Deobandi Books

ماہنامہ البینات کراچی صفرالمظفر ۱۴۳۰ھ - فروری ۲۰۰۹ء

ہ رسالہ

9 - 11
جن کی قبروں سے خوشبو مہک رہی ہے
جن کی قبروں سے خوشبو مہک رہی ہے

استاذ العلماء شیخ التفسیر والحدیث حضرت اقدس مولانا منظور احمد نعمانی نور اللہ مرقدہ کی وفات کو تقریباً چھ سال کا عرصہ ہونے والا ہے‘ آپ اپنے شیخ فقیہٴ وقت حضرت مولانا حبیب اللہ گمانوی رحمہ اللہ اور اپنے محسن حاجی خدا بخش نائچ کے ہمراہ جامعہ انوریہ حبیب آباد طاہر والی ضلع بہاولپور کے صحن میں مدفون اور محو استراحت ہیں۔ ماہ دسمبر کی طوفانی بارشوں کی وجہ سے حضرت نعمانی کی قبر مبارک بیٹھ گئی اور بارش کا پانی کافی مقدار میں قبر کے اندر جمع ہوگیا‘ چنانچہ حضرت نعمانی کے صاحبزادگان اور دیگر موقع پر موجود علماء اور طلباء نے مل جل کر قبر کی صفائی کی اور پانی نکالا اور موقع پر موجود یہ سب علماء اور طلباء اس واقعہ کے چشم دید گواہ ہیں کہ حضرت نعمانی کا جسم بالکل محفوظ تھااور حتی کہ کفن کا کپڑا بھی بوسیدہ تک نہیں ہوا تھا۔ موقع پر موجود تمام علماء اور طلباء نے جی بھر کر حضرت نعمانی کی زیارت کی اور شہادت دی کہ ان کی قبر مبارک کی مٹی اور قبر میں موجود پانی سے عجیب قسم کی خوشبو مہک رہی تھی‘ حتی کہ فوم کے جن ٹکڑوں سے وہ پانی خشک کیا گیا وہ بھی خوشبو سے مہک گئے اور یہ خوشبو کئی دن تک زائرین کو محسوس ہوتی رہی۔
بندہٴ عاجز اپنے ایک ساتھی ماسٹر عبد اللطیف گھلو صاحب کے ہمراہ پانچویں دن جامعہ انوریہ میں پہنچا تو وہاں کے اساتذہ کرام نے یہ ساری تفصیل ہمیں بتائی۔
استاذ العلماء حضرت مولانا قاری اللہ بخش دامت برکاتہم العالیہ نے جب ہمیں یہ واقعہ سنایا تو ان کا یہ عالم تھا کہ وہ حضرت نعمانی کی اس کرامت کو دیکھ کر بے حد مسرور نظر آتے تھے اور دوسری طرف اپنے شیخ کی محبت ِ صادقہ کی وجہ سے ان کی یاد میں غمزدہ بھی تھے اور حضرت کی قبر مبارک کا وہ پانی اور وہ فوم جس سے پانی کو نکالا اور خشک کیا گیا تھا ہمیں دکھایا۔
حقیقت یہ ہے کہ پانچ دن گذر جانے کے بعد بھی ہم نے اس سے عجیب قسم کی خوشبو کو محسوس کیا۔ یہ تو حضرت نعمانی کی کرامت ہے جو اہل ِ علاقہ نے ان کی وفات کے بعد دیکھی۔
اس سے پہلے بھی ہمارے اکابر علماء اہلسنت دیوبند بکثرت ایسے گذرے ہیں جن کی قبروں سے جنت کی خوشبو مہکی۔
ماضی قریب میں امام الاولیاء حضرت مولانا احمد علی لاہوری اور جامعہ اشرفیہ لاہور کے شیخ التفسیر حضرت مولانا محمد موسیٰ خان روحانی بازی اور حضرت مولانا محمد عبد اللہ لال مسجد اسلام آباد والے ‘ حضرت مولانا مفتی غلام قادر  خیر پور ٹامیوالی والے‘ استاذ العلماء حضرت مولانا خیر محمد جالندھری ‘ حضرت مولانا غازی عبد الرشید شہید اور حضرت مولانا سید عبد الوہاب شاہ احمد پور شرقیہ والے ایسے بزرگ ہیں کہ ان کی قبروں سے خوشبو مہکی ،جسے ہزارہا لوگوں نے محسوس کیا حتی کہ بہت سے اخبارات میں یہ خبریں شائع ہوئیں اور یہی چیز ہمارے اکابر کے اہل حق ہونے کی بین دلیل ہے‘۔کیونکہ یہ حضرات جب تک عالم دنیا میں زندہ رہے ،ان لوگوں نے دین ِ اسلام کی خدمت کی‘ علم شریعت کو پھیلایا اور عام کیا‘ شرک وبدعات کے ستونوں کو مسمار کیا ۔ توحید وسنت کا پرچار کیا‘ کفر اور الحاد کے داعیوں سے انہوں نے ایسا جہاد کیا جو رہتی دنیا تک یاد رہے گا،دینی مدارس کھولے جن سے لاکھوں عالم اور مفتی پیدا ہوئے‘ مساجد میں قرآن مجید کے درس دیئے جو ان گنت لوگوں کی ہدایت کا ذریعہ بنے۔
