Deobandi Books

ماہنامہ البینات کراچی صفرالمظفر ۱۴۳۰ھ - فروری ۲۰۰۹ء

ہ رسالہ

5 - 11
سترة کے احکام
سترة کے احکام

۱- سترہ کا مفہوم:
وہ عصا یا اس جیسی دوسری چیز جسے نمازی اپنے سامنے گاڑتا یا رکھتا ہے تاکہ کوئی شخص اس کے سامنے سے نہ گزرے‘ اسے شریعت ِ مطہرہ میں سترہ سے تعبیر کیا جاتا ہے۔
الموسوعة الفقہیة میں ہے:
”السترة بالضم ماخوذة من الستر‘ وہی فی اللغة: ما استترت بہ من الشئ کائناً ما کان۔ فی الاصطلاح ہی ما یغرز او ینصب امام المصلی من عصا او غیر ذالک او ما یجعلہ المصلی امامہ لمنع المارین بین یدیہ ․․․․‘ وجمیع ہذہ التعریفات متقاربة“۔
الفقہ الاسلامی وادلتہ میں ہے:
”ہی ما یجعلہ المصلی امامہ لمنع المرور بین یدیہ“۔ (ج:۱‘ ص:۷۵۲)
سترة کا حکم:
امام اور منفرد کے لئے مستحب ہے کہ اپنی ابروکے سامنے کوئی ایسی چیز کھڑی کرلے جو ایک ہاتھ یا اس سے زیادہ اونچی اور ایک انگلی کے برابر موٹی ہو جب کہ گھر‘ میدان یا ایسی جگہ نما پڑھنے کا ارادہ ہو جہاں لوگوں کا نمازی کے سامنے سے گزرنے کا اندیشہ ہو۔ البتہ اگر مسجد یا ایسی جگہ نماز پڑھنے کا ارادہ ہو جہاں لوگوں کا نمازی کے سامنے سے گزرنے کا خطرہ نہ ہو تو سترہ کا اہتمام کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ۔اور امام کا سترہ تمام مقتدیوں کی طرف سے کافی ہے۔ اگر سترہ کے لئے لکڑی ‘ لاٹھی وغیرہ کا گاڑنا ممکن نہ ہو تو اس کو زمین پر رکھ دے اور سامنے لمبائی میں رکھے ‘ چوڑائی میں نہ رکھے۔الدر المختار :(ج:۱‘ ص:۶۳۶-۶۳۷)میں ہے
”ویغرز“ ندبا‘ بدائع۔ ”الامام“ وکذا المنفرد ”فی الصحراء“ ونحوہا۔
فتویٰ شامی میں ہے:
”قولہ ندبا“ لحدیث ”اذا صلی احدکم فلیصل الی سترة ولایدع احداً یمر بین یدیہ۔ رواہ الحاکم واحمد وغیرہما۔ وصرح فی المنیة بکراہة ترکہا وہی تنزیہیة․․․․‘ وکذا المنفرد۔ اما المقتدی فسترة الامام تکفیہ کما یاتی” قولہ ونحو ہا“ ای من کل موضع یخاف فیہ المرور‘ قال فی البحر عن الحلیة: انما قید بالصحراء لانہا المحل الذی یقع فیہ المرور غالباً والا فالظاہر کراہة ترک السترة فیما یخاف فیہ المرور ای موضع کان ․․․․‘ قولہ ”ولایکفی الوضع“ ای وضع السترة علی الارض اذا لم یمکن غرزہا ․․․ لانہ لایفید المقصود․․․” قولہ ولا الخط“ ای الخط علی الارض اذا لم یجد ما یتخذہ سترة ․․․ لانہ لایحصل بہ المقصود اذ لایظہر من بعید ”قولہ وقیل یکفی“ ای کل من الوضع والخط ای یحصل بہ السنة ․․․‘ ثم قیل یضعہ طولًا لا عرضاً لیکون علی مثال الغرز ․․․‘ اذا المقصود جمع الخاطر بربط الخیال بہ کی لاینتشر․․․‘ ثم المفہوم من کلامہم انہ عند امکان الغرز لایکفی الوضع وعند امکان الوضع لایکفی الخط“۔ (ج:۱‘ ص:۶۳۶‘۶۳۷)
