Deobandi Books

ماہنامہ البینات کراچی ربیع الثانی ۱۴۳۰ھ - اپریل ۲۰۰۹ء

ہ رسالہ

5 - 9
اعجاز قرآنی باعتبار مفردات
اعجاز قرآنی باعتبار مفردات

ان نکات میں شیخ نے تفصیلی کلام رقم فرمایا ہے اور مقام کے متعلق تمام متنوع ابحاث کا احاطہ فرمایا ہے، جس سے علومِ بلاغت میں شیخ کی اس عالی منزلت کا اندازہ ہوتا ہے جس منزل ومرتبہ تک پہنچنے سے بلغاء کے اقدام قاصر اور شیخ کے ہمعصر حیران ہیں ۔
شیخ کی ان جملہ مباحث کو جو شیخ نے اپنی ان دوکتابوں میں پھیلائی ہیں ان کو جمع کرلیا جائے اور صرف اسی آیت کے متعلق شیخ کے ذکر کردہ مرجع کو جمع کرلیا جائے ،نیز جو مختلف مواضع میں علمی لطائف شیخ نے بکھیرے ہیں انہیں یکجا کرکے عصری اسلوب کے مطابق عمدہ ترتیب اور پیرائے میں ڈھال لیا جائے تو ایک بڑا دفتر تیار ہوسکتا ہے اور بے شک وشبہ یہ دفتر کتبِ بلاغت وبیان اور کتبِ تفاسیر میں عمدہ پائے کا ذخیرہ شمار کیا جاتا ۔
شیخ نے اسی مقام پر یہ بحث بھی فرمائی ہے کہ لفظ” توفی“ کا موت کے لئے مستعمل ہونا اصولی کنایہ ہے یا بیانی کنایہ؟ پھر کنایہ حقیقت لغویہ ہے یا مجاز لغوی ہے؟ علمائے بلاغت کے اس میں اقوال کیا ہیں اور کون سا قول درست وصواب پر مبنی ہے؟ اس کے علاوہ علم بلاغت کے دیگر کئی ایسے لطائف بیان فرمائے ہیں جنہیں ایک فصیح وبلیغ شخص جو معانی ومفاہیم میں ذوق سلیم رکھتا ہو اور الفاظ کی فصاحت میں بھی اس کو حظِ وافر عطا کیا گیا ہو ۔ حضرت شیخ نے اپنی کتاب ”عقیدة الاسلام“میں ایک مستقل فصل قائم فرمائی ہے، جس کا عنوان یوں ہے :
”فصل فی تفسیر لفظ التوفی وشرحہ لغةً وعرفاً ونیابةً حقیقةً وکنایةً وتوفیة حقہ واستفاد مستحقہ۔“
یعنی فصل لفظ توفی کی تفسیر لغوی وعرفی تشریح وتوضیح اور اس کے کنایہ وحقیقت میں مستعمل ہونے کی توضیح ،نیز اس توفی کے حق کو ادا کرنے اور اس کے مستحق مصداق کو واضح بیان کرنے کے بارے میں ہے۔
درحقیقت حضرت شیخ کشمیری کے اس لفظ” توفی“ کے متعلق اس قدر تفصیلی شرح وبسط کی وجہ نبوت کے جھوٹے دعویدار ملعون مرزا غلام احمد قادیانی اور اس ملحد جماعت پر رد کرنا تھی، جنہوں نے یہ نظریہ اختیار کیا کہ حضرت عیسی علیہ السلام سولی دیئے جاچکے اور موت سے ہمکنار ہوچکے اور اس پر انہوں نے قرآن کریم ہی سے اسی لفظ توفی کی رو سے استدلال کیا تھا، اس مقام پر قرآن میں شدید تحریف کی اور معانی ومفاہیم کو مسخ کردیا اور قرآن کریم کے اساسی اغراض ومقاصد میں تصحیف کرتے ہوئے محکم امور کو منسوخ ٹھہرایا، جیساکہ حضرت نے فرمایا:” یہی (توفی) وہ لفظ ہے جس کے بارے میں اس بدبخت جاہل (غلام احمد قادیانی ملعون) اور اس کے پیروؤں نے شور وشغب کررکھا ہے جو