Deobandi Books

ماہنامہ البینات کراچی ربیع الثانی ۱۴۳۰ھ - اپریل ۲۰۰۹ء

ہ رسالہ

4 - 9
ویڈیو اور سی ڈی سے سکرین پرحاصل شدہ صورت کا حکم !
ویڈیو اور سی ڈی سے سکرین پر حاصل شدہ صورت کا حکم!

چند دن پہلے اس موضوع پر دار العلوم کراچی کا متفقہ فتویٰ پڑھنے کو ملا ‘پھر ذو الحجہ ۱۴۲۹ھ کے البلاغ میں مولانا زاہد الراشدی صاحب اور جامعہ امدادیہ فیصل آباد کے مولانا زاہد صاحب کے شائع شدہ مضامین نظر سے گزرے۔ جون ۲۰۰۸ء کے محدث میں جامعہ اشرفیہ کے مولانا یوسف خان صاحب کا مضمون دیکھ چکا تھا۔ یہ سب حضرات ویڈیوص اور سی ڈی سے سکرین شدہ صورت کو تصویر نہیں مانتے‘ ہمیں ان حضرات سے اتفاق نہیں ہوا اور مناسب معلوم ہوا کہ ہم واضح دلائل کے ساتھ اپنا مؤقف بھی پیش کردیں اور ضروری وضاحتیں بھی کردیں۔ وما علینا الا البلاغ۔ (عبد الواحد غفرلہ)

ایک وقت تھا کہ کسی سطح پر کسی صورت کے بننے یا بنانے کے اعتبار سے دو صورتیں ہوتی تھیں:
۱- ناپائیدار عکس جو کسی کی صنعت کے بغیر پانی پر یا آئینہ پر خود بخود بنتا ہے اور شے کے سامنے سے ہٹ جانے پر خود بخود ختم ہوجاتا ہے۔
۲- کاغذ یا کپڑے یا کسی اور چیز پر پائیدار نقش بنایا جائے‘ جس کی بقاء کا مدار عکس کے خلاف ذی صورت کے سامنے ہونے نہ ہونے پر نہ ہو۔اور بنیادی طور پر یہی دو صورتیں ہیں اور ان کے علاوہ کوئی تیسری صورت نہیں ہے‘ لیکن جدید زمانے میں صورت گری کے دو نئی صورتیں سامنے آئیں:
پہلی صورت:
فلم کی نیگیٹیو (Negative)ریل پر بنائی ہوئی تصویروں میں سے روشنی گزار کر سامنے سکرین پر اس کا عکس ڈالا جائے۔ نیگیٹیو فلم پر تصویر کا ہونا تو واضح ہے‘ لیکن اس میں سے روشنی گزار کر سکرین پر تصویر کا عکس ڈالنا کیا حکم رکھتا ہے؟ اس کو ہم آگے بیان کریں گے۔
دوسری صورت:
ڈیجیٹل (Digital)کیمرے کے ذریعہ سے پہلے ویڈیو ٹیپ یا سی ڈی (Disc Computer)تیار کی جاتی ہے جس میں کوئی تصویر نہیں ہوتی‘ بلکہ برقی ذرات یا شعاعی اعداد وشمارایک ترتیب سے محفوظ ہوجاتے ہیں پھر وی سی آر VCRکے ذریعہ ویڈیو ٹیپ کو چلا کر اور کمپیوٹر سے سی ڈی کو چلا کر مطلوبہ منظر کو سکرین پر لایاجاتا ہے ‘ سکرین پر دیکھے جانے والے منظر کا نقش پائیدار نہیں ہوتا‘ بلکہ جو نہی ویڈیو اور سی ڈی کا سکرین سے رابطہ ختم کیا جاتا ہے تو سکرین خالی ہوجاتی ہے۔ غرض پہلی صورت کے برخلاف اس صورت میں اول تو ٹیپ یا ڈسک پر سرے سے تصویر نہیں ہوتی‘ دوسرے اس کو چلانے پر سکرین پر صورت تو نظر آتی ہے‘ لیکن اس کا نقش پائیدار نہیں ہوتا۔اوپر ہم بتا چکے ہیں کہ بنیادی طور پر دو ہی صورتیں ہیں یا تو عکس یا تصویر۔ اب ہمیں دیکھنا ہے کہ ویڈیو ٹیپ یا سی ڈی سے سکرین پر حاصل شدہ صورت یا منظر عکس کے ساتھ لاحق ہے یعنی عکس کے حکم میں ہے یا تصویر کے ساتھ لاحق اور اس کے حکم میں ہے اس کو جاننا دو مقدموں پر موقوف ہے۔
