Deobandi Books

ماہنامہ البینات کراچی صفرالمظفر ۱۴۳۰ھ - فروری ۲۰۰۹ء

ہ رسالہ

3 - 11
چنداہم اسلامی آداب
چنداہم اسلامی آداب
اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ اس دین کی تکمیل فرماکر اس کے آخری اور پسندیدہ دین ہونے کا اعلان فرمایا، جیسا کہ ارشاد باری ہے:
”اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَأتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِیْ وَرَضِیْتُ لَکُمُ الْاِسْلَامَ دِیْنًا“ (المائدہ،:۳)
ترجمہ:۔” آ ج کے دن میں نے تمہارے لئے تمہارا دین کا مل کردیا ،اور تم پر میں نے اپنا احسان پورا کردیا، اور پسند کیا میں نے تمہارے لئے اسلام کو دین“۔
دین اسلام زندگی کے ہر شعبہ کو شامل ہے، ایمانیات ہوں یا عبادات ، معاملات ہوں یا اخلاق و آداب ،لہٰذا ایک شخص اسی وقت کامل مسلمان کہلا سکتا ہے ، جب وہ ان تمام شعبوں کاقائل اور عامل ہو۔
نیز ہر شعبہ اپنی جگہ اہم ہے ،آداب و اخلاق کی اہمیت عبادات سے کم نہیں،اسی لئے قرآن کریم نے بعض آداب کو بڑی اہمیت کے ساتھ بیان فرمایا ہے ، چنانچہ ارشاد باری ہے:
”یٰأیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوْا لَا تَدْخُلُواْ بُیُوْتًا غَیْرَ بُیُوْتِکُمْ حَتّٰی تَسْتَأنِسُوْا وَتُسَلِّمُوْا عَلٰی أہْلِہَا۔۔۔“ (نور:۲۷)
ترجمہ:” اے ایمان والو تم اپنے ( خاص رہنے کے ) گھروں کے سوا دوسرے گھروں میں داخل مت ہو جب تک کہ ( ان سے ) اجازت حاصل نہ کرلو،اور(اجازت لینے سے قبل ) ان کے رہنے والوں کو سلام نہ کرلو۔ “
اسی طرح احادیث نبویہ میں جابجا ان آداب کا ذکر اور تاکید آئی ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو بھائیوں میں سے چھوٹے سے فرمایا” کَبِّرْ کَبِّرْ“ یعنی بڑے بھائی کو بولنے دو۔ (بخاری ، مسلم)
اسلامی آداب واخلاق کی اہمیت اور تاکید کی بنا پر محدثین حضرات عموماً احادیث کی کتابوں میں آداب کا مستقل باب باندھتے ہیں ،اور بعض علماء کرام نے عوام کی سہولت کے لئے ان کی زبانوں میں اسلامی آداب یا حسنِ معاشرت کے عنوان سے کتابیں اور رسائل لکھے ہیں ،چنانچہ حضرت حکیم الامت مولانا محمد اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ تعالیٰ نے رسالہ” حسنِ معاشرت “ اور ہماری جامعہ کے ایک نوجوان فاضل مولانا محمد زبیر عبدالمجید نے ” اسلامی آداب “ کے نام سے ایک مفصل کتاب لکھی ہے،اسی طرح دینی رسالوں میں اسلامی آداب پر مضامین بھی شائع ہوتے رہے ہیں، اللہ تعالیٰ ان کتابوں اور مضامین سے مسلمانوں کو نفع پہنچائے ۔
ان آداب میں سے بعض آداب ایسے ہیں جن میں سے عموماً عوام و خواص سب ہی کوتاہی کے مرتکب ہو تے ہیں،ان حالات کو دیکھ کرہمارے شیخ العلامة المحقق الشیخ عبد الفتاح ابو غدہ رحمہ اللہ تعالیٰ نے چند اسلامی آداب کو جمع کرکے اس کا نام ” من أدب الاسلام “ رکھا ،یہ کتاب بلاد عربیہ میں بار بار چھپ چکی ہے اور اس سے عوام و خواص فائدہ اُٹھا رہے ہیں ۔