چکی سے ابھرنے والی آوازوں کی مانند تو ہے لیکن چکی کا وجود ہی نہیں ،اس لفظ توفی پر کئی صفحے کالے کر چکے ہیں اور ایک ہی بات پر اصرار وتکرار کے ساتھ صحائف بھر چکے ہیں، چنانچہ اس جاہل ملعون کی آپ جو تحریر بھی دیکھیں اس میں اس نے اپنی علمی کم مائیگی سے گویا ایسے گھڑے رکھیں ہیں جس کو دیکھنے والا اکتا جاتا ہے اور ان سطور کے لکھنے والے کو اس کا دل لعنت وملامت کرتا ہے، یہی ہے اس قادیانی ملعون کا ردی اور خسیس سرمایہ ،او ر جب اس لعین پر علمی رد وقدح کی گئی تو مایوس ہوکر دھتکارے ہوئے کتے کے مانند پیچھے ہٹا اور ان ردود وتنقیدات کا جواب نہ لکھ سکا، اس کی حالت شاعر کے اس قول کی مصداق تھی:
ہمیشہ کفر کی اساس اس پسلیوں کے درمیان (دل میں)رہی
یہاں تک کہ چقماق کے اندر چھپی ہوئی آگ بھڑکاٹھی
شیخ نے اس سے علمی مجادلہ ومباحثہ کیا اور انتہائی رد وتنقید کرتے ہوئے اس کے شور وغوغا کو خاموش کردیا اور حق کو اس قدر آشکارا کیا کہ اس میں نقب زنی ممکن ہی نہ رہی اور اس لعین اور بدبخت کو شیر کے منہ کے قریب چھوڑدیا، مختلف قرآنی مواضع کی ایسی عمدہ اور واضح تشریح وتفسیر فرمائی کہ گویا قرآن کریم اس ملعون پرہی رد کرنے کے لئے نازل ہوا ہے اور اس کے دل میں سلگتا ہوا انگارا رکھ چھوڑا، چنانچہ اس رد پر جواب لکھنے کے لئے اس پر تمام راہیں مسدود ہوچکیں اور دنیا میں مذموم ونامراد ہوا اور آخرت میں دائمی عذاب کا مستحق ٹھہرا ۔یہ مختصر رسالہ ان تمام تفصیلات ومباحث کو مکمل بیان کردینے کا متحمل نہیں، اسی لئے ہم نے اس قدر قلیل پر اکتفاء کیا۔ مجھے بارہا یہ خیال گذرتا ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ کی طرف سے توفیقنصیب ہوئی تو شیخ کی ان جملہ مباحث کو آشکارا کروں گا اور شیخ کے قیمتی علمی معادن سے نفیس موتی ، علوم بلاغت وبیان کے طلبہ پر شیخ کے بھر پور علمی خوان سے چن کر خرچ کروں گا اور یہ شیخ کا بھی علمی خوان ہے جو علمی اعتبار سے بھی اعلیٰ اور ذوقی ووجدانی اعتبار سے بھی لذیذ اور شیرین ہے۔ واللّٰہ ولی التوفیق وہو حسبی ونعم الوکیل۔
راقم کہتا ہے کہ قرآن کریم کے مفردات کے اعتبار سے جس طرح اعجاز قرآنی حضرت شیخ نے بیان فرمایا ہے، اس طرز پر شیخ سے قبل کسی کو تنبہ نہ ہوا تھا اور کسی نے حضرت شیخ جیسے طرز طریق پر اس قدر وضاحت نہ کی تھی ،اگرچہ قرآنی ترکیب وترتیب وغیرہ دیگر جہات کے اعتبار سے متقدمین نے بھی مباحث فرمائی ہیں، لیکن ان جہات کو انہوں نے اعجاز قرآنی کا مدار اور تحدی ومبارات کے لئے بنیادی جہت نہیں شمار فرمایا ہے، حالانکہ اس جہت اعجاز پر تنبیہ اور اس کے متعلق فکر وتأمل ،یہ قرآنی اعجاز اور اس کے علمی مجادلہ ومباحثہ کے باب میں انتہائی اہم جہات میں شمار کئے جانے کے قابل ہے ۔
