مذہبی درسگاہیں اورعصری فنون
مذہبی درسگاہیں اورعصری فنون ایک خط کا جواب
زیر نظر مضمون درحقیقت ایک خط کا جواب ہے‘ مُرسل نے ایک کتابچہ تحریر فرمایا ہے جس کا نام ”قرآن کریم محرّک برائے حصول علم عالمین“ رکھا ہے‘ اس رسالہ میں موصوف نے جدید وقدیم وسائل علم کی مدد سے ایک عمدہ کوشش فرمائی ہے۔ موصوف کا مدعا یہ ہے کہ تمام علوم قرآن کریم کی مرہونِ منت ہیں لوگوں کو صرف غور وتدبر کی ضرورت ہے‘ موصوف نے اپنی یہ کاوش جامعہ کے نائب مہتمم صاحب کو ایک خط کے ہمراہ پیش فرمائی‘ یہ خط اور اس کے جواب کا تعلق عصر حاضر کے ایک ایسے مغالطہ اور سوال سے ہے جو زبان زد خاص وعام ہے‘ اس لئے یہ خط بمع جواب کے افادہٴ عام کے لئے بینات کی اشاعت میں شامل کیا جارہا ہے۔ ادارہ
محترم ومکرم مولانا سید سلیمان یوسف بنوری قبلہ
السلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاتہ
میں اپنی تصنیف بعنوان ”قرآن حکیم محرّک برائے حصولِ علم ِعالمین“ آپ کی خدمت میں پیش کررہا ہوں‘ یہ کتاب امت کی پستی پر میرے دلی کرب کی مظہر ہے۔ کتاب میں یہ واضح کرنا مقصود ہے کہ مذہبی تعلیم کے ساتھ سائنس اور ٹیکنالوجی کی تعلیم بھی مذہبی فریضہ ہے۔ اس لئے کہ قرآن حکیم کے احکامات کی بجا آوری کے لئے سائنس اور ٹیکنالوجی کا علم لازمی ہے‘ اگر ہم نے اس حقیقت سے مزید غفلت برتی تو امت مزید پستی میں دھنستی چلی جائے گی۔ میں اپنی علمی کم مائیگی اور انسانی عقل کے محدود ہونے کو تسلیم کرتا ہوں‘ تاہم میں نے جو آیات پاک سے اخذ کیا‘ لکھ دیا‘ عین ممکن ہے کہ میری تشریحات میں اصلاح کی ضرورت ہو‘ اس لئے آپ جیسے جید عالم سے رہنمائی کی درخواست ہے۔ اللہ غفوررحیم کی معافی بے حد وحساب ہے۔ تعلیمی نظام پر فوری نظرِ ثانی امت کی اولین ضرورت ہے، مذہبی درسگاہوں اور کالج‘ یونیورسٹیوں میں روابط اور ان کے اساتذہ کرام وطلباء میں مسلسل گفت وشنید ضروری ہے، تاکہ کالج‘ یونیورسٹیوں کی تعلیم کو پابند قرآن کیا جاسکے اورمذہبی درسگاہوں میں سائنس اور ٹیکنالوجی کو متعارف کرایاجا سکے۔ نیز مذہبی درسگاہوں میں موجودہ حق بینی کے ذرائع مثلاً: مختلف مضامین کی تعارفی کتب اور انٹرنیٹ (جسے منسلک کتاب میں ”لغت کبیر“ کہا گیا ہے) مہیا کی جائیں‘ انٹرنیٹ کے لئے کمپیوٹر اور کمپیوٹر کے لئے انگریزی زبان لازمی ہیں۔
منسلک کتاب بہت ہی کم تعداد میں چھپوائی گئی ہے ،اسے فی الحال صاحبِ نظر خواتین وحضرات تک محدود کیا گیا ہے‘ تاکہ ان کے تأثرات کی روشنی میں کتاب کے مضامین پر نظرثانی کی جائے اور پھر اسے بڑے پیمانے پر شائع کیا جائے۔
مجھے قوی امید ہے کہ آپ اپنے قیمتی وقت سے تھوڑا سا وقت اس کتاب کے لئے وقف فرمائیں گے اور مجھے اپنے زریں تاثرات و خیالات سے آگاہ فرمائیں گے۔
مذہبی درسگاہوں اور کالج‘ یونیورسٹی (کراچی) کے روابط کے لئے ایک مجلس کی تجویز ہے‘ آپ سے درخواست ہے کہ آپ اپنی رضامندی سے نوازیں، تاکہ مزید اقدامات کئے جائیں۔
براہِ کرم میری گذارشات پر قوی ہمدردی سے غور فرمائیں اور اپنے مشوروں سے مستفید فرمائیں ۔
والسلام:
احقر نور الٰہی
بسم اللہ الرحمن الرحیم
گرامی قدر محترم جناب نور الٰہی صاحب!