مقدمہ نمبر۱: تصویر کیا ہوتی ہے؟
عکس وہ ہوتا ہے جو خود بخود بنے‘ آئینہ میں یا پانی پر یا ٹی وی سکرین پر۔ جبکہ لائیو پروگرام ہو یا متعدد آئینوں کو ایک خاص ترتیب میں رکھ کر دور تک عکس کو لے جانا ہو ان میں عکس بننا کسی کے عمل کا محتاج نہیں ہوتا‘ یہ تو ہے کہ آپ کسی کے سامنے آئینہ رکھ دیں یا ٹی وی کے لائیو پروگرام کا سیٹ اپ تیار کردیں یا متعدد آئینوں کو ایک ترتیب سے رکھ دیں ‘یہ عمل آپ کا ہوگا‘ لیکن عکس آنے میں آپ کا کوئی عمل نہیں ہوتا‘ جب ذو عکس آئینہ یا سیٹ اپ کے سامنے ہوں گے تو عکس خود بخود بنے گا اور ذو عکس کے سامنے سے ہٹ جانے سے عکس ختم ہوجائے گا۔
اس کے برخلاف تصویر میں عکس کو بنایاجاتا ہے یا خود بنے ہوئے عکس کو محفوظ کیا جاتا ہے‘ مثلاً: آئینہ میں بنے ہوئے عکس کو روغن پینٹ وغیرہ لگا کر محفوظ کیا جاسکتا ہے۔ کیمرہ سے لی گئی فوٹو کے بارے میں سے یہ بات ثابت ہے کہ طریقہ ٴ کار کو اہمیت حاصل نہیں ہے‘ لہذا عکس بنانا کسی بھی طریقہ سے ہو‘ اس سے فرق نہیں پڑتا۔
پہلے دور میں عکس بنانے کا صرف ایک طریقہ تھا یعنی یہ کہ وہ پائیدار ہو‘ اس لئے فقہاء نے عکس اور تصویر میں فرق اس کی پائیداری کی بنیاد پر کیا‘ اب ہمارے دور میں عکس بنانے کا ایک نیا طریقہ ایجاد ہوا ہے جس میں بنایا ہوا عکس پائیدار نہیں ہوتا‘ لیکن وہ عکس بہرحال بنایا جاتا ہے‘ بنائے بغیر وہ عکس نہیں بنتا۔ ذو عکس کو ٹی وی سکرین یا کمپیوٹر سکرین کے سامنے کھڑا کر دیجئے‘ کچھ عکس نہیں بنے گا۔ اب آپ ویڈیو کیمرہ لیجئے اور ویڈیو ٹیپ تیار کیجئے پھر اس ٹیپ کو وی سی آر پر چلایئے تو آپ کو اس سکرین پر منظر اور عکس نظر آئے گا‘ یہ عکس خود بخود نہیں بنا‘ آپ کے بنانے سے بنا ہے اور آپ نے اس کا سبب محفوظ کرلیا ہے اور جب چاہیں عکس کو دیکھ سکتے ہیں‘ لہذا تصویر بنانے یا عکس بنانے کی آج کے اعتبار سے دو صورتیں ہوئیں: ایک پائیدار اور دوسری ناپائیدار۔
حدیث میں جاندار کی صورت بنانے کے عمل کو مضاہات یعنی اللہ تعالیٰ کی صورت گری کی صفت کے ساتھ مشابہت کہا گیا ہے‘ اصل چیز عکس بنانے کا عمل ہے‘ اس کی اس حدیث سے بھی تائید ہوتی ہے:
”عن ابی ہریرة قال: سمعت رسول اللہ ا یقول: قال اللہ تعالیٰ: ومن اظلم ممن ذہب یخلق کخلقی الخ “۔ (بخاری ومسلم)
ترجمہ:․․․”حضرت ابوہریرة کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ا کو یہ بتاتے ہوئے سنا کہ: اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: اس شخص سے بڑھ کر ظالم کون ہوگا جو میری بنائی ہوئی (جاندار کی) صورت کی طرح صورت بنانے لگے“۔
اس حدیث میں پائیدار اور ناپائیدار کے فرق کے بغیر مشابہت کرنے کے عمل کو ذکر کیا ہے جو دونوں صورتوں میں یکساں ہے۔
علاوہ ازیں تصویر بنائی جاچکی ہو تو اب مسئلہ اس کے استعمال کا رہ جاتا ہے کہ اگر احترام کی جگہ میں ہو تو ناجائز اور توہین کی جگہ میں ہو تو جائز۔ اصل مسئلہ تصویر بنانے کے عمل کا ہے اور عمل عکس بنانے کی دونوں صورتوں میں یکساں ہے۔
حاصل یہ ہے کہ تصویر سازی یعنی عکس بنانے کے دو طریقے ہیں: ایک پائیدار اور دوسرا غیر پائیدار‘ اور تصویر یعنی بنائے ہوئے عکس میں پائیدار اور غیر پائیدار دونوں شامل ہیں۔
مقدمہ نمبر۲:
آئینے کے عکس اور سکرین پر وڈیو اور سی ڈی کے ذریعہ حاصل شدہ صورت میں فرق:
۱- ویڈیو اور سی ڈی میں صنعت ہوتی ہے اور آدمی کے اختیار سے ہوتی ہے‘ جبکہ عکس میں ایسا نہیں ہوتا۔
۲- سکرین پر جب چاہے صورت لانے (Produce)کرنے کے لئے ویڈیو یا سی ڈی میں اس کے اسباب کو محفوظ کرلیا جاتا ہے‘ آئینہ کے عکس میں ایسا نہیں ہوتا۔
۳- ذی صورت کے غائب ہونے کے باوجود جب چاہو سکرین پر صورت کو ظاہر (Produce)کیا جاسکتا ہے ‘ عکس میں ایسا نہیں ہوتا۔
۴- سکرین پر جتنی طویل مدت چاہو صورت کو برقرار رکھ سکتے ہو‘ چاہو تو دائمی طور پر رکھو‘ عکس میں ایسا نہیں ہوتا۔
۵- ویڈیو اور سی ڈی میں عمل وصنعت کی وجہ سے مضاہات کا معنی پایاجاتاہے‘ عکس میں ایسا نہیں ہوتا۔
۶- ٹی وی کے لائیو (Live)پروگرام میں واضح طور پر عکس ہوتا ہے‘ اس کے مقابلے میں ویڈیو اور سی ڈی کے ذریعہ تحصیل صورت میں عمل کہیں زیادہ ہے‘ لہذا وہ عکس سے قطعی مختلف ہے۔
۷- حدیث میں ہے کہ ہم ان پڑھ امت ہیں اس لئے شریعت کے احکام کا مدار فطری طریقوں پر ہونا چاہئے۔ ویڈیو اور سی ڈی بنانے اور اس سے صورت حاصل کرنے کے عمل کو دیکھ کر یہ حکم لگانا کہ یہ آئینہ کے عکس سے مختلف ہے فطری طریقہ کو چھوڑکر بلاوجہ سائنسی تدقیقات کی بنیاد پر اس کو آئینہ کے عکس کی طرح سمجھنا حدیث کے خلاف ہے۔
ویڈیو اور سی ڈی سے حاصل شدہ صورت کا حکم:
اوپر کے دومقدموں کو سمجھ لینے کے بعد یہ نتیجہ نکالنا مشکل نہیں کہ ویڈیو اور سی ڈی سے حاصل شدہ صورت یا تو خود تصویر ہے یا تصویر کے زیادہ قریب ہے اور حکم میں اس کے ساتھ لاحق ہے۔
تنبیہ نمبر ۱:
یہ بات اہم ہے کہ ویڈیو یا سی ڈی بنانا بذات خود مطلوب ومقصود نہیں ہے بلکہ اس سے اصل مقصود سکرین پر صورت کو ظاہر کرنا ہے‘ لہذا ویڈیو اور سی ڈی بنانے سے لے کر سکرین پر ظاہر کرنے تک مقصد کے اعتبار سے ایک عمل ہے‘ مقصد کو نظر انداز کرکے اس عمل کو مختلف ٹکڑوں میں تقسیم کرنا اور ہر ٹکڑے کو مستقل اور علیحدہ مقصود سمجھ کر مسئلہ کو دیکھنا درست نہیں۔ مشہور فقہی ضابطہ ہے ”الامور بمقاصدہا“ لہذا ویڈیو ٹیپ اور سی ڈی بنانے کے عمل کو سکرین پر ظاہر کی جانے والی صورت سے علیحدہ نہیں کیا جائے گا اور یہ سمجھا جائے گا کہ ذی صورت کی صورت کو اس طرح محفوظ کیا ہے کہ ذی صورت کی عدم موجود گی میں بھی جب چاہیں اس کی صورت کو حاصل کرسکیں۔ اس پہلو سے بھی ویڈیو اور سی ڈی سے حاصل شدہ صورت کاغذ کی تصویر کے زیادہ قریب ہے اور اسی کے ساتھ لاحق ہونے کے مناسب ہے۔