چنانچہ اب میں گذشتہ متقدمین علمائے کبار کے بیان کردہ بعض نکات ولطائف منتخب کرتا ہوں، تاکہ یہ بات خوب واضح ہوجائے (کہ شیخ کے علمی تفوق نے کس قدر علمی نفائس کو طلبہ دین اور علمائے امت پر عطیہ کیا ہے) جبکہ شیخ نے اسلاف کے بیان کردہ نکات کی طرف التفات نہیں فرمایا ہے ،اس لئے کہ فصحاء وبلغاء کو ادنیٰ فکر وتأمل سے ان معارف کا ادراک ہوسکتا ہے یا اس لئے کہ اسلاف نے ان پر تنبیہ فرمادی ہے ،شیخ کا مقصد تو پیچیدہ مباحث کوواضح کرنا اور ان چیزوں کو کھولنا تھا جو متقدمین نے واضح نہیں کیں۔
چنانچہ شیخ کا طرز وانداز ان متوسط حلقہ ٴ علماء کے طرز وانداز سے قدرے مختلف تھا جو متقدمین علماء ہی کے جواہر پاروں کو چن کر تصنیف و تالیف کیا کرتے ہیں‘ بلکہ شیخ کا طرز ان محققین کے طرز تحقیق کی مانند تھا جو اپنی فنی وعلمی تحقیق وتدقیق میں طاق ہوں ،لیکن جن مقامات پر اسلاف کے اقوال کو بیان کرنے کی حاجت پیش آتی ،وہاں ان کو بیان فرمادیا کرتے تھے ۔واللہ المستعان
متقدمین کی کتب میں بیان کردہ نظم قرآنی کے لطائف اعجاز:
راقم کہتا ہے کہ: کبھی کبھی کوئی کلمہ اگر قرآن کریم کے علاوہ کہیں اور استعمال ہوجائے تو قبیح ومتنفر اور طبع سلیم کو ناموافق گذرتا ہے، لیکن اگر قرآن کریم میں مستعمل شدہ ہوا تو اس قدر مناسب ومستحسن معلوم ہوتا ہے کہ اس موقع خاص پر نظم قرآنی میں مستعمل شدہ اس لفظ کے قائم مقام کوئی دوسرا لفظ نہیں ہوسکتا ہے اور واقعی یہ خداوند کریم کا اعجازِ عجیب ہے ،جس خداوندنے کائنات کی ہر شئ مضبوط اور مستحکم پیدا فرمائی ہے، چنانچہ اس لفظ کے متعلق ذرہ بھر خلل یا نقص پیدا نہیں ہوتا ۔اب کلمہ ”ضیزی“ کو دیکھ لیجئے کہ اس کے موقعہ مستعملہ میں کوئی دوسرا لفظ ہرگز اس کے معانی ومطالب ادا نہیں کرسکتا ہے ، غور فرما یئے ”سورة النجم“ تمام آیات حرف ”یاء“ کے مطابق مسجع بیان فرمائی گئی ہیں، باری جل شانہ کا ارشاد گرامی ہے: ”والنجم اذا ہوی ‘ ما ضل صاحبکم وما غوی …الخ اسی ذیل میں جب بتوں کی مذمت اور مشرکین مکہ کی تقسیم اولاد (جو ملائکہ کو بنات اللہ کہا کرتے اور خود اپنے لئے ذکور اولاد کو پسند کرتے تھے) کا تذکرہ کیا گیا تو یوں فرمایا گیا ”الکم الذکر ولہ الانثیٰ تلک اذاً قسمة ضیزیٰ“ چنانچہ لفظ ”ضیزی“ بھی حرف یاء پر مسجع مذکور ہوا، جس طرح تمام سورت حرف یاء پر مسجع ہے ،اس لفظ کے علاوہ کوئی اور لفظ نہ تھا جس کو اس موقع میں استعمال کیا جاتا۔