Deobandi Books

ماہنامہ البینات کراچی ربیع الثانی ۱۴۳۰ھ - اپریل ۲۰۰۹ء

ہ رسالہ

7 - 9
نزولِ مسیح علیہ السلام اور اجماعِ امت
نزولِ مسیح علیہ السلام اور اجماعِ امت
(آخری قسط)

نمبر (۱۳) میں یہ بات واضح ہوگئی ہے کہ مستقبل میں جن امور کے متعلق امت کا اجتماع ہوتا ہے اس کی حیثیت کیاہے؟ کیونکہ امت کو توغیب کا علم نہیں‘ وہ تو علام الغیوب ہی کا خاصہ ہے‘ اس کا مطلب صرف یہ ہے کہ مخبر صادق سے جو کچھ منقول ہے اس پر امت کا اتفاق ہے اگر وہ نقل بذریعہ آحاد ہو‘ جب بھی اجماع کے بعد قطعی ویقینی ہوجاتی ہے۔ اب غور کیجئے کہ کتب حدیث میں جو امہات واصول ہیں مثلاً بخاری‘ مسلم‘ سنن نسائی‘ سنن ابی داؤد‘ ترمذی‘ ابن ماجہ سے لے کر مستدرک حاکم وسنن کبریٰ بیہقی تک بیسیوں کتابوں میں نزولِ عیسیٰ علیہ السلام کے مستقل ابواب موجود ہیں‘ سب ہی نزول کی احادیث روایت کرتے ہیں اور نفسِ نزول میں اسنادی اعتبار سے کوئی علت ِ قاوحہ نہیں بیان کرتے۔
پھر ان ہی کتبِ حدیث وکتبِ تفسیر میں صحابہ  سے پھر تابعین سے اور تابعین بھی مختلف بلاد کے مدینہ‘ مکہ‘ بصرہ‘ کوفہ‘ شام وغیرہ کے سب سے نزولِ مسیح کے بارے میں نقول موجود ہیں‘ پھر کسی صحابی‘ کسی تابعی سے نہیں‘ بلکہ کسی امامِ دین‘ کسی محدث‘ کسی مصنف سے بھی اس کا خلاف کسی کتاب میں کسی دور میں‘ کہیں بھی کوئی حرف نقل نہیں ہوا‘ کیا یہ اس کی دلیل نہیں کہ یہ بات اور عقیدہ بالکل اجماعی واتفاقی ہے‘ پھر کتبِ عقائد میں جو مستند ترین اور اعلیٰ ترین کتبِ عقیدہ ہیں‘ ان سب میں اس کا ذکر عقیدہ کی صورت میں موجود ہے‘ اس سے بڑھ کر کیا دلیل ہوگی؟
اس وقت ہم ذیل میں دو اہم ترین مأخذ پیش کرتے ہیں:
۱:- عقیدہٴ طحاویہ: جو امام ابوحنیفہ‘ امام ابو یوسف‘ امام محمد وغیرہ ائمہ حنفیہ کے عقائد میں موثوق ترین چیز ہے‘ اس کی عبارت ملاحظہ ہو:
”ونؤمن باشراط الساعة من خروج الدجال ونزول عیسیٰ ابن مریم علیہ السلام لسماء“۔
ترجمہ:․․․”خروجِ دجال اور آسمان سے نزولِ عیسیٰ علیہ السلام وغیرہ علاماتِ قیامت پر ہمارا ایمان ہے“۔
۲:- فقہ اکبر: امام ابوحنیفہ کی مشہور ترین متداول کتاب ہے‘ ابومطیع بلخی کی روایت سے منقول ہے‘ امام ابومنصور ماتریدی جو ماتریدیہ کے امام الطائفہ ہیں‘ وہ اس کتاب کے پہلے شارح ہیں‘ اس فقہ اکبر کی عبارت یہ ہے:
”ونزول عیسیٰ علیہ السلام من السماء وسائر علامات القیامة علی ما وردت بہ الاحادیث الصحیحة حق کائن۔ اھ“
ترجمہ:․․․”آسمان سے عیسیٰ علیہ السلام کا نازل ہونا اور اس کے علاوہ علاماتِ قیامت جو صحیح احادیث میں مذکور ہیں‘ بالکل حق ہیں“۔
ان عبارتوں میں جس طرح تصریح کی گئی ہے‘ اس سے بڑھ کر عقیدہ ہونے کی کیا تصریح ہو گی؟ کیا اس قسم کی تصریحات کے بعد کسی منصف کے لئے کوئی شبہ باقی رہتا ہے؟ کیا اس عقیدہ کے اتفاقی ہونے کے لئے مزید کسی دلیل کی ضرورت باقی رہتی ہے؟ یہ عقائد تو وہ ہیں جو بذریعہ توارث امت محمدامیں پہنچ چکے ہیں‘ اب اجماع کی بھی دو تصریحی شہادتیں پیش کی جاتی ہیں‘ تاکہ بیانِ سابق کی تصدیق وتائید میں کسی طالب حق کے لئے کوئی خلجان باقی نہ رہے۔