نیز آپ نے بعض ایسے آداب کی نشاندہی کی ہے ،جن کی تطبیق میں بعض اہل علم بھی کوتاہی کرتے ہیں ، بطور مثال: اگر مجلس میں میزبان مہمانوں کا اکرام کرتے ہوئے کوئی مشروب پیش کرے تو کہاں سے ابتدا کرے ؟ اپنی دائیں جانب سے یا صدر مجلس اور پھر اس کی دائیں جانب سے؟
بعض اہل علم مطلق میزبان کی دائیں جانب کو ترجیح دیتے ہیں ،چاہے وہاں چپڑاسی ،ڈرائیور یا ایک عام شخص بیٹھا ہو، اور دلیل میں ” اَلْاَیْمَنْ فَالْاَیْمَنْ“ (بخاری ومسلم )کی روایت پیش کرتے ہیں، اور ” کَبِّرْ کَبِّرْ“ والی روایت کو چھوڑ دیتے ہیں ، حضرت شیخ رحمہ اللہ تعالیٰ نے دونوں روایتوں میں عمدہ تطبیق دیتے ہوئے فرمایا کہ :ابتدا تو صدر مجلس سے ہو، یا مجلس میں جو بھی اپنے علم ، تقویٰ ،منصب یا عمر کے اعتبار سے بڑا ہو ، اس سے کی جائے ، پھر اس کے دائیں سے ،چاہے وہ عام شخص کیوں نہ ہو ، اس طرح دونوں روایتوں پر عمل ہو جاتا ہے۔
جب عربوں کا یہ حال ہے تو ہمارے معاشرے میں ان آداب سے ناواقفیت و کوتاہی کا کیا عالم ہو گا؟ جی میں آیا کہ اس رسالہ کا ترجمہ کر دیا جائے ،تاکہ ہمارے عوام و خواص اور اُردو دان طبقہ بھی اس سے فائدہ اٹھا سکیں ۔
چنانچہ اس مقصد کے لئے حضرت شیخ رحمہ اللہ تعالیٰ کے صاحبزادے الاستاذ سلمان ابو غدہ حفظہ اللہ تعالیٰ سے فون پر اس رسالہ کی طباعت اور ترجمہ کی اجازت کی درخواست کی گئی تو انہوں نے بخوشی اس کی اجازت دے دی - فجزاہ اللّٰہ عنی احسن الجزاء-
درج ذیل صفحات میں اس کتاب کا ترجمہ پیش خدمت ہے ، اللہ تعالیٰ مجھے اور سب پڑھنے والوں کو ان اسلامی آداب پر عمل پیرا ہونے کی توفیق عطا فرمائیں
دین اسلام کے بہت سے آداب و فضائل ہیں ، اوران کا تعلق زندگی کے ہر شعبہ سے ہے۔یہاں تک کہ جن کا موں کو معمولی سمجھا جاتا ہے، اسلام نے ان میں بھی آداب کی تعلیم دی ہے، جیسے بیت الخلاء میں داخل ہو نا ، اس سے باہر نکلنا ، اس میں بیٹھنے کی کیفیت ،استنجاء کا طریقہ ۔چنانچہ جب ایک مشرک نے غصہ دلانے کے لئے طنزیہ انداز میں جلیل القدر صحابی حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ سے کہا کہ : تمہارے نبی نے تو تمہیں ہر چیز کی تعلیم دی ہے ،یہاں تک کہ استنجاء کا طریقہ بھی سکھایا ہے تو انہوں نے فرمایا کہ:
”جی ہاں! ایسا ہی ہے ،ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں پیشاب یا قضائے حاجت کے وقت استقبال قبلہ سے روکا ہے اور اس سے بھی روکا ہے کہ ہم دائیں ہاتھ سے استنجاء کریں یا تین پتھروں سے کم سے استنجاء کریں…“الحدیث