تنبیہ نمبر۲:
انہی مذکورہ وجوہ کی بناء پر اوپر ہم نے جس نیگیٹیو فلم کی ریل کا ذکر کیا تھا کہ جس میں سے روشنی گزار کر سکرین پر تصویروں کا عکس ڈالا جاتا ہے‘ وہ عکس بھی تصویر ہی کے حکم میں ہے۔
دو اہم وضاحتیں:
پہلی وضاحت:
مولانا زاہد ا لراشدی صاحب مدظلہ نے ذو الحجہ ۱۴۲۹ھ کے البلاغ میں چھپے ہوئے اپنے مضمون میں حضرت مفتی کفایت اللہ صاحب کے فتوے سے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ ان کے نزدیک بھی ٹی وی سکرین پر نظر آنے والی نقل وحرکت پر تصویر کا اطلاق نہیں ہوتا۔ انہوں نے حضرت مفتی صاحب کی یہ بات تو نقل کی کہ ”تصویر کھینچنا اور کھینچوانا ناجائز ہے‘ خواہ دستی ہو یا عکسی۔ دونوں تصویریں ہیں اور تصویر کا حکم رکھتی ہیں“ لیکن پھر ان کے اس فتوے کو نقل کرکے کہ: ”سنیما اگر اخلاق سوز اور بے حیائی کے مناظرسے خالی ہو اور اس کے ساتھ گانا بجانا اور ناجائز امر نہ ہو تو فی حد ذاتہ مباح ہوگا“۔
مولانا زاہد الراشدی صاحب نے یہ مطلب نکالا کہ:
”تصویر اور سکرین دونوں کے بارے میں حضرت مفتی صاحب کے ارشادات کا مطالعہ کیا جائے تو اس کے سوا کچھ نتیجہ نہیں نکلتا کہ وہ تصویر اور سکرین دونوں کو الگ الگ سمجھتے تھے۔ ان کے نزدیک سکرین پر تصویر کا اطلاق نہیں ہوا اور اگر دیگر ممنوعہ امور سے خالی ہو تو سکرین فی حد ذاتہ مباح کا درجہ رکھتی ہے“۔
ہم کہتے ہیں:
حضرت مفتی کفایت اللہ صاحب کے فتوے سے مذکورہ مطلب نکالنا بہرحال درست نہیں‘ کیونکہ ان کے زمانے میں سینما کی فلم کی ریل نیگیٹیو کی صورت میں ہوتی تھی جس پر واضح طور سے تصویر کے نقش ہوتے تھے اور جاندار کی تصویر چھوٹی ہو یا بڑی ا س کو بنانا بالاتفاق ناجائز ہے۔ تو جب سینما کی سکرین پر آنے والی جاندار کی صورت اس کی تصویر بنانے پر موقوف تھی تو مفتی صاحب کی بات سے مطلب کیسے نکل سکتا ہے کہ وہ اپنے زمانے کی سکرین پر دکھائی جانے والی نیگیٹیو فلم بنانے کو جائز سمجھتے ہوں گے۔اگر کوئی یہ کہے کہ یہ احتمال ہے کہ مفتی صاحب  نیگیٹیو فلم کو جائز نہ سمجھتے ہوں گے لیکن اس کے بننے کے بعد سکرین پر حاصل شدہ صورت کو تصویر بھی نہ سمجھتے ہوں گے تو ہم جواب میں کہتے ہیں:
۱- مفتی صاحب کے کلام میں اس احتمال پر کوئی صراحت یا دلالت نہیں ہے۔
۲- اس کے بارے میں ہم اوپر وضاحت کر چکے ہیں کہ وہ بھی تصویر کے حکم میں ہے۔