امام ابو اسحاق کلا آبادی بخاری جو قرن رابع کے اکابر حفاظ محدثین سے ہیں اور اپنی اسناد سے روایت حدیث کرتے ہیں‘ اپنی کتاب ”معانی الاخبار“ میں فرماتے ہیں:
”قد اجمع اہل الاثر وکثیر من اہل النظر علی ان عیسیٰ علیہ السلام ینزل من السماء فیقتل الدجال ویکسر الصلیب اھ“۔ (تحیة الاسلام ص:۱۳۵)
ترجمہ:․․․”کل محدثین اور بہت سے متکلمین کا اس پر اجماع ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام آسمان سے نازل ہوں گے‘ دجال کو قتل کریں گے اور صلیب کو توڑیں گے“۔
یہ خیال رہے کہ محدثین کا دور متکلمین سے پہلے شروع ہوتا ہے اور اس مسئلے پر محدثین کا اجماع منعقد ہوچکا ہے‘ بعد میں اگر متکلمین کے عہد میں خلاف بھی ہوگیا ہو تو اجماع سابق کو مضر نہیں‘ نہ یہ خلاف اتفاق ہونے کے بعد قابل اعتبار ہے‘ جس کی تحقیق کتب اصول فقہ میں موجود ہے‘ نیز بظاہر یہ خلاف جو بعض متکلمین کی طرف منسوب ہے‘ صحیح نہیں جیساکہ آئندہ سفارینی کی عبارت سے واضح ہے۔
بہرحال یہ تو ہوئی نقل ”اجماع“ کے بارے میں قدماء محدثین کی تصریح‘ اب متاخرین اہلحدیث میں سے امام شمس الدین محمد بن احمد حنبلی سفارینی نابلسی کی عبارت ملاحظہ ہو:
”واما الاجماع فقد اجتمعت الامة علی نزولہ ولم یخالف فیہ احد من اہل الشریعة وانما انکر ذلک الفلاسفة والملاحدة مما لایعتد بخلافہ وقد انعقد اجماع الامة علی انہ ینزل ویحکم بہذہ الشریعة المحمدیة اھ“۔ (شرح عقیدہ سفارینی ج:۲‘ ص:۹۰)
ترجمہ:․․․”رہا نزول عیسیٰ علیہ السلام میں اجماع: تو امت محمدیہ کے کل اہل علم کا اجماع ہے کہ وہ نازل ہوں گے اور شرع محمدی پر عمل کریں گے‘ بجز فلاسفہ اور ملاحدہ کے کسی نے خلاف نہیں کیا اور ان کا خلاف قابل اعتبار نہیں“۔
سفارینی مذکور بارہویں صدی کے اکابر محدثین میں ہیں‘ حنبلی المذہب ہیں‘ نابلس کے ایک گاؤں سفارین کے باشندے ہیں‘ نام محمد بن احمد‘ شمس الدین لقب‘ ابو العون کنیت ہے‘ بیسیوں کتابوں کے مصنف ہیں۔”سلک الدرر فی اعیان القرن الثانی عشر‘ السحب الوابلة علی ضرائح الحنابلة“۔ وغیرہ ان میں کا مفصل ترجمہ اور حالات مذکور ہیں‘ سلک الدرر میں ان کو الشیخ الامام العلام الحبر البحر النحریر وغیرہ جلیل القدر القاب سے ذکرکیا ہے اور بہت سے مفاخر ومآثر لکھنے کے بعد فرماتے ہیں:
”بالجملة فقد کان غرة عصرہ وشامة مصرہ لم یظہر فی بلدہ بعد مثلہ الخ“۔ صاحب الضرائح لکھتے ہیں: شمس الدین العلامة المسند الحافظ المتقن‘ وبالجملة فتألیفہ نافعة مفیدة مقبولة سارت بہ الرکبان وافتثرت فی البلدان‘ کان اماماً متقناً جلیل القدر زینة اہل عصرہ ونقاوة اہل مصرہ الخ
