظلہ نے جنازہ کی امامت کی اور آہوں اور سسکیوں کے ساتھ ان کو ان کی آخری آرام گاہ کی طرف لے جایا گیا اور تھوڑی دیر بعد ہی آپ کو سپرد خاک کردیا گیا۔
آپ کی رحلت کے بعد کراچی اور علاقہ کے اکابر و مشائخ نے براہ راست تشریف لاکر متعدد حضرات نے ٹیلی فون اور خطوط کے ذریعہ آپ کے اعزہ اور متعلقین سے تعزیت کی اور یہ سلسلہ تاحال جاری ہے۔ اللہ تعالیٰ حضرت مرحوم کے درجات کو بلند فرمائے اور رضا و رضوان کا معاملہ فرمائے۔ آمین۔
قارئین بینات سے درخواست ہے کہ حضرت مرحوم کو اپنی دعاؤں اور ایصال ثواب میں ضرور یاد رکھیں
مولانا قاری خبیب احمد عمر قدس سرہ
یکم مارچ ۲۰۰۹ء مطابق ۳/ربیع الاوّل ۱۴۳۰ھ بروز اتوار جامعہ حنفیہ جہلم کے مدیر، حضرت مولانا قاضی عبداللطیف کے فرزند و جانشین ، امام اہل سنت حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدر دامت برکاتہم کے تلمیذ، داماد و فرزند نسبتی، جامعہ نصرة العلوم گوجرانوالہ کے فاضل، تحریک خدام اہل سنت صوبہ پنجاب کے امیر، وفاق المدارس العربیہ پاکستان کی جانب سے ضلع جہلم کے مسئول، جہلم بھر کے مداررس و مساجد کے سرپرست اور روح رواں حضرت مولانا قاری خبیب احمد عمر مختصر علالت کے بعد راہی عالم آخرت ہوگئے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔
مولانا قاری خبیب احمد عمر قدس سرہ مسلک ِ حق مسلک علمائے دیوبند کے داعی و مناد اور اپنے اکابر و اسلاف کی روایات کے امین تھے اور خصوصاً اپنے عظیم والد حضرت مولانا قاضی عبداللطیف قدس سرہ کے علمی جانشین اور ان کی تحریک خدام اہل سنت کے روح رواں تھے۔ حضرت مرحوم کو اللہ تعالیٰ نے شرف و اعزاز کی متعدد نسبتوں سے سرفراز فرمایا تھا، اگر ایک طرف آپ ایک عالم ربانی اور مجاہد یزدانی حضرت مولانا قاضی عبداللطیف قدس سرہ کی صلبی اولاد تھے تو دوسری طرف آپ کو شیخ التفسیر والحدیث امام اہل سنت حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدر دامت برکاتہم سے فرزند نسبتی کی سعادت بھی حاصل تھی۔
دیکھا جائے تو اٹک، جہلم اور چکوال کے علاقوں میں جہالت و لاعلمی کا دور دورہ تھا، وہاں ایک طرف اگر رفض کا عروج تھا تو دوسری طرف بدعات و رسومات کا دور دورہ تھا، وہاں کی قاضی برادری اور علاقہ بھر کی عوام کی اصلاح و تربیت کے لئے اللہ تعالیٰ نے حضرت مولانا قاضی زاہد الحسینی قدس سرہ، حضرت مولانا قاضی عبداللطیف جہلمی قدس سرہ اور حضرت مولانا قاضی مظہر حسین قدس سرہ جیسے اکابر کو منتخب فرماکر ان سے بے مثال کام لیا۔ چنانچہ ان اکابر ثلاثہ نے علاقہ کی دینی علمی اور مذہبی حیثیت کو مدِنظر رکھتے ہوئے خدام اہل سنت اور حق چار یار نام کی شکل میں ایک تحریک شروع کی تو سینکڑوں‘ بلکہ ہزاروں لوگوں کو بدعات و رسومات اور گمراہی کی دلدل سے نکال کر راہِ راست پر لانے کا لازوال کارنامہ انجام دیا۔