رہا سینما کے فی حد ذاتہ مباح ہونے کا معاملہ تو یہ ہمیں بھی تسلیم ہے سینما وفلم جو جاندار کی تصویر سے اور گانے بجانے سے خالی ہو اور جس میں کوئی ناجائز امر بھی نہ ہو‘ وہ بلاشبہ مباح ہے۔ فلم کے ذریعہ سے جغرافیہ‘ تاریخ اور سائنس کے مضامین سیکھے جاسکتے ہیں۔ جاندار کو بھی بغیر سر اور چہرے کے دکھایا جاسکتا ہے۔ ٹی وی‘ وی سی آر اور سی ڈی کا بھی یہی حکم ہے کہ وہ فی حد ذاتہ مباح ہیں جبکہ ان کے پروگرام جاندار کی تصویر سے خالی ہوں‘ اسی پر مولانا زاہد الراشدی صاحب کی ذکر کردہ مفتی جمیل احمد صاحب تھانوی کی یہ عبارت بھی محمول ہے:
”ان کا (یعنی ٹی وی‘ وی سی آر کا) حکم آلات لہو ولعب اور گانے کے آلآت کا نہیں ہوسکتاکہ جس پر نیک کاموں کی بے حرمتی بنتی ہو۔ ان میں ہرمباح کام بھی جائز اور نیک کام بھی جائز ہے“۔ (مجلہ البلاغ ذو الحجہ ۱۴۲۹ھ)
اور اسی پر مولانا ادریس کاندھلوی کا یہ کلام بھی محمول ہے:
”یہ (ٹی وی سکرین) چاقو ہے اس سے خربوزہ کا ٹوگے تو جائز ہے اور کسی کا پیٹ پھاڑو گے تو ناجائز ہے“۔ (مجلہ البلاغ ذوالحجہ ۱۴۲۹ھ)
دوسری وضاحت:
دارالعلوم کراچی کے رمضان ۱۴۲۹ھ میں جاری کئے گئے فتوے میں جاندار کی تصویر کے بارے میں فقہاء کی آراء کو اس طرح بیان کیا گیا ہے:
اگر تصویر مجسموں کی شکل میں ہو اور اس کے وہ تمام اعضاء موجود ہوں جن پر زندگی کا انحصار ہوتا ہے۔ نیز وہ تصویر بہت چھوٹی بھی نہ ہو اور گڑیوں کی قسم سے بھی نہ ہو تو اس کے حرام ہونے پر پوری امت کا اتفاق ہے یعنی اس کا بنانا اور استعمال کرنا بالاتفاق حرام اور ناجائز ہے‘ اس میں کسی کا کوئی اختلاف نہیں ہے۔
لیکن اگر تصویر مجسموں کی شکل میں نہ ہو بلکہ وہ کاغذ یا کپڑے وغیرہ پر اس طرح بنی ہوئی ہو کہ اس کا سایہ نہ پڑتا ہو تو اس کے بارے میں ائمہ کرام کے یہاں اختلاف پایا جاتا ہے۔ جمہور فقہاء کرام کا مؤقف اس میں بھی یہی ہے کہ یہ بھی ناجائز ہے‘ البتہ امام مالک سے ایسی تصویر کے جائز اور ناجائز ہونے کی دونوں روایتیں منقول ہیں۔ اس لئے علماء مالکیہ کے یہاں اس مسئلہ میں اختلاف ہے۔ بعض مالکیہ ایسی تصویر کو بغیر کسی کراہت کے مطلقاً جائز قرار دیتے ہیں‘ خواہ وہ موضع امتہان میں ہو یا نہ ہو۔ مالکیہ میں سے جو حضرات ان تصاویر کے جائز ہونے کا فتویٰ دے رہے ہیں ان میں بہت سے بڑے بڑے محققین علماء بھی شامل ہیں‘ علامہ ابن القاسم مالکی‘ علامہ دردیر مالکی‘ علامہ ابی مالکی‘․․․․ وغیرہ جلیل القدر محققین قابل ذکر ہیں۔
حنابلہ کے یہاں بھی کپڑے یا پردے پر بنی ہوئی تصویر کے جائز اور ناجائز ہونے کی دونوں روایتیں موجود ہیں․․․․ علامہ ابن قدامہ حنبلی نے ”المغنی“ میں اور علامہ ابن حجر عسقلانی نے ”فتح الباری“ میں حنابلہ کا مذہب بیان کرتے ہوئے لکھا کہ ان کے یہاں کپڑے پر بنی ہوئی تصویر حرام نہیں․․․․ بعض سلف مثلاً حضرت قاسم بن محمد ابی بکر (جن کا شمار فقہائے مدینہ میں ہوتا ہے) سمیت بعض صحابہ وتابعین کے بارے میں یہ منقول ہے کہ وہ حضرات بھی سایہ والی اور غیر سایہ والی تصویر میں فرق کرتے ہیں‘ سایہ دار تصاویر کو ناجائز اور غیر سایہ دار تصاویر کو جائز سمجھے ہیں“۔