اس حدیث کو امام مسلم نے ” کتاب الطہارة“ کے ”باب الاستطابہ “میں ذکر کیا ہے ،نیز ابوداوٴد ، ترمذی، نسائی اور ابن ماجہ نے بھی کتاب الطہارة میں ذکر کیا ہے، یہاں الفاظ مسلم کے ہیں۔
اسی طرح ان کا تعلق ہر بڑے ،چھوٹے اور مر دو عورت سے ہے، جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
”إنَّ النِّسَاءَ شَقَائِقُ الرِّجَال۔ِ“
”یعنی عورتیں مردوں کا جزء ہیں “۔
امام ابو داوٴد نے حضرت ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے کتاب الطہارة ،باب الرجل یجد البلة ، اور ترمذی اور امام احمد نے مسند میں،مسند اما م احمد اور ابو داوٴد کے الفاظ یہ ہیں:
” نعم إنما النساء شقائق الرجال“
اور ترمذی میں :
” نعم إن النساء شقائق الرجال“
یعنی عورتیں مردوں جیسی ہیں اپنی خلقت ،طبیعت اور شرعی احکام میں، سوائے ان احکام کے جو مردوں یا عورتوں کے ساتھ خاص ہیں۔
لہٰذا جن اسلامی آداب کا مطالبہ مرد سے کیا جاتا ہے، ان کا مطالبہ عورت سے بھی کیا جائیگا،کیونکہ ان دونوں سے مسلمان معاشرہ وجود میں آتا ہے اور اسلام دونوں کو مخاطب بناتاہے۔
یہ وہ آداب ہیں جن کی اسلام نے تلقین کی ہے اور جن کو اپنانے کی ترغیب اور ان پر عمل پیرا ہونے کی تاکید کی ہے، تاکہ ان کی برکت سے ایک موٴمن کی شخصیت اپنے کمال کو پہنچے اور لوگوں میں اتفاق اور محبت پیدا ہو، بیشک مسلمان جب ان آداب اور فضائل کو اختیار کرتا ہے تو اس کے حسن معاشرت میں اضافہ ہو تا ہے ، اس کے محاسن کو قوت حاصل ہو تی ہے اور اس کی شخصیت محبوب بن جاتی ہے اور دوسروں کے دل وجان میں جگہ بنا لیتی ہے۔
یہ آداب جو یہاں ذکر کئے گئے ہیں، یہ شریعت کی روح اور مقاصد میں سے ہیں اور ان کو آداب کے نام سے تعبیر کرنے کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ ان کا تعلق معمولاتِ زندگی کے ان حصوں سے ہے جس میں کرنے اور نہ کرنے کا انسان کو اختیار ہے یا ان پر عمل کرنا صرف اولیٰ اور بہتر ہے۔
امام قرافی رحمہ اللہ نے اپنی کتاب” الفروق“ میں ادب اور عمل کی باہمی نسبت کوبیان کرتے ہوئے ادب کی عمل پر فوقیت کو یوں بیان فرمایاہے :
”جان لو ! کہ تھوڑا سا ادب زیادہ عمل سے بہترہے“۔
اسی لئے حضرت رویم ،جو ایک عالم اور صالح بزرگ گزرے ہیں ،انہوں نے اپنے بیٹے کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا :
” پیارے بیٹے! اپنے عمل کو نمک بناوٴ اور اپنے ادب کو آٹا بناوٴ“
یعنی ادب پر اتنی کثرت سے عمل کرو کہ کثرت کے اعتبار سے اس کی حیثیت ایسی ہو جائے جیسے گوندھے ہوئے آٹا کی نمک کے مقابلہ میں ۔اور ادب سے معمور تھوڑاسا عملِ صالح اس زیادہ عمل سے بہتر ہے جس میں ادب کی کمی ہو ۔