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاتہ
آنجناب کا فکری خط اور تحریکی تألیف موصول ہوئی‘ آنجناب کی بنیادی فکر اور وقیع علمی وتحقیقی کوشش نہایت ہی قابل قدر اور لائق تحسین ہے‘ کتاب کو مختلف مقامات سے سرسری طور پر پڑھا اور دیکھا ۔ الحمد للہ! بنیادی فکر کو صائب پایا اور اس حقیقت کو الفاظ کے جامہ میں دیکھنے کا موقع پایا کہ قرآن کریم واقعةً تمام علوم وفنون کا محرک اور دعوت غور وفکر ہے‘ اور یہ کہ موصوف کی کوشش تدبر فی القرآن کی ایک اچھی مثال ہے‘ آنجناب کے فکری زاویہ سے میرے ذہن کی رسائی بھی قرآن کریم کے بعض تعمیری وتفکیری گوشوں تک ہوئی، مثلاً:
۱:۔قرآن کریم تفویضِ کار میں انسان کی بنیادی استعداد وصلاحیت کو ملحوظ رکھتا ہے:
”لایکلّف الله نفسا الا وسعہا“(بقرہ:۲۸۶)
۲:۔رجالِ کار کے درمیان تقسیم کار کے فلسفہ کی بنیاد فراہم کرتا ہے:
”ولتکن منکم امة․․․( آل عمران:۱۰۴)۔ فلو لانفر من کل فرقة منہم طائفة․․․․“(التوبہ:۱۲۲)
۳:۔ارباب فضل وکمال میں بھی بعض کو دوسرے بعض پر برتری ودرجہ بندی کی رعایت کرتا ہے۔
”فضلنا بعضہم علی بعض(بقرہ:۲۵۳) ورفعنا بعضہم فوق بعض درجٰت“ (الزخرف:۳۲)
۴:۔ خالق کائنات نے انسانوں میں مختلف خوبیاں رکھنے کے بعد ایک دوسرے کی خوبیوں ‘ مہارتوں اور تجربوں میں ایک دوسرے کی طرف ضرورتمندی وحاجتمندی کا نظام متعارف کرایا:
”لیتخذ بعضہم بعضاً سخریاً“ (زخرف:۳۲)
قرآن کریم کے ان تحریکی پہلوؤں سے معلوم ہوا کہ انسانیت کا مختلف شعبوں سے وابستہ ہوکر مختلف حیثیات میں اپنے اپنے فن اور میدان میں کمال تک بڑھنے کا سلسلہ‘ فطری ہونے کے علاوہ قرآنی فلسفہ سے ہم آہنگ بھی ہے‘ ایسی شخصیات بہت ہی کم ہوں گی جو تمام ترانسانی خوبیوں کے باوصف‘ زندگی کے ہرشعبہ میں بیک وقت بحسن وخوبی خدمت انجام دے سکیں۔ آنجناب کے خط کے مندرجات کی طرف آنے سے قبل ایک بات عرض کرنا مناسب معلوم ہوتا ہے کہ تعلیم وتعلم ایک شعبہ ہے، اس شعبہ کے تحت مختلف علوم وفنون بطور ذیلی شعبہ کے پڑھے اور پڑھائے جاتے ہیں‘ ذیلی شعبوں کا تنوع مرکزی شعبہ کی ضد ہوتا ہے ،نہ آپس میں ایک دوسرے سے معارض کہلاتا ہے‘ بلکہ ہر شعبہ کا دوسرے شعبہ سے ترقی وبہتر کار کردگی میں مقابلہ ہوسکتا ہے اور ہوتا بھی ہے اور کسی شعبہ کا کمال‘ اس کا اپنے میدان میں آگے بڑھنا ہوتا ہے‘ مثلاً میڈیکل کا کمال یہ سمجھا جائے گا کہ میڈیکل کا فارغ التحصیل‘ انسان کی طبی ضرورت کو بحسن وخوبی پورا کرسکے اور اس حوالہ سے عائد ہونے والی ذمہ داری کو احسن طریقہ پر بجالاسکے، نہ یہ کہ وہ انجینئرنگ میں بھی مہارت تامہ کا حامل ہو‘ بعینہ اسی طرح ہم خارج میں اس حقیقت کا اعتراف کرتے ہیں کہ دینی درسگاہیں‘ اپنے نصاب اور اغراض ومقاصد کے اعتبار سے عصری درسگاہوں سے الگ ہیں ،باوجود یکہ مرکزی تعلیمی شعبہ ہونے میں دونوں ایک ہیں‘ لیکن اس کے باوجود ان کی ذیلی انفرادی حیثیت کا انکار نہیں کیا جاسکتا‘ پھر دونوں کے اس کمال کا تعین ہونا چاہئے جو ان کے میدان کا ہدف اور مقصود ہے‘ ہر شعبہ کو اگر اس کے متعلقات کے بارے میں مشورہ دیا جائے تو یہ بجا ہے ،ورنہ بے جا شمار ہوگا۔ بیان کردہ اصول کے مطابق اگر انجینئر سے یہ کہا جائے کہ آپ کا شعبہ ہمہ جہت اور انسانی ضرورتوں کا مکمل احاطہ نہیں کرتا‘ نہ تو کسی مریض کا علاج کرسکتا ہے، نہ ہی کسی مسلمان کی دینی ضرورت میں کامل رہنمائی کرسکتا ہے۔ لہذا آپ طب وشریعت میں بھی کمال حاصل کریں، ورنہ آپ کا کمال ادھورا رہے گا اور آپ کی وجہ سے امت کو پسپائی کا سامنا ہوگااور انجینئر اپنے فرائض میں کوتاہی کرنے والا شمار ہوگا ،کیونکہ وہ انسانوں کی ایسی ضرورت کے بارے میں لاعلم ہے جس کی امت کو ضرورت ہے۔ یہ اشکال کس حد تک درست اور بجا ہوسکتا ہے؟ اور انجینئر کو کس حد تک اپنے فرض منصبی کی ادائیگی واہتمام میں کوتاہ قرار دیا جاسکتا ہے؟ میرا حسن ظن یہی ہے کہ ارباب عقل ودانش اس پر یہی کہیں گے کہ بھائی! ہر انسان ہر شعبہ میں کامل بن جائے‘ یہ انسان کے بس کی بات نہیں‘ ٹھیک ہے شریعت اور طب کا علم سیکھنا بھی فرض ہے اور انسانوں کی ضرورت ہے‘ لیکن یہ فرض عین نہیں‘ بلکہ فرض کفایہ ہے‘ اگر کچھ اور لوگ شریعت اور طب سیکھ رہے ہیں تو انجینئر پر ان شعبوں میں فاضلانہ کمال حاصل کرنا واجب نہیں رہا۔ اسی اصول کی بنیاد پر یہ کہا جائے کہ طب سیکھنا قرآنی حکم اور انسانی ضرورت ہے‘ انجینئرنگ بھی انسانی ضرورت ہے‘ سائنس وٹیکنالوجی میں مہارت بھی لازمی ہے‘ مگر جب مسلمانوں کا ایک گروہ اس فرض‘ واجب اور لازم کی ادائیگی کے لئے کمربستہ ہوگیا تو دیگر شعبے بالخصوص دینی علوم کی تحصیل میں مصروف لوگ اس فرض کی ادائیگی سے مستثنی ہوجائیں گے ،ان کے ذمہ صرف اپنے میدان میں کمال حاصل کرنا لازم ہوگا۔ اگر طلباء شریعت نے انجینئرنگ‘ طب اور سائنس نہ سیکھی تو وہ شریعت‘ قانون اور سماج کی نظر میں ملامت کے حقدار نہیں ہوں گے‘ ہاں! اگر انہوں نے اپنے میدان یعنی دینی علوم کے حصول میں اور حصول کے بعد اس میدان میں اچھی کارکردگی نہ دکھائی تو اس پر وہ ضرور ملامت کے مستحق ہوں گے۔ اس اصول کے پیش نظر ہم آپ سے یہ عرض کرنا چاہئیں گے کہ آپ کی بنیادی فکر ”مذہبی تعلیم کے ساتھ سائنسی تعلیم بھی فرض ہے“ بجا اور قابل فہم ہے‘ سائنس مسلمانوں کی ضرورت ہے، اس ضرورت کا پورا کرنا مسلمانوں پر ضرور فرض ہے‘ لیکن یہ فرضیت بطور خاص مذہبی تعلیم گاہوں میں پڑھنے پڑھانے والے لوگوں پر متعین نہیں‘ اس فرض کی ا دائیگی کے لئے مسلمانوں میں سے کوئی بھی کمربستہ ہوجائے تو باقیوں کی طرف سے فرض ادا ہوجائے گا‘ جیسے پاکستان اسلام کا قلعہ ہے، اس کے لئے ایٹمی قوت کا حصول مسلمانوں پر‘ بالخصوص اہل پاکستان پر
”واعدوا لہم ما استطتم“,/div> کی روسے فرض تھا، لیکن جب بعض مسلمانوں نے اس فرض کی ادائیگی کردی تو باقیوں سے یہ فرض ساقط ہوگیا۔ اس فکر کے برعکس اگر ہم یہ کہیں کہ ایٹمی صلاحیت کا حصول میڈیکل کے تمام طلبہ اور پروفیسرز پر لازم ہے‘ انجینئرنگ کے تمام طلباء اور اساتذہ پر بھی فرض ہے‘ دینی مدارس کے طلباء وعلماء پر بھی فرض ہے‘ اسی طرح عوام وخواص کی تفریق کئے بغیر سارے مسلمانوں پر فرض ہے‘ تو ایسا خیال قرآنی فلسفہٴ تفویض کار کے برخلاف ہوگا،کیونکہ قرآن کریم تفویض کار میں انسان کی بنیادی استعداد اور صلاحیت کو ملحوظ رکھتا ہے، جب کہ مذکورہ خیال استعداد وصلاحیت کا لحاظ وتمیز کئے بغیر تمام مسلمانوں پر تمام کاموں میں شرکت کو لازم قرار دے رہا ہے ،جو کسی طور پر بھی عقل ودانش کے مطابق نہیں۔ بہت ہی غور کا مقام ہے کہ اگر ہم نے ہر مسلمان کے لئے اچھا ڈاکٹر‘ باکمال انجینئر اور ماہر عالم دین بننا لازمی قرار دیا تو کیا اس کی پچاس‘ ساٹھ سالہ زندگی (جو اس وقت اوسط عمرہے) ان سارے شعبوں کے تعلیمی دورانیہ کو عبور کرنے کے لئے کافی ہو سکے گی؟ ایک ڈاکٹر بننے کے لئے اگر بیس سالہ تعلیمی عرصہ درکار ہے اور ایک انجینئر بننے کے لئے بھی بیس سال درکار ہیں‘ اسی طرح ایک عالم ومفتی‘ ماہر حدیث بننے کے لئے بھی بیس سال کا زمانہ چاہئے تو یہ انسان اپنی تعلیم سے فارغ ہوکر اپنا اصل فرض یعنی انسانیت کی خدمت کب بجا لائے گا؟ کیونکہ نفس تعلیم تو مقصد نہیں، تعلیم تو وسیلہ وذریعہ ہے‘اصل مقصد‘ انسانیت کی خدمت کو بطور پیشہ اختیار کرنا ہے۔ اس لئے ہمیں اپنے زاویہٴ ٴ فکر ونظر میں ذرا تبدیلی کرنا ہوگی کہ مسلمانوں میں سے رجال کار نے آپس میں مختلف شعبوں سے وابستگی کی صورت میں تقسیم کار کا جو فلسفہ اپنا رکھا ہے یہی درست ہے‘ یہی قرین عقل وفہم ہے۔ ہر شعبہ والا انفعالی طور پر دوسرے شعبہ والے کا ممد ومعاون، نیز نائب وخلیفہ ہے‘ چنانچہ ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ سائنس وٹیکنالوجی کے میدان میں جو لوگ محنت کررہے ہیں وہ تنہا اپنے لئے نہیں کررہے ،بلکہ وہ سارے مسلمانوں کی طرف سے فرض ادا کررہے ہیں، وہ انجینئرنگ کالجوں میں پڑھنے پڑھانے والے حضرات اور مذہبی تعلیم گاہوں میں قرآن وحدیث کے علم کے لئے کوشاں لوگوں کی نیابت وخلافت بھی انجام دے رہے ہیں‘ اسی طرح دینی مدارس میں مصروف تعلیم‘ علماء وطلباء تنہا اپنا کام نہیں کررہے بلکہ وہ ان حضرات کی طرف سے بھی فرض کفایہ ادا کررہے ہیں جن کا وقت عصری تعلیم گاہوں میں دوسرے علوم وفنون میں صرف ہورہا ہے۔ اب جب تقسیم ِالٰہی کے تحت مختلف شعبوں کے لوگوں کو ایک دوسرے کا ضرورتمند بنادیاگیا ہے تو جب بھی ایک شعبے والوں کو دوسرے شعبہ سے متعلق رہنمائی درکار ہوگی تو وہ اس شعبہ کے ماہرین سے رجوع کرکے اپنی ضرورت پوری کرلیں گے۔باہمی افادہ واستفادہ کا یہ وہ فطری اصول ہے جو قرآنی فلسفہ کے عین مطابق ہے‘ اس اصول سے اختلاف وانحراف‘ قرآن کریم کے علاوہ عقل ودانش کے بھی خلاف ہے۔باقی جہاں تک آپ کے خط کے بقیہ مندرجات کا تعلق ہے وہ بھی بنیادی طور پر قابل غور ہیں، بالخصوص نظام تعلیم پر نظر ثانی ہر دور کی ضرورت ہے‘ اس میں رد وبدل کا امکان کبھی بھی مسترد نہیں کیا جاسکتا‘ ہرتعلیم گاہ میں تعلیم کا مفیدتر طریقہٴ تعلیم زیر غور رہنا چاہئے‘ ہم اس سے اتفاق کرتے ہیں ،مگر اس وضاحت کے ساتھ کہ مختلف شعبوں کے نصابوں میں دمج وخلط کا مضر پہلو ملحوظِ خاطر رہے۔ نیز عصری ومذہبی درسگاہوں میں روابط ومکالمات وتبادلہٴ افکار بھی ہم سب کی ضرورت ہے تاکہ قانونِ فطرت کے مطابق باہمی افادہ واستفادہ کا مفید سلسلہ قائم ہوسکے‘ آپس کی دوریاں ختم ہوں، یہ فکربھی صائب اور درست ہے بلکہ اس کی کڑیاں آزادئ ہند کے عظیم رہنما حضرت شیخ الہند مولانا محمود حسن دیوبندی رحمہ اللہ کی فکرسامی سے ملتی ہیں‘ ہم ملاّ ومسٹر کے درمیان حائل اجنبی رکاوٹوں کو ہٹانے کے بالکل حق میں ہیں‘ ہم دونوں کو یہ باور کرانا چاہتے ہیں کہ تم دونوں ایک دوسرے کے مقابل ومعارض نہیں بلکہ فلسفہ ٴ قرآنی کے مطابق ایک دوسرے کی ضرورت ہو‘ ایک دوسرے کی حیثیت کو تسلیم کریں اور اسلام‘ امت مسلمہ اور وطن عزیز کی خدمت کو اپنا مشترکہ ہدف بنائیں،تاکہ امت مسلمہ پستی سے بلندی کی راہ پرگامزن ہوسکے۔ # موجودہ ذرائع ابلاغ کو تعلیمی وسائل کے طور پر استعمال کرنا بھی تعلیمی ضروریات میں شامل ہو تو اس سے انکار نہیں کیا جاسکتا‘ افادیت سے چشم پوشی بھی نہیں کی جا سکتی مگر اس کی ضرورت کا اعتراف کرتے ہوئے یہ وضاحت بھی ضروری سمجھتے ہیں کہ انٹرنیٹ‘ کمپیوٹر اور دیگر ابلاغی ذرائع کو ”حق بینی“ کے ذرائع سے تعبیر کرنا شاید لفظی غلطی ہو، کیونکہ ذرائع ابلاغ کے استعمال کے صحیح اور غلط دونوں پہلو ہیں اور غلط استعمال کا پہلو عموماً غالب ہی ہے، اس پر مستزاد یہ کہ ان ذرائع کا وسیلہ تعلیم ہونا کم اور تعلیمی یکسوئی میں خلل انداز ہونے کا پہلو غالب ہے‘ ہم سے زیادہ آپ جانتے ہیں کہ کتنے طلباء وطالبات ان وسائل کو تعلیمی مقاصد کے لئے استعمال کرتے ہیں اور کتنے تفریحی مقاصد کے لئے استعمال کرتے ہیں‘ اگر اس امر کا منصفانہ سروے ہوجائے تو شاید تعلیمی ماہرین ہمیں یہی مشورہ دیں گے کہ طلباء وطالبات کے ہاتھوں میں کمپیوٹر وانٹرنیٹ کی بجائے بالعموم کتاب ‘ کاپی اور قلم دینا زیادہ مفید رہے گا۔
# نیز انگریزی زبان کی عصری ضرورت وافادیت سے قطعاً انکار نہیں کیا جاسکتا‘ بلکہ مسلمانوں میں دنیا کی ہرزبان کے جاننے والے لوگوں کی موجودگی‘ تبلیغ دین کے نقطہٴ نظر سے فرض کے درجے میں ہے‘ مگر کمپیوٹر کے لئے انگلش کو مطلقاً لازمی قرار دینا قابل تأمل ہے‘ کیونکہ اس وقت ٹیکنالوجی‘ صنعتی اقتصادی دنیا میں جاپان اور چائنا سرفہرست ہیں، انہیں اپنی ترقی کے لئے انگریزی پر انحصار کی ضرورت نہیں پڑی بلکہ عدم ضرورت یا تعصب کی بنیاد پرانہوں نے انگریزی کو درخود اعتناء سمجھنے کی بجائے اپنی اپنی زبانوں پر اعتماد وانحصار کیا ‘ انگریزی سے دور ہونا ان کی ترقی کی راہ میں رکاوٹ نہیں بنا‘ اس سے معلوم ہوا کہ ترقی اور تعلیمی وسیلہ کے لئے انگریزی زبان بطور خاص کوئی مجبور ی نہیں، بلکہ سچ یہ ہے کہ انگریزی کو” قوت گویائی“ کے درجہ میں مجبوری خیال کرنے کے پیچھے انگریزوں کی سیاسی بالادستی اور ہمارے سماج کی غلامانہ ذہنیت کار فرما ہے‘ اور یہ غلامانہ ذہنیت اور انگریزی بھوت کا سایہ برصغیر