الفقہ الاسلامی وادلتہ میں ہے:
”السترة فی الفرض والنفل مندوبة للامام والمنفرد‘ ان خشیا مرور احد فی محل سجودہما فقط۔ (ج:۱‘ص:۷۵۲)
۲- سترہ کی اہمیت اور ضرورت:
متعدد احادیث مبارکہ سے ثابت ہوتا ہے کہ حضور ا سترہ کا بہت اہتمام فرمایا کرتے تھے اور صحابہ کرام کو اس کی ترغیب دیا کرتے تھے‘ ان میں سے بعض احادیث درج ذیل ہیں:
۱- ”عن ابن عمر قال: کان النبی ا یغدو الی المصلّٰی‘ والعنزة بین یدیہ تحمل وتنصب بالمصلی بین یدیہ فیصلی الیہا“ (مشکوٰة:ص:۷۳)
ترجمہ:․․․”حضرت ابن عمرفرماتے ہیں کہ آقائے نامدار ا صبح کے وقت عیدگاہ تشریف لے جاتے اور آپ کے آگے آگے ایک نیزہ (بھی) لے جایا جاتا تھا جو عید گاہ میں آپ کے آگے کھڑا کردیا جاتا تھا اور آپ اس کی طرف (منہ کرکے) نماز پھڑ لیتے تھے“۔
۲- ”وعن ابی جحیفة قال: رأیت رسول اللہ ا بمکة وہو بالبطح فی قبة حمراء من ادم‘ ورأیت بلالا اخذ وضوء رسول اللہ ا ورأیت الناس یبتدرون ذالک الوضوء؛ فمن اصاب منہ شیئا تمسح بہ ومن لم یصب منہ اخذ من بلل ید صاحبہ ثم رأیت بلالاً اخذ عنزة فرکزہا وخرج رسول اللہ ا فی حلة حمراء مشمرا صلی الی العنزة بالناس رکعتین ورأیت الناس والدواب یمرون بین یدی العنزة‘ متفق علیہ“ (مشکوٰة‘ص:۷۳)
ترجمہ۔”اور حضرت ابوجحیفة  فرماتے ہیں کہ میں نے مکہ میں ابطح کے مقام پر آقائے نامدارا کو سرخ چمڑے کے ایک خیمہ میں دیکھا اور میں نے حضرت بلال  کو آنحضرت ا کے وضوء کا بچا ہوا پانی لیتے ہوئے دیکھا اور دوسرے لوگوں کو (بھی) میں نے دیکھا کہ وہ پانی حاصل کرنے میں بڑی عجلت کررہے تھے‘ چنانچہ جس شخص کو اس پانی میں سے کچھ مل گیا اس نے (برکت حاصل کرنے کے لئے) اسے (اپنے بدن اور منہ پر) مل لیا اور جس شخص کو کچھ نہ ملا اس نے ساتھ والے سے ہاتھ کی تری ہی لے کر مل لی‘ پھر میں نے بلال کو دیکھا کہ انہوں نے نیزہ لے کر اسے گاڑدیا‘آنحضرت ا سرخ دھاریدار جوڑا پہنے اور دامن اٹھائے خیمہ سے نکلے اور نیزہ کی طرف کھڑے ہوکر صحابہ کرام کے ساتھ دو رکعت نماز پڑھی اور میں دیکھ رہا تھا کہ آدمی اور چوپائے نیزہ کے سامنے گزررہے تھے۔
۳- ”وعن سہل بن ابی حثمة قال: قال رسول اللہ ا ”اذا صلی احدکم الی سترة فلیدن منہا لایقطع الشیطان علیہ صلاتہ۔ رواہ ابو داود“۔ (مشکوٰة:ص:۷۴)