معنی کے اعتبار سے اس لفظ سے بہتر لفظ تھا جو استعمال کیا جاسکتا تھا، لیکن وہ لفظ اس موضع کے مناسب نہ ہوتا ،اس لئے کہ جس اصل واساس پر (یعنی حرف یاء کے سجع کے مطابق) سورت”النجم“ وارد ہوئی ہے ،اس اصل سے وہ کلمہ خارج ہوجاتا ،اگر ہم لفظ ”ضیزی“ کے علاوہ اس کے ہم معنی لفظ رکھ کر دیکھیں اور ہم یوں کہیں: ”ہی قسمة جائرة یا ظالمة“ تو بے شک لفظ ”جائرة“ اور ”ظالمة“ لفظ ”ضیزی“ سے لفظی حسن میں کہیں بہتر ہیں، لیکن ہم اس آیت کو ماقبل آیات سے مربوط ومنظم کرکے دیکھیں اور یوں پڑھیں: ”الکم الذکر ولہ الانثی تلک اذاً قسمة جائرة“ تو نظم کلام قرآنی جو حسن ”ضیزی“ کی صورت میں رکھتا ہے، وہ حسن کھو بیٹھے گا۔ اور یہ کلام اس ناقص شئ کی طرح مہمل رہ جائے گا جو اپنی تکمیل واتمام کا محتاج ہو ،یہ بات ایک باذوق شخص پر جس کو نظم کلام کے متعلق معرفت ہو ،پوشیدہ نہیں ،اس نکتے پر ابن الاثیر نے جو متفوق ادیب ہیں اپنی کتاب: المثل السائر ص:۶۲ میں تنبیہ فرمائی ہے اور میں نے اس کو کچھ ملخص پیش کردیا ہے ۔
میں کہتا ہوں :اسی طرح اس کلمہ کے لطائف میں سے ایک لطیفہ یہ بھی ہے کہ اس لفظ کے ذریعہ اس تقسیم کی قباحت کی طرف بھی اشارہ کیا گیا ہے ،اس لئے کہ لفظ اپنے معنی کا عنوان ہوا کرتا ہے اور ادباء وفصحاء کے طرز وانداز میں سے ہے کہ وہ معنوی ہولناکی کی طرف لفظی تہویل سے اشارہ کیا کرتے ہیں،یہ موضوع بہت وسیع ہے، جو مستقل بحث کا محتاج ہے اور یہ وسیع بحث یہاں بیان نہیں کی جاسکتی ۔
ابن الاثیر کے بیان کردہ گذشتہ نکتہ کی توضیح اس بحث سے بھی ہوتی ہے جو انہوں نے اپنی کتاب کے(ص:۱۱۱) پر یوں فرمائی: لفظ ”الاخدع“ دو مختلف شعروں میں استعمال ہوا ہے، لیکن ان میں سے ایک شعر میں اس کا استعمال مستحسن اور لائق قدر ہے اور دوسرے شعر میں ثقیل اور مکروہ طبع سلیم ہے، ابن الصمہ عبد اللہ (جو دیوان حماسہ کے منتخب شعراء میں سے ہیں )کا یہ شعر ملاحظہ ہو:
تلفت نحو الحی حتی وجدتنی
وجعت من الاصغاء لبنا وأخدعا
ترجمہ :۔”جب محبوبہ نے چہرا پھیر کر اس محلہ کی طرف دیکھا تو مجھے پایا کہ اس کی طرف کان لگائے رکھنے کی وجہ سے میرے کنارہٴ گردن اور رگ گردن میں شدید درد ہوچکا ہے۔“
اور اب ابو تمام کا یہ قول ملاحظہ کیجئے:
ی
ادھر قم عن أخدعیک فقد
اصبحت ھذا الانام عن خرقک
ترجمہ :۔”اے زمانے! اپنے تک کو ختم کر، کہ تو نے انسانوں کو اپنے حوادث سے تنگ دل وتنگ عیش کررکھا ہے ۔“
غور فرمایئے تو معلوم ہوگا کہ اس لفظ ”الاخدع“ کا ابوتمام کے شعر میں استعمال سماعت سلیمہ پر ثقیل اور طبع سلیم کے لئے باعث کراہت ہے، جبکہ ابن العمة عبداللہ کے شعر میں اسی لفظ سے کئی گنا راحت وخفت ومانوسیت پائی جاتی ہے ۔