پاک وہند میں کچھ زیادہ ہی چھایاہوا ہے‘ جس کی وجہ یہ ہے کہ تحریک آزادئ ہند کے نتیجہ میں انگریز ہمارے اوپر ناجائز حاکمیت سے براہ راست تو دست کش ہوا ،لیکن ہماری زمام اپنے تربیت یافتہ ایسے غلاموں کے ہاتھ میں دے کرچلا گیا ہے جو ہمیں کبھی ذہنی آزادی ‘ خود اعتمادی اور خود انحصاری کا سبق پڑھنے کا موقع نہیں دیتے‘ بلکہ واقعہ یہ ہے کہ اگر کوئی مسلمان اس ذہنی وسماجی غلامی سے بیزاری کا اظہار کرتے ہوئے انگریز یا انگریزی کے خلاف کوئی بات کہہ جائے تو اس کے لئے پہلے سے تیار شدہ دقیانوسی اور ترقی دشمنی کے الزامات کی سنگ باری شروع کردی جاتی ہے۔ بعض شعبوں کی تعلیمی زبان ہونے کے بجز انگریز دوستی اور ضرورت سے زیادہ انگریزی کو لازمی سمجھنا اگر غلامانہ ذہنیت کا نتیجہ نہ ہو، بلکہ کچھ اور نیک مقصد ہو محض ایک اجنبی زبان کی حیثیت سے تعلق ولگاؤ کی بنیادوں پر ضروری سمجھا جاتا ہو تو ایک مسلمان کی حیثیت سے اولاً مجھ سے پھر آنحضور سے اور پھر تمام غیر عرب عجمیوں سے بالعموم‘ اور پاک وہند کے مسلمانوں سے بالخصوص‘ یہ سوال کیا جاسکتا ہے کہ انگریزی سیکھنے اور سکھانے سے متعلق ہمارے جو جذبات ہیں وہ جذبات عربی زبان سے متعلق کیوں نہیں؟ حالانکہ:
#عربی زبان ہماری مذہبی زبان ہے‘ ہرقوم میں سب سے پہلے مذہب اور مذہبیات ہوتے ہیں۔
#ہمارا صرف دعویٰ ہی نہیں ایمان بھی ہے کہ قرآن کریم ”ام العلوم“ ہے‘ ”جمیع العلوم فی القرآن“ قرآن کریم علوم عالمین کا محرک وداعی ہے‘ اس اساسی کتاب کے لئے خالقِ کائنات نے جس زبان کا انتخاب فرمایا وہ ”عربی زبان“ ہے۔
#جس رسول اکرام ا کی بدولت آج ہم مسلمان ہیں‘ اللہ تعالیٰ نے ہمیں جس کی برکت سے گائے کا پیشاب پینے والے معاشرے سے اور شرم گاہوں کی عبادت کرنے والے ماحول سے نکالا وہ رسول‘ رسول عربی اہیں ان کی زبان عربی زبان تھی۔
#رسول عربی ا نے بطور خاص ترغیب بھی دی ہے کہ عربی زبان کے ساتھ تین وجہوں سے محبت کرو ۔
۱- اس لئے کہ میں عربی ہوں‘ ۲- قرآن کریم کی زبان عربی ہے‘ ۳- اہل جنت کی زبان عربی ہوگی۔