ہم کہتے ہیں:
دارالعلوم کے فتوے کی اس عبارت سے یہ وہم ہوتا ہے کہ شاید بعض مالکیہ اور حضرت قاسم بن محمد  سمیت بعض صحابہ وتابعین کے رائے ہے کہ جاندار کی غیر سایہ دار تصویر بنانا بھی جائز ہے اور اس کو ہر طرح سے استعمال کرنا بھی۔ جاندار کی تصویر میں دوباتیں اہم ہوتی ہیں۔ ایک اس کو بنانا اور دوسرے اس کو استعمال کرنا۔ مورتی یا مجسمہ کے بارے میں فتوے میں مذکور ہے کہ اس کو بنانا اور استعمال کرنا دونوں ہی ناجائز ہیں۔ لیکن کاغذ اور کپڑے وغیرہ تصویر کے بارے میں وضاحت نہیں کہ بعض مالکیہ اور حضرت قاسم بن محمد کے نزدیک جواز بنانے کا بھی ہے یا نہیں۔
یہی صورت حال مولانا محمد تقی عثمانی مدظلہ کی تکملہ فتح الملہم کی عبارت کی ہے۔ مولانا لکھتے ہیں:
”وقد اختلف الروایات عن مالک رحمہ اللہ فی مسئلة التصویر ولذالک وقع الاختلاف بین العلماء المالکیة فی ہذا۔ والذی اجمعت علیہ الروایات والاقوال فی مذہب المالکیة حرمة التصاویر المجسدة التی لہا ظل۔ والخلاف فی ما لیس لہ ظل مما یرسم علی ورق او ثوب“۔ (ج:۴‘ص:۱۵۹)
ترجمہ:․․․”تصویر کے مسئلہ میں امام مالک سے مختلف روایتیں ملتی ہیں‘ اسی وجہ سے اس بارے میں مالکی علماء کے درمیان اختلاف واقع ہوا ہے۔ مورتیوں کی حرمت پر تو مالکیہ کے تمام اقوال وروایات متفق ہیں‘ البتہ کاغذ یا کپڑے پر بنائی ہوئی تصویر میں اختلاف ہے“۔
اس طرح کی موہم عبارتیں پڑھ کر بعض اہل علم حضرات بھی خلاف واقعہ اس غلطی میں مبتلا ہوگئے کہ بعض مالکیہ کے نزدیک کاغذ وغیرہ پر تصویر بنانا جائزہے۔
۱- جامعہ اشرفیہ لاہور کے مولانا محمد یوسف خان صاحب تکملہ فتح الملہم وغیرہ سے ایک عبارت نقل کرکے اس کا ترجمہ کرتے ہیں:
”فالحاصل ان المنع من اتخاذ الصور مجمع علیہ فیما بین الائمة الاربعة اذا کانت مجسدة‘ اما غیر المجسدة منہا فاتفق الائمة الثلاثةعلی حرمتہا ایضاً والمختار عن الائمة المالکیة کراہتہا لکن ذہب بعض المالکیة الی جوازہا“۔
(تکملہ فتح الملہم ج:۴‘ص:۱۵۹‘ فتح الباری ج:۱۰‘ص:۳۹۱)
ترجمہ:․․․”خلاصہ یہ ہے کہ ائمہ اربعہ کے نزدیک تصویر کشی بالاتفاق ناجائز ہے‘ جبکہ وہ مجسم شے ہو۔ البتہ غیر مجسم شے کی تصویر کشی کی حرمت پر تین ائمہ فقہاء تو متفق ہیں اور مالکیہ کا مختار مسلک کراہت کا ہے‘ لیکن بعض مالکیہ کے یہاں اس کا جواز بھی پایا جاتا ہے“۔
۲- جامعہ امدادیہ فیصل آباد کے مولانا محمد زاہد صاحب لکھتے ہیں:
”کیونکہ بیشتر فقہاء کے یہاں جاندار کی تصویر کے بنانے یا رکھنے میں متعدد استثناء ات موجود ہیں“۔ (مجلہ البلاغ ص:۵۱ ذوالحجہ ۱۴۲۹ھ)