ترجمہ:․․․”اور حضرت سہل بن ابی حثمہ  کہتے ہیں کہ آقائے نامدار ا نے فرمایا: جب تم میں سے کوئی شخص سترہ کی طرف نماز پڑھے تو اسے چاہئے کہ وہ سترہ کے قریب رہے تاکہ شیطان اس کی نماز نہ توڑے‘ یعنی شیطان اس کے دل میں وسوسے ڈال کر اس کے خشوع وخضوع کو خراب اور افکار کو منتشر نہ کرسکے“۔
۴- ”وعن المقداد بن الاسود قال رأیت رسول اللہ ا یصلی الی عود ولاعمود ولاشجرة الا جعلہ علی حاجبہ الایمن او الایسر ․․․․․․․۔“ مشکوٰة‘ص:۷۴)
ترجمہ:․․․”اور حضرت مقداد بن اسود فرماتے ہیں کہ میں نے آقائے نامدار ا کو کبھی نہیں دیکھا کہ آپ لکڑی‘ ستون یا درخت کی طرف منہ کرکے نماز پڑھتے ہوں اور یہ چیزیں ٹھیک آپ کے سامنے کھڑی ہوں بلکہ وہ آپ کے داہنی یا بائیں بھووں (ابروں) کے سامنے ہوتی تھیں اور آپ ان کی سیدھ کا قصد نہ کرتے تھے“۔
نماز سے پہلے سترہ کا اہتمام اس لئے بھی ضروری ہے کہ اس سے خشوع وخضوع برقرار رہتا ہے‘ خیالات منتشر نہیں ہوتے اور نمازی ہمہ تن اپنی نماز میں بآسانی متوجہ رہ سکتا ہے۔
الفقہ الاسلامی وادلتہ میں ہے:
”حکمتہا: منع المرور امام المصلی بین یدیہ مما یقطع خشوعہ وتمکین المصلی من حصر تفکیرہ فی الصلاة وعدم استرسالہ فی النظر الی الاشیاء وکف بصرہ عما وراء سترتہ لئلایفوت خشوعہ“۔ (ج:۱‘ص:۷۵۲)
۳- نمازی کے آگے سے گزرنے کا وبال:
نمازی کے آگے سے گزرنے سے اجتناب از حد ضروری ہے‘ اس لئے کہ احادیث مبارکہ میں اس پر بڑی سخت وعیدیں آئی ہیں جو حسب ذیل ہیں:
۱- ”عن ابی جہیم قال: قال رسول اللہ ا: ”لو یعلم المار بین یدی المصلی ماذا علیہ لکان ان یقف اربعین خیرا لہ من ان یمر بین یدیہ‘ قال ابو النضر لاادری قال اربعین یوماً او شہراً او سنةً ‘متفق علیہ۔ (مشکوٰة‘ص:۷۴)
ترجمہ:․․․”اور حضرت ابو جہیم  سے روایت ہے کہ آقائے نامدار ا نے فرمایا: نمازی کے آگے سے گزرنے والا اگر یہ جان لے کہ اس کی کیا سزا ہے تو وہ نمازی کے آگے سے گزرنے کے بجائے چالیس تک کھڑے رہنے کو بہتر خیال کرے۔ (اس حدیث کے ایک راوی) حضرت ابو نضر  کہتے ہیں کہ میں نہیں جانتا کہ آپ نے چالیس دن یا چالیس مہینے یا چالیس سال فرمایا ہے“
۲- ”عن ابی ہریرة  قال: قال رسول اللہ ا ”لو یعلم احدکم مالہ فی ان یمر بین یدی اخیہ معترضا فی الصلاة کان لان یقیم مائة عام خیر لہ من الخطوة التی خطا۔“ (مشکوٰة‘ص:۷۴)