سید مرتضی زبیدی بلگرامی صاحب “تاج العروس شرح القاموس“ اور صاحب ”اتحاف السادة المتقین بشرح احیاء علوم الدین“ حدیث میں ان کے تلمیذ ہیں۔ اب تو جے پوری صاحب نے سفارینی کو پہچان لیا ہوگا کہ وہ کون ہیں اور کس پایہ کے ہیں۔ سفارینی کی عبارت سے معلوم ہوا کہ کل محدثین اور سب متکلمین ماتریدیہ‘ اشاعرہ‘ معتزلہ سب کے سب کا نزولِ مسیح علیہ السلام پر اجماع ہے‘ صرف ملحدین وفلاسفہ اس کے منکر ہیں۔ اس قسم کے مواضع میں جب اجماع کا اس طرح ذکر کیا جاتا ہے‘ اس سے اجماعِ ناطق ہی مراد ہوتا ہے۔ اجماع سکوتی کو کبھی بھی اس طرح تعبیر نہیں کرتے۔ جے پوری صاحب کو جیسے تواتر کے لفظ سے چڑ ہے‘ ایسے ہی اجماع کے لفظ سے بھی ضد ہے۔ جہاں اجماع کا لفظ دیکھا جھٹ فرمائیں گے کہ یہ کوئی سکوتی اجماع ہوگا‘ محض اپنی ضد کو پورا کرنے کے لئے بے انصافی کرکے بے دلیل ایسی بات کہنا کسی عالم کا شعار نہیں‘ جب تک کوئی صریح دلیل اس کے خلاف قائم نہ ہو‘ اجماع سے یہی اجماع صریح اجماع ناطق مراد ہوگا‘ اگر ان کو اس پر اصرار ہے کہ یہ اجماع سکوتی ہے تو لائیں کوئی دلیل پیش کریں۔ ”ہاتوا برہانکم ان کنتم صادقین“۔
نیز واضح رہے کہ تألیفی دور کے بعد اجماع کا نقل انہی تألیفات کے ذریعہ سے ہوتا ہے‘ جتنے مسائل اصول کے ہوں یا فروع کے جن میں اجماع نقل کیا جاتا ہے اسی پر اعتماد کیا جاتا ہے‘ آج تک تألیفی دور میں کل اربابِ تالیف کا سلف میں بھی اور خلف میں بھی یہی معمول چلا آرہا ہے‘ یہ کبھی نہ ہوا اورنہ ہوسکتا ہے کہ چودھویں صدی میں کسی زیدوعمرو کو اسنادی اجماع پہنچ گیا ہو‘ اس قسم کے خیالات محض طفلانہ ہیں۔ اگر بات لمبی نہ ہوتی تو ہم یہاں پر اس کے نظائر پیش کرتے کہ جن امور میں اجماع نقل ہوا ہے اور امت کے نزدیک اجماع سے وہ درجہٴ قطعیت کو پہنچ گئے ہیں‘ ان میں بھی اس سے زیادہ اجماع کا ثبوت نہیں کہ فلاں کتاب میں فلاں شخص نے اس پر اجماع نقل کیا ہے اور ناقل ثقہ ہے‘ اب تک امت محمدیہ نے اپنی تالیفات میں عملی امانت کو اچھے طریقہ سے ادا کردیا ہے‘ اب آگے اللہ تعالیٰ رحم فرمائیں۔
خلاصہ بحث: اس طویل بحث کا خلاصہ حسب ذیل امور میں پیش کیا جاتا ہے:
۱- نزولِ مسیح علیہ السلام کا عقیدہ امت محمدیہ ا میں قرن بہ قرن طبقہ بہ طبقہ متوارث چلا آرہا ہے اور ا سکو تواتر طبقی حاصل ہے‘ قطعیت کے لئے یہ توارث خود بخود مستقل دلیل ہے‘ جس کی تفصیل نمبر (۱) میں گذر چکی ہے۔
۲- باوجود اس توارث کے قرآن مجید میں بھی اس کا ذکر موجود ہے‘ اکثر اہل علم اور صحابہ وتابعین کی تفسیر کی بناء پر نزولِ مسیح علیہ السلام کا ذکر قرآن کریم میں ہے۔
۳-نزولِ مسیح کی احادیث باتفاق امت صحیح ہیں اور باتفاق امت ان کی تلقی بالقبول ہو چکی ہے اور بہ تصریح حفاظ حدیث وہ اصطلاحی متواتر ہیں اور خارجی بحث وتحقیق سے بھی ان تینوں باتوں کی قطعیت میں کوئی شبہ نہیں۔
۴-نزول مسیح کے بارے میں امت محمدیہ کا اجماع بھی منعقد ہوچکا ہے‘ قدماء محدثین اور متاخرین اس اجماع کو نقل کرتے ہیں اور آج تک کسی کتاب میں کسی کا اہل حق میں سے انکار یا خلاف منقول نہیں۔