کبھی کبھار اگر کسی کلمہ کو مفرد استعمال کیا جائے تو اس میں حسن وخوبی معلوم ہوتی ہے اور اگر جمع ذکر کیا جائے تو کلمہ متنفر اور ثقیل ہوجاتا ہے ،اور کبھی اس کے برعکس ہوتاہے۔ قرآن کریم میں اس کی بھی رعایت کی گئی ہے کہ پہلی صورت میں قرآن مجید کلمہ کو مفرد ہی استعمال کرتا ہے اور دوسری صورت میں جمع ہی استعمال کرتا ہے ،دوسری صورت کی مثال امام ابن اثیر نے (ص:۱۱۱) پر یوں پیش فرمائی ہے:
قرآن کریم اسی نوع اعجاز (نظم قرآنی کے افراد وترکیب کے اعتبار) سے یہ بھی ہے کہ بعض مواضع میں چند ایسے الفاظ کے استعمال سے عدول کیا جاتا ہے جن سے عدول کرنے پر کوئی اوضح دلیل نہیں ہوتی اور اس عدول کے متعلق صرف ذوق سلیم رکھنے والوں ہی سے پوچھا جاسکتا ہے اور یہ مواضع بہت ہی تعجب خیز ہوا کرتے ہیں جس کی اصل حقیقت وواقعیت معلوم نہیں کی جاسکتی ہے ،اسی شمار میں لفظ ”اللب“ بمعنی عقل ، نہ کہ بمعنی مغز اور گردہ، اس لفظ ”اللب“ کا استعمال صرف بصورت جمع ہی مستحسن ہوتا ہے ،اسی بناء پر قرآن کریم میں بھی جن متعدد مواضع میں یہ لفظ استعمال ہوا ،بصورت جمع استعمال ہوا اور کہیں بھی مفرد استعمال نہیں ہوا ہے، جیساکہ باری تعالیٰ کا ارشاد ہے: ”ولیتذکر اولو ا الالباب …ان فی ذلک لذکریٰ لاولی الالباب“ اسی طرح لفظ ”الاکواب“ اور لفظ ”الارجاء“ بھی قرآن میں بجز صیغہ ٴ جمع کے اور کسی صیغہ میں وارد نہیں ہوئے ہیں اور ان کے صیغہ ٴ مفرد ”الکوب“ اور الرجا (الف مقصورہ کے ساتھ) قرآن میں یکسر مستعمل نہیں ۔
پہلی صورت کی مثال جیساکہ شیخ صادق رافعی نے بیان کی: کہ لفظ ”الارض“ قرآن میں فقط مفرد مستعمل ہوا ہے اور جہاں آسمان کو صیغہ ٴ جمع کے ساتھ ذکر کیا گیا ہے وہاں بھی لفظ ”الارض“ مفرد ہی مذکور ہوا ہے اور جہاں اس لفظ کو بصورت جمع لانے کی حاجت ہوئی وہاں ایسی صورت میں معنی جمع کی ادائیگی کی گئی ہے کہ جس میں فصاحت کا مغزاور اس کی واقعیت کچھ ایسے انداز میں ودیعت کی گئی ہے کہ فکر وشعور نے سرنگوں ہوکر اس فصاحت وبلاغت کو طویل سجدے کئے، باری جل شانہ کا ارشاد گرامی ملاحظہ ہو: ”اللّٰہ الذی خلق سبع سموات ومن الارض مثلہن“ یہاں ”سبع ارضین“ نہ فرمایا گیا جس کی وجہ سے نظم قرآنی گلو گرفتگی اور ہرقسم کے خلل ونقصان سے پاک رہا ۔
ابن النفیس نے اپنی کتاب ”الطریق الی الفصاحة“ میں یہ بیان فرمایا ہے کہ: عربی ادب وانشاء میں کلمے کو کبھی منتقل کیا جاتا ہے ایک صیغے سے دوسرے صیغے کی طرف یاایک وزن سے دوسرے وزن کی طرف یا ماضی سے مستقبل کی طرف یا اس کے برعکس وغیرہ ،ان تمام تصرفات کے نتیجے میں کلمہ اپنے قبح سے حسن وخوبی کی طرف منتقل ہوجاتا ہے ۔اب دیکھئے لفظ ”خود“ بمعنی جلدی کرنے کے قبیح ہے، لیکن اگر اس ”خود“ کو نازو انداز والی عورت کے لئے استعمال کیا جائے تو یہ لفظ اپنے قبح میں کمتر ہوجائے گا ۔