میں کہتا ہوں کہ اگر ان آداب میں سے کسی ادب میں سادگی یا عمومیت نظر آئے تو اس پر تنبیہ کو تعجب سے نہ دیکھا جائے ،کیونکہ ہم میں بہت سے لوگ ایسے بھی ہیں جو ان آداب کے بارے میں غلطی کرتے ہیں اور ان آداب میں کوتا ہی کرنے کی وجہ سے ایک مسلمان کی شخصیت بد نما نظر آتی ہے، جب کہ مسلمان سے مطلوب یہ ہے کہ وہ ہمیشہ اپنے جمال ،کمال اورعلامات کی وجہ سے ممتاز نظر آئے ،جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد گرامی جو ا بو داوٴد ،امام احمد ،اور حاکم نے مستدرک میں سہل بن حنظلہ رضی اللہ عنہ سے نقل کیا ہے۔سے راہنمائی ملتی ہے ،جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا تھا:
”إنکم قادمون علی إخوانکم ،فأحسنوا لباسکم ،وأصلحوا رحالکم ،حتیٰ تکونواکأنکم شامّة (۱)فی الناس ۔ فإن اللّٰہ لایحب الفحش والتفحش “۔
ترجمہ:۔ ” تم اپنے بھائیوں سے ملنے والے ہو، لہٰذا اپنے اچھے لباس پہن لو، اپنی سواریوں کے پالان درست کرلو ، تاکہ تم مجلس میں ممتاز نظر آوٴ،کیونکہ اللہ کو بدزبانی اور بے حیائی پسند نہیں “۔
فائدہ :شامة:اس تل کو کہتے ہیں جو عموما چہرہ پر ہو تا ہے اور جس سے جمال میں اضافہ ہو تا ہے ،
لہٰذا ایک مسلمان کو چاہیئے کہ وہ اپنے عمدہ لباس، ظاہری حالت اور اچھی ہیئت سے مسلمان نظر آئے، اللہ تعالیٰ ہی سیدھی راہ دکھانے والا ہے۔
ادب :۱
جب آپ اپنے گھر میں داخل ہوں یا گھر سے باہر نکلیں تو زور سے دروازہ نہ بند کریں ، اور نہ ہی اسے اس طرح چھوڑ دیں کہ وہ زور سے خود بند ہوجائے ،کیونکہ یہ حرکت اس اسلام کی تعلیم کردہ نرم مزاجی کے خلاف ہے جس کی طرف آپ کو نسبت کا شرف حاصل ہے، بلکہ آپ کو چاہیے کہ نہایت نرمی سے دروازہ بند کریں ،شاید آپ نے ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی الله عنہا کی روایت سنی ہوگی جس میں وہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم کا قول نقل فرماتی ہیں کہ آپ صلی لله علیہ وسلم نے فرمایا :
”إن الرفق لایکون فی شئ إلا زانہ ولایُنزع من شئ إلاشانہ۔“(مسلم)
ترجمہ:۔”نرمی جس چیز میں بھی پائی جائے وہ اسے خوبصورت بنادیتی ہے اور نرمی جس چیز سے نکال دی جائے وہ اسے بدصورت بناد یتی ہے “۔
ادب :۲
جب آپ اپنے گھر میں داخل ہوں یا گھر سے باہر نکلیں تو گھر میں موجود اپنے گھر والوں کو، چاہے مرد ہوں یا خواتین، مسلمانوں اور اسلام والا سلام کریں یعنی ”السلام علیکم ورحمة الله وبرکاتہ “کہیں۔
اسلام کے سلام کو چھوڑ کر… جو کہ اسلام کا شعاراور مسلمانوں کی پہچان ہے… دوسری قوموں کے سلام جیسے:” گڈ مارننگ “اور”ہیلو“وغیرہ کو اپنانا اسلام کے سلام کو ختم کرنے کے مترادف ہے ،حالانکہ یہ وہ سلام ہے جس کی رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے اپنے قول و فعل سے امت کو تعلیم دی ہے اور جو سلام آپ صلی الله علیہ وسلم نے اپنے جلیل القدر خادم حضرت انس رضی الله عنہ کو سکھایا تھا ۔