۵- غرض یہ کہ عقیدہ نزولِ مسیح مختلف جہات‘ مختلف اعتبارات سے قطعی ہے اور ضروریاتِ دین میں داخل ہے اور معلوم ہونے کے بعد صرف باطنی زیغ یا قلبی وساوس یا عقلی استبعاد کی بنا پر انکار کرنا اور انکار کے لئے حیلے تلاش کرنا اور چارہ جوئی کرنا مومن قانت کا شیوہ نہیں‘ رسول اللہ ا کی صداقت‘ ضروریات دین کا اہم ترین جز ہے‘ حضرت رسالت پناہ اایک بات فرما چکے ہوں اور قطعی ذرائع سے ہم تک پہنچ جائے‘ پھر اس کا ضروریات دین میں داخل نہ ہونا ایمان کا جز نہ بننا بالکل غلط ومتناقص دعویٰ ہے اور پیغمبر اسلام کی تکذیب ہے‘ اگر تصدیق رسول ضروریات دین میں داخل ہے تو کوئی راستہ ماننے کے سوا نہیں‘ اس کی کیفیت سمجھ میں آئے یا نہ آئے‘ اگر فرشتہ آسمان سے اترسکتا ہے اور بصورت دحیہ کلبی متمثل ہو سکتا ہے تو ایک نبی کا آسمان پر چلاجانا اس میں کون ساعقلی استبعاد ہے: ”فتمثل لہا بشراً سویاً“ ”لقد جاء ت رسلنا ابراہیم بالبشریٰ“ وغیرہ آیات قرآنیہ میں بشکل انسانی فرشتہ کا متمثل ہونا بالکل منصوص ہے‘ انبیاء علیہم السلام کی روحانیت ان کی قوت قدسیہ کی وجہ سے بھی غالب ہوتی ہے‘ اس لئے ان کے اجساد مبارکہ پر روحانی کیفیات بآسانی طاری ہوسکتی ہیں‘ کیا نبی کریم ا کی معراج جسمانی اور جسد عنصری کا عروج بنص قرآن مکہ سے بیت المقدس تک ثابت نہیں؟ اور آگے آسمانوں پر صعود وعروج احادیث متواترہ سے ثابت نہیں؟ کیا اس پر یقین اہل حق کا عقیدہ نہیں؟تو جیسے یہاں صعود ونزول آناً فاناً قابل انکار نہیں‘اسی طرح حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا رفع جسمانی پھر حق تعالیٰ جل شانہ کے ارادہ کی مقناطیسی جذب نے ان کو آسمان پر اٹھالیا ہو تو اس میں کون سی حیرت کی بات ہے۔ آج کل مسمریزم اور اسپریچویلزم کے عجائبات کا اگر کسی کو ذرہ بھر بھی علم ہو تو ان خوارقِ الٰہیہ میں ذرا بھی شبہ نہیں کرسکتا۔ خیر ! یہ چیز تو ہمارے موضوع بحث سے خارج ہے‘ کہنا صرف اتنا ہے کہ جب اللہ ورسول کوئی بات ارشاد فرمائیں‘ ہمیں بجز تسلیم کے کوئی مخلص نہیں‘قولہ تعالیٰ:
”ما کان لمؤمن ولامؤمنة اذا قضی اللہ ورسولہ امراً ان یکون لہم الخیرة من امرہم“ ۔
ترجمہ:․․․”اللہ ورسول کے فیصلہ کے بعد کسی مرد مومن یا عورت مؤمنہ کو ماننے نہ ماننے کا اختیار باقی نہیں رہتا“۔
عقیدہ کی تنقیح کے دو جز ہیں:حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا جسمانی رفع اور پھر قیامت کے قریب آسمان سے نزول ‘ یہی دو چیزیں ضروریات دین میں داخل ہیں‘ جب نزول مانا جائے گاتو رفع جسمانی خود بخود ماننا پڑے گا‘ اس لئے اس مضمون میں اس جز کو نہیں لیا گیا۔ باقی یہ تفصیلات کہ رفع سے پہلے موت طاری ہوئی تھی یا نہیں‘ تھوڑی دیر کے لئے یا زیادہ دیر کے لئے رفع بحالت حیات ہوا؟ وغیرہ وغیرہ ان جزوی تفصیلات میں کچھ کچھ سلف سے خلاف منقول ہے‘ لیکن اہل حق اور جمہور اہل سنت کا اس میں منقح فیصلہ یہی ہے کہ جسد عنصری کے ساتھ بحالت حیات رفع آسمانی واقع ہوا‘ اس وقت صرف مسئلہ نزول کو اصولی حیثیت سے واضح کرنا تھا‘ اتناعرض کردیا گیا‘ اسی پر کفایت کی جاتی ہے‘ توقع ہے کہ طالب حق کے لئے اتنا لکھنا کافی ہوگا‘
”ان ارید الا الاصلاح ما استطعت وما توفیقی الا بالله ‘علیہ توکلت والیہ انیب“۔
اشاعت ۲۰۰۹ ماہنامہ بینات , ربیع الثانی ۱۴۳۰ھ - اپریل ۲۰۰۹ء, جلد 72, شمارہ 
Flag Counter