اسی طرح ”ودع“ صیغہٴ ماضی میں اس کا استعمال قبیح محسوس ہوتا ہے ،اس لئے کہ صیغہٴ ماضی کے ساتھ اس کا استعمال بہت کم واقع ہوا ہے ،لیکن اسی لفظ کو صیغہٴ امر اور فعل مضارع کی صورت میں استعمال کرنا قبیح نہیں ہے ۔لفظ ”اللب“ بمعنی عقل کا استعمال صیغہٴ مفرد سے قبیح معلوم ہوتا ہے ،جبکہ صیغہٴ جمع میں استعمال سے یہ قبح جاتا رہتا ہے ،باری جل شانہ کا ارشاد ہے: ”لاولی الالباب“ بلکہ حدیث میں بھی لفظ ”اللب“ صیغہٴ مفرد کے ساتھ مجازاً استعمال ہوا ہے ،جیساکہ نبی کریم علیہ السلام کا فرمان یوں منقول ہے: ”مارأیت من ناقصات عقل ودین اذہب للب الرجل الحازم من احداکن “ یا پھر صیغہٴ مفرد بصورت اضافت استعمال ہوتا ہے، جیساکہ جریر کے اس شعر میں ملاحظہ کیجئے:
یصرعن ذا اللب حتی لاحراک بہ
وھن أضعف خلق الله أرکانا
ترجمہ :۔”یہ عورتیں عقلمند شخص کو ایسا پچھاڑتی ہیں کہ وہ بے حس وحرکت ہوجاتا ہے،حالانکہ یہ عورتیں اعضاء وجوارح کے اعتبار سے خداوند تعالیٰ کی کمزور ترین مخلوق ہیں۔“
اسی طرح لفظ ”الارجاء“ کہ صیغہ ٴ جمع ہی کے ساتھ اس کا استعمال مستحسن محسوس ہوتا ہے، جیساکہ باری جل وعلاء کا فرمان ہے: ”والملک علی ارجائہا“ لفظ ”الارجاء“ صیغہ ٴ مفرد میں صرف بصورت اضافت ہی خوب معلوم ہوتا ہے، جیساکہ ہم یوں کہیں: ”رجاء البئر“
اسی طرح لفظ ”اصواف“ بھی صیغہٴ جمع ہی کی صورت میں اچھا معلوم ہوتا ہے ،جیساکہ باری تعالیٰ کا فرمان ہے: ”ومن اصوافہا“ صیغہٴ مفرد میں اس کا استعمال بھلا نہیں لگتا ،ابوتمام کا یہ شعر ملاحظہ ہو:
”فکانما لبس الزمان الصوفا“ (گویا کہ زمانہ نے اون پہن رکھا ہے)
جو الفاظ بصورت صیغہٴ مفرد تو خوب معلوم ہوتے ہیں، لیکن صیغہٴ جمع ہونے کی صورت میں قبیح محسوس ہوتے ہیں ،انہی میں سے تمام مصادر شمار کئے جاتے ہیں، جیسے ”طیف“ (صیغہٴ مفرد) ”طیوف“ (صیغہٴ جمع جو قبیح معلوم ہورہا ہے) ”بقعة“ اور ”بقاع“: لفظ بقاع صیغہٴ جمع کی صورت میں ہی بھلا معلوم ہوتا ہے ۔انتہی ۔یہ تمام تفصیلات شیخ بہاء الدین شبکی نے ”عروس الافراج“ میں بیان فرمائی ہیں۔
اگر ایک ہی معنی کے لئے متعدد الفاظ ہوں اور ان میں سے کوئی لفظ بھی ثقل وکراہت سے خالی نہ ہو یا ہر لفظ کثرت استعمال کی وجہ سے اپنی حقیقی اور واقعی وقعت کھوبیٹھا ہو ،تب ایسے مواضع میں قرآن مجید اس معنی ٴ خاص کی تعبیرایسے لفظ سے کرتا ہے کہ اصل حقیقت بھی واضح ہوجائے اور اس معنی کے لئے اس ثقیل اور مکروہ لفظ کے استعمال کی بھی حاجت باقی نہ رہے۔ابن الاثیر اپنی کتاب (ص:۱۷) پر رقمطراز ہیں:
”اگر آپ قرآن کریم میں موجود اساسی فصاحت وبلاغت کے نکات ومعارف ملاحظہ کرنا چاہیں تو ذرا اس مقام پر نظر کیجئے جب قرآن کریم نے پکی اینٹ کا تذکرہ کرنا چاہا تو اس کے لئے وضع کردہ لفظ ”القومد“ یا ”الطوب“ جو اہل مصر کی لغت تھی، استعمال نہ فرمایا، اس لئے کہ یہ الفاظ گھٹیا اور کثیر الاستعمال تھے بلکہ اس پکی اینٹ کا معنی کی کامل ادائیگی کے لئے قرآن نے ایک منفرد طرز اپنایا، باری جل شانہ کا ارشاد ہے: ”وقال فرعون یا یہا الملأ ما علمت لکم من الٰہ غیری فاوقدلی یاہامان علی الطین فاجعل لی صرحاً“۔ غور فرمایئے کس حسن وخوبی سے ”پکی اینٹ“ کے لئے ”الوقود علی الطین“ کی تعبیر استعمال فرمائی گئی۔“
راقم کہتا ہے کہ: اس تعبیر کے متعلق مفسرین نے ایک نکتہ یہ بھی بیان فرمایا ہے کہ: فرعون کے زمانہ سے قبل لوگ ”المرقد“ اور’ ’الطوب“ کو نہیں پہچانتے تھے ،اس عجیب تعبیر میں اس اینٹ کی صنعت اور کاری گری کی رہنمائی کرتے ہوئے ”المرقد“ کی حقیقت واضح کی گئی ہے ،ان متعدد معارف کے پائے جانے میں کچھ اشکال نہ ہونا چاہئے ،اس لئے کہ یہ لطائف واسرار متعدد ہوسکتے ہیں۔
خلاصہ یہ ہے کہ : خدائے پاک کی روشن کتاب کی فصاحت اور اس کے حیران کن اعجاز کی آب وتاب کے متعلق اسرار ونکات کے استنباط میں وہ معارف ولطائف معلوم ہوئے ہیں جو عجب خیزی اور شان وشوکت میں وہ مرتبہ رکھتے ہیں کہ ان کے حسن وجمال ‘ خوبی وکمال‘ رونق وبہجت اور حسن سبکی وسلاست کے متعلق انسانی عقول سرگرداں رہ جاتی ہیں ۔اور معارف قرآنی کا موضوع تو بحر نا پیدا کنار کی مانند وسیع ہے ،جس کے ایک قطرہ کو میں نے یہاں بکھیرا ہے اور اس پھوٹتے چشمے کی چند بوندیں ہی یہاں گرائی ہیں ،وگرنہ انسانی عقول کے لئے نظم قرآنی کے تمام محاسن کا ادراک ناممکن ہے ،بلکہ ان محاسن کے استخراج میں انسانی عقول سرگردانگی اور ہوشربائی کا شکار ہیں اور انسانی ظنون واوہام ان محاسن کی پھیلی وسیع وادیوں میں کم عقلی وناسمجھی کی بناء پر متحیر ہورہے ہیں۔
ابن الاثیر فرماتے ہیں : اس فن میں غوطہ زنی کرنے والوں کو چاہئے کہ ان محاسن کے متعلق خوب فکر وتأمل کریں اور یہ جان رکھیں کہ ان محاسن کے ہرگوشہ میں کئی خزانے پوشیدہ ہیں اور یقینا جب وہ بوقت استعمال ان الفاظ قرآنی کے اسرار میں غوروفکر کریں گے اور ان کے متعلق قیاسات واعتبارات کے سمندر میں غوطہ زن ہوجائیں گے تو کئی تعجب خیز لطائف وغرائب پائیں گے ۔انتہی
یہ نظم قرآنی کی باعتبار مفردات کے چند وجوہ اعجاز تھیں جو میں نے اس لئے بیان کردیں تاکہ حضرت شیخ کشمیری کے کلام کی وضاحت ہوجائے۔
اشاعت ۲۰۰۹ ماہنامہ بینات , ربیع الثانی ۱۴۳۰ھ - اپریل ۲۰۰۹ء, جلد 72, شمارہ 4

    پچھلا مضمون: ویڈیو اور سی ڈی سے سکرین پرحاصل شدہ صورت کا حکم !
Flag Counter