Deobandi Books

ماہنامہ البینات کراچی صفرالمظفر ۱۴۳۰ھ - فروری ۲۰۰۹ء

ہ رسالہ

10 - 11
عمدہ ترین وجہ اعجاز کا بیان
عمدہ ترین وجہ اعجاز کا بیان
قرآن کریم کی وجہ اعجاز:
جان لینا چاہئے کہ حضرات علمائے بلاغت نے قرآن کریم کی مختلف وجوہ اعجاز ذکر فرمائی ہیں، جن میں سے اکثر صحیح ہیں،اگرچہ ان وجوہ کے مراتب میں تفاوت ہے۔ میرے نزدیک سب سے باطل وجہ اعجاز وہ ہے جو نظام معتزلی نے بتلائی ہے ،وہ کہتا ہے کہ:
”قرآنی اعجاز بوجہ ”صرفة“ کے تھا یعنی اللہ تعالیٰ نے فصحائے عرب کی مقدرت معارضہ ٴ قرآنی کو سلب فرما لیا تھا اور ان کی عقول کو اس کے مقابلہ سے کوتاہ کردیا تھا، اگرچہ فی ذاتہ اس کا معارضہ ممکن تھا لیکن اس خارجی مانع نے ان کو اس معارضہ ومجادلہ سے پابند کردیا اور اسی وجہ سے قرآن کریم معجز ٹھہرا۔“
نظام معتزلی کی اس رائے کا فساد کسی تنبیہ کا محتاج نہیں ، اس لئے کہ اس قول کے کئی مفاسد ہیں جو نمایاں ہیں، قاضی عیاض مالکی نے بیان کردہ مختلف وجوہ صحیحہ کو چار انواع میں تقسیم فرمایا ہے:
نوع اول: قرآن کریم کی حسن تا لیف وتنظیم ،کلمات قرآنی کا ربط وتعلق، فصاحت بیان سے متعلقہ وجوہ اعجاز اور عرب کے شہسوار ان بلاغت کی عادت کے متناقض ومتباین متحیر العقول بلاغت ۔اس نوع کا خلاصہ یوں ہوا کہ بعض وجوہ صحیحہ قرآن کریم کی فصاحت وبلاغت کے پیش نظر بیان کی گئیں ہیں۔
نوع ثانی: تدوین وتنظیم کی انوکھی صورت‘ اسالیب عرب کے مخالف نرالا اسلوب ِکلام۔
نوع ثالث: غیب کی خبریں اور آئندہ کی پیشین گوئیاں جو محقق ثابت ہوکر رہیں۔
نوع رابع: گذشتہ صدیوں میں ہلاک شدہ اقوام وامم، اور وہ شرائع جن کے آثار مٹ چکے تھے ان کے متعلق خبردینا ،باوجود یکہ جس پر یہ نازل ہوا وہ امی محض تھا ،لکھاپڑھا نہ تھا، اور یہ ایسے قصص تھے جن میں فقط ایک قصہ کا علم بھی صرف اسی چنیدہ اہل کتاب کے عالم کو حاصل ہوسکتا تھا جس نے ساری عمر تعلیم وتعلم میں گذاردی ہو۔انتہی ماقالہ ملخصا
پھر قاضی عیاض نے ان چاروں وجوہ اعجاز کی ایسی تفصیل وتوضیح فرمائی ہے جو قلوب کے لئے سامان شفا اور آنکھوں کو جلا بخشتی ہے ۔موصوف کی ذکر کردہ تمام تفصیلی مباحث بالکل درست ہیں ،راقم کی رائے تو ابن سراقہ کی کہی اس بات کے موافق ہے کہ: مفسرین علمائے کرام ان وجوہ اعجاز کے عشر عشیر کو بھی دریافت نہیں کرسکے۔
میں کہتا ہوں کہ: قرآن کریم کی منجملہ وجوہ اعجازکے یہ بھی ہے کہ وجوہ اعجاز کبھی بھی ختم نہ ہو سکیں گی، بلکہ جوں جوں زمانہ آگے بڑھتا رہے گا ان وجوہ اعجاز میں مسلسل اضافہ ہوتا ہی رہے گا، اور وہ وجوہ اعجاز ظاہر ہوں گی جو گذشتہ زمانوں میں آشکارا نہ ہوئی ہوں گی۔
کالبدر من حیث التفت رأیتہ
یھدی إلی عینیک نورا ثاقبا