ترجمہ:․․․”اور حضرت ابو ہریرہ راوی ہیں کہ آقائے نامدار ا نے فرمایا: اگر تم میں سے کوئی یہ جان لے کہ اپنے مسلمان بھائی کے سامنے سے جبکہ وہ نماز پڑھ رہا ہو عرضاً گزرنا کتنا بڑا گناہ ہے تو اس کے لئے سو برس تک کھڑے رہنا ایک قدم آگے بڑھانے سے بہتر معلوم ہو“۔
۳- ”وعن کعب الاحبار قال: لو یعلم المار بین یدی المصلی ماذا علیہ لکان ان یخسف بہ خیرا لہ من ان یمر بین یدیہ وفی روایة اہون علیہ رواہ مالک“۔ ( مشکوٰة‘ص:۷۴)
ترجمہ:․․”اور حضرت کعب  فرماتے ہیں کہ نمازی کے آگے سے گزرنے والا اگر یہ جان لے کہ اس کے اس جرم کی سزا کیا ہے تو اس کو اپنا زمین میں دھنسایا جانا نمازی کے آگے سے گزرنے سے زیادہ بہتر معلوم ہو اور ایک روایت میں بجائے بہتر کے ”زیادہ آسان“ کا لفظ ہے“۔
۴- سترہ کی مقدار:
سترہ کے لئے ایسی چیز کا انتخاب کرنا چاہئے جو ایک ہاتھ یا اس سے زیادہ لمبی اور کم از کم ایک انگلی کے برابر موٹی ہو۔فتاوی شامی میں ہے:
”بقدر ذراع“ بیان لاقلہا: والظاہر ان المرادبہ ذراع الید کما صرح بہ الشافعیة وہو شبران“۔ (ج:۱‘ص:۶۳۷)
بدائع الصنائع میں ہے:
”وقیل ینبغی ان یکون فی غلظ اصبح لقول ابن مسعود یجزئ من السترة السہم‘ ولان الغرض منہ المنع من المرور‘ ومادون ذالک لایبدو للناظر من بعیدفلایمتنع“۔ (ج:۱‘ص:۲۱۷)
الفقہ الاسلامی وادلتہ میں ہے:
”ادنی السترة طول ذراع (۲-۴۶) فصاعداً وغلظ اصبع لقولہ ا: ”اذا جعلت بین یدیک مثل مؤخرة الرحل فلا یضرک من مر بین یدیک وقدرت العنزة التی کان یصلی الیہا النبی ا بذراع طولا‘ ویعتبر الغرز دون الالقاء والخط“۔ (ج:۱‘ ص:۷۵۴)
تنبیہ:
نمازی کے لئے یہ مناسب ہے کہ سترہ اپنی دائیں بھووں یا بائیں بھووں کے سامنے رکھے‘ بالکل سیدھ میں نہ رکھے تاکہ بت پرستی کے ساتھ مشابہت لازم نہ آئے‘ لیکن دائیں جانب رکھنا افضل ہے۔الدر المختار میں ہے:
”علی“ حذاء ”احد جانبیہ“ ما بین عینیہ والایمن افضل“ ۔ (ج:۱‘ ص:۶۳۷)
الفقہ الاسلامی وادلتہ میں ہے:
”السنة باتفاق المذاہب الاربعة ان یمیل المصلی عن السترة یمیناً او یساراً بحیث لایقابلہا ولایصمد لہا صمداً ای لایجعلہا تلقاء وجہہ لما روی ابوداؤد عن المقدام بن الاسود قال رأیت رسول اللہ ا صلی الی عود او الی عمود ولاشجرة الا جعلہ علی حاجبہ الایمن او الایسر ولایصمد لہ صمداً ای لایستقبلہ وسطاً“۔ (ج:۱‘ص:۷۵۸)
۵- سترہ کا مصداق