ہم کہتے ہیں:
اصل بات یہ ہے کہ تصویر کے مسئلہ میں دو لفظ استعمال ہوتے ہیں‘ ایک تصویر بمعنی مصدر یعنی تصویر بنانا ارو دوسرے اتخاذ صورت یعنی تصویر کو رکھنا اور استعمال کرنا۔
تصویر سازی یعنی تصویر بنانا خواہ مورتی کی صورت میں ہو یا کاغذ وکپڑے پر وہ بالاتفاق حرام ہے۔ مالکیہ میں سے کسی نے یہ تصریح نہیں کی کہ ان کے نزدیک کاغذ وکپڑے پر تصویر بنانا جائز ہے۔ اسی وجہ سے امام نووی لکھتے ہیں:
”قال اصحابنا وغیرہم من العلماء تصویر صورة الحیوان حرام شدید التحریم وہو من الکبائر لانہ فتوعد علیہ بہذا الوعید الشدید المذکور فی الاحادیث وسواء صنعہ بما یمتہن اوبغیرہ فصنعتہ حرام بکل حال لان فیہ مضاہاةً لخلق اللہ تعالیٰ وسواء ما کان فی ثوب او بساط او درہم او دینار او فلس او اناء او حائط او غیرہا“ (شرح مسلم)
ترجمہ:․․․”ہمارے اصحاب (یعنی علمائے شافعیہ) اور دیگر علماء فرماتے ہیں کہ جاندار کی تصویر بنانا شدید حرام ہے اور کبیرہ گناہ ہے‘ کیونکہ اس پر احادیث میں سخت وعید آئی ہے خواہ اس کو ایسی چیز پر بنایا ہو جس کی اہانت کی جاتی ہو یا کسی دوسری چیز پر‘ غرض تصویر بنانا ہرحال میں حرام ہے‘ کیونکہ اس میں اللہ تعالیٰ کی تخلیق کے ساتھ مشابہت ہے اور خواہ تصویر سازی کپڑے پر ہو یا چادرپر ہویا درہم‘ دینار یا پیسے پر ہو یا برتن یا دیوار وغیرہ پر ہو“۔
تصویر رکھنے اور استعمال کرنے کے بارے میں البتہ کچھ اختلاف ہے۔ امام نووی لکھتے ہیں:
”اما اتخاذ المصور فیہ صورة حیوان فان کان معلقاً علی حائط او ثوباً ملبوساً او عمامة ونحو ذلک مما لایعد ممتہناً فہو حرام‘ وان کان فی بساط یداس ومخدة ووسادة ونحوہا مما یمتہن فلیس بحرام“۔
ترجمہ:․․․”رہا کسی مصور چیز کو رکھنا یا استعمال کرنا جس میں کسی جاندار کی صورت ہو تو اگر وہ دیوار پر لٹکی ہوئی ہو یا پہننے والا کپڑا ہو یا عمامہ ہو اورانہی کی طرح کا کوئی ایسا استعمال جو اہانت کا شمار نہ ہوتا ہو تو وہ حرام ہے اور اگر جاندار کی صورت ایسے فرش پر ہو جو پاؤں تلے روندا جاتا ہو یا بیٹھنے کی گدی پر ہو اور اس طرح کا کوئی ایسا استعمال جو اہانت کا شمار ہوتا ہو تو وہ حرام نہیں ہے“۔
اتخاذ صورت یعنی تصویر کے رکھنے اور استعمال کرنے کے بارے میں وھبہ زحیلیلکھتے ہیں:
”ونقل ابن حجر فی فتح الباری شرح البخاری عن ابن العربی رایہ فی اتخاذ الصور قائلاً: حاصل ما فی اتخاذ الصور انہا ان کانت ذات اجسام حرم بالاجماع وان کانت رقماً فاربعة اقوال:
الاول: یجوز مطلقاً عملاً بحدیث الا رقماً فی ثوب۔
الثانی: المنع مطلقاً․
الثالث: ان کانت الصورة باقیة الہیئة‘ قائمة الشکل حرم وان کانت مقطوعة الراس او تفرقت الاجزاء جاز۔
الرابع: ان کانت مما یمتہن جاز والا لم یجز“۔