ترجمہ:۔”جیساکہ چمکتا چاند جہاں کو تو رخ کرلے تو ا س کو دیکھے گا کہ تیری آنکھوں کو وہ چمکتا نور دکھلائے گا۔“
کالشمس فی کبد السماء وضوء ھا
یغشی البلاد مشارقا ومغاربا
ترجمہ :۔”جیساکہ آسمان کے وسط میں چمکتا آفتاب، جس کی روشنی نے مشارق ومغارب کے شہروں کو ڈھانپ لیا ہو۔“
لیکن جس وجہ اعجاز کے ذریعے عرب کے بلغاء وخطباء کو چیلنج کیا گیا تھا اور جس کے مقابلے ومعارضے کی ان کے شہسواران ادب وبیان اور شعراء کو دعوت دی گئی تھی وہ قرآن کریم کی بلاغت وفصاحت سے بھر پور نرالی عبارات اور اس کا لطافت وسلاست آمیز اسلوب ہے ،اس لئے کہ وہ لغت عرب میں فصیحانہ شان رکھتے تھے اور خطبہ وبیان کے ماہر تھے، اس فصاحت وبلاغت کو وہ اپنی ذوقی اور وجدانی کیفیات کی بناء پر خوب پہنچانتے تھے اور میدان فصاحت میں معرفت کا مرتبہ رکھتے تھے، ان کو اس بلاغت کے متعلق کسی قسم کا شبہ والتباس اور شائبہ وسوسہ نہ کھٹکتا تھا، یہی وہ وجہ تھی جس کی بناء پر ان کو چیلنج کیا گیا تھا۔ جمہور علماء کی یہی رائے ہے ۔ابن عطیہ فرماتے ہیں کہ:
”صحیح تر وجہ جس پر جمہور ماہرین علماء کا اتفاق ہے یہ کہ قرآن کریم کی حقیقی وجہ اعجاز، قرآنی نظم وبیان، معانی ومفاہیم کی درستگی اور کلمات قرآنی کی پے درپے فصاحت وبلاغت ہے۔“
چنانچہ جب وجہ اعجاز قرآنی کے معاملہ کا مدار فصاحتِ عبارت اور بلاغتِ نظم پر ہے تو اب میدان کار وسیع ہے اور مجال بحث خوب کشادہ ہے اور قرآن مجید کی خدمت کے لئے سب سے لائق اسی جہت اعجاز سے بحث کرنا معلوم ہوتا ہے، لیکن اس جہت اعجاز کو مضبوط ومنظم طور پر بیان کرنا -جیساکہ قاضی باقلانینے فرمایا -ان علوم وفنون میں تقدم وتفوق کے بعد حاصل ہوگا جو لائقِ التفات ،قابلِ قدر ‘ تنگ راہ اور لطیف ماٰخذ کے حامل ہیں۔
اسی بناء پر اس وجہ اعجاز کی درست معرفت امت مرحومہ کے چنیدہ خواص ہی کو حاصل ہوئی ہے، بلکہ ایک مشہور کہاوت ومَثل زبان زد ہوچکی ہے کہ:
”لم یدر اعجاز القرآن الا الاعرجان“
ترجمہ:۔”قرآن کریم کی وجوہ اعجاز صرف دو اپاہج شخصوں کو ہے۔“
ان دونوں شخصیات سے مراد صاحب ”دلائل الاعجاز“ علامہ عبد القاہر جرجانی اور صاحب تفسیر”الکشاف“ علامہ جار اللہ محمود زمخشری ہیں ،اس مقولہ کے ساتھ ہمارے شیخ امام العصر حضرت استاذ محمد انور شاہ کشمیری نے ایک مزید جملہ تعلیق فرمایا ہے، انہوں نے فرمایا:
”احدہما من زمخشر والآخر من جرجان“
ترجمہ:۔”ان دونوں میں سے ایک زمخشرسے تعلق رکھتے ہیں اور دوسرے جرجان سے۔“
اور ان جیسے علماء کی کمیابی اسی وجہ سے ہے کہ وجہ متعلق بحث وتمحیص کا معاملہ بڑا پر خطر اور عظیم القدر ہے اور اس تک پہنچنا دشوار بھی ہے، کیونکر نہ ہو جبکہ علامہ باقلانی نے اپنی کتاب میں اصمعی کایہ قول نقل فرمایا ہے کہ:
”فرسان الشعراء اقل من فرسان الحرب“
ترجمہ:۔”شہسواران شعر وبیان‘ شہسواران جنگ سے کم ہیں ۔“
اور ابوعمرو بن العلاء سے یہ قول نقل فرمایا ہے کہ:
”العلماء بالشعر أعز من الکبیریت الاحمر“
ترجمہ:۔”شعر وبیان سے واقف کار علماء کبریت احمر سے بھی زیادہ نایاں ہیں ۔“
باقلانی فرماتے ہیں کہ:
”جب ایک متعارف ومتداول کلام میں درست وغلط کی تمیز اور اس پر نقد ونظر مشکل ہوتا ہے اور بہت سے یہاں ناقدین وتبصرہ نگار اس کے محاسن کے ادراک سے درماندہ وعاجز ٹھہرتے ہے، کبھی کلام کے قبح کو بنظر حسن دیکھتے اور کبھی کلام کے حسن کو بنظر قبیح ونقد دیکھتے ہیں۔ پھر مختلف عمدہ عبارات میں ترجیح کے معیار پر احسن فالاحسن کی تلاش میں خوب اختلاف ہوتا اور عمدہ ترین کلام کی تعیین وتشخیص میں آراء متضاد ہوجاتیں ،جب ایک عام متعارف کلام کا یہ حال ہوتا ہے تو پھر ایسے کلام میں جس پر ان کا علم محیط نہ ہو، ان کی مقدرت بیانی عاجز اور ان کے خیال وخاطر میں بھی اس جیسا کلام نہ آئے، اس کے متعلق کیونکر حیران وسرگردان نہ ہوں گے …الخ۔“
چونکہ ہمارے شیخ حضرت کشمیری ”مشکلات القرآن“ کے حل میں اپنے زمانہ میں اپنی مثال آپ تھے اور گذشتہ صدیوں کے چنیدہ بزرگوار علماء کی نظیر تھے ،اللہ رب العزت موصوف میں ایسی خصوصیات جمع فرمادی تھیں‘ جن کا ایک شخصیت میں اجتماع کمیاب تھا ،اس لئے موصوف محترم بھی اعجاز القرآن کی خوب معرفت رکھتے تھے اور ان کا قلب ان وجوہ اعجاز کے متعلق خوب مطمئن تھا اور گذشتہ مقولہ ”لم ید راعجاز القرآن الا الاعرجان“ کے ساتھ کبھی کبھی یوں فرمادیا کرتے تھے کہ میں، ان دوشخصیات کا تیسرا شخص ہوں اور فرمایا کرتے تھے کہ: نظم قرآنی کا اعجاز میرے لئے مشرق میں طلوع ہونے والے آفتاب سے زیادہ واضح ہے جس میں کسی شک وشبہ کی گنجائش نہیں‘ بلکہ سورج کا طلوع ہونا تو مشتبہ ہوسکتا ہے اس طور پر کہ جوٹکیہ افق میں نمایاں ہورہی ہے وہ اس ٹکیہ کا پر تو اور عکس ہے، جیساکہ جدید سائنسی تحقیق نے واضح کیا ہے کہ سورج کے اپنے حقیقی افق سے طلوع ہونے سے چند ساعات قبل جو ٹکیہ نظر آتی ہے وہ اس حقیقی ٹکیہ کا عکس ہوتا ہے ۔
حضرت شیخ کشمیری اس کو آسانی سے سمجھنے کے لئے ایک مثال دے کر سمجھایا کرتے تھے کہ نقرئی درہم کے ایک سکہ کو ایک ہنڈیا میں ڈال کر اتنے فاصلے پر رکھا جائے کہ وہ درہم نظر نہ آسکے پھر اس ہنڈیا کو پانی سے بھر دیا جائے تو درہم کا عکس آپ کو اس کی سطح پر نمایاں نظر آئے گا ۔
بہرحال ممکن ہے کہ آفتاب کی ٹکیہ کے طلوع میں شک وشبہ کو دخل ہو لیکن قرآن کریم کا اعجاز اس قدر یقینی ہے کہ اس میں ذرہ بھر شک کی گنجائش نہیں اور اس قدر سینہ کو ٹھنڈا کرتا ہے کہ کسی قسم کی حیرت وسرگردانگی کو دخل نہیں ہوتا، دل اس اعجاز پر مطمئن ہوتا ہے اورآنکھیں فرحت وسرور پاتی ہیں۔میرے نزدیک یہ اعجاز برتن کے شگاف اور سورج کے طلوع سے بھی زیادہ نمایاں وآشکارا ہے۔