حضرت مولانا قاری خبیب احمد عمر قدس سرہ بھی اپنے والد ماجد کے مشن کے امین تھے اور اپنے اکابر کی طرز پر درس و تد ریس اور تعلیم و تعلم اور وعظ و تبلیغ کے ساتھ ساتھ اصلاح امت کے مشن پر گامزن تھے۔ خصوصاً دیوبندیوں میں در آنے والے فتنوں کی اصلاح کے لئے وہ بہت ہی حساس تھے۔ مولانا موصوف گزشتہ دنوں انگلینڈ کے دورہ پر تھے کہ ان کو وہاں معمولی سا بخار ہوگیا دوا علاج کیا گیا، مگر خاطر خواہ فائدہ نہ ہوا، ہسپتال کا رخ کیا گیا تو معلوم ہوا کہ ان کو شدید قسم کا نمونیہ ہوگیا ہے، چنانچہ ”مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی“ کے تحت یہ مرض اس قدر بڑھا کہ تمام اعضا رئیسہ نے کام کرنا چھوڑ دیا اور چند دن ہسپتال میں زیر علاج رہنے کے بعد برمنگھم کے مقامی ہسپتال میں وہ رحلت فرمائے عالم آخرت ہوگئے۔ مقامی حضرات کے مشورہ سے ان کی میت پاکستان بھیجی گئی اور ۳/ مارچ ۲۰۰۹ء سہ پہر تین بجے جہلم اسٹیڈیم میں ان کی نماز جنازہ ہوئی، نماز جنازہ تحریک خدام اہل سنت کے مرکزی امیر جناب مولانا قاضی ظہورالحسن نے پڑھائی۔ ملک بھر سے عموماً اور پنجاب کے مختلف شہروں سے خصوصاً علماء، طلبا اور عوام و خواص ، دین دار طبقہ نے جنازہ میں شرکت فرماکر ان کی دینی و ملی خدمات کو خراج عقیدت پیش کیا۔
عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت پاکستان کی جانب سے حضرت مولانا محمد اسماعیل شجاع آبادی ملتان، محمد طیب فاروقی اسلام آباد، مولانا عزیز الرحمن ثانی لاہور، میاں عبدالرحمن، مفتی خالد میر اور مولانا فقیر اللہ اختر نے جنازہ میں شرکت کرتے ہوئے خاندان اور متعلقین سے اظہار تعزیت کیا۔ دوسری جانب امیر مرکزیہ حضرت مولانا خواجہ خان محمد کندیاں شریف، نائب امیر حضرت مولانا ڈاکٹر عبدالرزا ق اسکندر مدظلہ، ناظم اعلیٰ مولانا عزیز الرحمن جالندھری ، مولانا اللہ وسایا ملتان، مولانا سعید احمد جلال پوری، مولانا قاضی احسان احمد، مولانا محمد اکرم طوفانی، مولانا صاحبزادہ عزیز احمد خانقاہ کندیاں شریف نے ان کی وفات کے سانحہ کو اپنا ذاتی صدمہ سمجھتے ہوئے خاندان اور متعلقین سے دلی ہمدردی کا اظہار کیا اور مولانا مرحوم کی وفات کو ایک دینی، علمی اور ملی نقصان قرار دیا، اور دعا کی کہ اللہ تعالیٰ مرحوم کے درجات کو بلند فرمائے اور ان کے پسماندگان کو صبر جمیل کی توفیق نصیب فرمائے۔ آمین۔
باوثوق ذرائع سے معلوم ہوا کہ خاندان، تحریک خدام اہل سنت اور مدرسہ کی شوریٰ نے متفقہ طور پر مرحوم کے صاحبزادے مولانا ابوبکر سلمہ ربہ کو ان کا جانشین نامزد کیا۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ صاحبزادہ گرمی کو اپنے والد کا صحیح جانشین بنائے اور ان کی حسنات کو جاری رکھنے کی توفیق بخشے۔
اشاعت ۲۰۰۹ ماہنامہ بینات , ربیع الثانی ۱۴۳۰ھ - اپریل ۲۰۰۹ء, جلد 72, شمارہ 4

    پچھلا مضمون: نزولِ مسیح علیہ السلام اور اجماعِ امت
Flag Counter