ترجمہ․․․”علامہ ابن حجر نے فتح الباری میں تصویر کے استعمال کے بارے میں ابن العربی سے نقل کیا۔تصویر کے استعمال کے بارے میں خلاصہ یہ ہے کہ اگر وہ مورتی اور مجسمہ ہے تو بالاتفاق حرام ہے اور اگر کسی چیز پر نقش ہو تو چارا اقوال ہیں:
۱-ہرحال میں جائز ہے‘ اس کی دلیل حدیث کے الفاظ ”الا رقماً فی ثوب“ ہے۔
۲- ہرحال میں ناجائز ہے۔
۳- اگر تصویر کی اپنی مکمل شکل قائم ہے تو حرام ہے اور اگر اس کا سرکٹا ہوا ہو یا اجزاء متفرق ہوں تو جائز ہے۔
۴- اگر استعمال اہانت کا ہے تو جائز ہے‘ ورنہ ناجائز ہے۔
امام نووی نے بعض سلف کے بارے میں فرمایا:
”وذہب بعض السلف الی ان الممنوع ما کان لہ ظل واما مالا ظل لہ فلابأس باتخاذہ مطلقاً“۔
ترجمہ:․․”بعض سلف کا قول ہے کہ سایہ دار تصویریں (یعنی مورتیاں) منع ہیں اور رہیں غیر سایہ دار تصویریں‘ان کو رکھنااور استعمال کرنا ہرطرح سے جائز ہے“۔
اوپر جن بعض مالکیہ کا ذکر ہے ان میں سے علامہ دردیر  لکھتے ہیں:
”والحاصل ان تصاویر الحیوان تحرم اجماعاً ان کانت کاملةً لہا ظل مما یطول استمرارہ بخلاف ناقص عضو لایعیش بہ لو کان حیواناً وبخلاف مالاظل لہ کنقش فی ورق او جدار او فی مالایطول استمرارہ خلاف والصحیح حرمتہ“۔ (تکملہ فتح الملہم ج:۴‘ ص:۱۵۹)
ترجمہ:․․․”حاصل یہ ہے کہ جانداروں کی تصویروں کا استعمال بالاتفاق حرام ہے اگر وہ مکمل ہوں اور سایہ دارہوں اور ایک عرصہ تک رہتی ہوں‘ برخلاف اس تصویر کے جس میں ایسا عضو کم ہو جس کے بغیر جاندار زندہ نہیں رہ سکتا اور برخلاف غیر سایہ دا رتصویر کے‘ جیسے کاغذ یا دیوار پر نقش ہو‘ اگر ایسی چیز پر نقش ہو جو زیادہ دیر نہیں رہتی‘ مثلاً خربوزے کے چھلکے پر تو اس میں اختلاف ہے اور صحیح یہ ہے کہ یہ بھی حرام ہے“۔
اس عبارت میں تصاویر کی حرمت اور عدم حرمت سے مراد استعمال کی حرمت وغیرہ ہے‘ کیونکہ یہاں کاغذ یا دیوار پر نقش کے جائز ہونے کا حکم لگایا ہے‘ حالانکہ امام نووی کی بات اوپر گزر چکی ہے کہ ان پر بھی تصویر بنانا بالاتفاق حرام ہے‘ لہذا یہاں مراد استعمال ہے نہ کہ تصویر سازی۔
اسی طرح حضرت قاسم بن محمد کے بارے میں جو روایت ہے اس کو ابن ابی شیبہ نے نقل کیا ہے:
”عن ابن عون قال دخلت علی القاسم وہو باعلی مکة فی بیتہ فرأیت فی بیتہ حجلة فیہا تصاویر القندس والعنقاء“۔
ترجمہ:․․․”ابن عون کہتے ہیں کہ میں بالائی مکہ میں حضرت قاسم بن محمد کے گھر میں داخل ہوا تو میں نے ان کے کمرے میں ایک پردہ دیکھا جس پر پرندوں کی تصویریں تھیں“۔
اس روایت میں بھی جاندار کی تصویر کے استعمال کا ذکر ہے‘ بنانے کا کچھ ذکر نہیں ہے۔
(ماخوذ:انوار مدینہ لاہور مارچ ۲۰۰۹)
اشاعت ۲۰۰۹ ماہنامہ بینات , ربیع الثانی ۱۴۳۰ھ - اپریل ۲۰۰۹ء, جلد 72, شمارہ 4

    پچھلا مضمون: مشاجرات صحابہ میں راہ اعتدال
Flag Counter