اس بات میں کوئی شک نہیں کہ علوم بلاغت میں حضرت کشمیری کی مہارت اور ان کا کمال بہت بلند مرتبہ ومقام رکھتا تھا، جس مرتبہ کی بلندی تک پہنچنا بہت دشوار ہے ،بلاغت وفصاحت تو موصوف کے رگ وپے میں بسی ہوئی تھی اور فرمایا کرتے تھے کہ: بلاغت وفصاحت کو پہچاننے کے لئے اللہ رب العزت نے میرے دل میں ایک معیار ودیعت فرما رکھا ہے، میں اس معیار بلاغت کی پہچان میں کسی کا مقلد ومتبع نہیں ہوں اور مجھے بلاغت کلام کے متعلق ایسی بصیرت عطا فرما رکھی ہے جس سے میں مراتب بلاغت کا ادراک کرتا ہوں ۔
بہت سی مرتبہ میں نے خود شیخ کو دیکھا کہ قرآنی تعبیر سے ان کو وجد ونشاط طاری ہوجاتا تھا اور اس طرح جھوم جایا کرتے تھے جس طرح چڑیا پر بارش کے قطریں پڑیں تو وہ جھوم جایا کرتی ہے۔ شیخ محترم قرآن کی حلاوت وطراوت سے خوب لطف اندوز ہوتے تھے اور اس طراوت کی تمازت ان کے قلب و روح میں اس طرح سرایت کرتی تھی جس طرح بدن میں روح سرایت کئے ہوئے ہے اور قرآنی تعبیر کی رونق اور چاشنی سے خوب متعجب ومتحیر ہوجایا کرتے تھے۔ اور فرمایا کرتے تھے کہ: قرآن کریم کی تفسیر سے متعلق سب سے زیادہ اہم یہ ہے کہ قرآن کریم کی جلالت وجزالت شان کے تقاضے کو برقرار رکھتے ہوئے قرآن کریم کے مقصد ومطلب کو واضح کیا جائے۔ اس طور پر کہ اسکا معجز اورنظم وتعبیر اپنی فطری سادگی وخوش اسلوبی پر برقرار رکھا جائے اورایسے مختلف تکلفات وتقدیرات نکالنے سے پرہیز کیا جائے جو قرآن کریم کی عمدہ معجز نظم کے مناقض ہیں، اس لئے کہ: قرآنی عبارات میں تکلفات برتنا اور تقدیری کلام نکالنا ان تعبیرات کو اس بلند وبالا مقام ومرتبہ سے گرانا لازم آتا ہے جس کے درپے کوئی منزل باقی نہیں رہی ہے، اور نہ اس کے بعد کوئی ہدف ِ انتہاء ہوسکتی ہے۔
رتب تقصر الأمانی حسری
دونھا ماوراء ھن وراء
ترجمہ:۔” ایسے مراتب ومنازل ہیں جن تک پہنچنے سے امیدیں حیرت زدہ ہیں اور جن کے وراء الوراء کچھ باقی نہیں بچا ہے۔“
حضرت شیخ کشمیری کی اس بات کی تائید علامہ زمخشری کے اس فرمودہ بیان سے بھی ہوتی ہے کہ:
”عالی مرتبت کلام خداوندی اور کلام معجز کی تفسیر کرنے والے پر یہ لازم ہے کہ اس کے نظم وتعبیر کو وہ اس کے حسن پر باقی رکھتے ہوئے اس کی بلاغت کو یو نہی کامل ومکمل برقرار رکھے اور جس نظم کے ذریعے تحدی واقع ہوئی ہے اس کو قدح وطعن سے سلامت رہنے دے۔“
بعض مفسرین نے یوں فرمایا ہے کہ:
”اس طرز وانداز (یعنی کلام اللہ کی نظم کو تکلفات وتقدیرات سے خالی کرکے غرض قرآنی کو بیان کرنا) کو مختلف پہلوؤں سے اچھی طرح جان لینا، اس مفسر کے لئے جو کلام اللہ کے عجائب پر مطلع ہونے کا خواہاں ہو، بے حد ضروری ہے۔ اس طرز وانداز کو جان لینا ہے فصاحت کا اہم مزین قاعدہ اور بلاغت کے ہار کا درمیانی قیمتی موتی ہے۔“
حضرت کشمیری شیخ ابراہیم بن عمر بقاعی متوفی ۸۸۵ھ (جو ابن حجر عسقلانی کے اجلاساتھیوں میں سے ہیں )کی تصنیف کردہ ”نظم الدرر فی تناسب آراء والسور“ کی بہت تعریف فرمایا کرتے تھے اور اس عالی مرتبت جہت‘ فصاحت وبلاغت کے متعلق لکھی گئی معروف ومتداول تفاسیر پر اس کو فوقیت دیا کرتے تھے اور فرمایا کرتے تھے کہ:
”بشری وسعت وطاقت کے بقدر مصنف نے اس موضوع کا حق ادا کردیا ہے“
حضرت کی خواہش تھی کہ یہ کتاب زیور طبع سے آراستہ ہوجائے اور مکتبہ مصریہ کے حضرات نے اس کے عکس لینے کا بھی ارادہ فرما رکھا تھا ،لیکن اس امید کے درمیان اجل مقررہ حائل ہوگئی اور اسی طبع کی اپنے دل میں حسرت لئے جہان ِفانی سے رخصت ہوگئے۔ حضرت کی یہ تمنا اور پھر آرزو برآری سے قبل آپ کی وفات اس شعر کی مصداق تھی :
ولم یتفق حتی مضی لسبیلہ
وکم حسرات فی بطون المقابر
ترجمہ:۔”اس شخص کی امید کے مطابق کوئی اتفاق نہ ہو سکا یہانتک کہ وہ اپنی منزل کو چلا گیا (یعنی وفات پاگیا) اور کتنی حسرتیں قبروں میں خاک بوس ہوگئیں۔“
اسی طرح ذو القروح الملک الضلیل کے اس شعر کی مصداق بنی۔
وما المرأ ما دامت حشاشة نفسہ
بمدرک اطراف الخظوب ولا ال
ترجمہ:۔”جب ایک نفس خوش عیش اور مطمئن رہتا ہے تب تک وہ صاحب خوش نفس نہ حوادث زمانہ کی واقفیت رکھتا ہے اور نہ تجربہ کار بن سکتا ہے۔“
پروردگار عالم کا فرمان عالیشان ہے: ”ام للانسان ما تمنٰی فللّٰہ الاخرة والاولیٰ۔اب میں قرآنی اعجاز‘ نظم قرآنی کی امتیازی حیثیت مختلف حادثات وسانحات کے بیان میں قرآنی آداب اور خصوصیات اور قرآنی لطائف واسرار کے متعلق حضرت شیخ کشمیری کی وہ چند ابحاث ذکر کئے دیتا ہوں جو میں نے شیخ سے براہ راست سنی یا بالواسطہ شیخ کے ان علوم تک میری رسائی ہوئی ،تاکہ گذشتہ سطور میں راقم کی شیخ کے متعلق تعریف وتوصیف کی واقعیت معلوم ہوجائے اور مشکلات القرآن کے موضوع کے متعلق اور دیگر قرآنی علوم ومعارف کے متعلق آپ کو حضرت شیخ کشمیری کی عالی منزلت ومرتبت کا علم ہوجائے، اور جس کتاب پر مقدمہ تحریر کرنے کی راقم نے جسارت کی ہے، اس کتاب کی امتیازی قدر وحیثیت کی واقفیت حاصل ہوجائے، بعد ازاں آپ حضرت شیخ کی ذکر کردہ ابحاث کا علمائے امت کے اعجاز قرآنی کے متعلق مختلف اقوال اور دیگر قرآنی موضوعات کے متعلق علمائے اسلاف کی تصانیف اور ان کی پیش کردہ ابحاث سے تقابل کر لیجئے، جس سے آپ کے لئے مسائل قرآنی کا سمجھنا مزید آسان اور مہم مسائل واضح ہوجائیں گے اور خوب بصیرت افروزی سے آپ حق وباطل اور صحیح وغیر صحیح کے درمیان فرق وامتیاز کر سکیں گے۔