ہر وہ چیز جسے نمازی کے سامنے کھڑا کیا جائے اوراس میں مندرجہ بالا اوصاف پائے جاتے ہوں تو وہ سترہ بن سکتی ہے‘ لہذا حسب ذیل اشیاء کو سترہ بنایا جاسکتا ہے: ۱- دیوار یا ستون کو سترہ بنایا جاسکتا ہے۔۲- لکڑی‘ لوہا اور ان سے بنی ہوئی دیگر اشیاء کو سترہ بنانا درست ہے۔۳- مرد کی پیٹھ کو سترہ بنانا درست ہے۔۴- سترہ کی ”مطلوبہ مقدار“کے موافق کوئی بھی چیز ہو‘ اسے سترہ کے طور پر استعمال کرسکتے ہیں‘ اس سترہ کا پاک ہونا بھی ضروری نہیں ہے۔ اس کے علاوہ بعض اشیاء کو سترہ بنانا مکر وہ تحریمی ہے‘ لہذا وہ سترہ کا مصداق نہیں بن سکتیں‘ ان میں سے بعض درج ذیل ہیں:
۱- کسی انسان کے چہرے والے حصے کو سترہ بنانا مکروہ تحریمی ہے۔۲- آگ کو سترہ بنانا بھی ناجائز ہے۔۳- ذی روح کی تصاویر کو سترہ بناکر نماز پڑھنا مکروہ تحریمی ہے۔۴- اس عورت کی طرف رخ کر کے نماز پڑھنا مکروہ ہے جو عورت خود نماز پڑھ رہی ہو۔الفقہ الاسلامی وادلتہ میں ہے:
”اتفق الفقہاء علی انہ یکرہ ان یصلی مستقبلا وجہ انسان‘ لان عمر ادب علی ذالک ․․․‘ والکراہة فیہ عند الحنفیة تحریمیة‘ ویکرہ اتفاقاً ان یصلی الی نار من التنور وسراج وقندیل وشمع ومصباح ونحوہا‘ لان النار تعبد من دون الله فللصلاة الیہا تشبہ الصلاة لہا‘ وتکرہ الصلاة الی صورة منصوبة فی وجہک لان الصورة تعبد من دون اللہ“۔ (ج:۱‘ ص:۷۵۷)
بدائع الصنائع میں ہے:
”ہذا اذ لم یکن بینہما حائل کالاسطوانة ونحوہا‘ فاماان کان بینہما حائل فلابأس بالمرور فیما وراء الحائل‘ والمستحب لمن یصلی فی الصحراء ان ینصب بین یدیہ عودا او یضع شیئا․․․‘ وروی ان العنزة کانت تحمل مع رسول اللہ ا“۔ (ج:۱‘۲۱۷)
۶- نمازی کے سامنے سے گزرنے کا حکم
نمازی سامنے سے گزرنے کی متعدد صورتیں ہیں‘ جن میں سے بعض جائز صورتیں درج ذیل ہے:
۱- بڑی مسجد اور کھلے میدان میں نمازی سے اتنے فاصلہ پر گزرنا جائز ہے کہ نمازی کی نظر جب سجدہ کی جگہ پر ہو تو گزرنے والے پر نظرنہ پڑے۔ اس کا عام اندازہ یہ ہے کہ نمازی کے کھڑے ہونے کی جگہ سے دو صف چھوڑ کر آگے سے گزر سکتا ہے اور بڑی مسجد وہ کہلاتی ہے جس کا طول اور عرض ہرایک بیس گز سے کم نہ ہو۔ ۲- چبوترہ یا تخت یا اس کے علاوہ کسی اونچی جگہ پر نماز پڑھنے والے کے سامنے سے گزرنا جائز ہے جبکہ نمازی کے قدم گزرنے والے کے سر سے اونچے ہوں یعنی وہ جگہ گزرنے والے کے سر سے اونچی ہو۔
۳- اسی طرح اگر نماز پڑھنے والا نیچے ہو اور سامنے گزرنے والا کسی اونچی جگہ پر ہو تو بھی گزرنا جائز ہے بشرطیکہ گزرنے والے کے پاؤں بھی نمازی کے سر سے اونچے ہوں اور پاؤں نمازی کے سر کے سامنے نہ ہوتے ہوں۔
