Deobandi Books

ماہنامہ البینات کراچی صفرالمظفر ۱۴۳۰ھ - فروری ۲۰۰۹ء

ہ رسالہ

6 - 11
اساتذہٴ کرام کا ادب واحترام
اساتذہٴ کرام کا ادب واحترام

ہمارا نظام تعلیم اگرچہ بے شمار خوبیوں اور صفات کا حامل ہے‘ لیکن دور حاضر میں ان مدارس سے فیض یاب لوگوں کے ساتھ جو امید کی کرنیں وابستہ ہیں اور ان سے مفید نتائج کی جو توقع دل میں جائے گیر ہے وہ شاید کار آمد ثابت نہیں ہو رہی، حتی کہ بعض اوقات دینی مدارس اور مذہبی مراکز میں ایسے واقعات رونما ہوتے ہیں کہ جن سے اہل علم اور ذی شعور لوگوں کا سر شرم وندامت کی وجہ سے جھکنے پر مجبور ہوجاتا ہے۔
طلباء کی نظر میں اساتذہ کی قدر ایک ملازم کی سی ہوکر رہ گئی ہے ‘ اگر میں یوں کہوں تو برانہیں ہوگا کہ ہمارے عزیز طلباء کالجوں اور یونیورسٹیوں میں پڑھنے والے طلباء کے نقش قدم پر چلتے نظر آتے ہیں اور ایک عرصہٴ دراز تک مدارس میں اساتذہ کی زیر نظر اور نگرانی میں رہ کر بھی کچھ بن نہیں پاتے اور جب عملی زندگی کے میدان میں قدم رکھتے ہیں تو اپنے آپ کو جداگانہ اور ناکام محسوس کرتے ہوئے لبوں کو یہاں تک جسارت دیدیتے ہیں کہ ہم نے تو مدارس میں رہ کر اپنے وقت کا ضیاع کیا۔ آخر کیوں؟ قارئین کرام! یہ سوال ہر صاحب علم اور ملت کے ہر دردمند مسلمان کے دل میں جگہ پکڑے ہوئے ہے اور اس کو حل کرنے کے لئے سب ہی سرنگوں ہیں۔ حقیقت میں کوئی کام کتنا ہی عظیم اور مفید تر کیوں نہ ہو اگر اس کے صحیح اسباب سے صرف نظر اور روگردانی برتی جائے اور اس کے حصول میں جو موانع ہیں ان سے اپنے دامن کو داغدار کرلیا جائے تو وہ مفید نتائج وثمرات معرض وجود میں نہیں آسکتے جن کی ان سے توقع اور امید کی جاتی ہے۔ صحیح اسباب اور ارتفاع موانع متوقع نتائج کے لئے روح کا درجہ رکھتے ہیں ،جن سے آج کے مدارس کافی حد تک ویران پڑے نظر آتے ہیں۔ کیوں نہ انہی اسباب صحیحہ میں سے ایک سبب کا تذکرہ آپ کے گوش وگزار کروں کہ جس کو تعلیمی ترقی کے لئے بڑی مقبولیت کا شرف حاصل ہے‘ وہ ہے اساتذہ ٴ کرام کا ادب۔
قارئین کرام! اساتذہ ٴ کرام کا ادب واحترام ایک طالب علم کو کامیاب انسان اور امت کا پیشوا وراہنما بنا سکتا ہے‘ ایسے طلباء بعد میں دین کی اشاعت کرتے ہیں جن سے ہزاروں بندگانِ خدا کو ہدایت ملتی ہے اور وہ زمین پر مانند ستاروں کے ہوتے ہیں، ان کی صحبت میں ایسا سحر اور جادو ہوتا ہے کہ ان کی مجلس میں بیٹھ کر ہزار ہا برس کا پاپی گناہوں سے توبہ کرکے خدا تعالیٰ کی معرفت کا نور دل میں سمالیتا ہے‘ ان کی فراست سے بڑے بڑے پیچیدہ مسائل حل ہوجاتے ہیں‘ وہی علوم کہ جن کو پڑھ کر حضرت مولانا قاسم نانوتوی‘ حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی‘ حضرت مولانا شبیر احمد عثمانی‘ حضرت مولانا محمد اشرف علی تھانوی‘ حضرت مدنی جیسے سینکڑوں ایسے درخشندہ ستارے پیدا ہوئے کہ جن سے ایک عالم خوب سیراب ہوا، اور جو علم وہدایت کے آفتاب وماہتاب بن کرچمکے۔ ان کا لائحہ عمل کیا تھا کہ جس نے ان کو اس شان کا مستحق ٹھہرایا؟ تو نظر وفکر کرنے سے یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہوجائے گی کہ اس میں اساتذہ ٴ کرام کے ادب واحترام کا بڑا دخل تھا۔کیا بعید ہے کہ اگر آج بھی طلباء کرام اپنے اساتذہ ٴ کرام کے ادب واحترام سے نا آشنانہ ہوں تو وہ بھی دنیا کے مقتدا وپیشوا بن کر اجاگر ہوں۔
عربی کا ایک مقولہ مشہور ومعروف ہے : ”العلم کلہ ادب“ کہ علم سارا کا سارا ادب ہے‘ جو وقت کا امام‘ مفسر‘ محدث اور لوگوں کو اپنے علم سے سیراب کرنے کا ذریعہ بنا تو وہ اساتذہ ٴ کرام کے ادب واحترام کی وجہ سے بنا۔ حضرت علی  کا فرمان ہے کہ:” میں غلام ہوں اس شخص کا جس نے مجھے ایک حرف بھی سکھایا، چاہے تو وہ مجھے بیچ دے یا غلام بنالے“۔
غرض جس طالب علم نے بھی علم وعمل کی بلند وبالا چوٹیوں پر اپنا نشیمن قائم کیا تو ایسا ادب واحترام کی بدولت ہی ممکن ہوا۔ لہذا اگر کوئی طالب علم چاہتاہے کہ اس کے علم سے خلقِ خدا بہرہ مند ہو اور اس کا فیض چار دانگ عالم میں پھیلے تو اس کو ادب واحترام کا دامن لازم پکڑنا ہوگا۔
اشاعت ۲۰۰۹ ماہنامہ بینات , صفرالمظفر ۱۴۳۰ھ - فروری ۲۰۰۹ء, جلد 72, شمارہ 2

    پچھلا مضمون: سترة کے احکام
Flag Counter