یہ موضوع (یعنی اعجاز قرآنی) ان تمام گذشتہ موضوعات میں سب سے اہم موضوع ہے، جن موضوعات قرآنی کے متعلق ماقبل میں راقم بحث رقم کر چکا ہے، اس لئے کہ یہ موضوع تنگ راہ‘ معنویت کے اعتبار سے لطیف اور انتہائی پوشیدہ حقیقت وحکمت رکھتا ہے، جس کے متعلق بحث کے لئے ادبی ذوق اورعقلی درایت کی بے حد ضرورت ہے، اور ساتھ ساتھ علوم بلاغت میں مہارت، خوب غور وخوض‘ فراغ قلبی اور باریک بین وباریک ادراک اورفکر وشعور کا حصول بھی ضروری ہے۔
لیکن حضرت کشمیری کا کلام انتہائی بلیغ اور انتہائی موجز ہوا کرتا ہے ،ابن اثیر نے نقل کیا ہے کہ حضرت علی نے فرمایا:
” میں نے کسی بلیغ کو نہ پایا مگر یہ کہ اس کے کلام وبیان میں ایجاز واختصار ہوا کرتا ہے اور معانی ومفاہیم میں وسعت وطوالت ہوا کرتی ہے ۔“
ہمارے شیخ عثمانی مصنف ”فتح المہلم شرح صحیح مسلم“ سے میں نے خود سنا کہ حضرت حکیم الامت مولانا محمد اشرف علی تھانوی فرمایا کرتے تھے کہ:
” حضرت شیخ کشمیری کا کبھی کبھار تو ایک جملہ ہی اپنی شرح وبسط کے لئے ایک رسالہ کا محتاج ہوا کرتا ہے ۔“
حضرت شیخ کشمیری کا بیان میں اس قدر ایجاز واختصار فرمانا ایسا تھا جیساکہ ابن الندیم نے اپنی کتاب الفہرست کے شروع میں تحریر فرمایا:
”کچھ نفوس مقدمات وقضیات کے بجائے نتائج کی طرف زیادہ توجہ دیتے ہیں اور غرض کلام اور مقصود وبیان سے مطمئن ہوتے ہیں ،نہ کہ عبارات کی تطویل سے “۔
یا جیساکہ خلیل بن احمد نے فرمایا کہ:
” چند ابواب علم ایسے ہوا کرتے ہیں کہ اگر ہم ان کی اس قدر تشریح وتوضیح کرنا چاہیں کہ ہر کس وناکس اس کو سمجھ سکے تو ہم ایسا کر سکتے ہیں،لیکن ضروری ہے کہ ہمارے بعد ایک عالم کی امتیازی حیثیت ہو ۔“
خلیل بن احمد کے اس قول کو ابن یعیش نے شرح المفصل میں نقل کیا ہے ،ابن یعیش اس قول پر تعلیق کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
”اس لئے ہرشخص جانتا ہے کہ جو شخص ایجاز واختصار میں بلاغت پر قدرت رکھتا ہے وہ تطویل واطناب میں بلاغت پر بھی قادر ہوگا۔“
چونکہ شیخ کشمیری کا طرز، اختصارِ عبارت کا تھا اور ان کا کلام مقدمات کی تمہید اور تفصیلی شرح وبسط سے خالی ہوا کرتا تھا، اس وجہ سے راقم اب ان کے اقوال کو بعض مقامات میں جہاں تشریح وتفصیل کی ضرورت ہے، شرح وبسط سے ذکر کرے گا اور اس شرح وبسط میں راقم کے پیش نظر ان کے اسی رسالے کی ابحاث ہوں گی یا وہ فہم جو توفیق خداوندی اور نصرت ایزدی سے راقم کو حاصل ہوا۔
اشاعت ۲۰۰۹ ماہنامہ بینات , صفرالمظفر ۱۴۳۰ھ - فروری ۲۰۰۹ء, جلد 72, شمارہ 2

    پچھلا مضمون: جن کی قبروں سے خوشبو مہک رہی ہے
Flag Counter