ذرا غور کا مقام ہے کہ ایک زبان جس کے بارے میں مسلمانوں کے حقیقی مقتدیٰ وپیشوا‘ دونوں جہاں کے سردار نے ترغیب بھی دی‘ اور اس زبان کو دونوں جہاں کی زبان قرار دیا‘ اس زبان کے بارے میں مسلمانوں کے دل میں وہ جذبات کیوں نہیں ہیں جو جذبات انگریزی زبان کی تعلیم وترویج سے متعلق پائے جاتے ہیں؟ اگر کوئی یہ فرمائے کہ انگریزی اس وقت انٹرنیشنل زبان ہے تو اس سے کوئی انکار نہیں لیکن ایک مسلمان کو یہ بھی معلوم ہونا ضروری ہے کہ عربی زبان دونوں جہاں کی زبان ہے‘ دنیا میں انگریزی کی ضرورت ان لوگوں کی واقعةً ضرورت ہے جو امریکہ وبرطانیہ کے مسافر یا عازم سفر ہوں‘ لیکن اگر کوئی مسلمان دنیا کے عظیم ترین سفر یعنی حرمین شریفین کا مسافر ہو‘ اس کی منزل خانہ ٴ کعبہ اور روضہٴ رسول (علی صاحبہا الصلوٰة والسلام) ہوں تو اس کی ضرورت عربی ہے نہ کہ انگریزی ‘ عربوں کی ایک قابل تقلید مثال یہ بھی ہے کہ ہماری طرح ان پر بھی اجنبیوں کی حاکمیت کا دور آیا لیکن اس کے باوجود انہوں نے اپنی زبان‘ اپنی شاخت اور کسی حد تک اپنی فکری آزادی کو حاکمانہ اثرات سے بچاکراپنی نسلوں تک پہنچادیا‘ یہی عرب رؤسا اگر کسی اجنبی سے گفتگو کرتے ہیں تو ترجمان کے واسطے سے کرتے ہیں ان عربوں کو اگر اپنی حیثیت وطاقت کا صحیح ادراک ہوجائے اور وہ اسے اغیار کے خلاف استعمال کریں تو پوری دنیا کی ترقی کا پہیہ جام ہوجائے گا جس کے نتیجہ میں پوری ترقی پذیر دنیا ان کے پاؤں چاٹنے پر مجبور ہوجائے گی‘ مگر ہزار ہا افسوس کہ ہماری غیرت‘ حمیت‘ ذہنیت اور خودی کو مکار دشمن نے اپنی چالوں اور جالوں میں ایسا جکڑ رکھا ہے کہ ہم دنیا کے سامنے ”عضو معطل“ بنے ہوئے ہیں‘ اور ایک بے بس غلام کی مانند کچھ کہنے اور کرنے سے عاجز وقاصر ہیں۔
# باقی مذہبی اور عصری درسگاہوں کے روابط کے حوالے سے بھی آپ کی تجویز بہت عمدہ اور لائق تحسین ہے‘ اس قسم کی جو تجویز طے پائے ہمارا ادارہ اس پر سنجیدگی سے غور وخوض کرے گا‘ اس کی کامیابی اور مقاصد حسنہ کے حصول کے لئے دعا گو ہوگا۔ بہرکیف ہم آخر میں ایک مرتبہ پھر آپ کے نیک جذبات اور بنیادی فکر پر آپ کو داد تحسین پیش کرتے ہیں دعاء کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ قدم قدم پر آپ کی نصرت ودستگیری فرمائے اور علم کے بحر بیکراں میں آپ کی ناؤ کو کسی ساحل تک رسائی نصیب فرمائے۔ آمین․
وماذلک علی اللہ بعزیز۔ وصلی اللہ علی سید المرسلین وعلی آلہ وصحبہ اجمعین ۔
فقط والسلام
سید سلیمان یوسف بنوری
نائب مہتمم جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن کراچی
۲۸/۵/۱۴۲۹ھ=۳/۶/۲۰۰۸ء
اشاعت ۲۰۰۸ ماہنامہ بینات , جمادی الاخریٰ ۱۴۲۹ھ جولائی ۲۰۰۸ء, جلد 71, شمارہ 6
پچھلا مضمون: ڈیجیٹل تصویر اور تبلیغِ دین