۴- اگر اگلی صف میں جگہ خالی چھوڑ کر کوئی شخص پیچھے صف میں کھڑا ہوگیا تو بعد میں آنے والے شخص کے لئے جائز ہے کہ وہ اگر کوئی اور جگہ نہ پائے تو نمازی کے سامنے سے گزر کر اگلی صف میں جگہ کو پر کرلے۔
۵-جو شخص نمازی کے بالکل سامنے بیٹھا ہو وہ دائیں یا بائیں ہوکر نکل سکتا ہے‘ البتہ نمازی کے سامنے سے پہلو موڑے بغیر گزرنا منع ہے‘ سخت گناہ ہے۔ ۶- نمازی کے سامنے کوئی شخص پشت کئے بیٹھا ہو تو بیٹھے ہوئے شخص کے سامنے سے دوسرے لوگ گزر سکتے ہیں اور بیٹھا ہوا شخص بمنزلہ سترہ کے ہوگا۔ ۷- نمازی کے سامنے سترہ موجود ہو تو اس سترہ کے آگے سے گزرنا جائز ہے۔
۸- طواف کرنے والے کے لئے جائز ہے کہ وہ نمازی کے سامنے سے گزرجائے۔نمازی کے سامنے سے گزرنے کی بعض ناجائز صورتیں مندرجہ ذیل ہیں:
۱- جو مسجد چھوٹی ہو یعنی اس کا طول اور عرض ہرایک بیس گز سے کم ہو اس میں سترہ کے بغیر نمازی کے آگے سے گزرنا مکروہ تحریمی ہے‘ اگرچہ دویا زائد صفوں کا فاصلہ چھوڑ کر ہی گزرے۔
۲- چبوتر ا‘ تخت یا اس کے علاوہ کسی اونچی جگہ پر نماز پڑھنے والے کے سامنے سے گزرنا مکروہ تحریمی ہے‘ جبکہ گزرنے والے کا کوئی عضو نمازی کے کسی بھی عضو کے سامنے ہوتا ہو۔
۳- اسی طرح اگر نماز پڑھنے والا نیچے ہو اور سامنے سے گزرنے والا کسی اونچی جگہ پر ہو لیکن گزرنے والے کے پاؤں نمازی کے سر کے سامنے ہوتے ہوں تو بھی اس کے سامنے سے گزرناجائز نہیں ۔
الدر المختار میں ہے:
”ومرور مار فی الصحراء او فی مسجد کبیر بموضع سجودہ“ فی الاصح ”او“ مرورہ ”بین یدیہ“ الی حائط القبلة ”فی“ بیت و”مسجد“ صغیر فانہ کبقعة واحدة ”مطلقاً“ ولو امرأة او کلبا ”او“ مرورہ ”اسفل من الدکان امام المصلی لو کان یصلی علیہا“ ای الدکان ”بشرط محاذاة بعض اعضاء المار بعض اعضائہ‘ وکذا سطح وسریر وکل مرتفع“ دون قامة المار‘ وقیل دون السترة کما فی غرر الاذکار ”وان اثم المار“ ․․․” فی ذالک“ المرور بلاحائل ․․․‘ ولو کان فرجة فلداخل ان یمر علی رقبة من لم یسدہا‘ لانہ اسقط حرمة نفسہ۔ فتنبہ۔
بدائع الصنائع میں ہے:
”ہذا اذا لم یکن بینہما حائل کالاسطوانة ونحوہا فاما ان کان بینہما حائل فلابأس بالمرور فیما وراء الحائل“۔ (ج:۱‘ص:۲۱۷)
الفقہ الاسلامی وادلتہ میں ہے:
”اتفق الفقہاء علی انہ یجوز المرور بین یدی المصلی للطائف بالبیت“۔ (ج:۱‘ص:۷۶۱)
اشاعت ۲۰۰۹ ماہنامہ بینات , صفرالمظفر ۱۴۳۰ھ - فروری ۲۰۰۹ء, جلد 72, شمارہ 2

    پچھلا مضمون: نقدونظر
Flag Counter