الغرض ان نفوسِ قدسیہ نے شریعتِ محمدیہ کے ہرشعبہ کی آبیاری کی اور اسے خوب پھیلایا تو اللہ تعالیٰ نے ایسے لوگوں کی قبور مبارکہ کو جنت کا ایسا باغ بنایا کہ بطور کرامت اس خوشبو کو اہل دنیاکے لئے بھی ظاہر فرمادیا‘ تاکہ ان کا اہل حق ہونا لوگوں پر واضح ہوجائے۔
عنوان کے مطابق تو مضمون مکمل ہوچکا ہے‘ لیکن چند چیزیں وضاحت طلب ہیں ،جن کو بطور تکملہ یہاں ذکر کرنا گزیر ہے‘ لہذا انہیں بھی مضمون کا حصہ سمجھئے۔
وضاحت نمبر: ۱
یہ بات ذہن نشین فرما لیجئے کہ ہر مومن متقی کی قبر میں جنت کا دروازہ کھلتا ہے، جس سے جنت کی خوشبو اور ٹھنڈی ہوا آتی رہتی ہے‘ البتہ اس خوشبو وغیرہ کا ظہور کرامت اور خرقِ عادت ہے‘ ویسے ہر متقی کی قبر میں خوشبو‘ راحت‘ ٹھنڈی ہوا وغیرہ ہمیشہ موجود رہتے ہیں اور ان کا ظہور کبھی کبھار ہوتا ہے‘ لہذا ان امور کے ظاہر ہونے کو کرامت اور خرقِ عادت کہا جائے گا‘ نہ کہ ان امور کے موجود ہونے کو۔ کیونکہ وہ تو ہر حال میں موجود ہوتے ہیں اور ظہور کبھی کبھار ہوتا ہے۔
وضاحت نمبر:۲
مشکوٰة شریف میں عذابِ قبر کے سلسلہ میں ایک حدیث بروایت ترمذی واحمد وغیرہ وارد ہے‘ جس کے الفاظ یہ ہیں ”وافتحوا لہ باباً الی الجنة“ جس کا مطلب یہ ہے کہ مومن متقی کی قبر میں جنت کا دروازہ کھولا جاتا ہے، جس سے خوشبو اور ٹھنڈی ہوا آتی ہے ۔ یہ حدیث اس قسم کے واقعات کی تصدیق کرتی ہے۔
وضاحت نمبر:۳
خصوصیت کے ساتھ یہ واقعات علماء دیوبند کی قبور مبارکہ سے اس لئے ظہور پذیر ہور ہے ہیں کہ یہ علماء حق دینِ اسلام کے خاص خادم ہیں اور تمام باطل پرستوں کو ان لوگوں نے ناکوں چنے چبوائے ہوئے ہیں ‘ تمام باطل پرست فرقے ان کے خلاف منفی پروپیگنڈہ کرنے میں دن رات مصروف ہیں او رعوام الناس کو ان سے متنفر کرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں تو اللہ تعالیٰ نے گویا ایسے لوگوں کے زہر آلود غلط پروپیگنڈہ کو یوں خاکستر کردیا کہ ان کی قبروں کو خوشبوؤں سے مہکا کر ان کی حقانیت کو واضح کردیا۔
وضاحت نمبر:۴
عقیدہ عذاب وراحت قبر جو درجنوں آیات اور سینکڑوں احادیث سے ثابت ہے کہ انہی قبروں میں مردہ انسان کے ساتھ ایمان اور اعمال کے مطابق جزا وسزا کا سلسلہ جاری رہتا ہے، جس کی صحیح صورت یہ ہے کہ روح کا ایک خاص قسم کا تعلق جسد عنصری سے قائم کیا جاتا ہے‘ جس کی وجہ سے مردہ انسان اپنے روح اور جسد کے ساتھ قبر کی جزا وسزا کو محسوس کرتا ہے ۔لیکن کچھ لوگ عصر ہذا میں اس سچے عقیدے سے منحرف ہوچکے ہیں تو ایسے لوگوں کے عقیدہ کو غلط ثابت کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ اس قسم کے واقعات ظاہر فرمارہے ہیں ،تاکہ بدعقیدہ لوگ اپنے عقیدہ سے باز آکر صحیح عقیدہ کو تسلیم کرلیں۔
وضاحت نمبر:۵
جب مومن متقی کے لئے قبر میں سامانِ راحت ہے تو لازماً کافروں‘ فاسقوں کے لئے سامانِ عذاب بھی ہے۔
اشاعت ۲۰۰۹ ماہنامہ بینات , صفرالمظفر ۱۴۳۰ھ - فروری ۲۰۰۹ء, جلد 72, شمارہ 2

    پچھلا مضمون: مغربی تہذیب تعارف‘ شرعی‘ اثرات‘ تعلیمی ضرورت
Flag Counter