چنانچہ حضرت انس رضیلله عنہ فرماتے ہیں کہ مجھ سے رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا :
”یا بُنیّ إذا دخلت علی أھلک فسلّم یکون برکة علیک وعلی أھلک۔“
ترجمہ:…”پیارے بیٹے !جب گھر میں داخل ہو تو گھر والوں کو سلام کرو ، یہ سلام تمہارے اور تمہارے گھر والوں کے لیے برکت ہوگا“۔
حضرت قتادہ رحمہ الله جو بہت بڑے فضلا تابعین میں سے ہیں ،فرماتے ہیں :
”إذا دخلت بیتک فسلّم علی أھلک فھم أحق من سلمت علیھم ۔“
ترجمہ:۔”جب تو اپنے گھر میں داخل ہو تو اپنے گھروالوں کو سلام کرو کیونکہ وہ سلام کے زیادہ حق دار ہیں “۔
حضرت ابوہریرہ فرماتے ہیں کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا :
”إذا انتھی أحدکم إلی مجلس فلیسلّم،……ثم اذا قام فلیسلّم، فلیست الأولی بأحق من الأخرة۔“ (الترمذی)
ترجمہ:…”جب تم میں سے کوئی مجلس میں جائے تو سلام کرے اور جب مجلس سے جانے کا ارادہ کرے تو سلام کرے ،کیوں کہ پہلا سلام دوسرے سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتا۔“
ادب :۳
جب آپ اپنے گھر میں داخل ہونے لگیں تو گھر میں موجود افراد کو داخل ہونے سے پہلے اپنے آنے سے مطلع کریں تاکہ آپ کے یک دم داخل ہونے سے وہ گھبرانہ جائیں یا ایسا نہ ہو کہ گویا آپ ان کی کسی کمزوری کو تلاش کررہے ہیں ۔
حضرت ابوعبیدالله عامر بن عبدالله بن مسعود رضی لله عنہ فرماتے ہیں، کہ میرے والد عبدالله بن مسعود جب گھر میں آتے تو پہلے مانوس کرتے یعنی گھر والوں کو مانوس کرنے کے لیے ان کو مطلع کرتے، کوئی بات کرتے، اور آواز بلند کرتے تاکہ وہ مانوس ہوجائیں ۔
امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
”جب کوئی شخص اپنے گھر میں داخل ہو نا چاہے تو اسے چاہئے کہ کھنکھارے یا اپنے جوتوں کی آواز سنائے۔“
امام احمد کے صاحبزادے عبد اللہ فرماتے ہیں کہ میرے والد صاحب جب مسجد سے گھر لوٹتے تو گھر میں داخل ہونے سے پہلے پیر زمین پرمارتے تاکہ گھر میں داخل ہونے سے پہلے ان کے جوتے کی آواز آئے اور کبھی کھنکھار تے تاکہ گھر میں موجود افراد کو اپنے اندر آنے کی اطلاع دے سکیں۔
یہی وجہ ہے کہ بخاری اور مسلم میں حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے یہ روایت آئی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بات سے منع فرمایا کہ کوئی شخص سفر وغیرہ سے واپسی پرگھر والوں کو بتائے بغیر رات کواپنے گھر میں لوٹے، یعنی سفر وغیرہ سے گھر والوں کو بغیر بتائے آجائے ،تاکہ اس طرح ان کی خیانت یا کمزوریوں کو تلاش کرے۔
(جاری ہے)
اشاعت ۲۰۰۹ ماہنامہ بینات , صفرالمظفر ۱۴۳۰ھ - فروری ۲۰۰۹ء, جلد 72, شمارہ 2

    پچھلا مضمون: استخارہ سنت کے مطابق کیجیے 
Flag Counter